سندھ میں سیلابی صورتحال سے تباہی

صوبے سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبے ادارے (پی ڈی ایم اے) کے جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق سندھ میں تین جون کے بعد سے آنے والے خوفناک سیلاب سے اب تک 801 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں 319 مرد اور 152 خواتین 329 بچے بھی شامل ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراز بھی سیلابی صورتحال کے دوران زخمی ہوچکے ہیں

شہداد کوٹ میں سیلابی صورتحال کے باعث متاثرین دوسرے شہر منتقل ہورہے ہیں

موسمیاتی تبدیلیاں کے منفی اثرات دنیا بھر کیلئے چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے اوراسی کے غیر معمولی اثرات نے چھوٹے ممالک کے معاشی حالات کو بری طرح متاثر کردیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات نے گزشتہ سال پاکستان کے دو بڑے صوبے سندھ اور بلوچستان میں بڑی تباہی مچائی، یعنی موسمیاتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین موسمیات مون سون کی گزشتپ بارشیوں کو سیلاب کی وجہ اصل قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے -

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے باعث پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیرآب ہوا اور اس کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بلوچستان اور صوبے سندھ ہوا ہے-

ریکارڈ بارشں اور ماہرن کا موقف
محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون کی بارشوں کے دیٹا کے مطابق صوبے سندھ میں گزشتہ مون سون کے دوران سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئی ، اعدادوشمار کے مطابق جولائی کے مہینے میں 348.33 ملی میٹر، اگست میں 127.9 ملی میٹر اور ستمبر 43.4 ملی میٹر بارشیں جبکہ صوبے سندھ میں کل 519.6 ملی میٹر بارشیں ہوئیں ، جس کے نتیجے میں صوبے کے 19 اضلاع متاثر ہوئے اور ساتھ ہی ان بارشوں کی وجہ سے تقریبا 100 ملین ایکڑ فٹ تک پانی سے متاثرا ہوا جسکی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی-

قدرتی آفات سے نمٹننے والے ادارے پی ڈی ایم اے نے تصدیق کی کہ صوبے سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقے کے لوگوں نے کراچی میں 60 ہزار سے زائد لوگوں نے پناہ لی جو کراچی کے مختلف علاقوں منگو پیر، مچھر کالونی اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں-

صوبے سندھ میں سیلاب سے کتنی تباہی ہوئی
صوبے سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبے ادارے (پی ڈی ایم اے) کے جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق سندھ میں تین جون کے بعد سے آنے والے خوفناک سیلاب سے اب تک 801 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں 319 مرد اور 152 خواتین 329 بچے بھی شامل ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراز بھی سیلابی صورتحال کے دوران زخمی ہوچکے ہیں-

پی ڈی ایم اے کے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں سیلابی صورتحال سے تقریبا بارہ ملین یعنی دو کروڑ بیس لاکھ شہریوں کی زندگیاں متاثر ہوئیں جبکہ اس میں شامل دو ملین خاندان بھی سیلاب کی زد میں آئے جبکہ اس سیلابی صورتحال سے ہزاروں افراد کا اپنے خاندانوں سے رابطہ منقطع بھی ہوا پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب کے دوران 89 ہزار افراد دوران سیلاب لاپتا بھی ہوئے-

مون سون بارشیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی وجہ سے سندھ کے انیس اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ پی ڈی ایم اے کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق سندھ میں 737 ہزاز گھر مکمل طور پر متاثر ہوئے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو بے گھر ہونا پڑا جبکہ ایک ملین یعنی دس لاکھ افراد کے گھر سیلاب سے معمولی متاثر ہوئے۔

پاکستان کو ایک ایسے وقت سیلاب کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب اس کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ افراط زر کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں ۔ پاکستان زرعی مصنوعات کا ایک بڑا برآمد کنندہ بھی ہے اور سیلاب سے ہونے والے نقصان سے ممکنہ طور پر آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی کم ہو جائے گا-

سیلابی صورتحال سب سے زیادہ نقصانات موشیوں کو ہوتا ہے جو ہر سال اپنی محنت سے جانوروں کو فروخت کرنے کی نیت سے پالتے ہے پی ڈی ایم اے اعداوشمار کے کے مطابق سیلاب سے کل تعداد 437 ہزارجانوار لاپتے ہوئے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ صوبے سیلاب کی وجہ سے زرعی زمین متاثر ہونے سے سبزی اور پھل کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا جس کا نتیجہ یہ نکلا کیا کہ پاکستان میں سیلاب کے دوران پاکستان کے مختلف صوبوں میں اشیا خوروش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، این ڈی ایم اے کے مطابق سندھ میں 3.78 ملین فصل کا علاقہ سیلابی صورتحال سے متاثر ہوا-

عالمی ادارے بھی اس وقت سیلابی صورت حال میں پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کا دورہ بھی کیا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور دنیا کو اس بات کی طرف راغب کیا کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے پاکستان کی معاونت کریں ۔اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی)اب تک بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد کو غذائی معاونت مہیا کر چکا ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفرازنے کہتے ہے کہ 'یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے، مون سون کے تمام سپیل خلیجِ بنگال سے ہوتے ہوئے انڈیا میں معمول سے کم برسے اور پاکستان میں عمومی طور پر شمالی اور بالائی علاقوں میں برسنے کی بجائے وہ سندھ اور بلوچستان میں جا کر برس گئے۔'

انھوں نے کہا کہ 'اس مرتبہ یہ پیٹرن تبدیل ہوا اور سندھ سے ہوتے ہوئے مون سون سسٹم بلوچستان میں داخل ہوئے۔' چیف میٹرولوجسٹ سرفراز نے سندھ میں سیلابی صورتحال کی وجہ حالیہ مون سون کی ریکارڈ بارشوں کو قرار دیا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مون سون کی حالیہ بارشیوں سے سب سے زیادہ نقصان صوبے بلوچستان اور سندھ کو ہوا ہے جس کی وجہ سے سیلابی شدت صوبے میں بہت زیادہ رہی '

'سردار سرفراز نے کہا کہ اسی طرح مئی کے ماہ میں بھی معمول سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیے گئے اور جون کا آغاز بھی ہیٹ ویو سے ہوا۔ تو یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اپریل اور مئی کے مہینوں میں درجہ حرارت زیادہ شدید ہوتے ہیں، تو مون سون بھی زیادہ شدت کا ہوتا ہے ۔

موسمیاتی تبدیلی پر گہری نظر رکھنے والے ادار ورلڈ ویتر اٹریبوشین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سیلاب 2022 کے موسم گرما کے دوران ہونے والی شدید مون سون بارشوں کے براہ راست نتیجے کے طور پر واقع ہوا، خاص طور پر اگست میں سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کو متاثر کرنے والے بہت زیادہ تیز بارشوں کے مختصر اسپائکس کی وجہ سے صوبے سندھ میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی متحرک ہوتی ہے-

ماہر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر وقار(ان کے کام کا مختصر پس منظر بتائیے)بھی اس خیال سے متفق نظرآتے ہیں کہ مون سون کی ریکارڈ بارشیں ہی پاکستان میں سیلاب کی اصل وجہ ہے ۔۔ ڈاکٹر وقار نے کہا کہ اندرون سندھ دادو اور سانگھڑ جہاں سیلاب نہیں آسکتا تھا وہاں بھی بارش کے جمع ہونے والے پانی نے تباہی مچاہی ۔۔ ڈاکٹر وقار کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو مزید موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا-

ڈاکٹر وقار نے سیلابی صورتحال سے بچنے اور موسمیاتی تبدیلی سے مقابلے کرنے کیلئے حکومت کو پاکستان میں ڈریجن سسٹم کے نظام کو بہتر بنانے میں زور دیا کہا کہ پاکستان میں نیشنل اپڈیٹیشن کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے مقابلہ کیا جاسکے ڈاکٹر وقار نے کہا کہ پاکستان میں ڈرینیج کا نظام ٹھیک کرلیا گیا تو مستقبل میں پاکستان کو ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر وقار نے سندھ میں سیلاب کی وجہ سے زیادہ تباہی کو ڈرینیج کا نظام نہ ہونے کی وجہ قرار دیا کہا کہ اگر اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈرینیج کا نظام بہتر ہوتا تو پاکستان میں اتنی تباہی نہیں ہوتی۔انہوں نے حکومت کو پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کیلئے قومی موافقت کا منصوبوں پر کام کرنا چاہئے-

موسمیاتی تبدیلی پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر عامر نے کہ موسمیاتی تبدیلی کی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے لیکن پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آنے والے سالوں میں آئی پی سی سی کی فہرست میں ایک درجہ مزید تنزلی کا شکار ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر عامر نے کہا کہ پاکستان کے درد حرارت میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے یعنی پاکستان کا درد حرارت میں اضافہ اور سرد موسم کے دورانیہ میں کمی آتی جارہی ہے جس سے مشکلات اور بڑھ رہی ہے ، ڈاکٹر وقار نے کہا کہ جتنی گرمی ریکارڈ کی جائے گی اتنی مون سون کے دوران بارشوں کا امکان زیادہ ہوتا جائے گا۔ماہر موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا کہ اس طرح درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے کو ملا تو پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی میں 1.5 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا جو کہ کوئی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اچھی چیز نہیں ہوگی-

ڈاکٹر عامر کہتے ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہی مون سون کے دوران سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے سندھ سیلابی صورتحال کی وجہ سے سب سے متاثر ہوا۔ ڈاکٹر عامر نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کیلئے حکومتی اقدامات ناکافی ہے اگر موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے کوئی عملی اقدامات کرلیے جائے تو بڑی حد تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے میں کمی آسکتی ہے-

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کوئی واضح پالیسی نہ ہونے ، ڈریج کا نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ناکافی قرار دیا صوبہ سندھ میں سیلاب نے زیادہ تباہ کاریاں کی جس سے پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی ک بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ڈاکٹر عامر کہتے ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرنے کیلئے کایمئٹ چینج ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہے جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے، انھوں نے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنانہ صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمے داری ہے وہ اس کا مقابلہ کریں۔

Arsalan Shahzad
About the Author: Arsalan Shahzad Read More Articles by Arsalan Shahzad: 9 Articles with 12018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.