آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات اور تبدیلی کے دعوے

آرٹیکل کشمیر میں جاری بلدیاتی انتخابات اور عوامی رویے کے پس منظر میں ملکی حالات کا جائزہ پیش کرتا ہے- آرٹیکل کا محور قومی رویہ ہے- بہت سے لوگ لوکل الیکشنز کو بڑی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن عام لوگوں کی سوچ کی تبدیلی اور شعور اجاگر ہونے تک ایسی کسی تبدیلی کے مثبت نتائج نہیں مل سکتے-

پاکستان بہت سے ایسے مسائل میں گھرا ہوا ہے جو وقت کے ساتھ بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے ہی جا رہے ہیں- جبکہ قوم سیاسی، سماجی، معاشی، اور تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے کہیں پیچھے ہے- وطن عزیز کی تنزّلی اور ابتر صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر ایک طویل بحث ممکن ہے لیکن میرا موضوع صرف "عوامی رویہ" ہے- یعنی عام لوگ اس تباہی میں کتنے شراکت دار ہیں-

ترقی یافتہ اقوام پر ایک نظر ڈالیں تو ان کے لیے قانون، انسانیت، اور قومی ترقی سب سے بڑھ کر ہیں- اسکے برعکس، ہماری قوم میں ایسی کوئی خوبی موجود نہیں- یہاں لوگوں کے لیے ذاتی مفادات اور طاقت کا حصول ہر چیز پر مقدم ہیں- یہ سوچ لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہو چکی ہے کہ کوئی قدر، حد، یا ضابطہ ذاتی مفاد سے بڑھ کر نہیں ہے- لہذا طاقت اور اقتدار کے لیے ہر اصول قربان کر دیا جاتا ہے- دُور دُور تک کوئی ایسا شخص نہیں جو ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعیت کی سوچ رکھتا ہو- یہ وہ رویہ ہے جو غلط اور صحیح کی تمیز ختم کرتا ہے اور معاشرے کی بیشر خرابیوں کا نقطۂ آغاز ہے-

آجکل آزاد کشمیر کے اندر بلدیاتی الیکشنز جوش و خروش سے جاری ہیں- اس الیکشن سے جڑے عوامی رجحان سے بہت سے حقائق عیاں ہوتے ہیں جو قوم کی سوچ، اخلاقیات اور ترجیحات کی زبردست عکاسی کرتے ہیں- اس سے آنے والے سالوں میں قومی و ملکی حالات کی سمت کا درست تعین کیا جا سکتا ہے- یوں تو یہ بہترین جمہوری اقدم میں سے ایک ہے اور اصولاً ماضی سے بہتر نتائج کی توقع رکھی جانی چاہیے، لیکن الیکشنن کمپینز اور عوامی رجحان کا جائزہ لیا جائے تو اس کا کوئی مثبت پہلو شاید ہی مل سکے-

وجہ یہ ہے کہ جس بنیاد پر امیدواران کو عوامی حمایت حاصل ہے وہ نہ تو ان کی قابلیت اور اہلیت، نہ سوچ اور وژن، اور نہ ہی قومی خدمت اور ترقی کا جذبہ ہے- بلکہ اثرو رسوخ، دولت، برادری اور علاقائیت کی بنیاد پر یہ اہم "قومی فریضہ" ادا کیا جا رہا ہے- اس بنیاد پر ان لوگوں کا انتخاب جنہوں نے مستقبل کے لیے ترقیاتی پالیسیاں ترتیب دینی ہیں، کسی شخص کے لیے باعثِ تشویش نہیں ہے- حیران کن بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور جدید سوچ رکھنے والے نوجون بھی اس منفی رویے کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں-

ایسی جراثیم زدہ فضا میں شاید ہی کسی کام سے بہتری آ سکے چاہے وہ بلدیاتی الیکشنز ہوں یا کوئی اور تبدیلی- نتیجہ یہ ہوگا کہ پیسے کی بندر بانٹ اور بدعنوانی کا جو سلسلہ پہلے چل رہا تھا، چلتا رہے گا- بلکہ وہ لوگ، جو بااثر ہیں، الیکشنز جیت کر اپنی اجارہ داری مزید مضبوط بنا لیں گے- جبکہ عام آدمی کو افسردگی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں ملے گا-

مفاد پرستی، طاقت اور شہرت کی اس دوڑ میں ہر شہری برابر کا شریک ہے جس نے معاشرے کو مجموعی طور پر بے حس بنا ڈالا ہے- اس بے حسی کی بے شمار مثالیں روز دیکھی جا سکتی ہیں- بلدیاتی الیکشنشز کے بعد لوگوں کے اختلافات، لڑائی جھگڑوں اور مار پیٹ کے واقعات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے- جب عوام کے اندر قومی ہمدردی، قومی غیرت اور قومی ترقی کے جذبات نہ ہونے کے برابر ہیں تو موجودہ حالات کا ذمہ دار اور کس کو ٹھہرایا جائے-

جنرل الیکشنز میں عوامی نمائندوں کے انتخاب پر بعض لوگوں کی رائے عام لوگوں کے لیے انتہائی نرم ہوتی ہے اور وہ عوام کو قصور وار نہیں سمجھتے کہ عام لوگ یا تو بےشعور ہیں یا پھر بہت کمزور ہیں اس لیے وہ آزادانہ رائے کا اظہار نہیں کر سکتے------- لیکن یہ دلیل اب بہت کمزور محسوس ہوتی ہے- حقیقت یہ ہے کہ قوم کاہل اور مطلب پرست ہے جو کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں-

سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے بدلے گا اور تبدیلی کے مثبت نتائج کس صورت میں ممکن ہیں؟
سیاست تبدیلی کا بہترین رستہ ہے لیکن جو روایات ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ان کا مکمل خاتمہ ہوئے بغیر کوئی بھی تبدیلی ایک خواب رہےگی- اس مقصد کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنے اور جدید دنیا کی ڈائریکشن سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں درکار ہیں- ایسی کوششیں جو رائج فرقہ واریت، نسلی تعصب، علاقائیت، انتہاپسندی اور مفاد پرستی جیسی تمام لعنتوں کا مکمل خاتمہ کر سکیں-

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

Ali Hamza Dar
About the Author: Ali Hamza Dar Read More Articles by Ali Hamza Dar: 4 Articles with 2170 views A science student, Social rights activist and writer .. View More