|
|
عام طور پر یہ خواب تو ہر والدین کا ہوتا ہے کہ ان کی
اولاد دین اور دنیا میں کامیابی حاصل کرے۔ مگر کم ہی والدین ایسے ہوتے ہیں
جن کو ان کے خوابوں کی تعبیر ملتی ہے۔ 02 اگست 2004 کو جب ڈاکٹر عبدالامجید
خان نیازی اور ان کی بیگم ڈاکٹر فردوس خان کی گود میں تین جڑواں بیٹے آئے۔
تو انہوں نے ان کے نام صنعان خان، رایان خان اور حمدان خان رکھے۔ |
|
ایک وقت میں تین جڑواں بچوں کو پالنا آسان کام نہیں ہوتا
ہے۔ اس حقیقت سے سب ہی لوگ واقف ہوتے ہیں کہ ایسے بچوں کی پرورش ایک فل
ٹائم جاب کی طرح ہوتی ہے۔ ایک کو بھوک لگے تو باقی دونوں بھی ساتھ ہی رونا
شروع کر دیتے ہیں۔ |
|
ایسے وقت میں اگر ماں بھی ایک ورکنگ لیڈی ہو تو پرورش کی
ذمہ داری مزيد دشوار ہو جاتی ہے کیوں کہ گھر کے کاموں اور باہر کے کاموں
میں توازن رکھنا بھی آسان کام نہیں ہوتا ہے- مگر ایک دوسرے کی مدد سے ان
دونوں والدین نے نہ صرف یہ فریضہ ادا کیا بلکہ بہت ہی خوب ادا کیا۔ یہاں تک
کہ تینوں بچوں نے ڈویژن پبلک اسکول ساہیوال سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کر
دیا۔ |
|
|
|
ایک ساتھ بھوک لگنے پر رونے والے یہ جڑواں بچے جب
تعلیمی میدان میں آئے تو والدین کی محنت، توجہ اور لگن سے پڑھائی کے میدان
میں بھی جڑواں ثابت ہوئے- اور ایک دوسرے کے ہی مقابل بن گئے اور پہلی
پوزیشنیں ہمیشہ ان کے گھر میں ہی آنے لگیں- |
|
یہاں تک کہ تینوں بھائی میٹرک تک جا پہنچے جہاں پر رایان
نے اگر 1100 میں سے 1073 نمبر لیے تو صنعان خان کے 1072 جب کہ حمدان کے
1070 نمبر تھے- اسی طرح کی پوزيشن لیتے ہوئے انٹر میں تینوں بھائيوں نے
اپنے والدین کی طرح پری میڈيکل کے شعبے کا انتخاب کیا۔اور ایک بار پھر ان
کے درمیان پوزيشن کی جنگ شروع ہو گئی- |
|
اس بار بازی ایک نمبر کے فرق سے حمدان کے حصے میں آئی جس
نے 1100 میں سے 1067 نمبر لیے تو رایان خان 1066 نمبر لے سکا جب کہ صنعان
کے 1063 رہے- |
|
پاکستان میں پری میڈيکل کی تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب
علم کا خواب کنگ ایڈورڈ میڈيکل کالج ہی ہوتا ہے جو اپنے معیار کے سبب صف
اول کے میڈيکل کالج میں شمار کیا جاتا ہے- |
|
سال 1860 سے قائم کنگ ایڈورڈ میڈيکل کالج میں داخلے کے
لیے ایم کیٹ کا ٹیسٹ کلئير کرنا ضروری ہوتا ہے جو کہ اس کالج کی ڈيڑھ سو
سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ تینوں جڑواں بھائيوں نے یہ ٹیسٹ نہ صرف
کلئير کیا بلکہ میرٹ لسٹ میں بھی ان تینوں بھائيوں کا نام شامل تھا- |
|
اس سال ان تینوں بھائيوں کا داخلہ نہ صرف کنگ ایڈورڈ
میڈيکل کالج میں میرٹ پر ہو گیا ہے بلکہ ان تینوں نے اپنی تعلیم کا بھی
آغاز کر دیا ہے- |
|
|
|
یہ تینوں بھائی اپنی کامیابی کا سہرہ اپنے
اساتذہ اور اپنے والدین کے سر باندھتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ
تینوں آپس میں دوستوں کی طرح رہتے ہیں- اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر
امتحانات کی تیاری کرتے ہیں جو ان کے لیے بہت معاون ثابت ہوتی ہے- |
|
ان کا یہ بھی ارادہ ہے کہ وہ مختلف شعبوں
میں اسپشلائزیشن کرنے کے بعد اپنے ملک ہی میں یہاں کے لوگوں کا علاج کریں-
بے شک ایسی اولاد کسی بھی والدین کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے اورایک مثال
قائم کر سکتے ہیں۔ |