|
|
گزشتہ دنوں سوشل میڈيا کی توسط سے پہلے بچے کی پیدائش کے
حوالے سے امام مسجد سے پوچھا گیا ایک سوال نظر سے گزرا جس نے ہمیں معاشرے
کے ایک ایسے رواج کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا جس پر ہم بغیر سوچے
سمجھے عمل تو کرتے ہیں مگر اس کے اثرات کے بارے میں سوچنے کی تکلیف نہیں
کرتے۔ |
|
ہمارے معاشرے میں کچھ رواج ایسے ہوتے ہیں جن کی تقلید ہم
میں سے بہت سارے گھرانے آنکھیں بند کر کے کرتے نظر آتے ہیں- ان کے صحیح یا
غلط ہونے سے قطع نظر ان کی پیروی کرنے کا بنیادی سبب یہی ہوتا ہے کہ چونکہ
ہم نے اپنی بیٹی کے ٹائم پر ایسا کیا تھا تو اب ہم اپنی بہو سے بھی ایسا
کروائیں گے- |
|
پہلا بچہ میکے میں
|
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ
کئی سو سال تک ایک ایسے معاشرے میں رہنے کے سبب جہاں ہندو اکثریت میں تھے
پاکستان بننے کے باوجود آج بھی ہم ایسی بہت ساری رسومات کی پیروی کرتے نظر
آتے ہیں- جن کا تعلق ہمارے دین یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ سارے رواج سراسر
ہندو معاشرے سے مستعار لیے گئے ہیں- |
|
ایسے ہی بہت ساری رسومات میں سے ایک رسم پہلے بچے کی پیدائش کا میکے میں
ہونا ہوتا ہے- |
|
پہلے بچے کی میکے میں پیدائش کا پس منظر |
ہندوستانی معاشرے میں لڑکیوں کو سر کا بوجھ سمجھا جاتا ہے اس وجہ سے ان کی
شادیاں کرنا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہوتا ہے- اس وجہ سے اپنی بیٹی سے شادی
کرنے کے لیے لڑکوں کو طرح طرح کی لالچ دی جاتی تھی-جو کہ بعد میں جہیز کی
رسم کی صورت اختیار کر گئی اور لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کی مد میں
مطالبات سامنے آنے لگے اور ان مطالبات کی تکمیل نہ کرنے کے سبب لڑکیوں کو
نہ صرف زندہ جلادیا جاتا یا پھر مختلف طریقوں سے ان کو اذيتیں دینے کی
مثالیں بھی موجود ہیں- |
|
|
|
ان تمام رسومات کا سبب لڑکی والوں کو دبا کر رکھنا ہوتا
اور ان کو بار بار یہ احساس دلانا ہوتا کہ ان کے سر کے بوجھ کو اب ہم
سنبھال رہے ہیں- اس وجہ سے ان کو مختلف طریقوں سے اس بوجھ کو سنبھالنے میں
ان کی مدد کرنی چاہیے- |
|
بچے کی
ڈلیوری کے اخراجات میکے والوں کے سر |
اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ بچے کی ڈلیوری ایک ذمہ
داری کا کام ہوتا ہے جس کے لیے حمل کے دوران اور ڈلیوری کے دوران نہ صرف
حاملہ عورت کو آرام اور توجہ اور بہترین غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح حمل
کے بعد بھی ڈلیوری کی مد اور حاملہ عورت کی دیکھ بھال کی مد میں بھی کافی
اخراجات ہوتے ہیں جو کہ سسرال والوں کو ایک بوجھ کی طرح محسوس ہوتے تھے- جس
کے سبب ہندوستانی معاشرے میں اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ڈلیوری کے آخری دنوں
میں جب بہو گھریلو کام کاج کے قابل نہ رہتی اور اس کو آرام کی ضرروت ہوتی
تو اس کو اس کے میکے بھجوا دیا جاتا تاکہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری
سسرال والوں کو نہ اٹھانی پڑتی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈلیوری کے اخراجات سے
بھی بچا جا سکے- |
|
ڈلیوری کے بعد تحفے
تحائف |
معاملہ صرف ڈلیوری پر ہی ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ میکے
والوں کی ایک اور ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ پہلے تو بیٹی کی ڈلیوری کروائيں
اور اس کے سارے اخراجات بھگتیں اور اس کے بعد چالیس دن تک دیکھ بھال کر کے
ماں اور بچے کو اس قابل کر دیں کہ وہ دوبارہ سے سسرال جا کر ان کی خدمت
کرنے کے قابل ہو جائے- |
|
لیکن اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے
کے کپڑوں اور استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ تمام سسرال والوں کے لیے کپڑے
اور تحائف بھی ضروری ہوتے ہیں- |
|
|
|
بچہ پیدا کرنا
ماں کی ذمہ داری اور اس کا خرچہ اٹھانا باپ کی ذمہ داری |
جس طرح ایک ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نو ماہ
اپنے بچے کو اپنی کوکھ میں رکھ کر نہ صرف پالتی ہے بلکہ صحت کے حوالے سے
بھی بہت سارے مسائل کا سامنا کرتی ہے- جب کہ اس بچے کی ماں کی دیکھ بھال
اور اس بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی ڈلیوری اور اس کی پرورش کے تمام
اخراجات کی ادائیگی شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے- مگر اپنی آسانی کے خیال سے
بہت سارے مرد اس مشکل وقت میں اپنی بیوی کو میکے بھجوا کر خود کو ٹینشن سے
آزاد کر لیتے ہیں جو کہ شرعی طور پر کسی صورت ثابت نہیں ہے - |