گوجرانوالہ پولیس کو مسیحا کی تلاش

گوجرانوالہ ضلع میں چند سالوں سے لاقانونیت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ، ضلعی پولیس کی توجہ اہم سیاسی شخصیات کی سکیورٹی پر مرکوز ہونے اور دیگر’’سیاسی مصروفیات ‘‘ مسلسل غیر ذمہ داری اور اہم عہدوں پرنااہل اور سست افسران کی تعیناتی کے باعث ضلع میں جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کامال و زر اور جمع پونجیاں ہی نہیں لٹ رہی ہیں بلکہ دوران ڈکیتی عزتیں بھی پامال ہو رہی ہیں اور ضلع میں کرائم ریٹ خطرناک حدوں کو جا پہنچا ہے باوجود اسکے کہ بہت سے واقعات کی تو شریف لوگ رپورٹ درج کرانا ہی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں 2023ء کے پہلے 4مہینوں میں ڈکیتی ، اقدام قتل ، راہزنی ، چوری اور دیگر جرائم کی وارداتیں خطرناک حدکو پار کرچکی ہیں خاص طور پرسٹریٹ کرائمز میں ہوش رُ با اضافہ جرائم پیشہ عناصر کی قانون سے بے خوفی کو ظاہر کرتا ہے ، حال ہی میں وزیر آباد میں کیش لے جانے والی وین پر حملہ کر کے گارڈز کو قتل کردیا گیا جس سے جرائم پیشہ عناصر کی دیدہ دلیری ظاہر ہو تی ہے اسی طرح ضلع بھر میں ڈکیتوں اور چوروں نے لُوٹ مچارکھی ہے عوام بے بسی سے لٹ رہے اور اپنے حال پر ماتم کناں ہیں سوال یہ ہے کہ
کیا دفاتر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے موجودہ پولیس افسران کو یہ سب نظر نہیں آتا؟؟

عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہ وہی گوجرانوالہ نہیں جہاں ذوالفقار احمد چیمہ اور وقاص نذیر جیسے پروفیشنل اور درد دل رکھنے والے افسران نے ناممکن کو ممکن کر دکھا یا تھا اور یہاں قانون کی وہ چٹان جیسی رٹ قائم کر دی تھی جس پر لوگ آج بھی رشک کرتے ہیں ، کیا ان افسران نے تمام تر سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر اپنے فرائض اﷲ کی رضا اور خلق خدا کی خدمت سمجھ کر انجام نہیں دیئے تھے؟ کیا انکی قیادت میں کام کرتے ہوئے پولیس نے بھتہ خوری ، غنڈہ گردی ، رسہ گیری اور ناجائز فروشی پر قابو نہیں پا لیا تھا اور لوگوں کو خوف کی فضاء اور عدم تحفظ کے احساس سے نجات نہیں دلادی تھی ؟

کیا ذوالفقار احمد چیمہ اور وقاص نذیر جیسے اقبال ؒکے شاہین اب ناپید ہوچکے یا مائیں اب ان جیسے دلیر بیٹوں کو جنم ہی نہیں دیتیں ؟؟؟

ہر گز نہیں اب بھی دھرتی پر ایسے نڈربیٹوں کی کمی نہیں جو فرض کو ہر شے سے زیادہ مقدم سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری آنکھیں آج کسی ایسے ہی مسیحا کو ڈھونڈ رہی ہیں جو سیاسی آقاؤں کے اشارے پر رقصاں نہ ہو ، جو قانون کی عملداری کی نیت جرات اور صلاحیت رکھتا ہو ، جو اﷲ کے سوا کسی سے نہ ڈرتا ہو ، اسے طاقتور سیاسی ناخداؤں کی ناراضگی سے اپنی ٹرانسفر کا ڈر ہو نہ نوکری جانے کا خدشہ، جو جرائم پیشہ عناصر پر عرصہ ء حیات تنگ کر سکتا ہولالچ اور ہوس کے سامنے ڈھیر ہوجانے کی بجائے اپنی جان کی بازی لگا کر بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کا پختہ ارادہ رکھتاہو لیکن فی الحال یہاں ایسا تو کیا ملتا جلتا بھی کوئی نہیں نظر نہیں آرہا کیونکہ عوام کی جان ومال کا تحفظ اور انکے مسائل کا حل ارباب اختیار کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں سو ضلع میں مسیحائی کا قحط پڑا ہو ا ہے ، سفارش اقرباء پروری اور رشوت ستانی کا نتیجہ ہے کہ گوجرانوالہ پولیس کے حصے میں زیادہ ترسطحی سوچ کے مالک’’ ٹائم پاس‘‘ قسم کے پولیس افسران آرہے ہیں جو سرے سے قیادت کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اپنے ماتحت ملازمین پر انکی شخصیت کا نہ تو رعب و دبدبہ ہے اور نہ ہی انکی شخصیت انکے لئے کسی بھی طرح متاثر کن ہے چنانچہ جرائم پیشہ عناصر کے لئے میدان صاف ہی نہیں ہے بلکہ پولیس کے بہت سے شیر جوان خود ان جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بھی بنے ہوئے ہیں فرسودہ تھانہ کلچر کے باعث عوامی شکایات میں اضافے ،پولیس کی مسلسل گرتی ساکھ اور سیاسی قیادت کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جانے کی وجہ سے پولیس فورس مکمل طور پر مایوس ہے اور اسکا مورال زمین بوس ہو چکا ہے آدھی سے زیادہ فورس ذہنی مریض اور باقی جسمانی فٹنس سے محروم ہے اور ڈیوٹی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا سب سے آسان ٹارگٹ بن جاتی ہے لیکن کوئی بھی حکومت پولیس کے حال پر رحم کھانے کو تیار ہے نہ ہی اعلیٰ پولیس افسران میں ہی کوئی دم خم ہے کہ وہ اس فورس کو سیاسی دباؤ اور دیگر قباحتوں سے بچا کر عوام کی جان و مال کی حفاظت کے قابل بنا سکیں چنانچہ چور اور سپاہی بظاہرایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ،سب سے خطرناک رجحان یہ ہے کہ انصاف کے اداروں سے عوام کی مایوسی آسمان کو چھو رہی ہے ، تھانوں میں لین دین کے معاملات میں پولیس کا عام آدمی کو صاف انکار سامنے آتا ہے جبکہ عوام کسی طاقتور سیاستدان ، رسہ گیر لینڈ مافیا یا جرم کی دنیا کے بادشاہ کسی بدنام زمانہ شخص کے پا س جا کر اسکے ساتھ ڈیل کر لیں تو اس بدمعاش کی سفارش پروہی پولیس لین دین کا معاملہ سارے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر منٹوں میں طے کرادیتی ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متوازی ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی نظام قائم ہو چکا ہے جو روز بروز پنپ رہا ہے چونکہ عام آدمی کو تھانوں میں کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں ہوتا چنانچہ عوام بدمعاشوں قاتلوں رسہ گیروں بھتہ خوروں اور لٹیروں کے ڈیروں پر جانے میں اطمینان محسوس کرنے لگے ہیں، پولیس افسران لین دین کراتے اور پیسوں کے بریف کیس تھماتے نظر آتے ہیں اور ریاست کے اندر قائم غیرقانونی بندوبست کے عملاَََ سہولت کار اور جرائم پیشہ لوگوں کے آلہء کار کا کردار ادا کررہے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس مجرمانہ کردار نے پولیس افسران کو محافظ کہلانے لائق چھوڑا ہے ؟؟؟
پولیس افسران کے مجرموں کے ساتھ قریبی تعلقات ہوں ، وہ بدمعاشوں کے ڈیروں پر رنگ رلیاں منائیں اور دعوتیں اڑائیں اور عوام کی بجائے جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ دیں

کیا یہ امر محکمہء پولیس کے لئے باعث شرمندگی نہیں ہے ؟

پولیس کی جانب سے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی اور مجرموں کی پشت پناہی کی وجہ سے پولیس کی قربانیاں، شہادتیں اور بعض افسران کی انفرادی حیثیت میں کی گئی مثبت کاوشیں بھی ماند پڑ جاتی ہیں اور عوام پولیس کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں دے پاتے جو اس کے حصے میں آنا چاہئے ، کاغذی کارروائیوں میں پولیس کی جعلی کارکردگی ، آسمانی قلابے ملانے والی باہمی ستائش کی مسلسل مشق نے پولیس کی عوام کی نظروں میں ساکھ کو مزید گرا دیا ہے ، پولیس افسران کی جانب سے ایک دوسرے کی جھوٹی ستائش نہ انہیں نہ انکے ضمیر کو مطمئین کرسکتی ہے کر سکتی ہے اور نہ ہی گلی گلی لٹتے عوام ہی کا اعتماد جیت سکتی ہے ، ضلع میں تھوک و پرچون ہر قسم کی منشیات باآسانی دستیاب ہونا پولیس کے لئے ناکامیوں کا ایک اورتمغہ ہے یہ انکے کندھے پر بدنامی کا وہ پھول ہے جو پولیس کو کبھی نیک نامی کی خوشبو نہیں دے سکتا ، گوجرانوالہ میں گلی گلی منشیات کی اس دستیابی نے نوجوان نسل کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا ہے ، تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہے کہ منشیات کا گڑھ بنتے جارہے ہیں عوام اپنے بچوں کو شعور و آگہی کی منزلوں سے روشناس کرانے کے لئے وہاں بھاری فیسیں دے کر اور اپنے خون پسینے کی کمائی خرچ کر کے بھیجتے ہیں لیکن وہاں سے انکے بچے بچیاں جہاز بن کر نکل رہے ہیں ، ان بااثر تعلیمی اداروں کے ارب پتی مالکان پر ہاتھ ڈالنے کی پولیس کے کسی بڑے سے بڑے آفیسر کی نیت ہمت اور جرات نہیں ہے چنانچہ بچے بچیاں منشیات کی لت میں مبتلا ہوکر دیگر جرائم کی جانب بھی راغب ہو جاتے اور اپنی زندگیاں ہی تباہ کر ڈالتے ہیں منشیات ہم سب کے سامنے ہماری نسلوں کو موت کی جانب دھکیل رہی ہیں ،اس گھناؤنے اور کالے دھندے کی طرف آنکھیں بند کرلینا بھی جرم عظیم ہے لیکن پولیس مستقل یہ کام انجام دے رہی ہے کئی اعلیٰ پولیس افسران سے لے کر محرران اور کانسٹیبلان تک اس دھندے میں ملوث ہیں اور اس طرف سے آنکھیں بند ہیں

پولیس کے اعلیٰ افسران کو کیسا لگے اگر انکا اپنالخت جگر خدانخواستہ منشیات کی لت میں پڑ کر اپنی جوانی اور کیرئیر تباہ کر لے؟

کیا وہ تب بھی اسی طرح کی چین سکون کی نیند سو سکیں گے جس طرح ضلع بھر میں منشیات فروشی پر مزے سے سو رہے ہیں اورمسلسل عوامی واویلے کے باوجود انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ؟؟؟
(جاری ہے)




 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 66889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.