میلاد مصطفٰی ﷺاور امام ابوحنیفہ کے دو پھول

میلاد مصطفٰی ﷺاور امام ابوحنیفہ کے دو پھول - تفرقے سے بالاترھوکر

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

۱850ء سے پہلے عرصہ دراز تک امام ابوحنیفہ کے گلاب پھول لہلاتا رہا اور اس پھول سے وابستہ ایک سے ایک عالم نے اپنے جوہر دکھائے لیکن بدقمستی سے 1850 ء کے لگ بھگ اس پھول کو دو ٹکڑوں میں تقسیم اس طرح کر دیا کہ دونوں کے افکار و سوچ میں تضاد کی دیوار کی بنیاد ایک شک و شبہ کے بیج سے رکھی جو آج تک چلی آرہی ہے جبکہ دیکھا جائے تو اس میں کسی قسم کا کوئی افکار وشوچ میں تضاد نہیں پایا جاتا کیونکہ اگر امام ابو حنیفہ کا ایک پھول اگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؓ ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ ، حنفیوں کے امام ملا علی قاری ؒ ، حجر عسقلانی ؒ ، امام قسطلانی ؒ ، امام ابوصیری ؒ ، مولانا روم ؒ ، مصنف روح البیان ؒ اور دوسرے اکابر کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرے تو امام ابوحنیفہ کے دوسرے پھول کے سوچ و افکار سے ان کی مطابقت ہو جائے جس سے دونوں میں فرق ختم ہو جائے گا اور آج جکل دونوں میں جن معاملات میں تفرقہ پایا جاتا ہے وہ ختم ہو سکتا ہے۔اس تفرقوں میں سے ایک میلاد مصطفٰی ﷺ ہے۔

آئیے اس تحریر یعنی گفتگو کو شروع کرنے سے پہلے مسلک دیوبند کا تعارف بیان کرتا ہوں جو کہ انہی کی ویب سائٹ پر 2007 ء میں اس گناہ گار نے دیکھی، پڑھی اور اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لی جو کہ اس وقت اس ویب پر موجود نہیں ہے۔
https://www.darululoom-deoband.com/urdu/
[دارلعلوم دیوبند کا سلسلہ سند مسند ہند شاہ ولی اللہ محدث ؒ سے گزرتا ہوا نبی پاک ﷺ سے جا ملتا ہے دارلعلوم اور جماعت دیوبندی کے مورث اعلی حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ہی ہیں جن کے علمی و فکری منہاج و طریق پر متسبین دالعلوم اور بالفاظ واضح دیوبندی مکتب فکر کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس لئے بحمدللہ دیوبندی مکتب فکر کوئی نوپید جماعت نہیں بلکہ علمی، دینی اور سیاسی احکام و امور میں علمائے دیوبند مسند ہند شاہ ولی اللہ کے توسط سے سلف صالحین سے پوری طرح مربوط ہیں۔

برصغیر میں جب مسلمانوں کے کاروان شوکت پر برطانوی سامراج نے شب خوں مارا، تو حکیم مطلق جل شانہ نے اسلامی تعلیمات و احکام اور تہذیب وثقافت کو بچانے کے لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور ان کی اولاد احفاد کو آگے کر دیا، ان بزرگوں کے سامنے دو منزلیں تھیں ۔ (1) مسلمانوں کی لٹی شوکت کیسے واپس لی جائے۔ (2) اورسیاسی تنزل کے اس دور میں اسلامی علوم و احکام کی گرتی دیوار کو کس طرح سہارا دیا جائے۔ پہلی منزل تک پہنچنے کے لئے محدث دہلوی ؒ نے معاشی انقلاب ، صحابہؓ سے انتساب اور قوم کو جہد وجہاد کی راہ دکھائی، ان تینوں امور کو واضح کرنے کی غرض سے حجتہ اللہ البالغہ، مصّلی و مسوی اور ازالتہ الخفاء، جیسی بلند کتابیں لکھیں اور ان کے پوتے شاہ اسمعیل دہلوی ؒ حضرت سید احمد شہید دہلوی ؒ اور حضرت شاہ عبدالحئی بڈھانوی کے ساتھ عملاً جہاد میں نکلے۔

دوسری منزل تک پہنچنے کے لئے ان محدثین دہلی نے قرآن وحدیث کے درس اور اسلامی علوم وفنون کی اشاعت سے اسلامی اعمال اور اخلاق کی متزلزل دیوار کو سہارا دیا، چنانچہ عین اس وقت میں جب کہ سید احمد شہید اپنے جاں باز رفقاء کے ساتھ میدان کا رزار میں داد شجاعت دے رہے تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز کے نواسے اور تلمیذ وجانشین دہلی کی مسند تدریس پر قال اللہ قال الرسول کا غلغلہ بلند کئے ہوئے تھے۔
دارلعلوم دیوبند اسی علم و فکر کا وارث اور محدثین دہلی کے اسی خاندان سے وابستہ ہے اور آج برصغیر وہند وپاک اور بنگلہ دیش میں اہل سنت والجماعت کا مرکز یہی دارلعلوم اور اس سے وابستہ علمائے دیوبند ہیں۔]

اس تعارف کے بعد آئیے ایک اور تعارف دیوبند کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو کہ اسی مکتبہ فکر نے ایک ویب سائٹ پر جاری کئے۔
https://zakariyya.wordpress.com/2007/05/06/shah-waliullah-and-darul-uloom-deoband/

(ISLAMIC RENAISSANCE IN SOUTH ASIA 1707-1867
THE ROLE OF SHAH WALI ALLAH AND HIS SUCCESSORS
WRITE/ AUTHOER: MAHMOOD AHMED GHAZI

Shah Waliullah And The Emergance Of Islamic Institutions.
The failure of the Great War of independence in 1857 was a turning point in the history of India. Its immediate consequences were twofold. Firstly, it demoralized the indigenous population of India to such an extent that they surrendered unconditionally to the supremacy of the British in almost all spheres of life. Secondly, it prompted the intelligentsia of the country to rethink the situation facing them and to identify ways to meet the challenges posed by British hegemony.
Religious scholars, who had taken up arms in the cause of Jihad in 1857, now turned their attention to the religious and intellectual revival of the masses. Foremost amongst these scholars were the scholars who belonged to the “Waliullah” tradition.
The closure of Madressa Rahimiyyah (which was run by the successors of the Waliullah tradition) and its affiliated institutions in 1857-1858 necessitated prompt action to safeguard the religious, social and cultural milieu of South Asian Muslims. With this in mind, within a decade of the failure of the First War of Independence, a foremost institute of Islamic religious education was established at Deoband – a small town 22 miles south of Saharanpur and 90 miles northeast of Delhi – that was declared the successor of Madressa Rahimiyyah.
On Thursday 15 Muharram 1283AH (30 May 1866), a group of concerned individuals gathered at Deoband and decided to establish the madressa. Necessary funds were collected and the madressa was inaugurated under the shade of a pomegranate tree on the uncarpeted floor of the old Chattah Wali Masjid of Deoband.

اسی سے ملتا جلتا ایک اور آرٹیکل بھی اسی ویب سائٹ پر ہے جس کا اردو میں نام جنوبی ایشیا میں اسلامی تجدیدہے کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
https://zakariyya.wordpress.com/category/history/page/8/
Shah Waliullah and Darul 'Ulum Deoband
(from Pearls of the Elders)

ان تینوں تعارفوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس جماعت کا وجود شاہ ولی اللہ کے قائم مدرسہ کے نام پر لانا اور ان کے افکار پر ہونے پر قوی دلیل قائم کرتا ہے ۔مزید اپنی نسبت کو آقا علیہ والصلوۃ والسلام سے ملانے کے لئے انہی کا سہارہ لیا ہے۔بزرگوں پر اعتماد کرنا ہی اصل شریعت ہے-

حافظ ابوعمر ابن عبدالبر المتوفی 463 ھجری فرماتے ہیں.1
ترجمہ:- علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ھے کہ عوام کے لئے اپنے علماء کی تقلید واجب ھے اور اللہ کے قول فاسئلو اھل الزکر ۔۔ الخ۔ سے یہی لوگ مراد ہیں۔اور سب کا اتفاق ھے کہ اندھے پر جب قبلہ مشتبہ ھوجائے تو جس شخص کی تمیز پر اسے بھروسہ ہے ،قبلہ کے سلسلہ میں اس کی بات ماننی لازم ہے اسی طرح وہ لوگ جو علم اور دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے لئے اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،ص989،،ج 2)

شاہ ولی اللہ :
اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسن ظن کا معاملہ رکھنا وہ دولت ہے جس کے صدقہ میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھوں میں محفوظ ہے اسی بات کو حضرت شاہ ولی اللہ دھلوی رحمۃ اللہ نے بیان فرمایا ھے۔

ََمعرفت شریعت میں تمام امت نے بالاتفاق سلف گزشتہ پر اعتماد کیا ھے،چنانچہ تابعین نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا اسی طرح بعد والے علماء اپنے متقدمین پر اعتماد کرتے آئے۔ اور عقل سلیم بھی اسی کو اچھا سمجھتی ھے کیونکہ شریعت بغیر نقل اور استنباط کے معلوم نہیں ھوسکتی اور نقل اسی وقت صحیح ھوگی جب بعد والے پہلوں سے اتصال کے ساتھ لیتے چلے آئیں۔َ
(عقیدالجید،،،ص36)

محفل میلاد
۔ شاہ عبد الرحیم دہلوی (1054۔ 1131ھ)قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم دہلوی فرماتے ہیں :
کنت أصنع في أيام المولد طعاماً صلة بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فلم يفتح لي سنة من السنين شيء أصنع به طعاماً، فلم أجد إلا حمصًا مقليا فقسمته بين الناس، فرأيته صلي الله عليه وآله وسلم وبين يديه هذا الحمص متبهجاً بشاشا.
’’میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔‘‘
شاه ولي اﷲ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 40

برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
38۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159۔ 1239ھ)خاندان ولی اﷲ کے آفتابِ روشن شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی (1745۔ 1822ء) اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں :
وبرکة ربيع الأول بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيه ابتداء وبنشر برکاته صلي الله عليه وآله وسلم علي الأمة حسب ما يبلغ عليه من هدايا الصلٰوة والإطعامات معا.
’’اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔‘‘
عبد العزيز محدث دهلوي، فتاوٰي، 1 : 163

شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی نظر میں میلاد شریف
’’اس سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن میں ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار وتجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘
شاه ولي اﷲ، فيوض الحرمين : 80، 81

امداد اللہ مہاجرمکی رحمتہ اللہ علیہ کی نظر میں میلاد شریف
’’رہا یہ عقیدہ کہ مجلسِ مولود میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہوتے ہیں، تو اس عقیدہ کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ یہ بات عقلاً و نقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر واقع ہو بھی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے علم ہوا، آپ کئی جگہ کیسے تشریف فرما ہوئے، تو یہ شبہ بہت کمزور شبہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم و روحانیت کی وسعت کے آگے۔ جو صحیح روایات سے اور اہلِ کشف کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ یہ ادنیٰ سی بات ہے۔‘‘
اِمداد اﷲ، فيصله هفت مسئله : 6

شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے قریب کا زمانہ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی کا ہے جس کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کا عقیدہ کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ علماء دیوبند کی نظر میں
[اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیاء اﷲ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب یا حالتِ غیبت میں روزمرہ ان کو دربار نبوی (ﷺ) میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی، ایسے حضرات صاحبِ حضوری کہلاتے ہیں، انہیں میں سے ایک حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرّف تھے اور صاحبِ حضوری تھے‘‘۔
(عبدالحلیم چشتی فاضل دارالعلوم دیوبند، فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ، مطبوعہنور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ئ، ص۲۲۱۔ بحوالہ الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، اشرف المطابع، تھانہ بھون(ضلع مظفر نگر، یوپی، بھارت)۱۹۴۱ئ، ج۷، ص]۶)
:شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوہ میں فرماتے ہیں
[اس واقعہ میں میلاد منانے والوں کیلئے اور جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی شب مسرور ہوتے ہیں اور اپنی '' دولت خرچ کرتے ہیں، ان کیلئے سند ہے۔ ابو لہب کافر تھا، اسکی مذمت میں قرآن ناز ل ہوا، جب اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بطور رسول نہیں*بلکہ اپنے بھتیجے محمد کی ولادت پر پر خوشی کا اظہار کیا(باندی آزاد کی) تو اسے بھی جزاء دی گئی، تو ایک مسلمان جس کا دل محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز ہو ۔ وہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ''خوشی منائے اور خرچ کرے تو اُس کے اجر و ثواب کا عالم کیا ہو گا۔]

ایک پھول کا کہنا ہے کہ میلاد منانا ایک بدعت و گمراہی کا کام ہے تو میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہوں اگر ایسے لوگ جنہیں ہر وقت حضور اکرم ﷺکی حضوری میسر ہو تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ میلاد بھی منائیں ، بدعتی بھی ہوں اور پھر بھی اللہ تعالی انہیں اپنے حبیب مکرم ﷺکے جلوے دیکھائے یعنی حضور اکرم ﷺکی حضوری میسر ہو۔

ایک پھول کا کہنا ہے کہ میلاد کے موقع پر حد درجہ خرچے کئے جاتے ہیں جو کہ اسراف کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس پھول کی توجہ دوسرے عوامل کی جانب بھی مبذول کروانا چاہوں گا جن کی جانب ان کی توجہ نہیں گئی جن میں سے موبائل کے غیر ضروری استعمال اور اس کے اخراجات، خوبصورت مساجد بنانا جب کے حضور اکرم ﷺکے دور میں سادہ مساجد ہوتی تھی، رمضان کے مہینے میں روزے افطاری کے اوقات میں حد درجہ اخراجات کئے جاتے ہیں اور پتہ نہیں کتنے اقسام کے کھانے اور ڈشیں بنائی جاتی ہیں جب کہ اگر روٹی کے ساتھ گھی میسر ہو اور اس کے ساتھ بآسانی کھانا کھایا جاسکے تو کھانے کے ساتھ سالن اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔مزید دو کپڑے جوڑوں کے علاوہ، دو بنیانوں کے علاوہ سب کچھ اسراف میں آتا ہے۔ حضور اکرم ﷺکے میلاد کا نام آتا ہے تو اسراف یاد آجاتا ہے اور دوسرے عوامل میں اپنے لئے تحویل ڈھونڈ لی جاتی ہے اور انہیں اپنے لئے حلال کر دیا جاتا ہے۔ اس پھول کی یہ بات سمجھنے میں میں قاصر ہوں۔
عید میلاد النبیﷺ کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لئے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔

حضور اقدسﷺ نے فرمایا
’’ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں‘‘

آپ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں اﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، لہذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہوجائے‘‘
(الحاوی للفتاویٰ، ج ۱، ص ۲۶۰)

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ملا علی قاری کے بیس دلائل
ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ کو حنفیوں کے امام کی حیثیت حاصل ہے ۔ آئیے ان کا عقیدہ پڑھتے ہیں۔
۱۔ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر دینے پر ثوبیہ لونڈی کو آزاد کیا ہلاکت کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کس حال میں ہو ۔ جواب دیا کہ ویسے تو سخت عذاب میں ہوں لیکن جس انگلی کا اشارہ کر کے میں نے لونڈی کو آزاد کیا تھا ہر سوموار کو اکے منہ میں ڈالنے سے کچھ راحت مل جاتی ہے۔
۲۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ولادت کی خود تعظیم فرما کر اپنے درس دے رہے ہيں یعنی ہر سوموار کو روزہ رکھ کر۔
۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کرنا قرآن کا مطلوب ہے
۴۔ جس زمانے میں کوئی عظیم دینی کام ہوا ہوجب وہ زمانہ لوٹ آئے تو اس کی تعظیم کرنا چاہئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس قاعدہ کو مقرر فرمایا۔
۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کا بیان فرمایا: انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشارۃ عیسی انا ابن الذبحتین : میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسی کی بشارت ہوں۔ میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل اور آپ کے والد حضرت عبداللہ کا بیٹا ہوں۔
۶۔ محفل میلاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا محرک ، باعث اور سبب ہےاور جو چیز مطلوب شرعی کا سبب ہو وہ بھی شرعا مطلوب ہوتی ہے۔
۷۔ محفل میلاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور کمالات اور آپ کی سیرت کا بیات ہوتا ہے اور ہمیں آپ کی سیرت پر عمل کرنے کا حکم ہے۔
۸۔ جو شعرا صحابہ کی مدح کرتے اور نعتیہ اشعار پڑھے آپ ان سے خوش ہوتے اور ان کو انعامات سے نوازتے تو جب محفل میلا میں آپ کے شمائل اور فضائل کا بیان ہوگا اور نعت خوانی ہوگی تو آپ اس سے خوش ہوں گے اور آپ کی خوشی شرعا مطلوب ہے۔
۹۔ آ پ کے معجزات اور سیرت کا بیان آ پ کے ساتھ ایمان کے کمال اور آپ کی محبت میں زیادتی کا موجب ہے وہ شرعاً مطلوب ہے۔
۱۰۔ محفل میلاد میں اظہار سرور ، مسلمانوں کو کھانا کھلانا اور آپ کی تعریف کرنا یہ سب چیزیں آپ کی تعظیم کو ظاہر کرتی ہے اور آپ کی تعظیم شرعاً مطلوب ہے
۱۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کی فضیلت یہ بیان فرمائی کے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تو اُس دن کی فضیلت کا عالم کیا ہو گا جس دن آپ پیدا ہوئے۔
۱۲۔تمام علما اور تمام شہروں کے مسلمانوں نے محفل میلاد کو مستحسن قرار دیا ہے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کی حدیث پاک ہے کہ جس کام کو مسلمان اچھا سمجھيں وہ اللہ تعالی کے نزدیک اچھا ہے اور جس کام کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے نزدیک برا ہے اس حدیث کو امام احمدنے روایت کیا ہے۔
۱۳۔ محفل میلاد میں ذکر کے لیے جمع ہونا، نعت خوانی ، صدقہ و خیرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے اور یہ تمام چیزیں سنت اور شرعاً مطلوب اور محمود ہیں۔
۱۴۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم تمام انبیاء کے واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں جس سے آپ کا دل استقامت پر رکھتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے واقعات سے ہم اپنے دل کی تسکین کے محتاج ہیں۔
۱۵۔ ہر وہ چیز جو عہد رسالت میں نہ ہو مطلقاً مذموم اور حرام نہیں ہے بلکہ اس کو دلائل شرعیہ سے دیکھا جائے گا اگر اس میں کوئی مصلحت واجبہ ہوگی تو وہ واجب ہوگی اس طرح مستحب ، مباح ، مکروہ اور حرام یہ سب بدعت کی اقسام ہیں۔
۱۶۔ جو چیز صدراول میں ہیئت اجتاعیہ کے ساتھ نہ وہ لیکن افراد کے ساتھ ہو وہ بھی مطلوب شرعی ہے کیونکہ جس کے افراد شرعاً مطلوب ہوں اس کی ہیئت اجتماعیہ مطلوب ہوگی۔
۱۷۔ اگر بدعت حرام ہو تو حضرت ابو بکر اور عثمان کا قرآن مجید جمع کرنا ، حضرت عمر کا تروایح کی جماعت کا اہتمام کرنا اور تمام علوم نافعہ کی تصنیف حرام ہوجائے گی اور ہم تیر کمان کے ساتھ جنگ کریں اور بندوقوں اور توپوں سے جنگ حرام ہو اور میناروں پر اذان دینا سرائے اور مدارس بنانا۔ ہسپتال اور یتیم خانے بنانا سب حرام ہو جائیں ۔ اس وجہ سے وہ نیا کام حرام ہو گا جس میں برائی ہو کیونکہ ایسے بہت سے کام ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف میں سے کسی نے نہیں کیا مثلاً تراویح میں ختم قرآن ، ختم قرآن کی دعا ، ستائیسویں شب کو امام الحرمین کا خطبہ دینا وغیرہ۔
۱۸۔ امام شافعی نے فرمایا کہ جو چیز کتاب و سنت یا اجماع یا اقوال صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعت ہے اور جو نیک کام ان کے مخالف نہ ہو وہ محمود ہے۔
۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں اچھا کام ایجاد کیا اور بعد والوں نے اس پر عمل کیا تو اس کو ان کو اجر ملے گا اور اس کے اجور میں کمی نہیں ہوگی۔
۲۰۔ جس طرح حج کے افعال ، صفا و مروہ کی دوڑ صالحین کی یاد تازہ کرنے کے لئے مشروع ہے اسی طرح محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرنے کے لیے مشروع ہے۔ ﴿ملاعلی قاری، المولدالروی ص ۱۷﴾

حضرت امام غزالی قدس سرہ اقتباس سے معاملے کا حل
حضرت امام غزالی قدس سرہٗ کی مشہور و معروف کتاب احیاء علوم الدین کے پائے کی کتاب ہے، کتابِ مذکور کے صفحہ نمبر 532 میں فرماتے ہیں۔

اِنَّ الْعُلَمَآءَ مِنَ الْمُتَکَلِّمِیْنَ وَالْفُقَہَاءِ وَالْمُحدِّثِیْنَ الْمُجْتَہِدِیْنَ وَالْصُوْفِیَۃَ الْوُجُوْدِیَۃَ وَالْشُہُوْدِیَۃَ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ طَرِیْقَ الْصُوْفِیَۃِ اَصْوَبُ
الطُّرُقِ اِلَی اللہ دَائِر عَلیٰ الْکِتَابِ وَالْسُنَّۃِ خَالٍ عَنِ البِدَعِ وَالضَّلَالِ۔ بلاشبہ علماء متکلمین، فقہاء، محدثین، مجتہدین،

[صوفیاء کرام خواہ توحید وجودی کے قائل ہوں یا توحیدِ شہودی کے قائل، سبھی کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ صوفیاء کرام کا طریقہ بارگاہ الٰہی تک پہنچنے کا درست ترین طریقہ ہے جو کہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ گمراہی اور بدعتوں سے خالی ہے۔]

اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب المُنْقِذُ مِنَ الضَّلالِ میں مذکور آپ بیتی ان ہی کی زبانی نقل کی ہے۔

عَلِمْتُ یَقِیْنًا اَنَّ الصُوْفِیۃَ ھُمُ السَّالِکُونَ لِطَرِیْقِ اللہ خَاصَّۃً وَاَنَّ سِیْرَتَہُمْ اَحْسَنُ السِیَرِ وطَرِیْقَہُمْ اَصْوَبُ الطُرُقِ وَاَخْلاقَہُمْ اَزْکیَ الْاَخْلَاقِ فَاِنَّ حَرَکَاتَہُمْ وَ سَکَنَاتَہُمْ فیْ ظَاھِرِھِمْ وَبَاطِنِہِمْ مُقْتَبِسَۃٌ مِنْ مِشْکَوٰۃِ النُّبُوَۃ وَلَیْسَ وَرَاءَ النُبُوَّۃِ عَلیٰ وَجْہِ الاَرْضِ نُوْرٌ یُسْتَضآءُ بہٖ۔

[میں نے یقین سے جان لیا ہے کہ بلاشبہ صوفیاء کرام ہی خدا تعالیٰ کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کی سیرت احسن سیرت ہے اور انکا طریقہ تمام دوسرے طریقوں سے بہتر طریقہ ہے اور انکے اخلاق تمام اخلاق میں عمدہ ہیں اور انکے حرکات و سکنات ظاہر میں اور باطن میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر سے اخذ کیے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ روئے زمین پر نورِ نبوت صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔]

ایک گزارش
یاد رکھئے کہ اولیاء کرام، صوفیاء کرام کے قدم شریعت و طریقت میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے قدموں کے نشانات پر ہیں اور اس طرح یہ لڑی حضور اکرم ﷺسے ملتی ہے۔ اس پھول کے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے عمل کو مانیں گے ، انہیں امام غزالی رحمتہ اللہ کے قول کی طرف بھی دیکھنا چاہئے کیونکہ جب اس پھول کواپنی بات منوانی ہو تو امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم کا سہارہ لینا پڑتا ہے اور جب اولیاء کرام و صوفیاء کرام سے میلاد منانے کے لئے کہا جائے تو ان کا قول کہ ہم تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمین کے عمل کو مانیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاملات میں تغیرات آ رہے ہیں جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے پہلے قبر پر جانے سے منع فرمایا کیونکہ شرک کا احتمال تھالیکن جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمین کو بھرپور تعلیم دے کر ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا تو پھر قبر کی زیارت کو جائز قرار دے دیا۔

اگر فی حال دیکھا جائے تو ہر ایک کے موبائل میں فوٹو کھینچنے کی صلاحیت ہے، اپنے گھر والوں کی تصاویر و موویاں بنائی جاتی ہیں جب کہ آج سے کچھ عرصے پہلے سے لیکر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمین کے دور تک تصور کو ناجائز نہیں قرار دیا گیا لیکن شناختی کارڈ کے لئے یا دوسرے عوامل کے لئے جائز اس لئے قرار دیا اور کسی طرح ایک روپے کے سکے پر قائد اعظم کی بنی ہوئی تصویر (بت نما) اپنی جیبوں میں رکھ کر نماز پڑھنا صحیح قرار دیا جاتا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے ۔ آج موبائل کی گھنٹیاں نماز کے دوران بجتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ موبائل وقت کی ضرورت ہے۔ کیا حضور اکرم ﷺکی محبت اور اس میں فناعیت آج کے دور کی ضرورت نہیں ہے، آج جب اپنی بات منوانی ہوتی ہے اس پھول کے علماء کرام (بڑی معذرت کے ساتھ) احتجاج کے لئے جلوس کو حلال قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلوس میں شرکت کی جائے اور اس جلوس کی وجہ سے جو توڑ پھوڑ کی جاتی ہے وہ کس ضمن میں جائے گی، لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، وہ کس ضمن میں جائیں گے۔

میرا مقصد یہ نہیں کہ کہوں کہ جو میلاد نہیں مناتے ہیں وہ کافر ہیں یا وہ گناہ گار ہیں، نہیں، وہ ہرگز گناہ گار نہیں اور اسی طرح جو مناتے ہیں وہ بھی کافر یا بدعتی نہیں کہلائیں گے۔ افسوس اس بات ہے کہ میلاد منانے والوں کو بدعتی کہنا اور دوسروں کو اس اچھے کام سے روکنا جس کے بارے میں فقاء و محدثین واضح دلائل ہو چکے ہوں۔ اس بات کا بہت دکھ ہوتا ہے کہ اپنے اکابر علماء کو پڑھے بغیر دوسروں کو غلط کہنا۔ یہ اس لئے لکھا کہ کل روز قیامت اللہ تعالی عزوجل کی بارگاہ میں سرخ رو ہو جاؤں۔ دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل ہمارا خاتمہ ایمان پر لگائے۔آمین ثم آمین

اللہ تعالٰی سے دعا گو ہوں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے دو پھولوں کے درمیان تفرقہ بازی کو ختم کرے اور انہیں ایک ہونے کی توفیق دے تاکہ جس طرح 1850ء سے پہلے یہ ایک تھے ، اب بھی ایک ہو جائیں ۔آمین ثم آمین

یاد رہے کہ اختلافات کا بنیادی آغاز 1850 کے عوائل میں ہوا اگر ڈیڑھ صدی کو چھوڑکر اس سے پچھلے علماء ، فقہاء ، محدثین وغیرہ کی تشریحات کا مطالعہ کریں تو آئینہ میں تصویر بالکل صاف شفاف نظر آتی ہے۔

اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ
اللهم صل و سلم و بارك على سيدنا و نبينا و حبيبنا و كريمنا و شفيعنا إليك, و أوفانا و أبهانا و أعلانا و أتقانا و أرضانا و أثنانا عليك, و قائدنا و قدوتنا و أسوتنا و معلمنا و أستاذنا و مرشدنا و دليلنا عليك محمد بن عبدالله سيد البشر أجمعين و على آله و صحبه و من سار على نهجه إلى يوم الدين

IBN-E-ABDULLAH
About the Author: IBN-E-ABDULLAH Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.