عہدِ عباسی میں علوم و فنون کا ارتقاء-ایک مطالعہ

اسلام نے شروع ہی سے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی آیت جو نبی کریمﷺ پر نازل کی ،اس کی شروعات علم سے ہوتی ہے:
”پڑھو(اے نبی )اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا“(العلق:۱،۵)
مختلف احادیث میں بھی علم حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی تاکید کی گئی ہے۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر داور عورت پر فرض ہے“(ابن ماجہ:۴۲۲)
یہاں علم سے مراد صرف حلال و حرام یعنی علوم شرعیہ ہی نہیں ہیں،بلکہ ہر وہ علم ہے جس کے ذریعے انسان اپنے فرائض اور ذمے داریوں کو کما حقہ ادا کر سکے، جس کے لیے اسے زمین کا خلیفہ بنا یا گیا ہے۔
نبی کریم کی بعثت کے وقت کل ۷۱ لوگ ہی مکہ مکرمہ میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔اسی لیے آپ نے شروع ہی سے اس پر توجہ دی ۔غزوات میں جب عربوں کی ایسی جماعت گرفتار ہوئی جو لکھنا پڑھنا جانتی تھی تو ان کا فدیہ یہی ہوتا تھا کہ وہ دس مسلمانوں کو تعلیم دیں۔ آپ کی اس خصوصی توجہ سے صحابہ کرام میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔اس کو خلفاءراشدین نے مزید آگے بڑھایا(بلاذری :انساب الاشراف)۔
اسلام کے آغاز میں صرف دینی و شرعی علوم ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن سکے، لیکن جب اسلامی حکومت وسیع ہوئی اور اموی دور (۱۶۶-۰۵۷ئ)شروع ہوا تو علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں طرف بھرپور توجہ دی گئی۔اس کے بعد عباسی حکومت (۰۵۷-۸۵۲۱ئ) ابوالعباس السفاح کے ذریعے قائم ہوئی، جس میں کل اکیس خلیفہ ہوئے ۔ اس کا خاتمہ ۸۵۲۱ءمیں تاتاریوں کے ہاتھوں ہوا۔اس دور میں علمی و تعلیمی تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جرجی زیدان نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
”عہدِ عباسی اسلام کا وہ عہدِ زریں ہے جس میں مسلمانوں کی سلطنت، دولت و ثروت،تہذیب وتمدن اور سیاست و حکمرانی کے اعتبار سے عروج پر پہنچ گئی تھی۔اس میں بیشتر اسلامی علوم نشو نما پائے اور اہم داخلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا“(عبدالرحمان الانباری،نزہةالالباءفی طبقات الادبائ، ص۲۷،مصر)
عہدِ عباسی میں مسلمانوںنے اپنے علم و فن کو توسیکھا ہی،ساتھ دنیا کے دوسرے اہم علوم وفنون میں بھی مہارت حاصل کی۔یونانی،سریانی،سنسکرت اور فارسی کتابوں کے عربی میں بہ کثرت ترجمے کیے گئے۔اس دور میں تصنیف وتالیف کی دو بڑی وجہ تھی:
اول یہ کہ علماءکرام اور مصنفین و محققین کو عباسی حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ان کو اتنا مال و دولت سے نوازاجاتا تھا کہ انہیں ذریعہ ¿ معاش کی طرف سے بے فکری رہتی تھی۔ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ کی ہوئی کتاب کے وزن کے برابر سونا یا چاندی دے کر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔
دوم یہ کہ مسلمان اس وقت کاغذ بنانے کے فن سے واقف ہو گئے تھے۔یہ فن انہوں نے ان چینی قیدیوں سے سیکھاتھاجوبنی امیہ کے دور میں سمرقند کی فتح کے دوران ۴۰۷ھ میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کتابیں جھلیوں، کھالوںاور پتیوں وغیرہ پر لکھی جاتی تھیں،جس میں خرچ زیادہ آتا تھا اور وہ محفوظ بھی نہیں رہتی تھیں۔
عباسی دور میں یوں تو تقریباً تمام ہی خلفاءنے علوم و فنون کی سرپرستی کی،لیکن ابوجعفر منصور، ہارون رشید اور مامون رشید نے اس پر خصوصی توجہ دی۔
خلیفہ منصور نے بغداد شہر بسایا جو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا تھا۔یہاں دور دراز سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے بڑے علوم و فنون کے مراکز بصرہ، کوفہ ، فسطاط، قیروان،رے،نیشاپور،مرو اور بخارا تھے۔
عباسی دور میں جن علوم و فنون کا ارتقا ہوا اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱-دینی علوم:
قرآن کریم: اس پر عہدِ نبوی، عہدِخلفائے راشدین اوراموی دور میں کام مکمل ہو چکا تھاتو اس میں کچھ کرنے کو باقی نہ تھا۔البتہ اس دورمیں قرآنی آیات کو مختلف طرح سے، دلکش انداز میں نقش و نگار کے ساتھ لکھے جانے کے فن کو فروغ دیا گیا۔
علمِ قرا ¿ت:عہدِ عباسی میں اس فن پر خصوصی توجہ دی گئی اورقرّاءسبعہ(امام عبد اللہ بن کثیر عامربن یزید دمشقی (م۶۳۷ئ)،امام عبد اللہ بن کثیر مکّی(م۸۳۷ئ)، امام عاصم بن ابی النجود کوفی(م۴۴۷ئ)، امام ابو عمرو بن العلاءبصری(م۱۷۷ئ)، امام حمزہ بن حبیب زیات کوفی(م۴۷۷ئ)، امام نافع بن ابی نعیم مدنی(۶۸۷ئ)، امام علی بن حمزہ کسائی کوفی(م۵۰۸ئ)۔(ان میں سے چار مو ¿خر الذکر نے عباسی دور پایا تھا) نے اس میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں،پھر ان کے شاگردوں نے اس موضوع پر مختلف کتابیں لکھیں،جس میںکتاب النھایة (محمد بن الجزری م۹۲۴۱ئ) بہت مشہور ہوئی۔دوسرے مصنفین میں”حافظ ذہبی(م۷۴۳۱ئ)، محمد بن الجزری(م۹۲۴۱ئ) ابوعمرو عثمان الدانی(م۲۵۰۱ئ)،خلف بن ہشام، ابن کامل، ابو بکر طاہر،ابوبکرالنقاش ،ابوبکر بن الحسن، “وغیرہ مشہور ہوئے۔
علمِ تجوید: قرآن کریم کو اس کے صحیح مخرج اور خوش کن آواز میں پڑھنا تجوید کہلاتا ہے۔ عباسی دور میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ اس فن پر سب سے پہلی کتاب موسیٰ بن عبیداللہ خاقانی بغدادی (م۷۳۹ئ) نے لکھی ۔
علمِ تفسیر: ”یہ ایک ایسا علم ہے جس کی مدد سے قرآن کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھا جاتا ہے اور اس کے احکام و مسائل اور اسرار و حکم سے بحث کی جاتی ہے“۔
عباسی دور میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی اور کثیر تعداد میں تفسیریں لکھی گئیں۔تمام مفسرین نے اپنے اپنے علم و فن کے لحاظ سے قرآن کی تفسیر کی ،مثلاً تفسیرِ ماثورہ، تفسیر بالرای اور تفسیر الفقہاء وغیرہ۔ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:
تفیسرِ طبری(محمد بن جریر، م۳۲۹ئ)،تفسیر امام ثعلبی (م۶۳۰۱ئ)، تفسیر سفیان بن عینیہ(م۴۱۸ئ)، تفسیر عبد الرزاق (م۶۲۸ئ)، تفسیر شعبہ بن حجاج (م۷۷۷ئ)، تفسیر ابن مردویہ (م۹۱۰۱ئ)، تفسیر مفاتیح الغیب (امام رازی م ۰۱۲۱ئ) وغیرہ۔
علم ِحدیث:حدیث کے لغوی معنیٰ بات،کلام،بیان اور اظہار کے آتے ہیں۔اصطلاح میں نبیِ کریم ﷺ کے اقوال،افعال،تقریرات اور صفات کو حدیث کہتے ہیں۔
عہدِ عباسی میں احادیث کی جمع و تدوین، تہذیب و تصحیح کا عظیم ترین کام ہوا۔ صحاحِ ستہ یعنی صحیح بخاری (ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل ،م ۰۷۸ئ)، صحیح مسلم (مسلم بن حجاج قشیری ،م۵۷۸ئ)، سنن ابی داو ¿د (سلیمان بن اشعث،م۸۸۸ئ)، جامع ترمذی (ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، م ۲۹۸ئ)، سنن نسائی (احمد بن شعیب،م۶۱۹ئ) سنن ابن ماجہ (محمد بن یزید، م۸۸۸ئ) اسی دور میں لکھی گئی۔ اس کے علاوہ احادیث کی مشہور کتابوں میں سنن دارقطنی (ابوالحسن علی بن عمر،م۵۹۹ئ)صحیح ابن خزیمہ (محمد بن اسحاق،م۳۲۹ئ)،مستدرک حاکم(امام حاکم ابوعبداللہ،م ۵۱۰۱ئ)، مسند خوارزمی (امام ابو بکر احمد بن محمد برقانی، م۴۳۰۱ئ) وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علمِ فقہ: ”وہ علم ہے جس میں تفصیلی دلائل کے ذریعہ احکامِ شرعیہ کو سمجھا جاتا ہے ، بحث کی جاتی ہے اور قوانین اخذ کیے جاتے ہیں “۔
علم فقہ کی باضابطہ تدوین ترویج بھی عباسی دور کا کارنامہ ہے ۔ فقہ کے چاروں مدارس یعنی فقہ حنفی (امام ابو حنیفہؒ، ۹۹۶-۷۶۷ئ)،فقہ مالکی (امام مالکؒ، ۵۱۷-۵۹۷ئ)،فقہ شافعی (امام شافعی،ؒ ۷۶۷-۰۳۸ئ)،فقہ حنبلی (امام احمد بن حنبلؒ ،۰۸۷-۵۵۸ئ)اسی عہد میں وجود میں آئے۔ ان کے علاوہ فقہ جعفری (امام جعفر صادق،۰۸-۸۴۱ھ) بھی اسی زمانے مےں مدون ہوئی۔
فقہ حنفی کو فروغ دےنے مےں امام ابوحنےفہ کے شاگرد قاضی ابوےوسف (۳۱۱-۳۸۱ھ)اور امام محمد بن حسن شےبانی (۳۳۱-۹۸۱ھ) کا اہم کردار رہا۔امام محمد قانون بےن الممالک کے بانی اول سمجھے جاتے تھے۔فقہ مالکی کی سب سے اہم کتاب ’مدونہ‘ہے ، جس کو اسد بن فرات(م۳۱۲ھ) اورامام محمد بن سحنون(م،۰۷۸ئ) نے مرتب کی تھی۔ امام شافعی کی مشہور کتاب ’کتاب الام‘ اور ’الرسالہ‘ ہےں اور امام احمد بن حنبل نے ’مسند‘کے نام سے حدیث کی اےک بڑی ضخےم کتاب لکھی ۔
فقہ کی دوسری اہم کتابوں میں ”مختصر القدوری (احمد بن محمد قدروی ،م۷۳۰۱ئ)، کتاب الہداےہ(امام علی بن علی ابی بکر فرغانی،م۷۹۱۱ئ)، شرح الجامع الکبےر(امام بلخی،م۹۱۲۱ء) ، الحاوی(ابوالحسن علی الماوردی،م۸۵۰۱ئ)،احےاءعلوم الدےن کتاب الوجےز ،الوسےط ،البسےط ،اختصار المختصر(امام غزالی ،م۱۱۱۱ئ) ، رےاض الصالحےن(امام نووی،م۷۷۲۱ئ)، المغنی فی شرح الخرقی(امام ابن قدامہ ،م۳۲۲۱ئ)“ وغےرہ بہت مشہور ہوئےں۔
سےرت اور تارےخ :مسلمانوں نے پہلے سیرت النبی پر لکھنا شروع کیا ، اس سے سیرت نگاری کو فروغ ملا۔سیرت اور مغازی دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ،تو ساتھ ہی ساتھ مغازی کو بھی بڑھاوا ملا ۔پھر یہیں سے تاریخ نگاری کا آغاز ہوا۔
عباسی دورمےں مورخین نے تارےخ کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا۔اس میںخلفاءکی تاریخیں، فتوحات، شکست، وزرائ، امرائ،شرفائ،ادبائ،شعراءاور لوگوں کے پیشوں وغیرہ کو بھی شامل کیا۔ ان پر کثےر تعداد مےں کتابےں لکھی گئیں ۔ ان مےں سے چند مشہور درج ذےل ہےں۔
سب سے پہلے ابن جریر طبری (۹۳۸-۳۲۹ئ) نے چودہ جلدوںپر مشتمل تاریخ پر کتاب لکھی ، جس مےں نبی صلی اللہ علےہ وسلم سے لے کر اپنے زمانے تک کہ تےن سو برس کے حالات تفصےل سے بےان کیے ہےں۔
٭السیرة النبوےة( ابن ہشام، م۴۲۸ئ) اس مےں انھوںنے نبی کرےم کی حالات زندگی کو تفصےل سے بےان کیا ہے۔
٭طبقات (ابن سعد،م۵۴۸ئ) ، اس مےں نبی ،صحابہ کرام اور تابعےن کے حالات لکھے ۔
٭ فتوح البلدان(بلاذری ،م۲۹۸ئ) نے لکھی ،جس مےں حضرت عمرؓ کے زمانے کی فتوحات ، اندلس، وسط اےشےا اور سندھ وغےرہ کی فتوحات کا حال ذکر کےاہے۔
٭ مروج الذہب (مسعودی م۶۵۹ئ) نے جو کہ اےک بڑے جغرافےہ داں اور سےاح تھے،انہوں نے یہ کتاب لکھی جس سے ہمارے سامنے چوتھی صدی ہجری کے حالات مکمل طورپر واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
ان کے علاوہ سیرت اور تاریخ پر ”کتاب المغازی ( موسیٰ بن عقبہ ،م۸۵۷ئ)،انساب الاشراف (بلاذری ،م۲۹۸ئ) ، تارےخ الرسل والملوک (طبری ،م۳۲۹ئ)، کتاب المعارف (ابن قطےبہ دینوری ،م۹۸۸ئ)، کتاب الاوراق (الصولی ،م۷۴۹ئ)، تجارب الامم وتعاقب الہمم (ابن مسکوےہ،م۰۳۰۱ئ)،تارےخ دمشق (ابن عساکر،م۶۷۱۱ئ)، وفےات الاعےان (ابن خلکان، م۲۸۲۱ئ) ، ارشادالالباب الی المعرفت الادباء(ےاقوت حموی،م۹۲۲۱ء)، فتوح مصرو اخبارہ(ابن عبدالحکم مصری ،م۱۷۸ئ)، کتاب العبر و دیوان المبتداو الخبر فی ایام العرب و العجم و البربر(ابن خلدون،م۶۰۴۱ئ) ،اخبار ا لمغفّلین، کتاب الاذکیائ(ابن الجوزی،م۱۰۲۱ئ)، اخبار الاجواد، البخلاءاور قتلی القرآن“ وغےرہ اہم کتابےں ہےں۔
علم الکلام :اسلامی حکومت کے وسےع ہونے اور غےر عرب قوموں کے اسلام لانے کی وجہ سے نئے تہذےب و تمدن ان کا آغاز ہوا ،ساتھ ہی عبرانی وےونانی اور دوسری زبانوںمیں موجود کتابوںکا عربی مےں ترجمہ ہوا،جس سے مسلمانوں کے اندر غےراسلامی خےالات پھےلنا شروع ہوئے ۔ اسی سے علم الکلام کا آغاز ہوا۔
علم الکلام کی بنےاد امام ابوالحسن الاشعری (۳۷۸-۶۳۹ئ)نے ڈالی ۔ ان کی کتاب ’الابانہ اور مقالات الاسلامےےن‘ بہت مشہور ہےں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پردوسری مشہور کتابوں میں ”کشف الاسرار ،دقائق الکلام اور کتاب التمہید (قاضی ابوبکرباقلانی)،کتاب الشامل،کتاب الارشاد(عبداللہ بن ےوسف ابوالمعالی،م۵۸۰۱ء)،تہافة الفلاسفہ،احےاءالعلوم الدین، معےارالعلوم،الجام العوام(امام غزالی،م۱۱۱۱ئ) کتاب التوحےد ،کتاب الجدل، کتاب المقالات ( ابومنصور محمدبن محمد،م۵۴۹ئ)، فی السےرة الفاضلہ ،کتاب الشکوک والمناقصات(محمد بن زکرےا رازی،م۴۵۸ئ)، تہذےب الاخلاق ،الفوز الاکبر، الفوز الاصغر ( ابن مسکوےہ ، م ۰۳۰۱ئ)“وغےرہ کا نام آتا ہے۔
علمِ فلسفہ:فلسفہ کا آغازعہدِ عباسی میںمامون رشید کے دور سے قیصرِ روم کے ذریعہ بھیجی گئی یونانی کتابوں کے عربی ترجموں سے ہوتا ہے ۔ارسطو اور افلاطون کے زیادہ ترجمے ہوئے ۔
فلسفہ میں یعقوب کندی،م ۳۷۸ء(کتاب الفلسفة الاولیٰ فی مادون الطبیعیات و التوحید،جواہرِ خمسہ اور سلسلہ ¿ علل)اور ابو نصر الفارابی،م۰۵۹ئ(سیاسة المدنیة) نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کندی کو ’پہلا عرب فلسفی‘ اور فارابی کو’ معلم ثانی ‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے علاوہ دوسرے اہم فلسفیوں میں ”ابن سینا(کتاب الشفا،کتاب الاشارات و التنبیھات)، امام غزالی(مقاصد الفلاسفہ، تہافة الفلاسفہ،احیاءعلوم الدین)“ وغیرہ کا نام آتا ہے۔
۲- عصری علوم :
عباسی دور مےں دےنی علوم کے علاوہ اور دوسرے علوم مثلاً طب ،رےاضی،فلکےات ،علم کےمےا، اور مختلف سائنسی علوم نے بھی ترقی کی۔ےہ علوم عربوںنے پہلے ےونانی ،سرےانی، سنسکرت اور دےگرزبانوںسے سےکھا اورپھر ان کو عربی زبان مےں منتقل کیا ۔ جس کے لےے باقاعدہ ہارون الرشےد نے بےت الحکمت قائم کےا، جہاں ترجمہ نگاری کا کام ہوتاتھا ۔
مشہور مترجمین میں ”حنین بن اسحاق، قسطا بن لوقا، عیسیٰ بن یحییٰ ، یوحنا بن ماسویہ، حجاج بن مطر،یحییٰ بن بطریق، عبدالرحمان بن علی،سلام بن الابرش اور ثابت بن قرة“ وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علم طب :قرآن و حدیث میںطب اور صحت کے اصولوں کے تعلق سے جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے۔چنانچہ خلفائے اسلام نے ہر دور میں اس پر شروع ہی سے توجہ دی۔مسلمانوں میں یونانی طب کا رواج حکمائے یونان کی ان کتابوں سے ہوا جن کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے اس فن کو مزید ترقی دی اور اس میں اضافہ بھی کیا۔
عباسی دور کے مسلم اطباءنے چیچک ،خسرہ اور دوسری وبائی بیماریوں پر خصوصی توجہ دی اور ان کے ٹیکے ایجاد کیے۔اس کے علاوہ ”فرسٹ ایڈ کا طریقہ،پارے کا لیپ،ٹانکوں میں حیوانی آنتوں کا استعمال،زخموں کو داغنے، پتھری کو آپریشن کے ذریعے نکا لنے، آنکھ اور دانت کی سرجری، پٹی باندھنے کا طریقہ،ہڈیوں کو جوڑنے اور ان پر پلاسٹر چڑھانے کا طریقہ،آپریشن میں جدید آلات کا استعمال،دورانِ خون کا نظریہ،مرکّب ادویہ میں شکر کا استعمال اور آپریشن کرنے سے پہلے سُن کرنے کے طریقے“ سے دنیا کو روشناس کرایا۔
عباسی دور میں خلفاءنے شفا خانے بھی کثیر تعداد میں تعمیر کرائے، جن کو ’بیمارستان‘ کہا جاتا تھا۔سب سے پہلا شفا خانہ ولید بن عبدالملک (۵۰۷-۵۱۷ء)نے دمشق میں بنوایا۔اس کے علاوہ دوسرے مشہورشفا خانوں میں ”بیمارستانِ برامکہ، بیمارستانِ حربیہ،بیمارستانِ السیدہ، بیمارستانِ المقتدری، بیمارستانِ ابن الفرات اور بیمارستانِ عضدی“ کا نام آتا ہے۔کل تعداد تقریباً۰۶ تھی۔ان شفا خانوں کی نگرانی کے لیے ایک خلیفہ کی طرف سے ایک ناظم مقرر کیا جاتا تھا۔سنان بن ثابت اس عہدے پر بہت مشہور ہوئے۔آپ نے ہی اطباءکا امتحان لے کر ڈگری دینے کا طریقہ نکالا تھا۔
اس دور مےں علم طب کے تےن بڑے مراکز تھے۔
(۱)اسکندرےہ (۲)جندی سابور(۳) حران۔
مشہور اطبا مےں ”ےعقوب کندی،م۱۷۸ء(طبقات الاطبائ)،محمد بن زکرےا رازی،م۲۳۹ئ( کتاب الحاوی، المنصوری ، کتب طب الفقرائ،کتاب الطب الملوکی،کتاب الجدری و الحصبة)،موفق بن علی ہروی،م۱۵۹ئ(کتاب حقائق الادوےہ)، شےخ بوعلی سےنا،م۷۳۰۱ء(کتاب القانون،کتاب القولنج ،کتاب الادوےة القلبےة)، ابن نفےس،م۸۸۲۱ئ(الکتاب الشامل فی الطب، موجزالقانون ، کتاب المہذب فی الکحل )، ابن مسکوےہ،م۱۳۰۱ئ( کتاب الاشربة،کتاب البطےح)، علی بن عےسیٰ،م۹۴۰۱ئ( تذکرة الکحالےن)“ وغےرہ ہےں۔جنھوںنے علم طب کو ےونانےوں سے بھی زیادہ ترقی دی ۔ حتی کہ ےورپ نے بھی ان کی کتابوںسے استفادہ کےا اور اےک زمانے تک ےہ کتابیںان کی ےونےورسٹےوں مےں پڑھائی جاتی رہیں۔
علمِ رےاضی:اس کی ترقی میں علمِ ہندسہ، علمِ نجوم اور علمِ ہیئت کا اہم کردار رہا ،کیوں کہ ان تینوں ہی میں حساب کی ضرورت پڑتی ہے ۔مسلمانوں نے اصلاً اس فن کونویں صدی عیسوی میں ترقی دی۔ اس دور مےں قےصر روم سے بہت ساری ےونانی کتابےں منگائی گئےں،جن مےں رےاضی کی کتابےں بھی تھیں۔ ان کے عربی مےں ترجمے ہوئے۔ اسی سے مسلمانوںمےں علم رےاضی کا شوق پےداہوا۔محمد بن موسیٰ الخوارزمی کو حساب و الجبرا کا موجد اور بنو موسیٰ کو جیومیٹری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔
عباسی دورمیں ریاضی کے میدان میں مسلمانوں کے اہم کارناموں میں”صفر کی ایجاد،اعشاریہ کا استعمال،عددی نظام (Arabic Numerals)کا استعمال،نامعلوم مقدار کے لیے ’شئے‘ کا استعمال، دو درجی مساوات اور سہ درجی مساوات کو حل کرنے کے عمل کی دریافت،جذر اور جذر مکعب کا طریقہ، وقت کی تقسیم کا پیمانہ کی دریافت اور ٹرگنومیٹری کی بنیاد پر نقشہ مرتب کرنا“ وغیرہ ہے۔
اس دور کے مشہور رےاضی داں درج ذےل ہےں:
”ابو کامل شجاع بن اسلم، م ۶۵۹ء(کتاب الطرائف فی الحساب،المخمس و المعشّر، کتاب فی الجبر و المقابلة)،عباس بن سعےد جوہری،م۴۴۸ئ(کتاب الاشکال تفسےراقلےدس) ، ابوطےب سند بن علی،م۹۳۸ئ(کتاب الحساب الہندی،کتاب القواطع، کتاب الجبر والمقابلہ)، حجاج بن ےوسف مطر،م۹۲۸ئ( مقدمات اقلےدس)، محمد بن موسی خوارزمی،م۷۴۸ئ(کتاب الجبر والمقابلہ، علم الحساب)، عمرخےام،م۱۳۱۱ئ(کتاب الجبر والمقابلہ ، مکعبات )، ابورےحان البےرونی،م۹۴۰۱ئ(کتاب الہند ،کتاب الآثارالباقےة) ،احمد عبداللہ حبش حاسب(م۹۲۸ئ)،ابوالوفابوزجانی،(کتاب فی ما یحتاج الیہ الکتاب و العمال من علم الحساب)،بنو موسیٰ شاکر (کتاب حیل بنو موسیٰ)،احمد بن یوسف المصری ، ابوعبداللہ محمد بن عیسیٰ الماھانی“ وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علممِ جغرافےہ:قرآن کی متعددآیات کا تعلق ِ جغرافیہ سے ہے۔ جیسے رات دن کا تبدیل ہونا ،سورج ،چانداور ستاروں کا حرکت کرنا،سمندر،صحرا،پہاڑ اور دریا وغیرہ۔ان سے مسلمانوں میں علم ِجغرافیہ کا شعور پیدا ہوا۔ساتھ ہی مختلف فتوحات، تجارت اور سفر نے بھی اس علم کو بڑھاوا دیا۔انہوں نے اس فن کو یونان، ہند اور ایران کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کر کے حاصل کیا۔ پھر خود اس میدان میں تصنیف و تحقیق کا آغاز کیا ۔
عباسی دور میں ہی مسلم جغرافیہ دانوں نے زمین کی پیمائش کی، دنیا کا نقشہ ، بحری چارٹ، زمین کا گلوب اور ماڈل تیار کیا،زمین کا گول ہونا اور اس کا اپنے محور پر گھومنا ثابت کیا۔ طول البلد ، عرض البلد، قوس و قزح اور جوار بھاٹا کے اصولوں سے دنیا کو روشناس کرایااور اس موضوع پرکثیر تعداد میںکتابیں لکھیں۔ان میں سے مشہور درج ذیل ہیں:
صورة الارض(محمد بن موسیٰ خوارزمی،م۷۴۸ئ)،المسالک و الممالک(ابن خردازبہ، م۳۱۹ء،مسلم جغرافیہ کاباوا آدم)،کتاب البلدان (احمد بن اسحاق الیعقوبی،م۷۹۸ئ)،کتاب الخراج، صنعة الکتاب (قدامة بن جعفر الکاتب، م۲۲۹ئ) ،احسن التقاسیم فی معرفة الا ¿قالیم (ابوعبداللہ المقدسی،م۰۰۰۱ئ)،تاریخ الہند (ابوریحان البیرونی،م۸۴۰۱ئ) اورتقویم البلدان (ابوالفدا،م۱۳۳۱ئ)وغیرہ۔
علم ِکےمےا :ےہ علم ےونانےوںسے مصرکے علما اور سائنس دانوںنے سےکھا ۔ پھرعباسی دور میں ان سے عربوںنے حاصل کےا۔ ےونانی زےادہ تر ’اندازے اور قیاس ‘سے کام چلاتے تھے۔ لےکن مسلمانوں نے اس علم میںمعروضی وحقےقی تجربات کرکے پختہ نظرےات پر قائم کےا۔اس کا مقصد کم قیمتی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا تھا۔اس کے لیے مختلف طرح کے تجربات کیے جاتے تھے، جس کی وجہ سے کیمسٹری کے میدان میں دوسرے بہت سے انکشافات ہوئے۔
مشہور کےمےاداںجابر بن حےان(م۱۶۱ھ) بھی اسی دورمےں تھے ، جن کو ’کیمسٹری کا باواآدم‘ کہا جاتا ہے۔آپ نے سب سے زےادہ تجربہ پر زوردےا۔ پارہ ،دھاتوں کو پگھلانے ،بھاپ کے ذرےعہ اشےاءکو معلوم کرنے اور مختلف تےزابوںکے بنانے کا کامےاب تجربہ کےا۔ آپ کی مشہور کتاب کےمان المعادن اورکتاب جواہر الکبےر ہے۔دوسرے مشہور کےمےادانوںمےں ”ابن وحشےہ ،ذوالنون مصری، ابوبکر رازی ،ےعقوب کندی، ابوحےان توحےدی ، ابن سےنا اور ابوالحسن احمد الخشلےل“ وغیرہ کا نام آتا ہے۔
عباسی دور میں ہی مسلم سائنس دانوں نے ”تقطیر،تبخیر،کشید،تکلیس،تصعید،تحلیل،ترشیح کے طریقوں،مختلف طرح کے کیمیائی مرکّبات سلفاس،پوٹاشیم،نائٹرک ایسڈ،مرکری کلورائڈ، سلفر ،پارہ،سرمہ،رنگین شیشے،رنگ سازی،عطر سازی،فولاد سازی ،موم، خضاب،لوہے کی زنگ سے حفاظت ،چمڑے کی رنگائی،تجربی عمل کے لیے آلات“ وغیرہ سے دنیا کوروشناس کرایا۔اس دور میں اس فن پر لکھی گئی کتابوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
”جوہر تین العتیقتین(الحمدانی)،فی مقالة وجوب صناعة الکیمیائ(الفارابی)،رتبة الحکیم،غایة الحکیم(مسلمہ بن احمد المجریطی)،عین الصنعة و عون الصناع(ابوالحکیم محمد بن ملک الخوارزمی الکائی،م۴۳۰۱ئ)، حقائق الاستشہاد،کتاب الانوار و المفاتیح،مفاتیح الرحمةاور انوار الحکمة(موئد الدین طغرائی،م۵۳۱۱ئ)، مفتاح دار السعادة(ابن قیم الجوزی)“ وغیرہ۔
علمِ لغت، نحو اور صرف:ان علوم کا آغاز اموی دور سے ہی شروع ہو گیا تھالیکن عباسی دور میں اس میںگراں قدر اضافے ہوئے۔ان کے اہم مراکز میںکوفہ،بصرہ،دمشق،حلب،مصر اور مرو وغیرہ کا نام آتا ہے۔ان علوم پر لکھی گئیں کتابیں درج ذیل ہیں:
”قرا ¿تِ قرآن،کتاب النوادر،کتاب الامثال(امام ابوعمرو بن العلائ،م۴۷۷ئ)،کتاب العین،کتاب النقط و الشکل،کتاب العروض(امام خلیل بن احمد،م۷۷۷ئ)، کتاب اللغا ت،کتاب الامثال،کتاب النوادر،معانی القرآن(امام یونس حبیب،م۸۹۷ئ)،کتاب الصحاح(امام جوہری،م۲۰۰۱ئ)،کتاب الاشتقاق(ابن درید)، اساس اللغة(امام زمخشری)، کتاب الجامع،کتاب الاکمال(عیسیٰ بن عمر ثقفی،م۶۶۷ئ)،الکتاب(امام سیبویہ،م۰۱۸ئ) ،المفصل(ابوالقاسم محمود،م۴۴۱۱ئ)،کتاب الفیہ،کافیہ،تسہیل(امام ابو عبد اللہ محمد بن مالک،م۴۷۲۱ئ)،کتاب التصریف(امام مازنی،م۲۶۸ئ)، التصریف الملوکی(ابن جنی،م۲۰۰۱ئ)،کتاب لامیة الافعال منظوم(امام ابن مالک،م۵۸۸ئ)، کتاب الشافیة(ابن حاجب،م۸۴۲۱ئ)“ وغیرہ ہیں۔
ادب اور شاعری:عباسی عہد میں شاعری کے موضوعات غزل،قصیدہ،ہجو، مقطعات،مرثیہ اور نظمیں وغیرہ تھے۔ان کے مختلف مراکز تھے، جن میں شام،مصر،عراق،افریقہ اور ایران کو خاص مقام حاصل تھا۔شاعری کی زبان پُر تکلّف،مسجع و مرصع اور رمز و کنایہ سے مزیّن ہوا کرتی تھی ۔
شعر و شاعری میں ”بشار بن برد(م۴۸۷ئ)، ابوالعتاہیہ، ابونواس(م۵۱۸ئ)،ابن المعتز،ابوتمام(م۵۴۸ئ)، بحتری(م۷۹۸ئ)،متنبی(م۵۶۹ئ)،ابوفراس ہمدانی(م۸۶۹ئ) اور ابوالعلاءالمعری(۷۵۰۱ئ)“ جیسے شعراءاس دور میں مشہور ہوئے، جنہوں نے عربی شاعری کو اس کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
ادب کے میدان میں”جاحظ،م۸۶۸ء(کتاب الحیوان،کتاب البخلائ،البیان و التبین)،عبداللہ بن المقفع، م۷۵۷ئ(کلیلہ و دمنہ) ،ابن قتیبہ،م۹۸۸ئ(الشعر والشعرائ)، مبرد(الکامل)ابو عبیدہ، سیبویہ، ابن رشید، باقلانی، اور قدامہ بن جعفر “ وغیرہ نے نام پیدا کیا اور ادبی دنیا کو جلا بخشی۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس دورمیں علوم و فنون کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوںنے کام نہ کیا ہو اور اس سے دنیا نے استفادہ نہ کیا ہو۔ اس کا اعتراف مغرب نے بھی کیاہے۔جارج سارٹن نے اپنی کتاب میں لکھا:
”بنی نوعِ انسانی کا اہم کام مسلمانوں نے انجام دیا۔سب سے بڑا فلسفی ’الفارابی‘ مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی داں ’ابوکامل اور ابراہیم بن سنان‘ مسلمان تھے، سب سے بڑا جغرافیہ داں اور قاموسی ’المسعودی‘ مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورّخ ’الطبری‘ بھی مسلمان ہی تھا“
(George Sarton:History of Arab.P.392)
Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 189988 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More