’’را ‘‘کے خلاف آخر خاموشی کیوں؟

کراچی میں بس پرحملے اور 45لوگوں کی جانوں کے ضیاع کے بعد ہمارے سکیورٹی اداروں نے جیسے ہی تحقیقات شروع کیں تو پہلا ’’کھرا‘‘ ہی بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘ کی طرف جا نکلا۔ اسی لئے سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ بھی بولنے پر مجبور ہوئے کہ ’’را‘‘ ہی کراچی واقعہ میں ملوث ہے۔ اسی روز وزیردفاع نے بھی اپنے علاقے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران کھل کر کہا کہ مختلف شکلوں اور انداز میں پاکستان کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اس اندوہناک واقعہ سے قبل ہی حیران کن طور پر ماہ مئی کے آغاز پر ہمارے سکیورٹی اداروں نے کہا تھا کہ ’’را‘‘ پاکستان میں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کی وارداتیں انجام دینے کی تیاریوں میں ہے۔ اسی عرصہ میں بتایا گیا تھا کہ ’’را‘‘ نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے 30کروڑ ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے اور ’’را‘‘ کے سربراہ راجندر کھنہ نے بذات خود اس نئے مشن کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ پاک فوج کے اعلیٰ سطح کے کور کمانڈرز اجلاس میں بھی کھل کر کہا گیا تھا کہ ’’را‘‘ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ اس بیان کے اگلے ہی روز پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی کہا تھا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور ہم کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ باز آ جائے۔

پاکستان اور پاکستانی دفاعی اداروں کی جانب سے ایک ساتھ انتہائی مختصر عرصہ میں بھارت اور اس کے خفیہ ادارے کی مذموم حرکات کے خلاف جس طرح کھل کر بات ہوئی تو کراچی میں ایک تکلیف دہ واقعہ پیش آگیا۔ اس کے بعد لگتا ہے کہ بھارت نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور پھر کراچی میں اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر حملہ کر دیا گیا۔ اس حملے کے نتائج و عواقب پر غور کریں تو معاملہ بالکل صاف اور سیدھا نظر آتا ہے کہ بھارت نے کتنی منصوبہ بندی سے کام کیا ہے۔ جیسے ہی کراچی میں یہ حملہ ہوا، پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت، ہنزہ وغیرہ میں، جہاں آغا خانی مذہب کے ماننے والے بڑی تعدادمیں بستے ہیں، فوری طور پر ہڑتال ہوئی اور شاہراہ ریشم کو بند کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے اگلے تین دن تک جاری رہا۔ یوں پاکستان کی ایک ایسی کمیونٹی جو کسی تشدد، انتہا پسندی یا ہڑتال و احتجاج میں کبھی شریک نظر نہیں آئی، یک دم ایک نئے روپ میں سامنے آ گئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بھارت اپنے مذموم منصوبے میں کامیاب رہا ہے اور اس نے چین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے راستے گوادر تک اس کی اقتصادی شاہراہ اور اگلے منصوبے ہر وقت خطرے میں ہیں اور اگر ان علاقوں کے لوگ ہی میدان میں نکل آئے تو اس کا یہ منصوبہ کیسے چل پائے گا اور اگر چین نے اس منصوبے کو مکمل کر کے اس پر اپنی تجارت و معیشت بھی چلانے کی کوشش کی تو وہ کبھی محفوظ نہیں ہو گی۔

کراچی میں آغا خانی کمیونٹی کی بس پر حملے کے بعد ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کی ایک اور بڑی دلیل یہ بھی سامنے آئی کہ ’’را‘‘ نے جائے واردات پر داعش سے منسوب جعلی پمفلٹ بھی پھینکے، لیکن ان کی عبارت سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ سب فراڈ تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ داعش نامی تنظیم کا پاکستان میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور نہ داعش نے اس کا کبھی دعویٰ یا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کے حملوں کے بعد عموماً کوئی نہ کوئی تنظیم واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے اور پھر اسکی تردید بھی نہیں ہوتی۔ اس دفعہ کے حملے کے بعد پاکستان، پاکستان سے باہر داعش یا داعش سے ہمدردی رکھنے کی دعوے دار کسی بھی تنظیم نے ذمہ داری تک قبول نہیں کی۔ واضح تھا کہ کارروائی صرف دشمن بھارت کی جانب سے انجام دی گئی ہے۔ بھارت کے بلوچستان میں ملوث ہونے کے ثبوت تو گزشتہ حکومت کے وزیر داخلہ اے رحمن ملک کے علاوہ موجودہ وزیراعظم جناب نوازشریف بھی خود بھارت کو بارہا دے چکے ہیں۔ پاکستان میں انجام پانے والی کتنی ہی دہشت گردانہ وارداتوں میں بھارتی اسلحہ، ایمونیشن، ادویہ، کرنسی وغیرہ مل چکی ہیں جو میڈیاکو بھی دکھائی گئی ہیں۔اس سب کے ساتھ حکومت سے اتنی گزارش ہے کہ بھارت کی پاکستان مخالف دہشت گردی کے ثبوت دنیا کے سامنے لائے جائیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کے خلاف مہم چلائی جائے تو وہ بھی قابل تحسین عمل ہو گا،لیکن اس سے پہلے تمام ثبوت قوم اور اپنے میڈیا کے سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اب بھارت کے ساتھ دوستی و تجارت کی تمام باتیں بند کر کے اس کے ساتھ وہی انداز سیاست و تعلق اپنایا جائے جس کا وہ روادار ہے۔ اس معاملے پر اب ساری قوم کو اس مسئلہ پر ایک ہی پلیٹ فارم پرہونا چاہئے۔یہ سب تو اپنی جگہ لیکن یہاں ایک معاملہ انتہائی حیران کن بلکہ پریشان کن ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی جانب سے بار بار ’’را‘‘ کی دہشت گردی کے ثبوت سامنے آنے کے تذکرے کے باوجود ہمارے ملک کی کوئی بھی سیاسی یا مذہبی تنظیم بھارت کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں…… آخر کیوں؟ چند ہفتے پہلے ہی توجب سعودی عرب جیسے سب سے مخلص اور سچے و پکے دوست کی مدد و تعاون اور دفاع کی بات ہوئی اور فوج بھیجنے کا تذکرہ ہوا تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی گز گز بھر لمبی زبانیں بیان پر بیان داغ رہی تھیں۔ اپنے دوست سعودی عرب کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر وہاں ایسی ایسی تقریریں ہوئیں کہ ’’اﷲ کی پناہ‘‘…… آخر کیا وجہ ہے کہ وہ سبھی زبانیں اب بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کے خلاف بات کرنا تو دور، تذکرہ تک کرتے بھی نظر نہیں آتیں۔ پاکستان میں سوائے جماعۃ الدعوہ اور اس کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کے کسی کو توفیق نہیں کہ بھارت کے خلاف زبان سے کوئی لفظ بھی نکال سکے ۔وہ بھی اس حال میں کہ بھارت کی دشمنی کا اب کوئی حد بھی نہیں رہ گئی ہے۔سمجھ نہیں آتاکہ آخر کیوں بھارت کو ہمارے سیاستدانوں نے ایسی مقدس گائے مانا ہوا ہے کہ جیسے ہی اس کے خلاف کوئی بات کی سب کی گردن زدنی فوری عمل پذیر ہو گی۔ اس ملک میں رہ کر، اس کا کھا کر اور اس پر حکومت کے حصول کی کوشش میں مست الست وہی لوگ ہیں جو اپنی فوج، اپنے سکیورٹی اداروں اور اپنے ہی ملک کے خلاف آگ اگلتے دکھائی دیتے ہیں۔ہمارا ملک توڑنے والا بھارت جو کشمیر پر قبضہ کئے بیٹھا ہے، جو ہمارا پانی بند کر کے ہماری زمینیں بنجر بنا رہا ہے،جو دن رات ہمارے ملک کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے، اگر اس بھارت کے خلاف بھی ہمارے ملک کے سیاستدان، قائدین اور ان کی پارٹیاں بات نہیں کرتیں تو ان کا اس ملک کے ساتھ کیا لینا دینا ہے؟اب ضروری ہے کہ عوام ایسے لوگوں کا محاسبہ کریں کہ اب رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہمارے پاس وقت انتہائی کم ہے توہمارا دشمن انتہائی شاطر ہے جوہمیں افغانستان کی جنگ کے عفریت سے نکل کر مضبوط ہوتا نہیں دیکھ پا رہا۔ بھارت کے سامنے واضح ہے کہ پاکستان اب معاشی طور پر ہر روز مستحکم ہو رہا ہے۔امن و امان کی صورت حال میں بھی بہتری آ رہی ہے، پاک فوج کے آپریشن بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔بھارت کو سرحد پر منہ توڑ جواب دیا گیا ہے، تو وہ اب خفیہ انداز سے گھٹیا حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ہمارے سیاست دانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ گر ہم بھارت کا آج بھی محاسبہ نہ کر سکے اور اپنا حق لینے سے پیچھے ہٹنے کے ساتھ اس کی بدمعاشی پر خاموش رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ملک و قوم کی حفاظت ہو گی تو یہ ریاست بھی ہو گی، جس پر حکومت کے خواب ہمارے سیاستدان اور ان کی پارٹیاں دیکھتی ہیں، اس ریاست کا سب سے بڑا دشمن کھل کر میدان سجائے ہوئے ہے جس کے خلاف کھل کر سامنے آناہی سب سے بڑا قومی و ملکی تقاضا ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.