شیوسر جھیل

پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت خطوں میں ہوتا ہے جسے اللہ نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے۔ یہاں دنیا کے قدیم ترین جنگلات ، بلند ترین چوٹیاں، دنیا کے طویل ترین گلیشئیرز، اور وسیع ریگستانوں کے علاوہ لاتعداد خوبصورت جھیلیں ملک کے طول وعرض پر ٹھٹہ سے لے کر اسکردو تک مختلف مقامات پر پائی جاتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جھیل شیوسراسکردو کے نزدیک دنیا کے بلند ترین اور وسیع سطح مرتفع دیوسائی میں موجود ہے۔ 12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا حدود اربع تقریبا ۴ کلو میٹر ہے اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے اس میں پانی نا کہیں سے داخل ہوتا ہے نا خارج اس لئے مقامی لوگ اسے اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ مقامی روایات کے مطابق اس جھیل میں ٹراوٹ کے علاوہ بھی کئی اقسام کے عجیب وغریب جانور پائے جاتے ہیں جو جھیل میں نہانے والوں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ مگر مستند حوالوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس کا ساحل ایک بہترین کیمپ سائٹ ہے۔ اسکردو کے باسی چھٹی والے دن بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراؤٹ صاف نظر آتے ہیں آس پاس کی پہاڑی چوٹیوں کا عکس خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے توجلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح مسحور ہوجاتا ہے اور اس کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے۔ اسلام آباد سے گلگت جانے والی فلائٹ سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے ۔مسافروں اور پائلٹ کے مطابق بعض زاویوں سے یہ جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے بالکل خالی ایک کٹورے کی مانند نظر آتی ہے۔

اسکردو جانے کے لئے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لئے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیںیہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلو میٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس اور جگلوٹ سے ہوتا ہوا شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے۔اسکردو کے بازار سے شیوسر جھیل کے لئے جیپ بآسانی مل جاتی ہے۔ جیپ اسکردو شہر سے نکل کر صدپارہ روڈ پر آتی ہے اور جھیل صد پارہ پہنچتی ہے سیاح یہاں بھی کچھ دیر رکنا پسند کرتے ہیں ۔ آگے دیوسائی کی اصل چڑھائی شروع ہوتی ہے اور پیچ در پیچ موڑ مڑتے مڑتے جیپ بھی ہلکان ہوجاتی ہے۔ بالآخر 14000 ہزار فیٹ میٹر بلندی پر دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع میں داخل ہوتے ہیں

د یوسائی کا ابتدا ئی کونا المالک مار پاس ہے یہا ں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔اس لئے یہاں وائیلڈ لائف والوںنے چیک پوسٹ بنا رکھا ہے چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دینی پڑتی ہے یہاں سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے کیمپ موجود ہے ۔ ا سی مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں K-2 ، براڈ پیک، گشیبرم 1 ، گشیبرم 2، گشیبرم4 اور مشہ برم نظر آتی ہیں ۔ ایک مقام پر اتنی بلندچوٹیاں دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لئے پرندے اپنا گھونسلہ زمین پر ہی بناتے ہیں۔دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس کا کل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لئے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو محض پندرہ منٹ کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو کہ شتونگ نالے کہ ساتھ ہے ۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گذرتی ہے۔ یہان قیام و طعام کے لئے مقامی لوگوں نے کیمپ لگا رکھے ہیں۔

ہماری اگلی منز ل محض آدھے گھنٹے کے بعدبڑا پانی ہے جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے۔یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔پل عبور کرتے ہی ہمالین وائیلڈلائف پراجیکٹ۔۔ دیوسائی نیشنل پارک کا بورڈ نظر آتا ہے ساتھ ہی ان کے کیمپ لگے ہیں، یہاں وائلڈ لائف کے نمائندوں سے ہماری ملاقات ہوئی اور دیوسائی میں موجود جنگلی حیاتیات خصوصاً بھورے ریچھوں کے متعلق کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ان لوگوں نے سیاحوں کے لئے یہاں ایک ٹوائلٹ بھی بنایا ہے ساتھ ہی ایک چشمے کا ٹھنڈا پانی بہتا ہے، ان ہی سہولیات کی وجہ سے سب سے زیادہ کیمپنگ اسی مقام پر ہوتی ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔

دیوسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ کا تحفظ کیا جا سکے۔اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوبصورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور ( گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کردیا۔ یہ ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ا گر آپ ریچھوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائیلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ(خرگوش کی ایک نسل) تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

بڑے پانی کے بعد ہماری اصل منزل یعنی شیوسر جھیل محض پندرہ تا بیس منٹ کے سفر کے بعدہے۔ راستے میں جیپ کالا پانی کے مقام پر دریا کو عبور کرتی ہے دریا کے تہہ میں موجود کالے پتھر وں کی وجہ سے یہ دریا کالا پانی کہلاتا ہے۔ دور ہی سے ایک آسمانی رنگ کی نیلاہٹ نظر آنی شروع ہوجاتی ہے یہی شیوسر جھیل ہے۔ جوں جوں جھیل کے نزدیک آتی ہے توں توں جھیل کی وسعت، رعنائی اور خوبصورتی عیاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ ساحل پر پہنچتے ہی سیاح اس کی یخ بستہ پانیوں پر سے چلتے ہو ئے ہواؤ ں کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔ منظر کی رنگینی اس کو اپنے حصار میں لے لےتی ہے نیلگوں پانی کی چمک اور اس کے ساحل سے ٹکرانے کی مسلسل آواز اس کو اپنے ٹرانس میں لے لیتی ہے اور وہ کچھ لمحے کو بالکل خالی دماغ اور تنہا ہوجاتا ہے۔ پھر بلا روک ٹوک چلنے والی سرد ہواؤں کا شور اس کو واپس اس دنیا میں لے آتی ہے۔ یہاں اتنے رنگ کے اور اتنی تعداد میں پھو ل ہیں کہ آپ سارا دن ان کو دیکھنے میں گذار سکتے ہیں۔ اگر آپ کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے اور آپ کے پاس ڈور کانٹے بھی ہیں تو ٹراؤٹ کے شکار کے یہاں کافی مواقع ہیں۔ دن بھر یہاں قریبی گاؤں کے بکروال اپنی بکریاں اور یاک چراتے نظر آتے ہیں ۔صدیوں سے جہلم کے گجر ہر سال جب دیوسائی کے برف پگھلتے ہیں تو مظفرآباد کیل اور منی مرگ کے راستے یہاں اپنے مویشی لے کر آتے ہیں۔

شیوسر کے ساحل پر اگر کیمپنگ اور رات گزارنے کا پروگرام ہے تو یہ بات یاد رکھیں کہ یہاںکچھ میسر نہیں ہے مکمل تیاری کے ساتھ جائیں۔ ٹن پیک کھانے اور کچا راشن لے کر جائیں، کھانا پکانے کے لئے لکڑی یا چولہا مع ایندھن اور رہنے کے لئے مضبوط واٹر پروف خیمے لے کر جائیں۔ رات کو روشنی کے لئے لالٹین اور ٹارچ مع اضافی بیٹریاںرکھیں۔ یہاں کافی مقدار میں اور کافی صحت مند مچھر بھی پائے جاتے ہیں اس لئے مچھر کو بھگا نے والی کوئی دوا استعمال کریں۔ یہاں کا موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ابھی سخت ترین دھوپ چہرے جھلسا رہی ہوگی تو اگلے لمحے بارش یا پھر برف باری بھی ہوسکتی ہے۔ جی ہاں یہاں گرمیوں میں بھی برف باری ہوتی ہے۔رات بہت سرد ہوتی ہے اس لئے گرم لباس لے کر جائیں ۔رات کو بادل کیمپ میں آجاتے ہیں اور اسے گیلا کرتے ہیں ۔ رات کا منظر نہایت حسین ہوتا ہے کیونکہ آسما ن رات کو تاروں کے وجود میںگم ہوتا ہے۔

اسکردو جانے والے اکثر سیاح اپنے سفر کو شنگریلا، خپلو، شگر اور صدپارہ تک محدود رکھتے ہیں ۔ اب کی دفعہ اگر آپ اسکردو جائیں تو اپنے پروگرام میں شیوسر جھیل کو ضرور شامل کریں۔
Asghar Karim Khan
About the Author: Asghar Karim Khan Read More Articles by Asghar Karim Khan: 14 Articles with 268794 views I am Assistant professor in Physics at Government college in Karachi. I have done Masters in Physics and Computer Science. Traveling in Northern areas.. View More