کیڑا

انڈین آرمی آئے روز ہمیں لاشوں کا تحفہ دیتی رہتی ہے۔ اُس کی طرف سے دیے جانے والے یہ خونی تحائف ہم بڑی خوش دلی سے قبول کر لیتے ہیں۔ کیونکہ انڈیا ہمارا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص دوست بھی ہے ۔ "ہمارا" سے مراد ہمارے حکمران ہیں ۔ پاکستانی عوام تو انڈیا کے خلوص اور دوستی سے بخوبی واقف ہے۔ہمارے حکمران اپنے یاروں اور پیاروں کو ساڑھیوں اور آموں کے نذرانے پیش کرتے ہیں جبکہ وہ پاکستانی عوام کو سیلاب کی صورت میں پانی کی سوغات بھیجتے ہیں۔ہمارے سرحدی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے بے گناہ اور نہتے بچوں، عورتوں ، جوانوں اور بوڑھوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران اس ہمسائے اور اپنے جگری یار ملک کی اس بربریت، جارحیت اور حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے پر لب کشائی کرنے سے گریزاں ہیں۔

ہماری آرمی اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے۔ملکی سرحدوں کی حفاظت پر معمور جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے دشمن ملک کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا کر وطن عزیز کے وقار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کی حفاظت صرف پاک فوج کی ہی ذمعہ داری نہیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں پر بھی فرض ہے۔لیکن حکمران جو کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے سے پہلے ملکی سلامتی اور وفاداری کا حلف تو اُٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ دوسرے ہی روز اُسے بھول جاتے ہیں۔ اُن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ بنانا ، اقتدار کے مزے لینا اور اختیارات کا غلط استعمال کرنا ہے۔۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو ۔ حکمرانوں کا تو کام ہی یہی ہے۔ ان کی فطرت کو بدلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ان کی مثال ایسے ہی جیسے کتے کی دُم کو سو سال تک زمین میں دبا کر رکھا جائے لیکن وہ پھر بھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔
دُم تو بھارتی سورماؤں کی بھی سیدھی نہیں ہو سکتی بے شک اُسے سو سال کی بجائے ہزار سال تک ہی کیوں نہ مٹی میں دبا کر رکھا جائے۔ اُن کی یہی ٹیڑھی دُم ہی انہیں بار بار ہمارے ساتھ پنگا لینے کے لیے مجبور کرتی ہے۔کتے کی دُم پر کسی کا پاؤں آئے، وہ تب ہی چاؤں چاؤں کرتا ہے۔ لیکن بھارتی کتے دُم پر پاؤں آئے بغیر ہی چاؤں چاؤں کرتے رہتے ہیں۔اُنہیں ذرا سی خارش بھی ہو تو وہ ہماری سرحدوں پر فائر کھول دیتے ہیں۔ جب تک ہمارے شیر جوان اُن کی اس خارش کو ختم نہیں کردیتے اُنہیں چین نصیب نہیں ہوتا ۔انڈیا کی طرف سے ہمارے سرحدی علاقوں پر فائرنگ کی ایک وجہ انڈین آرمی کی اپنے فرائض سے اکتاہٹ بھی ہے۔ وہ جب کئی کئی روز تک سرحدوں پر کھڑے کھڑے اُکتا جاتے ہیں تو اُنہیں پھرسے کھجلی ہوتی ہے۔اور وہ اپنی اس کھجلی یا اُکتاہت کو کم کرنے کے لیے ہی ایسی حرکت کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے "کیڑا" بھی کہا جا سکتا ہے جو گاہے بگاہے اُنہیں تنگ کرتا رہتا ہے۔

ویسے یہ " کیڑا " صرف انڈین آرمی میں ہی نہیں پایا جاتا ۔ ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ ایسی انڈین نواز ہستیاں موجود ہیں جن کو یہ"کیڑا" انڈین آرمی اور انڈین حکومت سے بھی زیادہ تنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کچھ ہستیاں نام نہاد NGO's بھی چلا رہی ہیں۔ یہ NGO'sبیرونی فنڈز کے بل بوتے پر ہی چلتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ان تنظیموں کو ہمارا پیارا ہمسایہ ملک انڈیا بھی فنڈ مہیا کرتا ہو۔تبھی تووہاں پہنچنے والی تکلیف کو بڑی شدت سے یہاں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچنے والی ہر تکلیف کو پاکستان کا ایک بہت بڑا میڈیا گروپ بھی محسوس کرتا ہے۔ یعنی "کیڑا" ادھر بھی ہے۔اس میڈیا گروپ نے امن کی آشا کا تماشا لگانے کی کوشش کی تھی جو بری طرح نا کام ہو چکی ہے۔ امن تو دونوں ملکو ں کے حق میں ہی بہتر ہے لیکن درمیان میں پھر سے یہ "کیڑا" آ جا تا ہے۔اس" کیڑے" کو پالنے پوسنے اور اس کی حفاظت کے لیے دشمن ملک کروڑوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ اسی "کیڑے" کی ہی نحوست سے ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کالا باغ ڈیم پر کام رکا ہوا ہے۔ ہمارے چند سیاست دان بھی اس "کیڑے" کا شکار ہیں جو اپنے ہی ملک کی ترقی کے خلاف ہیں۔ کالا باغ ڈیم بننے میں رکاوٹ پیدا کرنے والے یہ سیاست دان باقاعدہ طور پر انڈیا کے تنخواہ دار ہیں۔انڈیا کی خفیہ ایجنسی "را" اس "کیڑے" کو پالنے اور اسے ایک وائرس کی طرح ہمارے ملک میں پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی "کیڑے" کا شاخسانہ ہے۔

ہماری خود مختاری، سلامتی اور بقا اسی میں ہے کہ ہم اس "کیڑے" کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کریں۔ سب سے پہلے اپنے گھر کو ان خطرناک "کیڑوں" سے نجات دلائیں۔بیرونی ہاتھوں میں کھیلنے والے اندرونی ہاتھوں کو توڑ ڈالیں۔وطن عزیز کے غداروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ہماری اور ہمارے ملک کی حفاظت کرنے والی جان نثار افواج پاکستان پر الزامات لگانے والوں اور اُنہیں گالیاں بکنے والوں کی زبانیں کاٹ کر کتوں کے آگے پھینک دیں۔ ہمارے معتبر اداروں کی طرف اُٹھنے والی انگلیوں کو ہاتھوں سمیت کاٹ کر گندے نالوں میں بہا دیں۔ملک کو دو لخت کرنے کی کوشش کرنے والوں کے اتنے لخت کیے جائیں کہ کوئی گن ہی نہ پائے۔جب یہ سارا گند صاف ہو جائے تو پھر ہمیں اپنے دشمن سے مقابلہ کر نے اور اُنہیں گاہے بگاہے تنگ کرنے والے "کیڑے" کو ختم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.