مسلِم معا شرہ میں جہیز

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جسکے لغوی معنی اسباب،سامان یا اْس سامان کے ہیں جو بیٹی کی شادی میں ما ں با پ کی جانب سے دیا جاےٗ۔موجودہ دور میں جہیز سے مراد محض سا زو ساما ن ہی نہیں نقد رقم ،موٹر گا ڑی اور جایداد بھی ہے جو لڑکے والے لڑکی کے وا لدین سے زبردستی لیکر اْنہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔جہیز اگرچہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے آج کو ئی قوم محفو ظ نہیں تا ہم مسلما نوں میں (با لخصوص ہندو پا ک کے)یہ لعنت سب سے زیا دہ پائی جا تی ہے۔ آئیے آج ہم مسلم معاشرے میں جہیز کی حقیقت ،اسکی اہمیت اور مضر اثرات کا جا ئزہ لیں۔

مسلم معا شرے میں نکاح سْنتِ ر سو ل ﷺہے جس پر عمل کر نا ہر با لغ مسلما ن کا فرض ہے۔ اس سْنت میں اﷲ نے خیر ہی خیر رکھا ہے شادی انسا ن کو برے افعال اور زنا جیسے گناہِ کبیرا سے محفو ظ رکھتی ہے مگر افسو س کہ مسلمانوں نے اس عظیم تر ین سْنت کی تکمیل میں جہیز کے نام سے ایسے رو ڑے لگا ئے ہیں کہ غریب اور متو سط طبقے کو بے شما ر دشواریوں کا سا منا کر نا پڑ رہا ہے۔

ملتِ اسلامیہ میں جو برا ئیاں پا ئی جاتی ہیں ان میں جہیز سب سے بڑی برائی ہے جو وقت کے سا تھ ساتھ ختم ہونے کی بجا ئے بڑھتی جار ہی ہے اور اس نے ایک نا سور کی صو رت ا ختیار کر لی ہے۔ اس لئے کہ مسلمان جہیز کو سْنتِ رسو لﷺ کا درجہ د یتے ہیں جب بھی شا دی بیا ہ کی با ت ہوتی ہے تو بی بی فا طمہؓ کے جہیز کا ذکر ضرور آ تا ہے۔ مگر مسلما ن اس طر ف تو جہ ہی نہیں کرتے کے اﷲ کے رسو ل ﷺنے جہیز کیوں دیا تھا ؟ کیا اور کیسے دیا تھا ؟ اس بے تو جہی کی اصل وجہ دینی تعلیم سے نا واقفیت ہے بے شک اﷲ کے رسو لﷺ نے بی بی فا طمہؓ کا مختصر جہیز تیا ر کیا تھا کیو نکہ حضر ت علیؓ کی پر و رش آپ ﷺ نے ہی کی تھی۔ انکے نئے گھر کو بسا نے کے لئے کچھ ضروری سا ما ن درکا ر تھے۔لہٰذا اﷲ کے رسول ﷺ نے حضرت علیؓ جنکے پا س ایک گھر ، ایک ا و نٹ،ایک تلوار ، ایک ڈھا ل اور ایک زرہ کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا ۔ یہ بتا تے ہو ئے زرہ بیچ کر مہر ادا کرنے کیلئے کہا کہ بی بی فا طمہ ؓ کو رکھنے کیلئے گھر تجا ر ت اور سفر کیلئے او نٹ اور میدا نِ جنگ کیلئے تلوار اور ڈھا ل کی ضرورت ہے اور چونکہ تم بہا در آدمی ہو اسلئے تمہیں اپنے بچا ؤکے لئے زرہ کی حاجت نہیں۔چنا نچہ حضرت علیؓ نے زرہ فروخت کرکے چارسو اسّی (۴۸۰) در ہم آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے ۔اسی رقم سے آ پ ﷺ نے اپنی پیا ری بیٹی فا طمہؓ کا جہیزجو ایک چٹائی ،ایک چکّی، ایک چا در ، ایک مشکیزہ اور کچھ مٹی کے برتن پر مشتمل تھا تیا ر کیا۔کپڑے وہی دئیے جو بی بی فا طمہؓ نے زیب تن کئے تھے تعجب ہو تا ہے کے مسلما ن رسو لﷺبقیہ تین بیٹیو ں کی شا دیوں کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے؟ جنہیں آپ ﷺ نے کو ئی جہیز نہیں دیا تھا تینو ں مکا ن سر وسامان رکھنے وا لوں سے بیا ہی گئی تھی۔ ان حقائق کی رو شنی میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ رسو لﷺ کی نظر میں دیندار اور سلیقہ مند لڑکی ہی دا ما د کیلئے سب سے بڑا تحفہ یا جہیز تھا۔ اسلا م میں جہیز کی اس حقیقت کو جا نے بغیر ہی ہم مسلما نو ں نے اِسے اتنی اہمیت دے دی ہے کے جہیز نکا ح کی سنت پر غالب آگیا ہے اور آج شادی سے مراد محض روپیہ ،سونا وغیرہ حاصل کرنا ہے نتیجتہًً مسلما نوں میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں جن میں چندیہ ہیں۔

۱) جہیز نے مسلما نوں سے خودداری و عزتِ نفس کو چھین کر انہیں بے شرم و بے غیرت بنا دیا ہے۔چنانچہ لڑکے کے والدین لڑکی والوں سے آرائشی اشیاء و نقد رقم ما نگنے میں شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
۲) جہیز نے مسلما نو ں کو خود غرض بنا دیا ہے۔لڑکے کے والدین کی خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنا سارا بوجھ لڑکی والوں پہ ڈال دیتے ہیں۔بچپن سے لیکر جوانی تک بیٹے کی پرورش اور تعلیم پر جو خرچ کیا ہے وہ بھی لڑکی کے والدین سے وصول کرنا چاہتے ہیں اسلئے لڑکا جتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے اور اسکا عہدہ جتنا بڑا ہوتا ہے اسکے مطابق اسکی قیمت لگائی جاتی ہے۔ان حالات میں کیوں نہ لڑکوں کا ایک با قا عدہ بازار لگایا جائے جسمیں لڑکوں کو قطار میں کھڑا کر ان کے گلے میں قابلیت کی تختیاں ڈال دی جائیں تا کہ لڑکی کے والدین اپنی حیثیت اور پسند کے مطابق لڑکا خرید سکیں۔۔۔۔۔لعنت ہے۔
۳) جہیز نے مسلمانوں سے ہمدردی و درد مندی کے جذبا ت چھین کر انہیں اتنا سنگ دل بنا دیا ہے کہ اولاد کے دکھ کو جا نتے ہوئے بھی لڑکے والے بہووٗں کو جہیز نہ لانے یا کم لانے کی پاداش میں نہ صرف ذ ہنی و جسمانی اذیتیں پہنچا تے ہیں بلکہ انہیں زندہ جلا دیتے ہیں،گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں یا لڑکی خود ان کے مظالم اور آئے دن کے مطالبوں سے تنگ آکر خود کشی کر لیتی ہے۔
۴) جہیز کی اس لعنت کی بدولت آج دینی تعلیم ، حسنِ اخلاق وکردار بہو کے انتخاب نہیں رہا بلکہ پیسہ اور ظاہری حسن معیار بن گیا ہے۔ آج جب لڑکیوں کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو پہلے کی طرح کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ لڑکی کو قرانِ شریف پڑھنا آتا ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھا جا تا ہے کہ سازوسامان کے علاوہ کتنی رقم اور کتنے تو لہ سونا دیا جائے گا۔ لڑکے والوں کی اس ذہنیت نے لڑکیوں اور انکے والدین کو دینی و ازدواجی تعلیم سے بے پرواہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ لڑکے والوں کے وقتی عیش اور لڑکی والوں کی غلط تربیت کے نتیجے میں گھر میں ایسی پھو ہڑ وبد سلیقہ بہو آ جا تی ہے جسکے دل میں نہ شوہر کی عزت ہوتی ہے اور نہ ساس سسر کا احترام ۔ بہو تو گھر کی زینت ہو تی ہے جو اپنے نیک اعمال سے گھر کو جنّت بنا دیتی ہے مگر آجکل کی مغرور بہو گھر کو جہنّم بنا رہی ہے ایسی بہوؤں سے ایک گھر نہیں خاندان کے خاندان تباہ و بر با د ہورہے ہیں۔
۵) اس لعنت نے مسلمانوں کے ضمیر کو کچل کر انہیں اتنا بے حس بنا دیا ہے کہ آ ج غریب و مفلس لڑکیاں (جنکے وا لدین جہیز کی لمبی چوڑی فہرستوں کو پوراکر کے ان کے لئے لڑکا خرید نہیں سکتے) اپنی غریبی و مفلسی اور جہیز سے تنگ آ کر غلط قدم خودکشی۔۔۔۔۔۔اٹھانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

غرض جہیز نے پیسہ کو مسلمانوں کی ایسی کمزوری بنا دیا ہے کہ مسلمان اپنے دین کو پس پشت ڈا ل کر اس بت(یعنی پیسہ) کے پیچھے اندھا دھند بھا گ رہے ہیں۔ تما م آسمانی صحیفے (با لخصوص قرآن) گواہ ہیں کہ جس کسی نے پیسہ کی پرستش کی یا پوجا کی وہ پستی و ذلّت میں پڑگیا چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج دنیا بھر میں مسلمان بھی ہر محاذ پر ذلیل وخوار ہو رہے ہیں اس ذلّت و خواری وبد نامی و رسوا ئی سے مسلمانوں کو سوائے دینی تعلیم کے کو ئی نہیں بچا سکتا ۔ لہذٰا تما م مسلما ن بھا ئیوں اوربہنوں سے یہ میری عاجزانہ گذارش ہے کہ دینی و مذہبی تعلیمات کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے اعما ل کو نیک بنا لیں تا کہ اپنے آبا واجداد کی طرح دین و دنیا کی سعادت نصیب ہو سکے اور ہماری پاکیزہ زندگیاں دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔

IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 31061 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More