سوا سات کلو وزنی بچے کی پیدائش، مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

image
 
برازیل میں حال ہی میں ایک عورت نے 7.3 کلو گرام وزنی اور 59 سینٹی میٹر بڑے بچے کو جنم دیا ہے۔ اینگرسن سانتوس نامی اس بچے کے پیدائش برازیل کے شہر پارنٹنز کے پادرے کولومبو ہسپتال میں سی سیکشن سے ہوئی۔
 
دنیا کے سب سے وزنی بچے کی پیدائش سنہ 1955 میں اٹلی میں ہوئی تھی اور اس کا وزن 10.2 کلو گرام تھا۔
 
عموماً پیدائش کے وقت ایک عام نوزائیدہ بچے کا وزن 3.3 کلوگرام اور بچی کا وزن 3.2 کلوگرام ہوتا ہے۔
 
ان صحت مند اور وزنی بچوں کی پیدائش کو میکروسومیا کہا جاتا ہے جو لاطینی زبان سے اخذ کیا گیا ہے اور جس کا مطلب ’بڑا جسم‘ ہے۔
 
حمل کی مدت سے قطع نظر کوئی بھی نوزائیدہ بچہ جس کا وزن چار کلو سے زیادہ ہو ایک میکروسومک بچہ سمجھا جاتا ہے۔
 
دنیا میں کل پیدا ہونے والے بچوں میں میکروسومک بچوں کی پیدائش کی شرح 12 فیصد ہے۔ حمل کے دوران ذیابیطس اور بلند فشارِ خون کے مرض کا شکار ہونے والی خواتین میں ایسے بچوں کی پیدائش کی شرح 15 فیصد سے 45 فیصد ہوتی ہے۔
 
image
 
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بعض عوامل عورت کے لیے بڑے بچے کو جنم دینے کے خطرے کو بڑھاتے ہیں جن میں سے ایک جسمانی وزن ہے۔ موٹاپے کی شکار ماؤں میں وزنی بچے پیدا کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
 
اسی طرح حمل کے دوران وزن کے بہت زیادہ بڑھ جانے سے بھی میکروسومیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح حمل کے دوران ذیابیطس ہونا بھی ایک خطرے کی علامت ہے۔
 
پادرے کولمبو ہسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق اینگرسن کے اس زیادہ وزن اور بڑے حجم کی وجہ یہ ہے کہ اس کی والدہ کو ذیابیطس ہے۔
 
یہ حالت حمل کے دوران ماں میں انسولین کی مزاحمت میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے، (یہاں تک کہ ان خواتین میں بھی انسولین ریزیسٹنس ہو جاتی ہے جن کو حمل کے دوران ذیابیطس نہیں ہوتی)، جس سے جسم میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو ماں کے رحم سے جنین کو خوراک دینے والی نالی کے ذریعے جنین تک پہنچتی ہے اور جنین کی ضرورت سے زیادہ نشوونما ہوتی ہے۔
 
اس حالت میں چکنائی کو بھی جنین کو خوراک پہنچانی والی نالی میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے اور اس سے بچہ زیادہ نشوونما پاتا ہے۔
 
خواتین میں دیر سے حمل ٹھہرانا بھی میکروسومک بچوں کی پیدائش کے خطرات کو بڑھاتا ہے۔
 
35 برس سے زیادہ عمر کی خواتین میں میکروسومک بچوں کی پیدائش کے امکانات 20 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں بچے کی والد کی عمر بھی اہم ہے۔ اگر مرد کی عمر بھی 35 برس سے زیادہ ہو تو ایسے میں میکروسومک بچوں کی پیدائش کے امکانات 10 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔
 
اسی طرح اگر خاتون پہلے بھی زچگیوں کے عمل سے گزر چکی ہے تو اس کی مستقبل میں ہونے والی زچگی کے نتیجے میں بھی میکروسومیا کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح لمبی زچگی (یعنی جو 40 ہفتے سے زیادہ ہو خصوصاً حمل کے 42 ہفتے یا اس سے بھی زیادہ) بھی میکروسومیا کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے۔
 
لڑکے کی پیدائش ہونے میں میکروسومیا کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں میں میکروسومک پیدا ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔
 
image
 
زچگی کے دوران خطرات
میکروسومیا والے بچوں کو ان کی جسامت کی وجہ سے پیدائش کی نالی سے گزرنے میں دشواری کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
 
مثال کے طور پر بچے کے کندھے کا ماں کی کولہے کی ہڈی کے پیچھے پھنس جانا کافی عام ہے۔ اس کے لیے طبی اصطلاح ’شولڈر ڈسٹوشیا‘ ہے۔
 
دوران زچگی جب بچہ اس میں پھنس جاتا ہے تو وہ سانس نہیں لے سکتا اور اس کی رحم مادر سے جڑی خوراک کی نالی سکڑ سکتی ہے۔ یہ بچے کی ہنسلی کو بھی فریکچر کر سکتا ہے یا بازوؤں میں بریکیل پلیکسس اعصاب کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور سنگین صورت میں بچے کو یہ نقصان مستقل ہو سکتا ہے۔
 
بچوں کی پیدائش میں شولڈر ڈسٹوشیا کی شرح تقریباً 0.7 فیصد ہے، لیکن میکروسومک بچوں میں ان واقعات کی شرح تقریباً 25 فیصد ہے۔
 
اس کے علاوہ ایسے بچوں کی پیدائش کے دوران ماں کے لیے بھی کئی خطرناک پیچیدگیاں جنم لے لیتی ہیں جو کہ ماں کی موت کا سبب تک بن سکتی ہیں-
 
ایک چیز جو ہم میکروسومک بچوں کے بارے میں نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ کیا وہ عمر بھر دوسروں سے بڑے ہی رہتے ہیں۔
 
اس ضمن میں حدود ڈیٹا موجود ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سات برس کی عمر میں زیادہ وزن ہونے یا موٹاپے کا امکان ہوتا اور بعد کی زندگی میں ان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔
 
ہم مستقبل میں مزید ’وزنی اور بڑے بچے‘ پیدا ہوتے دیکھ سکتے ہیں کیونکہ سنہ 1970 کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کا وزن پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے وزن سے بتدریج 450 گرام بڑھا۔
 
اس کے علاوہ موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ جو کہ میکروسومیک بچوں کی نشوونما کا ایک بڑا عنصر ہے، امکان ہے کہ ہم زیادہ ’بڑے‘ بچے دیکھیں گے۔
 
ایڈم ٹیلر برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی میں کلینیکل اناٹومی لرننگ سینٹر کے پروفیسر اور ڈائریکٹر ہیں۔
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: