وفاؤں کی دیوی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب راجو اپنے گھر سے ہزاروں میل دور ایک بڑے شہر میںتعلیم حاصل کررہا تھا۔مشکل سے راجو کی عمر کوئی تیرا چودہ سال ہوگی۔راجو کا ایک دوست فیضی تھا جس کے گھر میں راجو کا آنا جانا رہتا تھا۔وہ شہر ی لوگ تھے اس لیے بڑی نفیس طبع پائے تھے۔ راجو اپنے دوست فیضی کے گھر میں ان کی آپا سے انگلش کے ابتدائی گرائمر پڑھتا تھا۔ راجو اور فیضی ہم کلاس تھے ،مگر فیضی تعلیم میں زیادہ توجہ نہیں کررہا تھا جبکہ راجو مسلسل پڑھنے میں منہمک رہتا۔فیضی کی دو بڑی بہنیں تھی۔ دونوں یونیورسٹی میں تعلیم پارہی تھی۔ فیضی اور راجو کو انگلش پڑھایا کرتی تھیں۔راجو چونکہ پہاڑی علاقوں کا باسی تھا، اس لیے فطرتا گوری رنگت کا حامل تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے بے حدحسن وجمال سے نوازا تھا۔موٹی آنکھیں،نرم وملائم ہاتھ اور چہرے پر دل دوز مسکراہٹ راجو کی خاص پہچان تھی۔اس کے ہاتھوں کی بناوٹ دیکھ کر بڑے بڑوں کے دل دھک جاتے۔ایک دن فیضی کی ایک بہن نے دوسری سے سوال کیا کہ جانور فلم میں جو بچہ ہے اس جیساخوبصورت بچہ دیکھا ہے کبھی ؟ ۔فیضی کی دوسری بہن نے معنی خیز مسکراہٹ سے اس کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہو؟۔راجو یہ باتیں سن رہا تھا مگر اس کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔ وہ ٹیبل پر رکھی کاپی پر کچھ نوٹ کررہا تھا۔راجو کے متصل والے صوفے پر فیضی کی اماں اور فیضی بیٹھے ہوئے تھے اور راجو کے سامنے والی کرسی پر فیضی کی دونوں بہنیں۔فیضی کی ایک بہن نے جواب دیا کہ ہمارے سامنے بیٹھا بچہ جانور فلم کے راجو سے بھی زیادہ حسین وجمیل ہے۔اس پر راجو کے دوست فیضی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور راجو کے ساتھ چمٹ گیاکہ میرا یار راجو سے بھی زیادہ پیارااور خوبصورت ہے۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سماپارہا تھا۔ادھر سے فیضی کی ماں نے بھی کہا کہ ہمارا راجو اس راجو سے واقعی پیارا ہے۔ دیکھو نا اتنی معصومیت چہرے پرنظر آرہی ہے۔وہ راجو اپنی ماں کے قریب ہوتے ہوئے بھی دور تھا اور ہمارا راجو بھی اپنی اماں سے ہزاروں میل دور ہے۔وہ تعلیم پانے کے واسطے روزانہ ماں سے ملتا تھااور یہ تعلیم پانے کے واسطے ماں سے دور ہے۔ راجو کے دوست فیضی نے چیخ چیخ کر پورا گھر سرپر اٹھا رکھا تھا۔گھر کے تمام افراد اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کررہے تھے مگر راجو ان کی باتوں کو مبہوت ہوکر سن رہا تھا۔ یہ تمام باتیں اس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔راجو کو یہ نہیں معلوم تھاکہ جانور فلم کس بلا کا نام ہے۔وہ تو فلم میں کیا ہوتا ہے اس سے بھی نابلد تھا۔وہ کھبی فلم ہال نہیں گیا تھا البتہ روڈ کے برلب سنیما گھر میں لگے فلم پوسٹروں کو دیکھا تھا۔راجو کو یہ بھی نہیں معلوم تھاکہ اس فلم میں راجو نام کا لڑکا کون ہے اور اس کی عمر کیا ہے اور کیونکہ کر خوبصورت ہے۔ راجو کو یہ سب مافو ق الفطرت معلوم ہوتا تھا۔اس کے ذہن میں یہ باتیں نقش ہوچکی تھی مگر وہ سلجھ کر نہیں دیتی۔

زندگی کے ماہ و سال گزرتے گئے۔ راجو اپنی تعلیم کے سلسلے میں مسلسل گھر سے باہر ہی تھا۔ اس کی ایک ہی دُھن تھی کہ پڑھ لکھ کر ایک اچھا اور کامیاب مسلمان بن جائے اور ایک کامل انسان اور مہذب شہری۔راجو اپنے اس مقصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھا۔وہ بڑی شہروں کے پارکس، لائیبریریز اور دیگر تعلیمی و علمی مقامات میں دیوانہ وار گھومتا رہا۔وہ تو پبلک مقامات پر بھی کوئی کتاب کھولے گھنٹوں دنیا ومافیہا سے بے خبر پڑا رہتا ۔کم عمری میں ہی سینکڑوں نامور شخصیات سے اپنا تعارف کرواچکا تھا۔بڑوں کو دیکھ کر بڑا بننے کا بے انتہاشوق تھا مگر کیسے.......راجو اس سوال کے جواب کے لیے قابل قدر شخصیات کی سوانح عمریوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتا۔راجو ان کامیاب شخصیات کی زندگی میں ایک قدر مشترک پاتا، وہ تھی ایک عورت!!!!..یہ سچ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔عورت نہ ہوتی تو وہ کامیاب مرد جنتا بھی کیسے؟۔ راجو نے جب حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا تو آپ ۖکی زندگی میں جہاں دکھ ہوتے ،تکالیف ہوتی وہاں کوئی عورت ان دکھوں اور تکالیف کو پاٹتے نظر آتی۔آپ ۖ پر پہلی وحی کی وجہ سے خوف طاری ہوا تو سیدہ خدیجہ کبر ی آپ ۖ کو دلاسا دیتی نظر آتی۔راجو نے دیکھا کہ بڑھاپے کی دہلیز میں حبیب خد امحمد مصطفی ۖسیدہ عائشہ صدیقہ کے ساتھ دوڑ لگاتے نظر آتے تو راجو کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی۔اور جب امی عائشہ کا چبایا ہوا مسواک آپ ۖ اپنے دَہن مبارک میں لیتے .........کتنی عظیم بات تھی ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور فاطمة الزھرة کی بے مثال محبت راجو کو نہال کردیتی۔ ازدواجی زندگی کی کتنی عظیم مثالیں تھیں۔راجو نے اپنے ارگرد عورت کو بحیثیت شریک حیات دیکھا تو وہ اس عورت سے مختلف تھی جو رحمة اللعالمین کی عورتیں تھیں۔آپ ۖ ازواج مطہرات سے دل لگی کرتے۔ان کی تمام ضروریات کا خیال کرتے۔ ان سے مشاورت کرتے۔ان کی دل آزاری کرنے کا خیال سے بھی دور بھاگتے۔راجو نے جوں جوں تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات کی بائیوگرافی کا اسٹڈی کی تو اس کو عمر بن عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ کے دکھ او ر سکھ کے دن بھی دیکھنے کو ملے۔ابوالکلام آزاد جب تفسیر قرآن لکھتے تو ان کی رفیق حیات ان پر پنکھا جَھلتی اور رات بھر اس کی خدمت میں گزارتی۔ عبدالماجد یا آبادی کی آپ بیتی خاص کر شادی والا باب پڑھ کر راجو کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔راجو چونکہ بیس سال کا ہوچکا تھا۔راجو اپنے ننھیال اور ددھیال میں بہت ہی محبت سے دیکھا جاتا ۔راجو نے کبھی بھی کسی کی دل آزاری نہیں کی تھی۔راجو جب تیرہ سال کا تھا تو اس کے پڑوس میں ایک غریب اور مفلوک الحال بوڑھی خاتون رہتی تھی۔سارے محلے کے لڑکے اس کا مزاق اڑاتے جبکہ راجو ہمیشہ اس کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا۔وہ بوڑی راجو کی دعائیں دیتی کہ'' بیٹا جُگ جُگ جیو''۔وہ جوانوں اور بوڑھوں کی اعانت اور خدمت اپنا فرض سمجھتا تھا۔

راجو اپنی والدہ اور بہنوں سے ہمیشہ اپنی شادی کا ذکر چھیڑتا۔راجو جب بھی سالانہ تعطیلات میں چند ایام کے لیے گھر آتا تو وہ اس بحث کو ضرور چھیڑتا۔اپنی شریک حیات کے حوالے سے راجو کے خیالات سب سے مختلف اور شایدسب سے نرالے تھے۔راجو کی ماں راجو کو کٹ کر چاہتی تھی لیکن جب بھی راجو کی شادی کے متعلق راجو کی باتیں سنتی تو ششدرہ رہ جاتی۔چونکہ وہ ایک دیہاتی خاتون تھی وہ راجو کی کسی بات سے اتفاق نہیں کرسکتی تھی۔راجو اپنی ماں کے ساتھ گھنٹوں اس موضوع پر بات کرتا، ہزار زاویوں سے اسے سمجھاتا مگر راجو کی باتیں ان کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔راجو کا باپ اس حوالے سے مکمل ڈکٹیٹر تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ راجو کے حوالے سے جو بھی فیصلہ وہ کرے گا وہی حتمی ہوگا۔راجو اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا۔وہ کسی بڑے سے بڑے نقصان کو مول لینے کے لئے بھی تیار تھا۔راجو کے باپ کی ایک ہی دلیل تھی کہ ''جب اس کے باپ نے اس کا رشتہ کیا تھا تو اس سے کب پوچھا تھا، تو وہ اپنے بیٹے سے پوچھ کر اس کا رشتہ طے کرے گا''۔راجو اور اس کی ماں کی مرضی اور ان سے مشاورت راجو کے باپ کے لیے انا اور غیرت کا معاملہ تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ راجو اور اس کی ماںاس کے کسی بھی جائز اور ناجائز فیصلے پر رضامند نہ ہو کر اس کے اختیارات کو چیلنج کررہے ہیں۔ راجو کا باپ بدلتے حالات و اطوار سے نابلد تھا یا جان بوجھ کر بے خبر رہنا چاہتا تھا۔راجو کے باپ کا رشتہ اس کے باپ نے بیسوی صدی کے وسط میں کیا تھا اور اس میں اس کی قبل از وقت رضامندی حاصل نہیں کی تھی جبکہ راجو اکیسوی صدی کا نوجوان تھا۔پھر راجو نے گھاٹ گھاٹ کا پانی بھی تو پیا تھا۔ کہاں باپ بیٹے کے خیالات میں موافقت؟۔عورت کے حوالے سے راجو کے باپ کا خیال تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک دلھن نہیں بلکہ اپنی رعایت اورخدمت و فرمانبرداری اور رشتہ داری کو مضبوط کرنے کے لیے بہو لانا چاہتے تھے سو وہ اپنی من مانی اور پرانی روایت پر قائم تھا۔ اس حوالے سے جب کھبی راجو کی کوئی بہن یا اماں بات کرتی تو وہ آگ بگولہ ہوجاتا۔ انہیں کوستا کہ یہ سب کچھ تم لوگوں کا پڑھایا ہو ا سبق ہے ورنہ میرا بیٹا ایسا نہیں۔راجو کا ایک انکل بڑا بذلہ سنج تھا ۔ اس نے ایک دفعہ راجو کے باپ سے کہا تھا کہ راجو کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا ہے۔ شاید راجو کے باپ نے ان سے کسی کے بارے میں کہا تو راجو کے انکل نے کہا کہ اگر راجو انکار کرے بلکہ وہ تو انکار ہی کررہا ہے۔راجو کے باپ نے برجستہ کہا کہ'' اگر انکار کیا تو میری ناک کٹ جائے گی اور مجھے ایسا بیٹا نہیں چاہیے میں تو اس کو گولی مار دونگا''۔ راجو کے پاس جب یہ الفاظ ہو بہو پہنچے تو راجو ہکا بکا رہ گیا مگر راجو بھی تو اس باپ کا بیٹا تھا جو کسی کی ناک کٹی ناگَن کے لیے اپنے بیٹے کو گولی مارنا چاہتے تھے۔ راجو کے باپ کو شاید اپنے بیٹے سے زیادہ اپنی پسند کی بہو محبوب تھی اور راجو نے جب دیکھا کہ معاملہ اس حد تک جا سکتا ہے تو کئی واسطوں سے اپنے باپ کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی بھی صورت میں اس کا کوئی بھی فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر بار اور علاقہ تک چھوڑ سکتا ہے مگر کوئی ناجائز فیصلہ قبول نہیں کرسکتا۔ راجو کے باپ کے لیے یہ الفاظ ڈرون حملوں سے کم نہیں تھے مگر وہ بھی اپنی ضد اور ہٹ دھڑمی سے ایک انچ پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔کش مکش کا یہ سلسلہ طویل عرصہ چلتا رہا۔

دن گزرتے گئے ،ماہ گزرے گئے اور سال گزرتے گئے ۔اور راجو اپنی اماں اور بہنوں سے کہتا رہتا کہ میرے لیے کوئی دلہنیا ڈھونڈو۔ پھر راجو ان کو بتاتا کہ اس میں یہ یہ صفات ہونی چاہیے۔یہ تو سیدھی سی با ت ہے کہ اس دنیا میںہر کوئی ایک حسین کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ لڑکیا ں بہت تھی، اپنوں میں بھی پرائیوں میں بھی۔راجو کی بہنیں کسی پر متفق ہوتی تو راجو کی اماں فوری فیصلہ سنادیتی کہ اس لڑکی کی دادی میں یہ خامیاں تھی اور اس کی پھوپھی نے یہ کیا تھا وہ کیا تھا، لہذا وہ انہیں پسند نہیں۔بارہا کئی منا سب لڑکیاں راجو کی ماں نے مسترد کردیے۔جب راجو نے خود اپنی ماں سے کہا کہ کوئی لڑکی پسند کرو اور بتاؤ، کیوںکہ راجو کو بھی شادی کا خمار چڑھا ہوا تھا۔راجو محبت کرنا چاہتا تھا۔وہ کسی کو کٹ کر چاہنا چاہتا تھا۔راجو کی ماں بے سوچے سمجھے ایک ہی بات کہتی کہ مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں جو بہو بنا کر لاؤں۔ راجو اپنی ماں سے کہتا تھاکہ تمہارے بیٹے کے لیے کوئی آسمان سے تو نہیں آئے گی مگر راجو کی ماں بھی راجو کے باپ کی طرح اس معاملہ میں کوئی سنجیدہ نہیں تھی۔بہو کے سلسلے میں وہ بھی اپنے بیٹے سے زیادہ اپنامفاد سوچتی اور راجو باپ اور ماں کے اس رویہ کو دیکھ کر کڑھتا رہتا تھااور اس کی زندگی اجیرن بن جاتی تھی۔راجو اپنے والدین کا بڑا بیٹا تھا وہ کسی بھی صورت اپنے والدین کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔راجو کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر اس سے اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا تھا۔راجو کی زندگی کے یہ آیام راجو کے مشکل ترین آیام تھے ۔معاملہ بہت گمھبیر ہوتا جاتاراجو کے لیے......................

راجو کی ایک بہن نے راجو سے کہا کہ جیسی دلہن آپ چاہتے ہو، جو شرائط آپ کے ہیں وہ اگر کسی لڑکی میں پائے جاتے ہیں تو وہ روحی ہیں۔راجو کی شرائط کیا تھی۔ بس اتنی سی بات تھی کہ جو بھی راجو کی دلہن بنے وہ کسی امیر باپ کی بیٹی نہ ہو۔ لڑکی دیندار اور پڑھی لکھی ہو، ملکہ حسن نہ ہو مگر لنگور بھی نہ ہو۔کم سے کم راجو کے ساتھ شکل و صورت میں میل کھاتی ہو اور اگررشتہ داری میں ہو تو '' نور علی نور''۔اعلیٰ خاندان کی ہو یا گٹھیا خاندان کی مگر مہذب ہو۔ زیادہ گفتگو کی شائق نہ ہو یعنی بے ضرورت ایک لفظ نہ بولے۔ راجو اگرچہ گلگت بلتستان کے کسی پہاڑی گاؤں کا تھا مگر اس کے دوست احباب سارے شہری تھے کیونکہ دیہاتی بچے نے بلوغت اور جوانی کی اکثر بہاریں شہروں میں گزاری تھی۔ وہ دیہاتی ہوکر بھی شہری تھا۔ اس کے معاملات شہری تھے۔ اس کی سوچ و فکر ، رہن و سہن اور طورواطوارسب شہری تھے۔وہ دیہاتوں سے ایک ایسی شریک سفر ڈھونڈ رہا تھا جو اس کے ساتھ شہری بن کر زندگی گزارے۔راجو نے روحی کو بچپن میں دیکھا تھا۔راجو نے دھڑلے سے کہہ دیا کہ وہ تو چھوٹی سے بچی ہے، نہ رنگ ہے نہ حسن اور نہ کوئی خاص خوبی۔ راجو کی بہن نے کہا کہ جب اب نے دیکھا تھا تب ایسی بات تھی اب ایسا کچھ نہیں ۔ نہ وہ بچی رہی نہ آپ کی دیکھی ہوئی معصوم سی روحی۔ وہ اب ایک جوان رعنا بن چکی ہے۔ اس نے اچھی خاصی تعلیم حاصل کی ہے۔ اپنی عمر سے زیادہ ہی تعلیم حاصل کی ہے۔آپ ایک دفعہ اس کو دوبارہ دیکھ لیں، آپ حیران ہوجائیں گے کہ وہ آپ کے خوابوں کی مکمل تعبیر بن چکی ہے۔ راجو چونکہ دینی ذہن رکھتا تھا، وہ اپنی ہمشیرہ سے کچھ نہ کہہ سکا۔ صرف اتنا بتایا کہ'' جب میں وہاں آونگا تو اس کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرپاؤنگا ''۔ مگر سچی بات یہ تھی کہ اس دن سے راجو کے دل میں روحی کے لیے جگہ بن گئی تھی۔راجو کی ہمشیرہ نے جو تفصیلات و عادات روحی کے حوالے سے راجو کی بتلائی تھی وہ یقینا عام لڑکیوں سے بالکل مختلف تھی۔اب راجو بے چین ہونے لگا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ پرندوں کی طرح اُڑے اور روحی کا دیدار کرے مگر وہ ایسا نہیںکرسکتا تھا۔راجو اور روحی میںہزاروں میل کی مسافت تھی۔بیابان اور صحراء تھے۔ بڑے بڑے دریا اور کالے کالے پہاڑ حائل تھے۔ راجو کے دیگر مشاغل کے ساتھ ایک مشغلہ یہ بھی بن گیا تھاکہ روحی کے بارے میں معلومات جمع کریں۔ وہ مختلف لوگوں سے اس کے بارے میں ہلکے پھلکے انداز میں معلومات لیا کرتا تھا۔یہ سلسلہ کافی عرصہ چلا۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا کہ راجو روحی کے دیار میں پہنچ گیا۔ راجو کا روحی کے ہاں جانا معمول کی بات تھی۔ روحی کی ماں نے راجو کی خوب آؤ بھگت کی۔روحی کے گھر والے بھی راجو کے ساتھ بڑی خوش دلی سے ملتے تھے۔ دونوں میں دور کی رشتہ داری بھی تھی اور پھر راجو جب سالانہ تعطیلات میں گاؤں آتا تو تما م رشتہ داروں کے ہاں ملنے جاتا۔اس کی یہ عادت بڑی پرانی تھی۔اس کی وجہ سے خلقت میں راجو نے اپنے لیے بڑا مقام پیدا کیا تھا۔جب روحی نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ راجوکو'' اسلام علیکم'' کہا تو راجو'' وعلیکم السلام'' بھی نہ کہہ سکا۔ کیوں؟ روحی کی شکل وصورت اور اس کا اچانک اتنا بڑا ہونا، اور پھر دلفریب لہجے میں سلام کرنا راجو کے لیے کسی سرپرائز سے کم نہ تھا۔ راجو کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی اتنی تبدیلی آسکتی ہے۔راجو نے جب روحی کو آخری بار دیکھا تھا تو اس وقت روحی کی عمر نو سال تھی اور اب کی بار روحی پندرہ سال کی ایک سندر لڑکی تھی۔اس نے اپنا سر دوپٹہ سے کس کر باندھا ہوا تھا مگر اس کا وجیہہ چہرہ مکمل کھلا ہوا تھا۔ اور وہ مسلسل مسکراہٹیں بکھیر رہی تھی۔وہ آداب محفل سے واقف تھی۔ راجو کے احوال پوچھ رہی تھی۔راجو کی تعلیمی مراحل اور کارکردگی سے تو وہ پہلے ہی سے آگاہ تھی۔وہ جانتی تھی کہ راجو نے کم عمری میںہی بڑا نام کمایا ہے۔دور دور تک اس کاشہرہ ہے۔یہ معمول کی بات ہے کہ دیہاتوںمیں لوگ دور دور کے رشتہ داروں کے بارے میں بھی مکمل معلومات رکھتے ہیں، بالخصوص جو بچے اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور محنت و لگن سے پڑھتے ہیں وہ تو سب کی نظروں میں ہوتے ہیں۔دیہاتوں میں لڑکوں کا تعلیم حاصل کرنا اور بڑی شہروں میں جانا تو معمول کی بات ہے مگر لڑکیوں کا پڑھنا عجوبے سے کم نہیں۔ کیونکہ دیہاتی لوگ سمجھتے ہیں لڑکیوں کو تعلیم دینے سے بیہودگی پھیلتی ہے۔ عورتیں نافرمان بنتی ہیں۔ بس عورتوں کو آن پڑھ ہی رکھ لو، اسی میں عافیت ہے مگر راجو کے خیالات یکسر الگ تھے۔ اور پھر جب راجو نے روحی کی تعلیم کے بارے پوچھا تو روحی نے مختصراً سب بتا دیا۔

وہ تعلیم و تربیت سے آراستہ تھی۔وہ اپنے ادارے کی زینت تھی ۔ بڑی زیرک ،ذہین ، نرم طبیعت اورشگفتہ مزاج کی مالک تھی۔ جماعت کی تمام ہم جھولیاں اس سے محبت کرتیں تھیں۔یہ سب کچھ راجو کے لیے ایک خوشگوار حیرت سے کم نہ تھا۔راجو نے روحی کی کتابیں دیکھی، کاپیوں کا جائزہ لیا، اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔اب اس کے ذہن میں خیالات کا دریا امنڈ آیا۔ راجو نے فیصلہ کیا کہ بس روحی کو ہی شریک حیات بنا لیا جائے۔کیوںکہ وہ روحی کو دل دے بیٹھا تھا یا پھرچند لمحات میں روحی نے اس کے دل میں جگہ پکڑی تھی ۔ روحی نے اس کے لیے ایک کپ چائے بنا لی۔ راجو کوئی نشہ نہیں کرتا مگر چائے کا نشئی ضرور ہے۔ چائے پتلی تھی، راجو نے چائے کے بارے ہدایات جاری کرتے ہوئے چائے دوبارہ بنانے کی فرمائش کی۔ روحی کی ماں نے کہا کہ جب آپ کو چائے بنانی نہیں آتی تو مجھے ہی کہتی ، یہ کہہ کر وہ اٹھی مگر راجو نے انہیں روک لیا ، کہ وہ خود ہی بنائے گی۔ روحی نے بے باکانہ کہہ دیا کہ مجھے کیا پتہ جو بھی کراچی جاتا ہے وہ تیز پتی والا چائے پیتا ہے۔ابھی بنائے دیتی ہوں، کہہ کر کچن کی طرف گئی۔ دیہاتوں میں کیا کچن، بس گھر کے سامنے یا برآمدے کے ساتھ ایک مخصوص جگہ بنائی گئی ہوتی ہے، بخاری نکالا ہوتا ہے یا انگیٹھی لگائی گئی ہوتی ہے۔جب روحی چائے بنارہی تھی تو راجو اس کے حرکات و سکنا ت کو دیکھ رہا تھا مگر روحی اس سے بے خبر تھی۔ اس کے دل میںتو راجو کے لیے ایک احترام تھا جو عام طور پر عمررسیدہ لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ پھر راجو اس سے عمر کا کافی بڑا بھی تو تھا۔پہاڑی لڑکیوں میں شہری لڑکیوں کے نخرے و چونچل بھی کہاں ہوتے ہیں۔وہ تو شرم وحیا کی پیکر ہوتی ہیں۔ ایسے معاملات میں ان کے دل میں حسین خیالات تک نہیں آتے۔روحی نے چائے دوبارہ اس کو پیش کی۔اب کی بار چائے مزے دار تھی۔ روحی کی ماں راجو سے احوال پوچھے جارہی تھی، تما م گھر والوں کے بارے فرداً فرداً پوچھ رہی تھی۔اس طرح پوچھنا دیہاتی روایات ہوتی ہیں۔وہ ماں کے متصل دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔وہ اب راجو کے بہت ہی قریب تھی، اسکے لبوں پر ایک عجیب یاس و حسرت انگیز مسکراہٹ تھی۔راجو اس یاس انگیز مسکراہٹ کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکا ۔ ضرور اس کے دل میں کوئی ایسا غم تھا جس نے اس کے خوبصورت چہرے کو ملول بنا رکھا تھا۔روحی نے آہستگی سے اپنے بازو اپنی کمزور سی چھاتی پر باندھ لیے اور اپنے دونوں پاؤں ہلکے پھیلائے۔اس نے اپنا سر حجاب سے چھپارکھا تھا مگر راجو اس کے چہرے کو دیکھ سکتا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ اس کے نرم و خوبصورت ہاتھوں کو، اس کے رخساروں کو، اور اس کے کمزور سے نازک ٹخنوں کو۔راجو مسلسل ٹکٹکی باندھ کر روحی کو مبہم، خمار آلود نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ کیوں؟ کیوں کہ راجو کی آنکھیں شا ید کھل کر دل کا راز روحی سے کہہ دینا چاہتی تھیںمگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی، کیوں؟ کیونکہ روحی نے اپنی نظریں زمین پر گاڑھی ہوئی تھی۔ وہ شرم اور حیا کے باعث نگاہیں نیچے کیے ہوئی تھی۔ روحی کی یہ ادا بھی راجو کے دل کو بھا گئی۔
یکایک روحی کا بازو تھوڑا اُوپر اُٹھ کیا۔
ہلکی سی جنبش ہوئی۔
چوڑیوں کی جھنکار پیدا ہوئی۔
تب راجو نے روحی کی طرف دیکھا۔
روحی کانپ کر رہ گئی، یہ لاشعوری میں ہوا تھا۔

ا ب و ہ نظریں نیچے کیے اپنی چوڑیاں بازوں میں چھپا رہی تھی اور ساتھ ساتھ دوپٹے اور بازو بھی ٹھیک کررہی تھی۔ پھر روحی سنبھل کر بیٹھ گئی۔راجو کے دل میں ایک عجیب احساس پیدا ہوا۔ وہ متجسس نگاہوں سے اس کو دیکھ رہا تھا مگر اب اس کا چہرہ صاف اور بھولا بھالا تھا۔ کسی بھی قسم کے جذبات و تاثرات سے عاری۔ اور راجو کے دل و دماغ میں ایک اضطراری کیفیت طاری ہوچکی تھی اور وہ خود اس اضطراری کیفیت کی المناک گہرائیوں تک پہنچنے سے قاصر تھا۔

کبھی کھبار روحی بھی کسی کے متعلق پوچھتی۔روحی کا آواز کتنا خوبصورت تھا! وہ سریلی سی آواز میں آہستہ سے کچھ پوچھ لیتی۔

روحی کی آواز نے راجو کے کانوں میںرس گھول دیا۔ اس کی پُرسوز آواز نے راجو کے جذبات میں ایک ہیجان اور طلاطم پیدا کیا تھا۔

راجو کا دل عجب لذت کے مزے لے رہا تھا۔ اس کی ہر بات سے راجو کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ آب حیات میں دھل رہا ہے۔

روحی کی باتیں نہیں تھی بلکہ حسین نغمے تھے،بلبل کے نغموں سے بھی حسین! ان نغموں نے را جو کے دل میں روحی کی محبت پیدا کردی تھی۔

روحی کہہ رہی تھی اور راجو فقط سن رہا تھا۔ وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔

روحی جیسا خوبصورت اور بھولا بھالا چہرہ راجو نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔وہ تو گلگت کے حسن صبیح کا ایک حسین نمونہ تھی۔

اس کے خدوخال بڑے دلکش تھے، دلکش نہیں بھی تھے تو راجو کوپسند ضرور تھے۔

راجو کے دل میں کیا طلاطم پیدا ہورہا تھا اس سے روحی مکمل بے خبر تھی۔ اتنی جلدی اس سے خبر بھی کیسے ہوتی۔

یہ یکطرفہ محبت اورسپردگی کی ایک حسین مثال تھی۔

راجو ان سے اجازت لے کر رخصت ہوا۔ اب راجو کے خیالات کا محور ہی روحی تھی۔اس نے روحی کے متعلق تمام کوائف جمع کیے۔راجو اپنی منزل بہت قریب دیکھتا تھا۔ اس نے دھیمے انداز میں اپنے والدین کی رائے جاننے کی کوشش کی۔وہ جانتا تھا کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ راجو جس سے بھی مشورہ کے انداز میں پوچھ لیتا تو اس کو روحی اور اس کی فیملی کے متعلق عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتے۔ایک طویل عرصہ تک راجو مختلف لوگوں سے پوچھتا رہا مگر کوئی ایک آدمی نہیں تھاجو روحی اور اس کے گھر والوں کے متعلق کوئی اچھا جملہ کہہ دیتا۔کیوں؟ ایک ہی وجہ تھی۔
ذات پات کا فرق۔
ہر ایک کو یہ تسلیم تھا کہ روحی ایک اچھی لڑکی ہے۔
سندر ہے۔
کم عمری میں اچھی تعلیم پائی ہے۔
مشرقی روایات کی امین ہے۔
گھر سے باہر کم ہی نکلتی ہے۔
سگھڑ ہے۔
دینی ذوق و شوق رکھتی ہے۔
مگر...................
اس مگر کے بعد جب روحی اور اس کی فیملی کے متعلق جو کچھ سنتا تھا اس کا دل کٹ کر رہ جاتا تھا۔
لوگوں کے عجب خیالات و باتیں تھیں۔ ارے! وہ تو کوئی خاندانی لوگ تھوڑی ہیں۔ اپنے آپ کو کیوں بے عزت کرانا چاہتے ہو۔
دنیا کی لڑکیاں پڑی ہیں کوئی خاندانی لڑکی کی بات کرو یار راجو۔
خاندانی آدمی کو خاندانی عورت کے ساتھ شادی کرنی چاہیے۔آخر تمہارا یک سٹیٹس ہے جی!باپ دادے کا نام کیوں رسوا کرنا چاہتے ہو؟ ۔
اس قسم کے سوالات نے راجو کا جینا حرام کردیا تھا مگر وہ کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ اس نے اپنی ماں سے دو ٹوک کہہ دیا تھا کہ روحی کے متعلق سوچا جائے۔
را جوکی ماں نے جب روحی کو دیکھا تو اس کا دل مطمئن ہوا،اطمینانِ دل میں راجو کا خیال تھا۔ ورنہ راجو کی ماں بھی ایک روایتی عورت تھی ، وہ کب .............روحی کو تسلیم کرتی..... کیوں؟ اس کیوں کے پیچھے کافی سارے سوالات تھے۔
یہ خاندان اور بے خاندان اور ذات پات کا چکر راجو کے سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتا کیا ہم ہندو ہیں جو ذات پات اور اعلیٰ ادنیٰ کی بات کرتے ہیں۔اگر نہیں تو پھر ہم نے یہ کہاں سے سیکھا ہے۔
کیا دین محمدی ۖ کی یہی تعلیمات ہیں؟ نہیں تو....پھر یہ کیا چکر ہے کہ بذعم خویش دینداراور شریف لوگ ذات پات کو اتنا مسئلہ کیوں بناتے ہیں۔
کیا یہ دین سے دوری نہیں، یہ تو جہالت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
جدید جہالت.........۔
یہ شین یشکن کا قضیہ کیا ہے؟۔
ڈوم کمین کوئی اور مخلوق ہیںکیا؟۔
پھر سید اور غیر سید کا جھنجھٹ...۔
مالکانہ اور غیر مالکانہ کاتصور......۔
اعلیٰ خاندان اور گٹھیا خاندان کے بکھیڑے......۔
غریب اور امیر کا جھگڑا .....چہ معنی دارد......۔
اپنے اور غیر کا جاہلانہ خیال اور روایتی باتیں.......۔
کیا شین ا ور یشکن نے اپنے لیے کوئی مخصوص سند اللہ سے لے کر آئے ہیں؟۔یا انہیں کوئی اعزازی پروانہ ملا ہے؟۔نہیں تو پھر یہ نام نہاد تفریق اور ذلالت پر مبنی بکاؤ خیالات کیوں......؟ ۔
اُف!!! یا خالقِ ارض وسماء !
ان باتوں نے راجو کو بے کل و بے دل کردیا تھا مگر کیا وہ ان بکھیڑوں میں الجھنا چاہتا تھا۔ ہرگز نہیں۔
راجو نے اپنے احباب اور دوستوں کو بتانا شروع کردیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا جو اس کے ہر کام میں معاونت کرے گی...............۔
ہر کام میں معاونت...............۔
کیسی معاونت..............؟۔
راجو کا ایک لنگوٹیا یار تھا۔وہ بڑا ادبی ذوق رکھتا تھا۔ پڑھت لکھت اس کا مشغلہ تھا۔
ایک دن راجو سے کہنے لگا...........۔
یار راجو ! ایک بات سمجھ ہی نہیں آرہی ہے۔ایک تو تمہیں شادی کا فوبیا ہوچکا ہے۔
دوسرا آپ شادی بھی گاؤں سے کریں گے۔
پھر تمہارے خیالات میں جو '' بیوی '' سما گئی ہے وہ حسین بھی ہوگی شریف بھی۔
پڑھی لکھی بھی ہوگی اور پھر آپ کے امور میں معاونت بھی کرے گی؟ ۔
یار کیا وہ بھی کالم لکھے گی یا پھر آپ کے کالم کمپوز کرے گی۔
ان کی پروف ریڈنگ کرے گی۔
فیس بک میں چیٹنگ کرے گی اور انٹرنیٹ سے کالم ڈاؤن لوڈ کرے گی۔
آپ کی طرح اخبارات اور کتابوںکی رسیا ہوگی۔
کیا وہ بھی سعادت حسن منٹو کے فحش افسانے پڑھے گی اورشیخ زکریا کی مقدس آپ بیتی بھی۔
شورش کاشمیری کی'' اس بازار میں'' بھی پڑھے گی اورشبیر احمد عثمانی کی تفسیر عثمانی بھی۔
رات تین بجے تک آپ کے ساتھ جاگے گی۔
آپ کی تحریروں پر تبصرہ کرے گی۔
آپ کے خیالات سے اختلاف کرے گی۔
عربی اناشید بھی سنے گی اور شینا کلام بھی......۔
کہیں وہ بھی تو بانو قدسیہ کی طرح ''راجہ گلگت '' تو نہیں لکھے گ گی؟۔
یا پھرکوئی اور معاونت............................؟؟۔
راجو جوش میں بانہیں کھولتا۔ قہقہہ لگاتا اور کہتا ہاں ہاں یہی سب کچھ کرے گی۔ پھر وہ کہتا ، ایک تو آپ اپنے والدین کا رونا روتے ہو، پھر آپ کے ہاں لڑکیوں کی تعلیم پر بھی قدغن ہے اور پھر یہ سب کچھ.................۔
مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا ۔
کہی کسی شہری لڑکی کو تو نہیں پٹایا ہے؟۔
یہ سب کچھ تو ایک شہری لڑکی کرسکتی ہے جس نے کسی بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم پائی ہو۔
راجو کہتا ۔ یار بات یہ نہیں ۔
بس اللہ نے ایسا انتظام کر لیا ہے شایداللہ دلوں کے ارمان پورے کرنا چاہتا ہے۔ بھائی اللہ کی چاہت کا کیا کہنا.........۔
اب راتوں کو جب پڑھت لکھت سے فارغ ہوکر راجو بستر پر لیٹتا تو روحی ایک دم سے سامنے آجاتی۔ راجو اس سے ہزاروں راز و نیاز کی باتیں کرتا، تعلیم کے متعلق پوچھتا، زیادہ محنت و لگن سے پڑھنے کی تلقین کرتا۔اپنے خیالات اور منصوبوں سے اس سے باخبررکھتا،شادی کا دلربا ذکر چھیڑتا، شادی کے بعد ہنی مون کی کہانی تو راجو کی دلچسپ کہانی ہوتی۔راجو ہنی مون کے موقع پر پورے ملک گھومنا پھرنا چاہتا تھا۔گھوم پھر کرایک کتاب بھی لکھنا چاہتا تھا۔اس نے تمام اہم مقامات سیلکٹ کر رکھے تھے۔ دیہاتوں اور شہروں میں جہاں جہاں جانا تھا اپنے دوستوں کو اطلاع کر رکھا تھا کہ شادی کے بعد آپ کے پاس اتناوقت ٹھہریں گے۔یہی خیالات راجو کے لیے دلچسپی کے باعث ہوتی۔ بظاہر اس کی آنکھیں بند ہوتی، مگر وہ جاگا ہوتا، وہ خیالات کی بے اب و گیاہ وادیوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہوتا اور ادھرمسجد سے مؤذن ''اللہ اکبر'' کی صدا دیتا اور آخر میں کہتا کہ ''الصلوة خیرمن النوم'' تو راجو طوعا و کرھاً اٹھتا، وضو بناتا اور نماز فجر کی ادائیگی میں لگ جاتا۔وہ جانتا تھا کہ رات بھر ایک منٹ نہیں سو سکا ہے۔ راجو فیصلہ نہیں کرپار ہا تھا کہ نیند زیادہ قیمتی ہے یا وہ حسین خیالات۔
راجو نے تخیلاتی طور پر تیاریاں مکمل کی تھی۔ وہ تو اس بہار میں روحی کا رشتہ مانگنے جارہا تھا۔اپنے والدین کو راضی کرنا تھا۔ وہ اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھا۔راجو جب گاؤ ں آیا تو روحی کے گھر خصوصی ملنے گیا تھا،اس کی ماں نے پھر سے اس کی خوب خاطر مدارت کی تھی۔اس کی نظریں روحی کو دیکھ رہی تھی مگر وہ نہیں تھی۔راجو نے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو اپنی بہنوں اور سہلیوں کے ساتھ کھیتوں میں مکئی کاٹ رہی ہے۔
مکئی...۔
ہری بھری مکئی،سنہری رنگت کے بھوٹے۔
راجو اس کی ماں کے ساتھ مکئی کے کھیتوں میں پہنچا، جہاں روحی اور اس کی سہلیاں گیت گاتے کام کاج میں مصروف تھیں۔
پریمی گیت۔
محبت بھرے نغمے۔
جادوائی راگ...............
وہ دیر تک مکئی کے کھیتوں میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔
وہ تھوڑی دیر بعد جانے کا کہتا مگر اسکی ماں اصرارکررہی تھی کہ آج ان کے پاس ہی ٹھہرے۔
شام کے دھندلکوں میں راجو کو مکئی کے بھٹوں سے محظوظ کیا گیا۔
روحی مکئی کا سنہرا ،سینکا ہوا بھٹا جب راجو کی طرف بڑھاتی تو اس کی سوندھی سوندھی خوشبو سے ساراصحن زردِزعفران بن جاتا۔
راجو مکئی کے بھٹوں کی تعریف کیے جارہا تھا۔
ان کا ذائقہ بے حد لذیذ اور شریں تھا۔
یہ وہ بھٹے تھے جن کے بیج روحی نے بوئے تھے، نلائی کی تھی، پانی دی تھی، پھر یہ پودے بڑے ہوگئے تھے۔
اب و ہ خود آگ میں سینک کر اس سے کھلا رہی تھی......۔
روحی کے ہاتھ سے آڑوو، خوبانی، ہرمت، آلوچے اور انجیر...........کھاناکا الگ ہی مزہ تھا۔
وہ بھی تو پورے خلوص کے ساتھ کھلا رہی تھی نا...............۔
موسم بہار میںجب اپنے آنگن میں لگے خوبانیوں کے پیڑ سے اس نے ہلکا سا سنہرا رنگ لگا ہوا خوبانیاں راجو کی کھلائی تھی اور اپنے نازک ہاتھوں اور کبھی دانتوںسے گٹھلیاں توڑ توڑ کر اس سے کھلائی تھی تو......... ۔
خوبانیاں اپنی رنگت کے ساتھ ذائقے میں بھی لذید تھیں۔
دَہن میں گھل جاتی تو خالص شہداور گلاب جامن کا مزہ دیتی۔
اس کے آنگن میں خوبانیوں کے کئی پیڑ تھے۔
ہر پیڑکی خوبانیوں کا ذائقہ مختلف۔
پھر گٹھلیوں کے اندر نرم اور کچے بیج اپنے ذائقے میں غذر اور ہنزہ کے کاغذی باداموں کو بھی مات کرد یتے تھے۔
روحی کی طرح اس کے آنگن کی سرخ سرخ اور سنہری خوبانیاں بھی اپنی رنگت اور خوبصورتی میں ہنزہ کی دوشیزاؤں اور غذر کی کنواریوں کی طرح صبیح تھیں۔
یہ خوبانیاں داریل کی حیادار باکروں کی طرح گونگھٹ کے آوٹ سے جھانکتی نظرآتی تھیں۔
روحی بھی تو اس کا جُھوٹا کھا کرشاداں وفرحاں ہوجاتی۔اور فخریہ کہتی کی میں کسی کا جُھوٹا نہیں کھاتی مگر....... وہ جب گائے کا دودھ نکال رہی تھی تو بے حد حسین لگتی۔چھوٹے چھوٹے نرم و ملائم ہاتھ جب گائے کے تھنوں کو چھو لیتے تو راجو کے لیے یہ منظر بڑا دلکش ہوتا۔وہی دودھ تو گلاس بھر کر اس نے راجو کو پلایا تھا۔جب وہ بکری کا دودھ نکال رہی تھی تو راجو نے کہا کہ میں نکالتا ہوں تو اس نے طنزیہ کہا تھا کہ تم سے نکلنے والا نہیں۔تمہارے ہاتھ تو چار کلو چاول کا تھیلہ اٹھا کر بازار سے گھر لانے تک پھول جاتے ہیں تو کہاں بکری سے دودھ نکالنے والے......مرد کے ہاتھوں میں اتنی ملائمیت بھی ٹھیک نہیں، آہنی ہاتھ ہونے چاہیے۔یہ کہہ کر وہ اپنی روایتی مسکراہٹ لیے راجو کے تاثرات جاننا چاہتی تھی مگر.......وہ ہنس کرٹال دیا۔
روحی اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھی ۔اس نے روحی کی تمام کتابوں کو دیکھا تھا۔
اس کی کاپیاں بھی غور سے دیکھا تھا۔
اور اپناآٹوگراف بھی ثبت کردیا تھا ۔
.... --آٹو گراف کے الفاظ تو روحی کو بڑا عرصہ بعد بھی زبانی یاد تھے- -...
وہ بڑا خوش تھا۔لیکن اچانک ایک بات نے راجو کو بے کل کردیا۔روحی کی ماں نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کی روحی کی نسبت فلاں کے ساتھ کردی گئی ہے۔ میں راضی نہیں ہوں نہ ہی روحی ۔بس اس کے باپ اور برادری کا کارنامہ ہے۔ ان کی انا ہے۔یہ باتیں اس کے دل پر پہاڑ بن کر گِر رہی تھی۔خون آشام پہاڑ، نانگا پر بت سے بھی زیادہ خون آشام۔
راجو کو اپنا تاج محل گرتا دکھائی دے رہا تھا جہاں اس نے روحی کو رکھنا تھا۔
وہ محبت کی نشانی۔ کیا محبت میں ناکامی لازمی ہے۔
محبت کو زوال ہے، محبت میں نہ ملنا ہی کامیابی ہے................ اس کے دل میں ہزاروں خیالات آئے۔
راجو نے اپنے آپ کو سنبھالا۔وہ مزیدجانناچاہتا تھا۔ ا س نے غور سے روحی کے تاثرات کا جائزہ لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس میں اس کی مرضی شامل ہے کہ نہیں۔راجو کو روحی کی جس چیز نے بے قرار رکھا تھا وہ اس کی ظاہری شکل و صورت سے زیادہ اس کا حزن و ملال تھا جس سے راجو نے بھانپ لیا تھا۔ وہ کربھی کیا سکتا تھا۔دیہاتوں میں کسی کی نسبت کسی کے ساتھ کی جائے یا کسی کا رشتہ مانگا جائے اور وہاں کوئی ٹانگ اڑائے تو نوبت لڑائی جھگڑا اور قتل وغارت تک پہنچتی ہے۔نسبتیں طے کرنے میں لڑکیوں کی مرضی کہاں شامل ہوتی ہے۔حور کو لنگور کے ساتھ باندھنا دیہاتوں میں معمول کی بات ہوتی ہے۔ اگر کوئی انکاری ہوجائے تو والدین اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔انہیں اپنی اولاد کا مستقبل سے زیادہ اپنی نام نہاد غیرت عزیز ہوتی ہے۔ وہ برادری میں ناک کے کٹ جانے کے خوف سے غلط سے غلط فیصلہ کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ابھی تک تو باقاعدہ رشتہ طے نہیں ہوا تھا، بس زبانی کلامی باتیں تھیں۔راجو یہ سب سن کر اور دیکھ کر وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا مگر وہ تو بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔تب اس کو قرآن کی آیت فصبر جمیل یاد آرہی تھی۔
جب روحی تعلیم کے بالکل آخری مراحل میں تھی تو لنگور کے ساتھ باقاعدہ اس کی نسبت طے ہوئی۔ اس نے رودھوکر اپنا برا حال کردیا۔ سر پر مٹی ڈال دی مگر اس کی کون سنتا۔ا س نے ہر حربہ استعمال کی مگر ............کچھ نہ بن پڑا۔روحی کی نسبت تو اس کی مرضی کے خلاف طے ہوگئی تھی مگر کیا یہ رشتہ جڑ سکے گا۔ کیا نکاح ہوگا۔ جب تک روحی نکاح کی اجازت نہیں دیتی دین محمدی ۖ میں تو نکاح نہیں ہوسکتا۔نکاح جیسے مقدس رشتے کو لوگ اپنی خواہشات کا بھینٹ کیوں چڑھاتے ہیں۔ یہ تو قبلِ ازوقت ہوگا......۔.انجام کیا ہوگا۔ اللہ سے خیر کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔کیوںکہ سب کچھ تو اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تقدیر کا لکھا ہوا کون روک سکتا ہے مگر دعاؤں سے تو تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔اس کو تو ''کن فیکون'' کی دیر ہے۔
راجو نے بڑی رنگیلی طبیعت پائی تھی۔راجو کے دوستوں میں کون تھا جو اس کی باتوں سے محظوظ نہ ہوتا۔وہ تو اپنی واہیات اور لغویات سے اپنے استادوں تک کو بھی کھلکھلانے پر مجبور کرتا۔وہ جب دوستوں کی محفل میں فحش لطیفے سنانے لگتا، کسی پر پھبتی کَستا،کسی کا تسمخر اُڑاتا تو محفل زردِز عفران بن جاتی۔لوگ اپنے مسائل بھول کر اس کے ساتھ ہنسی مزاق میں کھو جاتے۔راجو کے وہ خشک اور تبلیغی دوست جو معمولی سی باتوں پر بھی'' استغفراللہ اور لاحول و لاقوة'' پڑھتے تھے ، پڑھنا بھول جاتے۔ ''خواتین اور شادی'' اس کا محبوب مو ضوع تھا مگر..... جب اس نے روحی کی قسمت کامظلومانہ فیصلہ سنا تو اس کو اپنی سماعتوں پریقین نہیں آرہا تھا۔
اس کی سماعتیںاس کے ساتھ دینے سے قاصر تھیں۔
وہ دلبراشتہ ہوکروہاں سے نکلا تھا۔
اب اس کی کوئی منزل نہ تھی۔ نہ ہی کوئی سمت تھی۔
وہ بے نہج بے آب و گیا وادیوں میں گھوم رہاتھا۔
اس کی رنگینیاں اور شوخیاں ماند پڑھ گئی تھی۔
وہ بظاہر شادی کا خواہش مند ضرور تھا مگر کوئی اس کو نہیں بھاتی۔
اس نے لڑکی کا چناؤ اپنے والدین پر چھوڑا تھا۔ اس پر کیا بیت رہی تھا اس سے کوئی آشنا نہ تھا یہاں تک کہ روحی بھی۔
زمین اس پر تنگ ہورہی تھی۔
آسمان نالاں...۔
اس کے دل میں ایک ارمان تھا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح روحی کو پتہ چل جائے کہ'' میں انہیں کٹ کر چاہتا ہوں، محبت کرتا ہوں،اس سے لاشعوری میں دل دے بیٹھا ہوں''۔یہ ارمان لیے وہ ایک طویل عرصہ گھومتا رہا۔ وہ بلاواسطہ روحی سے کہہ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی محبت کے ساتھ اس کا رعب بھی تھا۔اس سے خوف تھا کہ کہیں روحی کا ردعمل الٹا نہ ہو۔وہ کسی کے ذریعے ان تک پیغام پہنچانا چاہتا تھا مگر طویل سوچ بچار کے بعد بھی وہ ایسا نہ کرسکا۔کیوں؟ اس لیے کہ دیہاتوں میں ایسی باتیں معیوب سمجھی جاتی ہیں اور مضر ہوتی ہیں۔
یہ نیک جذبے اور انمول رشتے دیہاتیوں کی سمجھ سے بالاترہوتے ہیں۔
لوگ بات سے بتنگڑ بنانے میں دیر نہیں کرتے۔
اس نے کئی لوگ سیلکٹ کیے کہ ان کے ذریعے روحی تک اصل بات پہنچائے مگر ناکامی...............۔
اس کو یقین تھا کہ کسی نہ کسی طرح اسکو معلوم ہوجائے گا۔ بالآخر ایک طویل مدت کے بعد ایک ایسامو قع ہاتھ آیاکہ راجو نے ڈرتے ڈرتے روحی سے ایک مختصر سا جملہ کہہ دیا۔
'' تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو''۔
روحی کے رسپونس نے اس کو مبہوت کردیاتھا۔
اس نے کہا کہ
'' کب سے'' ۔
پھر کیا تھا کہ درد دل سارا اس کے سامنے انڈیل دیا۔
روحی سنتی گئی ،راجو سناتا گیا۔
داستان محبت ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔
راتوں کے رات بیت گئے۔
روحی کا کوئی خاص رسپونس نہ تھا۔ وہ سنتی جاتی تھی اور کبھی کبھار کچھ سوالات بھی کرتی۔
راجو اس کے قریب ہونا چاہتا تھا مگر وہ تو سانپ کی طرح پھن نکال لیتی۔وہ ایک دم نرم ہوجاتی اور پھر سخت کہ! اُف اللہ۔
اس نے اپنی محبت کو ہزار زاویوں سے سمجھانا چاہا۔
اس کی منتیں کی۔
اس کے پیر پکڑے۔
اس کے سامنے ہاتھ جوڑے مگر وہ خاموش تھی۔
خاموشی کا بت ٹوٹا نہیں تھا۔
اس نے اس کے ہاتھ چومے۔
دنیا جہاں کی قسمیں کھائی،اپنا حال دل سنایا ۔
مگر.............
راجو کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے اس کے پاؤں دبوچ لیے اور قسم کھایا کہ اب میں آپ کے پاؤں چوم کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ سے دور ہو جاؤنگا۔ روحی اس کو روک رہی تھی مگر اس نے کہاں رکنا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا پاؤں پکڑا۔ وہ چھڑانا چاہتی تھی مگر اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط تھی۔
اس نے ایک لمبا ساسانس لیا اور ایک سرد آہ بھری.....۔
وہ غصے سے لبریز تھا۔
اس کی انکھوں سے دو آ نسو ٹپکے۔یعنی اس کا غصہ سیل رواں کی طرح بہہ گیا۔
روہانسی آواز میں اس نے روحی سے کچھ کہا اور پھر دیوانہ وار اس کے پاؤں چومے۔
میلے کُچیلے پاؤں............
کیوں؟وہ اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتا تھا۔
کافی دیر تک چومنے کے بعد وہ یہ کہہ اٹھا کہ خدا تجھے بھی میری طرح بیقرار کردے اگر تو مجھے رسوا کرنا چاہتی ہے تو تیرا حا ل بھی میرا جیسا ہو۔یعنی خدا تجھے بھی کسی طوفان سے آشنا کردے۔
و ہ بلبلا اٹھی۔
وہ راجو کی منتیں کرنے لگی کہ خدا کے لیے بددعائی نہ دے دیں۔
یہ بددعائی تھی یا دعا مگر راجو سب کچھ لگی لپٹائی بغیر کہہ کر وہاں سے چل دیا۔
وہ ایک آسودہ جگہ پر لیٹا اور پھوٹ پھوٹ کر معصوم بچوں کی طرح رونے لگا۔
جب رو کر دل کا بھڑاس نکالا تو آنکھیں موند لیں ۔
پھر سے روحی کے خیالات میں کھو گیا۔
اب روحی اپنے حنائی ہاتھوں سے اس کے گال تھپکاررہی تھی۔
نرم گرم گال..........
اس کے بالوں پراپنے حنائی ہاتھوں سے کنگھی کر رہی تھی ۔
اسے منانے کی کوشش کررہی تھی ۔
یکایک اس نے آنکھیں کھول دی تو وہاں کوئی نہیں تھا بس روحی کا ہیولا اور تصور کے سوا۔
اب وہ مطئمن بھی تھابے قرار بھی۔
راجو اس کا رویہ دیکھ کر حددرجہ مایوس ہوا تھا۔اب ا ن دونوں کے راستے کافی دور ہوچکے تھے۔ مگر دنیا میں کچھ راستے دور ہوکر بھی قریب ہوجاتے ہیں یعنی ایک لمبا موڑ کاٹ کر پھر مل جاتے ہیں کسی چوراہے میں۔راجو تما م کشتیاں جلا چکا تھا۔راستے کے سارے نشانات مٹا چکا تھا۔ یاد ماضی اس کے لئے عذاب سے کم نہ تھا ...... مگر اب آگ تو روحی کے دل میں لگی تھی نہ بجھنے والی آگ۔اور ایسی آگ جس کی تشبیہ دنیا کی آگ سے دنیا ممکن نہیں۔جس نے اس کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔ اس کی نیندیں حرام ہوچکی تھی۔ وہ کئی راتیں سو نہیں سکی تھی۔ زندگی میں کوئی پہلی بار ملا تھا جو اس کو خلوص دل سے چاہتا تھا۔ اس نے کئی بار اس سے رابطہ کرنے کوشش کی مگر راجو نے انتہائی سخت لہجے میں بات کی۔
وہ اس کو لتھاڑنے لگا۔
اس کو فراڈی اور مغرورکہہ کر پکارتا مگر اس نے ایک لفظ زبان سے نہیں نکالا۔
وہ راجو کو کھونا نہیں چاہتی تھی اس لیے اس کی کڑوی کسیلی باتوں کا برا نہیں مناتی۔
...............بالآخر راجو کا دل پسیج گیا۔
وہ دونوں تخیل کی دنیا میں ہزاروں باتیں کرنے لگے۔
کون سی بات تھی جو انہوں نے بذریعہ تخیل نہیں کی۔
اپنے سارے درد ، دکھ اور جذبات سنا ڈالے۔
وہ دونوں دھاڑے مار مار کر رونا چاہتے تھے مگر نہیں روتے۔
روحی نے ایک بار ، جی صرف ایک بار اس سے کہا تھا کہ
'' I LOVE YOU''۔
راجو نے بارہا کوشش کی کہ وہ دوبارہ کہے مگر اس نے صاف انکار کردیا تھاکہ پہلی بار جو کہا ہے وہ دل سے کہا ہے۔دوسری بار یا بار بار کہنے سے اس کی لذت، مٹھاس اور شرینی ختم ہوجائے گی۔ یہ کہنا آسان ہے مگر نبھانا مشکل۔ روحی اور راجو تخیل کی دنیا میں روزانہ ڈھیر ساری باتیں کرتے۔ایک دوسروں کو چومتے، محبت کی قسمیں کھاتے۔ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ان دونوں کے رابطے کا ایک ہی ذریعہ تھا یعنی تخیل۔سب سوجاتے تو وہ تخیل کے ساتھ جاگ جاتے۔ جس دن تخیل کا رشتہ ٹوٹ گیااس دن راجو اور روحی کے لیے قیامت کا دن تھا۔
ایک دفعہ راجو نے اس سے کہاتھا کہ
'' ایکkissکروں؟ ''
''روحی نے ا ثبات میں جواب دیا'۔
اس نے پوچھا کہ کہاں؟
روحی نے کہا کہ
'' آپ کو کون منع کرسکتا ہے یا روک سکتا ہے، جہاں کرنا ہے کرو، آپ کی مرضی ہے''۔
''میں سر تا پا آپ کی ہوں''۔
پھر کیا تھا کہ تخیل کے ذریعے ایک عظیم محبت بھری kissکردی گئی۔راجو نے حقیقت کی دنیا میں اس کے پاؤں میں چومے تھے اور اب وہ بھی تخیل کی دنیا میں اس کے پاؤں چومنا چاہتی تھی مگر راجو مان کر دینے کو تیار نہیں تھا مگر اس نے بذریعہ تخیل اس کے پاؤں میں ایک جاندار کِس کی۔
ایک دن راجو نے روحی سے پوچھا کہ مجھے ایساکوئی نام بتاؤ کہ آئندہ میں اس نام سے آپ کو پکاروں۔ تو روحی نے فوراً '' روحی'' بتادیا ۔راجو نے کہا کہ کیا مطلب؟ روحی نے کہا کہ تم جب بھی مجھے پکارو گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ '' اے میری جان،اے میری روح'' ۔جو راجو کو بہت پسند آیا۔ جب اپنے لیے نام تجویز کرنے کو کہا تو پکار اٹھی'' راجو'' یعنی تو ہی میرا راجہ ہے۔ میرا راجہ کوئی نہیں بن سکتا۔تُو وہ راجہ ہے جو میرے دل پر حکومت کررہا ہے۔اگر میرے جسم پر کسی کی حکومت ہو بھی گئی تو، میرے دل و دماغ ، میرے خیال و سوچ اور میرے تصور و تخیل کے راجہ تم ہی ہو۔تم تو واقعی اس راجو سے بے حد حسین ہو جو جانور فلم میں ہے''۔
ویسے حقیقت یہ تھی کہ روحی نہ اتنی خوبصورت تھی نہ ہی بدصورت،عام لڑکیوں کی طرح ایک کمزوز پتلی کمر اور نازک بدن والی لڑکی تھی۔ رنگت سانولی، بے حد شرمیلی،نہ چنچل،نہ دل لبھانے والی کوئی ادا، ایک خاموش طبع لڑکی تھی،مگر راجو کے لیے تو ملکہ حسن تھی، دنیاوی حور تھی۔ لیلیٰ کون سی خوبصورت تھی۔ وہ تو لیلیٰ ہی تھی یعنی کالی کلوٹی مگر مجنون کی محبوبہ۔ تب تو ناز سے حاکم وقت سے لیلیٰ نے کہا تھا کہ مجھے اپنی آنکھ سے نہیں مجنون کی آنکھ سے دیکھو تو میری حقیقت کھل جائے گی۔روحی جیسا خوبصورت اور بھولا بھالا چہرہ راجو نے آج تک نہیں دیکھا تھا اگر دیکھا بھی تھا تو اس کو کب پسند آیا تھا۔وہ تو اس کے لیے گلگت کے حسن صبیح کا ایک حسین نمونہ تھی،فیری میڈو اور دیوسائی میں بسنے والی حسین پریوں سے بھی زیادہ حسین تھی بلکہ یہ پریاں تو اس کی پرچھائیوں تک بھی نہیں پہونچتی تھی،وہ سراپا پری پیکر تھی۔
وہ دونوں دیر تک تخیل میں باتیںکرتے رہتے۔ روحی ہلکی آواز میں بات کرتی تو راجو کو سخت غصہ آجاتا ۔ وہ اسے جھڑکتا، آواز نکالنے کا کہتا۔ایک دفعہ راجو نے اصرار کیا کہ تمہیں میری کونسی عادتیں اچھی نہیں لگتی؟۔ روحی نے منع کیا ۔و ہ نہیں بتانا چاہتی تھی مگر اس کا اصرا ر بڑھتا رہا تو اس نے کہا تھا'' سب ٹھیک ہے مگر تم باتوں باتوں میں گالیاں بہت نکالتے ہو۔اس سے مجھے کوئی تکلیف اور شکایت نہیں مگر آپ کا اول فول بکنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔اس سے آپ کی شخصیت بھی تو متاثر ہورہی ہے''۔ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا کہ
آپ اپنی بنی بنائی شخصیت کو کیوں مجروح کرنا چاہتے ہو؟
روحی کے کچھ الفاظ ، کچھ جملے بھی تو راجو کو اچھے نہیں لگتے۔جب وہ کچھ پوچھتا یا روحی کوکرنے کا کہتا تو وہ آہستہ سے کہتی کہ
''چَھکم''
یعنی ''دیکھ لونگی'' توراجو غضب ناک ہوجاتا۔کہتا ہاں یا نا ں میں جواب دو۔
یہ''چَھکم چَھکم '' کیا ہے۔
اور جب روحی باتوں باتوں میں
'' نَھے یا''
کہتی یعنی ''جی نہیں'' تو راجو جھوم جاتا۔
اس '' نَھے یا '' میں کتنی لذت تھی راجو ہی محسوس کر سکتا تھا۔
روحی کے دو اور لفظوں نے بھی تو راجو کو پاگل بنا رکھا تھا کہ
''آواہ را''، ''مُتی را''
یعنی ''جی ہاں بولیں''، ''اور بولیں''۔
تخیل ان دونوں کا واحد آلہ تھا،جب وہ میسر نہیں آتا تو دونوں تڑپ اُٹھتے۔شاید تخیل سے مقدس ان کے لئے بے ثبات دنیا میں کوئی چیز نہ تھی۔
........راجو کو روحی کی جس چیزنے کبیدہ خاطر بنا رکھا تھا وہ اس کی ظاہری شکل و صوت سے زیادہ اس کا حزن و ملال اور دکھ درد تھا جس سے راجو پہلی فرصت میں بھا نپ گیا تھا۔راجو کی محبت میں وہ اندھی ہوچکی تھی۔
اس کا جسم گھلنے لگا تھا۔
لمبے لمبے سیاہ زلف عنبریں جو کولہوں تک لٹکتے تھے جھڑنے لگے تھے۔
راجو تو ان زُلف عنبریں کا سودائی ہوچکا تھا۔
صبیح چہرے پر کیل مہاسوں کے نشانات پڑ گئے تھے۔
رو رو کے اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے۔
شریں زباں سے بات کرنی والی پری پیکر کی زبان سے اب تلخ الفاظ نکلتے۔
وہ سب کو کُوستی۔
منہ پھٹ بن گئی تھی۔
زبان سے زہر اگلنے لگی تھی۔
کھانا اتنا کھاتی کہ مر نہ جائے۔
روزانہ کپڑے بدلنے والی اب میلے کپڑوں میں رہا کرتی ۔
سرد مزاجی اور بے التفاتی اب اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی۔
اس کے آنگن کے اردگرد پورا علاقہ سبز پوش تھا۔
بالکل سامنے پہاڑ اپنی تما م تر رعنائیوںا و ررعب کے ساتھ ایستادہ تھے۔
آبشاروں کا پانی بہہ رہا تھا۔ٹھنڈا میٹھا پانی....
دریائے گلگت غل غپاڑے کرتا ہوا دریائے سندھ میں گر رہا تھا۔
اس کے اردگرد سبز درخت تھے۔
ان کی بھینی بھینی خوشبو تھی۔
خوبصورت پرندے ان خوشنما درختوں میں طرب زا چہچہے بلند کررہے تھے۔
اور ایک فرحت انگیز ساز پیدا ہوجاتا تھا۔
مگر روحی کے لیے یہ سب کچھ بے ثبات تھا۔
وہ ان میں دلچسپی لینا چاہتی تھی مگر اس کا دل تو کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔
اب اس کوگلگت بلتستان کے سبز پوش درخت اچھے نہیں لگتے تھے۔
قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں پھولوں اور پھلوں سے لدی ڈالیاںاس کے دل میں لطف و سرور پیدا نہیں کررہی تھیں۔
ہمالیائی سلسلوں کے گلاب اور کنول کے پھولوں کی نگہتیں اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتیں تھیں۔
بالاور دیس کے آبشاروں، ندی نالوں اور شریں چشموں کا نیلا اور مصفا پانی بھی اس کے دل مضطر میں کوئی کشش پیدا نہیںکرسکتا تھا۔
دیامر کے گھنے جنگلات اور '' ہپرِنگ'' کی مہیب صورت بھی تو اس کے لیے کوئی معنی خیز نہیں تھی اور نہ ہی ''کھلمئی '' کا نظر فریب منظر۔
وہ بذریعہ تخیل سب کچھ راجو سے کہہ دیتی۔ اب ان دونوں میں کوئی پردہ نہ رہا تھا، تخیل ایک ایسا رشتہ تھا جس نے راجو اور روحی کو بہت قریب کردیا تھا بلکہ ملا دیا تھا۔وہ دونوں تخیل کی آس میںجی رہے تھے۔روحی نے اس سے کہا تھا کہ
'' میں سو نہیں سکتی''۔
'' نیند مجھ سے کوسوں دور ہے''۔
''بظاہر آنکھیں بند کیے ہوئے آپ کے خیالوں میںکھو جاتی ہوں''۔
'' آپ کی حسین شبیہ''
''میںجب بستر پر لیٹتی ہوں تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ میں تکان سے چور ہوں، سورہی ہے''۔
''میں بستر پر بے حس و حرکت ایک مرمریں مجسمہ کی طرح ہمہ وقت پڑی رہتی ہوں''۔
''مجھے زندگی سے گھن آتی ہے''۔
''ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ہوں''۔
''پھنڈر کی ٹروٹ مچھلیاں بھی جب پانی سے نکالی جاتی ہیں تومجھ سے کم تڑپتی ہونگیں''۔
'' میں نے مچھلیوں کو بے آب تڑپتے دیکھا ہے مگر خود کو ان سے بھی مظلوم سمجھتی ہوں''۔
''آنکھیں موند کر سپنے دیکھنے لگتی ہوں''۔
''آپ کا سایہ اور چھاؤں کے ٹھنڈے میٹھے سپنے''.....
''رات کے آخری پہر جب جاگ جاتی ہوں تو نماز تہجد سے پہلے نیلگوں آسمان میں ستارے جھلملارہے ہوتے ہیں، ان ستاروں کی تھرتھرائی ہوئی لامتناہی دنیا میں مجھے اپنے راجو کا تلاش رہتا ہے''۔
''شہاب ثاقب کا ٹوٹ ٹوٹ کر ہواؤں کے دوش بکھرنے کا منظر مجھ سے دیکھا نہیں جاتا''۔
'' راجو! کہیں تم تو وہ شہاب ثاقب نہیں ہو؟''
'' لختِ جگر! تمہار ا وجود بھی تو ''لخت لخت ''ہوچکا ہے''
'' موسم بہار اور گرماکی ان خوشگوار راتوں کو میری روح آوارہ بھٹک رہی ہوتی ہے،نانگا پربت کی بلندیوں سے ہوکر پامیر کے آخری سرے تک جاتی ہے۔واپسی پر نگر کے لذیذ ناشپاتیوں کی لطیف اور بھینی خوشبو اور بگروٹ کے یخ برف کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لیے، بھٹکتے بھٹکتے آپ کے پاس پہنچ جاتی ہے''۔
''نماز میں بھی تیرا خیال دامن گیر رہتا ہے''۔
''میری رنگینیاں اور دلفریبیاں ختم ہوگئی ہیں''۔
''دل مضطر ہے''۔
''عشرت کی جگہ عُسرت نے لی ہے''۔
''نہ مست شباب ہے نہ ہی شغلِ شراب''۔
''کشتی گرداب میں پھنسی ہے''۔
''میں ہوں''۔
''دریا کا بہاؤ ہے''۔
''موجیں ہیں''۔
''چنگھاڑتی موجیں''۔
''بھنور ہے''۔
''گرداب ہے''۔
''مگر جان جگر: غور سے سنو:میں اللہ کی رضا پر خوش ہوں''۔
''امتحان اور مصیبت کے میدان میں غوطہ لگائے بغیر اللہ کی خوشنودوی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے''۔
''مجھ سے شاید کوئی خطاء سرزد ہوئی ہے جس کی وجہ سے میں ابتلاء میں ہوں''۔
''اللہ مجھ سے روٹھ گیا ہے''۔
''اور روٹھے ہوئے خدا کو منانا کوئی آسان کام نہیں''۔
''اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف مصیبتوں سے آزماتا ہے''۔
''کبھی مال و متاع دے کر اور کبھی چھین کر''۔
''کبھی نقصان اولاد سے'' ۔
''کبھی کسی کی محبت چھین کر ''۔
''کبھی کسی کو محبت دے کر''۔
''دیکھو نا ......راجو!''
''تم میرے ہوکر بھی میرے نہیں''۔
''کیا یہ کوئی کم آزمائش ہے''؟۔
''اور پھر میری نسبت............................''
'' جو اِن حالات میںثابت قدم رہے''۔
''سجدہِ شکر بجا لائے''۔
'' عجز و انکساری سے خاک فرش پر جبیں رگڑے''۔
''کاتبِ تقدیر پر راضی برضا رہے''۔
''پھر اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے''۔
'' اس کی آہیں عرش تک پہنچتی ہیں''۔
''تب رب المغربین والمشرقین ''!
''اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دیتا ہے''۔
''تکالیف ، مصیبتیں،دکھ درد اور بلاخیز موجیں پاس نہیں آتیں''۔
'' اپنوں کی بے رعنائیاں اور غیروں کی ریشہ دوانیاں کچھ نہیں بگاڑتیں''۔
''وہی میری بھلائی سب سے بہتر سمجھتا ہے''۔
''وہی تو میری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ ہاں راجو ! تم سے بھی قریب، بہت قریب''''۔
'' آہ! اگر ایسا نہ کروں اور رب کی رضا پہ راضی نہ ہوجاؤں تو خدا جانے دیگر کن مصیبتوں میں مبتلا کردیا جاؤں''۔
راجو اس کی تقریر دلپذیر سن کر فرحاں و شاداں ہوتا اور پھر یک دم نالاں ...............۔
روحی کو اس پر بھی شکایت تھی کہ'' اس کی اماں اور ابا نے ایک ایسے مرد کے ساتھ اس کا رشتہ کیوں طے کیا جو اس کا ہم کفو نہیںتھا۔کیا ان کی مامتا نہیں جاگتی؟۔ اس کا بھیا،بہنیں،رشتہ دار اور عزیز و اقارب اس ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کرتے ہیں؟ بلکہ وہ تو اس کو مزید چڑھاتے تھے۔اس کا گھر ،اس کے در و دیوار، اس کی کیاریاں،درخت ، جانور،سہلیاں،کتابیںاور سب کچھ چلا چلا کر کیوں نہیں احتجاج کناں بنتے ہیں؟''۔
''ماما''.........!
'' آہ! ماما''
ماما کو ماما اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب ماں اور باپ کاسایہ یا شفقت اُٹھ جائے تو'' ماما'' کی ذمہ داریاںدُ ھری ہوجاتی ہیں۔دو دفعہ ماں سے ایک دفعہ ماما بن جاتا ہے مگر یہاں تو'' ماما''بھی آلہِ قتل یدِبیضا میں لیے پھر رہا تھا۔ آہ ! اس بیچاری کو کیا معلوم کہ زمانہ تو کسی کے دکھوں پر ہنس رہا ہوتا ہے۔چہ جائے کہ کسی کی مظلومیت پر آنسو بہائے اور تسلی کے دو بول بولے۔
اس کی نگاہیں ہمیشہ آسمان کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
او ر رب کے حضور التجا کررہی تھیں۔
وہ جانتی تھی کہ افراتفری کے اس دور میں کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا۔
سب کچھ تو خاموش تھا۔
اس کا گھر ، آنگن سنسان تھا۔
یہ بھی تو انسان کے دل کی طرح
سخت،
سیاہ،
بے رحم،
بے حس
اور نامہربان تھے۔
وہ یہ سب کچھ دیکھتی تھی، سب کی باتیں سنتی تھی۔وہ بے سُدھ اور بے خود تھی مگر سب پر کُڑھتی تھی۔ اور پھر اس کاراجو بھی تو بے بس اور بے برگ و نوا تھا۔
.............بظاہر روحی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی، اس کی سرمئی آنکھوں میں خوشیوں کے آنسو تیرتے رہتے مگر وہ ایک کرب میں مبتلا تھی، اس کا دل ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوچکا تھا،وہ ہر ملنے والے سے دل آویز مسکراہٹ لیے ملتی لیکن............. ایک دفعہ اس کی ایک سہیلی نے کہا تھا کہ تم کتنی خوش قسمت ہو کہ ہر لمحہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بیٹھتی ہو،تم اگر اس مسکراہٹ کے ساتھ جیو گی تو تم بوڑھی نہیں ہوسکتی.. ..وہ بھی کتنا نصیب والا ہوگا جس کو تمہاری مسکراہٹیں تھوک میں ملیں گی۔ روحی نے اس کا کوئی خاص رسپونس نہیں دیا مگر دل ہی دل میں کہا کہ تمہیں کیا پتہ میری بدقسمتی کا............روحی کو کوئی ہمیشہ ''بدقسمت '' کے نام سے بھی پکارتا۔جب راجو اسے پوچھتا کہ ''کیا تم میری کنول ہو، میری روح ہو، میری زندگی ہو؟ تو وہ کہتی۔ نہیں میں ''غم'' ہوں۔ ''مصیبت ''ہوں۔سب کے لیے ، تیری لیے بھی اورسب سے بڑھ کر'' بد قسمت '''' بدنصیب'' ہوں۔وہ خوش قسمتی اور بدقسمتی کے اس فلسفے میں الجھی ہوئی زندگی کے د ن پورے کررہی تھی۔
اس کے بہت سارے شوق تھے۔وہ سیدھی سادھی گھریلوی لڑکی تھی۔ اس سے مختلف قسم کے لذیذ کھانے پکانا،سنیریاں پرونا،کپڑے دھونا،گھر اور آنگن میں جھاڑو دینا،بالوں کی کنگھی کرنا،سرمہ لگانا،کپڑوں کو استری کرنا،بکریوں کوگھاس اور سبز پتے اور ٹہنیاں کھلانا،درختوں سے پھل توڑ کر اپنے چاہنے والوں کو کھلانا،گھریلوی اشیا ء قرینہ سے رکھنا اورسونے کی انگوٹھیاں پہننا ، افسانے اور ناول پڑھنا،کتب ورسائل کا مطالعہ کرنا اورقرآن کریم کی تلاوت کرنا بے حد اچھا لگتا تھا۔اعلیٰ درجے کے کالے برقعے اورسرخ کلر کے کپڑے بڑے شوق سے پہنتی تھی۔ یہ سب کچھ اب بھی چلتا تھامگر بد دلی اور بے ذوقی سے ۔ اس کو کالے چشمے پہننے کا حددرجہ شوق تھا۔اپنے اس شوق کی تکمیل کرنے میں قاصر تھی۔ اس نے راجو سے کہا تھا کہ'' پہن لونگی کسی وقت انشاء اللہ،سیاہ، با لکل سیاہ چشمے!!اب نہیں پہن سکتی۔ کیوںکہ زمانہ پہننے میں حائل ہے''۔ آہ! کتنا معصوم سا ارمان زمانے کے خوف کی وجہ سے پورا نہیں کرسکتی تھی۔
...............راجو کی محبت میں روز اضافہ ہوتا،گہری سی گہری ہوجاتی۔ اس کی شیفتگی اور وارفتگی میں کمی آنے کا نام نہیں لیتی۔ آہ!!! راجو کسی کو کیسے بتاتا کہ اس کی روحی(میری جان) سے کتنی محبت ہے۔وہ تو ایک دیوی تھی دیوی ،جس کی پوجا کی جا سکتی تھی۔ اس قدر پاکیزہ، مقدس اور معصوم........وہ تو چنبلی کا پھول تھی، لاکھوں میں ایک تھی، راجو کو پوری دھرتی میں اس جیسی ایک بھی لڑکی نہیں ملی تھی..... کبھی دیوانہ وار وہ روحی(میری جان) سے کہہ دیتا ۔''تم میری جان ہو، تم میری آمانت ہو،مجھے تم سے ابدی اور سرمدی محبت ہے، لازوال محبت ہے جس کو کھبی موت نہیں آسکتی، تم اپنا بہت خیال رکھنا، میر ی امانت میں خیانت نہ کرنا،میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں، کچھ بھی نہیں۔ ہم تم دور دور ضرور ہیں مگر بہت قریب۔'' یہ محبت کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں بظاہر دور ہوکربھی بہت قریب ہوتے ہیں۔یک جان دو قالب۔
..........جب راجو کی اپنی پاکیزہ او ر مقدس محبت کا خیال آتا تو اس کے آنسو امڈ آتے،گلے میں ہچکیاںتڑپنے لگتی،چہرہ ملول،دل بے زار، دنیا بے گانہ،سب کچھ تو اس کو کریہہ لگتا........ اس کے دل میں کس قد ر محبت تھی وہ تو راجو ، روحی اور ان کے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا نہ جان سکتا۔راجو اور روحی پرامید تھے۔ ان دونوں کاملن کسی نہ کسی دن ہونا تھا۔کیونکہ راجو اور روحی کی محبت گندے بدبودار اور غلیظ چھتیڑوں میں لپٹی ہوئی محبت نہ تھی،ان دونوں کی محبت خواہشات کی تکمیل کا نام نہ تھا۔اس محبت میں رائیکوٹ کے ''تتہ پانی ''سے نہائے ہوئے جسموں،مشک و عنبر سے رنگے ہوئے کپڑوں کی مہک اور گلاب و کنول کی خوشبو آتی تھی۔ راجو کا دل اس کی محبت کی گہرائیوں اور گیرائیوں میں غرق ہوچکا تھا۔
راجو کی زندگی میں عجب تبدیلیاں آگئی تھیں۔ وہ اکثر مضمحل اور افسردہ رہتا۔کئی کئی دن گھر میں اکیلا رہتا۔اب وہ جلوت سے خلوت کا شائق تھا۔ روحی کے چِھن جانے کا غم اس کے سپاٹ چہرے پر اس طرح چھایا ہوا تھا جس طرح نانگا پربت کی حسین چوٹی پر بادل کا ٹکڑا۔راجو کی دنیا اُجڑ گئی تھی۔
آہ!!!
28ہزار مربع میل پر مشتمل پوری دھرتی بقعہء نور بن گئی تھی۔
....فیری میڈو میں پریاں ناچ رہی تھیں۔
.... عطاء آباد میں کشتیاں جھوم رہی تھیں۔
....سدپارہ دمک رہا تھا۔
....راما کا حسن نکھر رہا تھا۔
....قرمنبر کی رعنائی میں اضافہ ہور ہا تھا۔
....خلتی جھیل کا نیلگوں پانی اپنی طرف متوجہ کررہا تھا۔
....لالو سر کی جھیل نوحہ کناں تھی۔
....نلتر میں گلزار سبز زار رقصاں تھے۔
....جلال آباد میں ثمر شریں سے جھکے ہوئے اشجار کی بہتات تھی۔
.....گیٹی داس میں چھوٹی چھوٹی نہریں اور آبشاریں جاری تھیں۔
.....جگلوٹ میں ٹھنڈے میٹھے پانیوں کی افراط تھی۔
.....سارگن گلگت کی دلفریب عمارتیں آرائشوں اور آسائش سے مزین تھیں۔
.....کوہستان کے کالے کالے پہاڑ ہرطرف جاذب نظر تھے۔
.....بلتستان کے ماخور اور غزال چوکڑیاں بھررہے تھے۔
وادیِ جنت نظیر کی صبحیں راحت زا تھیں،شامیں فرحت افزا۔ ہوائیں بابرکت تھیں، پانی صحت افزا۔زندگی آسودہ تھی۔دل مطمئن و مسرور تھے۔ جسم مخمور تھے۔آنکھیں شراب مستی میں مسحور تھیں......اب گلگت بلتستان کی ہرچیز حسین تھی۔
مگر ...............
راجو کے لیے یہ سب کچھ ایک فریب تھا۔دغا تھا۔مکر تھا۔سراب تھا۔چشم ِترتھی۔فصلِ گل کی رنگینیاں اور موسم برسات کی بہاریں اسے لطف نہیں دیتی تھیں۔اس کے دل و دماغ کو معطر نہیں کررہی تھیں۔
ہاں!!!
.....شنگریلا میں غنچے چٹخ رہے تھے۔
.....دیوسائی میںکلیاں مسکرا رہی تھیں ۔
.....مارتل گوہرآباد میںپھول کھلکھلا رہے تھے ۔
ہر ایک اپنی پسند کا پھول توڑ کر زندگی کا لطف اٹھا رہا تھا۔راجو بھی اپنی پسند کا پھول توڑنا چاہتا تھا۔اس کا خوشبو سونگھنا چاہتا تھا۔اپنی نازنیں آنکھوں سے لگانا چاہتا تھا مگر اس سے اس کا پھول چھین لیا گیا تھا۔ اگر وہ جانتا کہ اس کا پھول چھننے والا ہے تو وہ بروقت کوئی مناسب تدبیر کرتا مگر.......... اس نے کئی تدابیر کیں مگر الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ وہ چِلّانا چاہتا تھا۔ وہ ببانگ دہل کہنا چاہتا تھا کہ یہ خوبصورت پھول میرا ہے صرف اور صرف میرا۔اس کی تخلیق ہی میرے لیے کی گئی ہے مگر اس کا پھول کوئی اور سونگھنا چاہتا تھا۔سو اس نے راجو سے کہ دیا کہ یہ پھول اب تیرا نہیں رہا۔ یہ میراہے میرا۔ راجو پھوٹ پھوٹ کر رو دیا او روہ کھل کھل کر ہنس دیا۔
راجو مایوس ہوا۔اورروتادھوتا چل دیا۔ اور اس کا دل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔ اس کا نہیں پتہ کہ اب وہ کہا ںہے۔ زمیں نگل گئی تھی یا آسماں۔مجذوب بن کرکہیں بیابانوں،پہاڑوں،جنگلوں میںآوارہ پھر رہا ہوگا۔اور خلوت کدوں اور چھپے حجروں میں اپنی کھوئی ہوئی '' روحی'' ڈھونڈ رہا ہوگا۔کون پوچھے گا اس کا، اور کیوں پوچھے گا..........اس کا پھول تو پامال ہوچکا تھا۔ اور مسلا جانے والا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف سر اُٹھایا، ہاتھ پھیلائے اور سرگوشی میں کہا کہ
''اے رب السماء ! کہاں ہے؟........
''میری زندگی کا پھول''۔
''میرے حسین خوابوں کی تعبیر''۔
''میری وفاؤں کی دیوی''۔
'' میری جوانی کی امنگ''۔
'' اے رب الزھرة والشجرة ! کہاں ہے؟......
'' گلاب کی پنکھڑی''
'' کنول کی پتی''
'' نیلوفر کی کلی''
'' گل سرسبدکا شگوفہ''
'' گل بکاؤلی کی سفیدی''
''گل لالہ کی لالی''
'' گل مہندی کی حنا''
گل خیرو کا نیلا پن''
''گل نار کی سرخی''
''شاخ کی کلی''
'' کلی کی نازکی''
'' اے رب الحجر! کہاں ہے؟......
'' ہیرے کی چمک''
''یاقوت کی رمانی''
'' مرجان کا حسن''
'' فیروزہ کا نیل گوں''
''الماس کا جلوہ''
'' زمرد کا سبزہ''
'' اے رب الارض''! کہاں ہے؟......
'' فیری میڈو کی پریوں کی سردار''۔
'' دیوسائی کی جل پریوں کی سرخیل''۔
''غذر کی دوشیزاؤں کی ملکہ''۔
'' دیامر کی حسیناؤں کی راجکماری''
''ہنزہ کی کنواریوں کی شہلا''
'' داریل کی حیاداروں کی مان''
'' گوہرآباد کی نازنینوں کی رانی''
'' بلتستان کی حوروں کی سردار''
'' اے رب اللیل والفلق''! کہاں ہے؟......
'' سیاہ رات کی ماہِ تمام''
'' چاند کی چاندنی''
''دھوپ کی روشنی''
'' شب دیجور کی ماہ رُخ''
'' ستاروں کی جھرمٹ''
''اے رب الملک! '' کہاں ہے؟......
'' ہندوستان کی دیویوںکی لکشمی''
'' عربستان کی لیلاؤں کی ناز''
''اے رب الطیور! '' کہاں ہے؟......
'' بلبل کا نغمہ''
''فاختہ کا ترنم''
'' کوئل کی کو ں کوں''
'' اے رب الجبال'' کہاں ہے؟.......
'' کوہِ صفاء کی تقدیس''
'' کوہ طور کی تجلی''
'' نانگا پربت کی شان''
'' کے ٹو کی بلندی''
'' راکا پوشی کا نظارہ''
'' اے رب البحرین!'' کہاں ہے؟.......
'' مرج البحرین کامٹھاس و کڑواہٹ''
'' دریائے گلگت کی جل ترنگ''۔
'' دریائے پھنڈر کا حسن''
'' دریائے یاسین کی موج''
''دریائے اسکردو کی لہر''
'' دریائے چلاس کا طلاطم''
'' دریائے استور کی خنکی''
'' اے رب الشعراء !'' کہاں ہے؟
'' شاعر کی غزل''
'' بانسری کی لَے''
'' گائیک کی سُر''
''مُغنی کی غنا''
''قوال کی راگ''
''طبلے کی تھاپ''
'' اے رب العشاق والمجانین!'' کہاں ہے........؟
'' مجنون کی لیلیٰ''
'' یوسف کی زلیخا''
'' آدم کی ھوا''
'' ہارون کی زبیدہ''
''شاہ جہاںکی نورجہاں''
''شہزادہ سلیم کی انارکلی''
'' فرہاد کی شریں''
''پنوں کی سسی''
''میرا کی کبیرہ''
'' رانجھا کی ہیر''
''راجو کی روحی''
رب العالمین کے حضور دعا کرتے کرتے راجو کی روح پرواز کرگئی۔اب صرف قفسِ عنصری تھا۔ قفلِ خموشی تھی۔ کیوں؟ کیوں کہ اب نہ خواب تھا نہ خواب کی تعبیر، نہ جوانی تھی نہ امنگ۔ ہیرے کی چمک بھی غائب تھی مرجان کا حسن بھی، فیروزہ کا نیل گوں بھی نہیں تھا الماس کا جادو بھی نہ ہی یاقوت کی رمانی، نہ دریاؤں کی موج تھی نہ پہاڑوں کی تقدیس، نہ بلبل کا نغمہ تھا نہ فاختہ کا ترنم،نہ چاند کی چاندنی تھی نہ دھوپ کی روشنی، نہ شاعرکی غزل تھی نہ مغنی کا غنا، نہ عاشق کی معشوق تھی نہ حسیناؤں کی راجکماری۔آہ! نہ گل تھا نہ بلبل، نہ گل تر تھی نہ گل چیں۔ نہ گل دستہ تھا نہ گل دان۔ نہ گلشن تھا نہ گلشن آراء ۔کچھ بھی تو نہیں تھا ۔سب کچھ گُل ہوا تھا یا گُل کردیا گیا تھا ۔اب جئے بھی تو کوئی کیوں جئے!!۔
روحی بڑی نیک دل تھی، اس نے کبھی کسی غیر کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا تھا۔وہ تو کسی کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ و ہ ہمیشہ اللہ سے توبہ ا ستغار کرتی تھی۔، نمازوں کا اہتمام اس کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی، وہ تو تہجد بھی پڑھتی تھی، رمضان کے سوا بھی وہ رضائے الٰہی کے لیے روزے رکھتی ، گناہوں کا شائبہ تک نہیںتھا مگر ایک گناہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کرتی جاتی تھی۔وہ یہ کہ وہ اپنی نمازوں میں بھی راجو کے لیے کوٹہ رکھتی۔ اس نے اپنے اللہ سے ہمیشہ راجو کا ساتھ مانگا تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ سخت مایوس ہوگئی تھی، وہ زندہ نہیں رہناچاہتی تھی، اس نے وقت افطار رو رو کر اللہ سے اپنی زندگی بھی راجو کے لیے مانگی تھی۔ وہ بول کتنے عظیم تھے کہ '' یااللہ میری زندگی بھی راجو کو دے دیں ۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتی، وہ زندگی بھی کیا زندگی ہے جو راجو کے بغیر گزرے۔ میں کسی اور کی نہیں بن سکتی۔یہ میری تخلیق کے خلاف ہے، میں اسی کے لیے جنی ہوں اسی کے لیے مرنا چاہتی ہوں ، بس میری عمر بھی ان کو لگ جائے''۔ یہ لازمی نہیں کہ انسان کی ہرتمنا پوری ہوجائے۔ خواہش اور حسرت کا ا لتزام ہے۔یہ تو محال ہے کہ مختصر سی زندگی میں تمام خواہشات پوری ہوجائے۔ہزار کوششوں کے بعد بھی کچھ خواہشات حسرتیںبن کر رہ جاتی ہیں۔یہ عجیب سی بات ہے کہ انسان زندگی میں جس چیز کی سب سے زیادہ حسرت کرتا ہے وہ اس سے دور بھاگتی چلی جاتی ہے کوسوں دور.....کیا خواہشات کے پیچھے سرپٹ بھاگنا چاہیے؟ شاید نہیں۔اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے والے رب کے حوالہ کرنا چاہیے۔ روحی تو ایسا کرچکی تھی ، وہ اللہ کی مرضی پر خوش تھی۔ اکثرفصبر جمیل کی تفسیر کرتی رہتی اور رکاوٹوں کو دور کرنے والے وظیفے بھی پڑھتی۔وہ خوب اچھی طرح جانتی تھی کہ جو بھی ہوگا رب کی مرضی و چاہت سے ہوگا پھر رب کے کاموں میں دخیل ہونا چہ معنی دارد۔ مگر کیا راجو کے لیے بھی یہ ممکن تھا۔شاید نہیں۔اس کے دل میں ایک نہ ختم ہونے والا اضطراب تھا۔کسی دانا نے کہا تھا کہ '' حاصل اور خواہش کے درمیان فرق کا نام اضطراب ہے''۔ راجو کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے لئے دیوانہ نہ بنے۔کیوں ؟ کیونکہ تحصیل خواہش کے لیے اس سے جائز و ناجائز راستے اختیارکرنے پڑیں گے۔ اسے جرم کے راہ پر چلنا ہوگا۔اس کا نتیجہ یقینا انسان کو غلیظ، متعفن اور بدصورت بنا کررکھ دیتی ہے۔راجو خوبصورت ہے ، عظیم ہے اس کو غلیظ اور بدصورت نہیں بننا چاہیے۔ اس کو تو ہر دم '' ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنة...... کا ورد کرنا چاہیے۔محبت میں وصل کامیابی ہے یا فصل؟۔یہ سوال لیے راجو، شہروں،قصبوں، دیہاتوں،بیابانوں، صحراؤں ، عاشقوں، مجنونوں، محبوبوں، علمی مرکزوں اور کتابوں میں سرگرداں گھوم رہا تھا مگر جواب ندارد......۔
...............یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ انسان مرجاتے ہیں لیکن محبت نہیں مرتی۔ہاں سچی اور مقدس محبت۔وہ صدیوں زندہ رہتی ہے۔بہار کے بعد خزاں ضرور آتا ہے مگر جلد ہی دوسری بہار بھی تو آجاتی ہے۔بدبودار محبت کا کوئی بھروسہ نہیں اس کی تو عمر ہی چند لمحے ہوتی ہے ، اسکی موت یقینی ہوتی ہے،وقتی محبتیں بھی ختم ہوجاتی ہیں لیکن...............بے لوث محبت، سچی اور پاکیزہ محبت کیا مرسکتی ہے، نہیں قطعاً نہیں۔ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ اس کو قائم رہنا ہے جو صدیوں تک قائم رہی گی۔آہ ! راجو کی وفاؤں کی دیوی!وہ تو قسمیں کھا کر کہتی کہ ''تمہیں کھبی بھی نہیں بھولونگی۔بڑھاپے میں بھی، موت کے بعد بھی''۔راجوبھی اسے کیسے بھول سکتا تھا۔وہ تو اس سے بیس سال بعد بھی قبول کرنے کو تیار تھا۔وہ دونوں تمام گناہوں سے توبہ کرنا چاہتے تھے مگر محبت کے گناہ سے بھی توبہ ممکن تھا۔ مجنون غلاف کعبہ پکڑکر کہا رہا تھا
الٰہی تبت من کل المعاصی
ولکن حب لیلیٰ لا اتوب
(پروردگار: تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں مگر لیلیٰ کی محبت سے توبہ نہیں کرسکتا)۔تو پھر ان دونوں کے لئے کیسے ممکن تھا محبت سے توبہ۔ان دونوں کے نزدیک محبت سے توبہ بھی تو گناہ کے زمرے میں آتا تھا پھر ان سے یہ گناہ کیسے سرزد ہوتا۔

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 381396 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More