گورنر سردار مہتاب اور بیروٹ کے تعلیمی ادارے

نو نومبر کو اہلیان بیروٹ اپنے محبوب رہنما، گورنر خیبر پختون خوا ، اور دوہیترمان (بھانجھے) سردار مہتاب احمد خان کے اعزاز میں ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ (نیو کیمس) کے سبزہ زار میں ایک شاندار استقبالیہ دیا جس میں انہیں صوبے کا سب سے بڑا منصب سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی اور اور ننھیالی ہونے کی حیثیت سے گلے شکوے بھی کئے
نو نومبر کو اہلیان بیروٹ اپنے محبوب رہنما، گورنر خیبر پختون خوا ، اور دوہیترمان (بھانجھے) سردار مہتاب احمد خان کے اعزاز میں ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ (نیو کیمس) کے سبزہ زار میں ایک شاندار استقبالیہ دیا جس میں انہیں صوبے کا سب سے بڑا منصب سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی اور اور ننھیالی ہونے کی حیثیت سے گلے شکوے بھی کئے، سردار مہتاب کا گورنر اور حاجی بننے کے بعد یونین کونسل بیروٹ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ان کے ہمراہ ان کے فرسٹ کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان، سابق ایم پی اے سردار شمعون خان، اعلیٰ ضلعی و صوبائی حکام بھی تھے، ان کے دورہ کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ایک سو اسی یوم قبل ایم پی اے سردار فرید خان نے اسی سکول کی مبینہ نئی بلڈنگ کا افتتاح کیا تھا مگر وہ فنڈز ہونے کے باوجود ہنوز تعمیراتی عمل سے محروم ہے اس کے علاوہ چند روز قبل اسی سکول سے سو گز کے فاصلہ پر جنوب میں ایم این اے ڈاکٹر اظہر نے کہو شرقی جلیال روڈ کی کشادگی اور کارپٹنگ کا افتتاح کیا تھا جس پر نون لیگی حلقے شدید برہم ہیں اور وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ سردار مہتاب خان کا ہے اور ایم این اے نے محض تختی لگائی ہے، سابق ناظم آفاق عباسی کہتے ہیں کہ ہم نے کارکنوں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ ڈاکٹر اظہر کی تختی کی بطور خاص حفاظت کریں تا کہ دوہزار اٹھارہ میں اہلیان بیروٹ جان سکیں کہ کام کس کا ہے اور انہیں مکمل کون کرتا ہے؟ دوسری طرف نون لیگ کے اس بےقرار گروپ کے ایما پر گورنر نے عجلت بھری دورے سے کئی ایک سوالات بھی پیدا کر دئے ہیں جن کے جوابات کچھ تو سامنے آ چکے ہیں اور کچھ عام قومی انتخابات تک دھیرے دھیرے سامنے آتے رہیں گے۔

سردار مہتاب خان اپنے ننھیال آئے ہیں اور ننھیالی کسی لالچ کے بغیر اپنے دوہیترمان پر اپنی محبتیں نچھاور کیا کرتے ہیں، اس لئے کہ یہی ہمارے کوہسار کی روایت اور دستور بھی ہے، سردار صاحب نے اسی یونین کونسل سے اپنی سیاست کا آغاز بھی کیا تھا اور گزشتہ تیس سالوں میں اہلیان بیروٹ نے ان سے جو وفائیں کیں اور نبھائیں وہ ان سے بھی بخوبی آشنا ہیں، دنیا نے دیکھا کہ اہلیان بیروٹ کے دوہیترمان نے شہر اقتدار اسلام آباد کی وفاقی وزارتوں سے لیکر صوبہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ اور گورنری کے آخری منصب تک کا تاج سروری پہنا تھا اور پہنے ہوئے ہے، اس کی سیاست اور سیاسی نظریات سے لاکھ اختلاف سہی مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ سردار مہتاب کی سروری کی وجہ سے ہی سرکل بکوٹ میں درجنوں میل پیدل چلنے والوں کو سواری ملی، مائوں بہنوں کے سروں سے گاگریں اتریں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سردار مہتاب کے دور اقتدار میں ہی سرکل بکوٹ بالعموم اور بالخصوص یو سی بیروٹ کی آٹھ نسلوں کو زیور تعلیم سے اراستہ کرنے والی طلبا و طالبات کی علمی درسگاہوں کو عمارات سے محروم کر کے انہیں سر بازار رسوا کر دیا گیا، اہلیان سرکل بکوٹ جانتے ہیں بزم نشاط ہو یا اٹک قلعہ کی تنہائیاں اور کرب، ان کا لیڈر کردار کا غازی اور وفائوں کو نبھانے والا قابل فخر فرزند کوہسار ہے مگر اس کا ایک المیہ یہ ہے کہ تمام تر انٹیلی جنس وسائل کے باوجود اپنے حلقے کے حالات سے آگائی کیلئے اسے ان خوشامدیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو اسے حلقے کے اصل حالات کے بجائے سب او کے کی رپورٹ دیتے ہیں، یہ وہ خوشامدی گروپ ہے جو اپنے ہموطنوں کو ہمیشہ اپنا محتاج دیکھنا چاہتا ہے اور۔۔۔۔۔ اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے گورنر سردار مہتاب کو جلدی میں اپنے وطن لا کر بے معنی بحثیں اور سیاسی تنگ نظری کا بیج بو دیا ہے جس کی وجہ سے اہلیان سرکل بکوٹ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کے پی کے کا گورنر اب صرف ایم این اے کی تختی اکھاڑ کر اپنی تختی کی نقاب کشائی کیلئے رہ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟

یوں تو یو سی بیروٹ کے اتنے مسائل ہیں کہ بیان سے باہر ہیں مگر تعلیم اور صحت کے مسائل سر فہرست ہیں، یو سی بیروٹ میں اس وقت دو بی ایچ یوز ہیں، بیروٹ کا بی ایچ یو گزشتہ پندرہ سالوں سے زیر تعمیر ہے، کھیرالہ بی ایچ یو کی طرح یہاں ابھی تک خرکاروں نے گدھے تو نہیں باندھے مگر پندرہ سال سے زیر تعمیر اس بی ایچ یو میں باندھے جا سکتے ہیں اگر اس کی تعمیر میں مزید تاخیر ہوئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا میٹیریل بھی ڈکارا جا چکا ہے، یہ بی ایچ یو اس وقت بیروٹ کی مرکزی جامع مسجد کے تہہ خانے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

یو سی بیروٹ کا دوسرا اہم مسئلہ اس کی نو نسلوں کو زیور تعلیم سے اراستہ کرنے والے بوائز اور گرلز سکولوں کی عمارات کی تعمیر نو کا ہے، جن کی عمارات کو یا تو لیگی ٹھیکیدار ڈکار گئے ہیں یا ان کے ایک سو ساٹھ دنوں سے وعدے کئے جا رہے ہیں، بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیدوار مفتی عتیق عباسی نے تعلیمی نقصان کے حواکے سے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ دو ہزار پانچ کے بعد تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے جلیال، بانڈی اور باسیاں کی نوے فیصد طالبات سفری مشکلات اور طویل فاصلوں کی وجہ سے مڈل سے سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ بیروٹ کا گرلز ہائیر سیکنڈری سکول عمارت نہ ہونے کے باعث ترمٹھیاں کے پرائمری سکول میں ضم کر دیا گیا ہے، ہم تو سردار صاحب کے دور اقتدار میں لڑکے لڑکیوں کے ڈگری کالجز کے خواہاں تھے جبکہ عملاً ہم سے ہمارے بزرگوں کے چندے سے بنائے گئے سکول بھی چھین لئے گئے ہیں، بیروٹ کا سکول انیس سو تین میں اہلیان بیروٹ ریالہ سے لائے تھے کیونکہ اٹھارہ سو اٹھانوے میں قائم ہونے والا یہ سکول بیروٹ کے اساتذہ مولانا اسماعیل علوی اور سید فضل حسین شاہ جیسے ٹیچر ہونے کے باوجود پانچ سالوں میں پامچ طالب علم بھی پیدا نہیں کر سکا تھا اور وہاں کے لوگ حصول تعلیم کا کار بیکاراں سمجھتے تھے، جب اس سکول کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہزارہ کے تعلیمی حکام نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تو بیروٹ کا ایک وفد اپنے اساتذہ مولانا اسماعیل علوی اور سید فضل حسین شاہ کی قیادت میں ضلعی حکام سے ملا اور سکول بیروٹ منتقل کرنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی سکول کیلئے عمارت بھی پیش کر دی جسے حکومت نے قبول کر لیا اوربیروٹ بھی پہلے سکول کی نعمت سے سرفراز ہو گیا، اس سکول کے پہلے طالب علم راجہ حیدر زمان کے والد نذر محمد خان تھے، اس وفد میں موجودہ چیئرمین وی سی بیروٹ ندیم عباسی کے پڑدادا سردار گل حسن خان، سابق جنرل کونسلر ذوق اختر عباسی کے دادا عبدالکریم خان، سائیں محمد عباس خان کے والد محمد حسن خان اور ولی احمد خان شامل تھے، اگرچہ وہ خود تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے مگر علم دوست اور تعلیم نواز تھے، انہوں نے لڑکے اور لڑکیوں کے سکولوں کیلئے اپنی عمارات دیں، خود اپنی خدمات بھی پیش کیں، بیروٹ کے پچیس پی ایچ ڈیز میں سے سولہ نے انہی سکولوں کی ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور بیروٹ کو صوبہ بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ یونین کونسل کا اعزاز دلوایا۔ بوائز سکول کو انیس سو چھپن میں مڈل کا درجہ ملا، انیس سو اکسٹھ میں سردار عرفان خان کے یو سی بکوٹ بیروٹ منتخب ہونے کے بعد اہلیان بیروٹ کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں مڈل سکول کی نئی عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا، اس مقصد کیلئے سردار عرفان خان کی سربراہی میں ایک تعمیراتی کمیٹی بنائی گئی جس میں گورنر صاحب کے نانا سردار اکرم خان کے علاوہ حاجی سرفراز خان، منشی اقنال خان، حاجی اعظم خان، صادق عباسی، فضل الرحمان فیض، ٹھیکیدار عزیز خان، حاجی حبیب الرحمان، راجہ آزاد خان، نمبردار ایسب خان اور راجہ نذر خان شامل تھے، انیس سو تریسٹھ تک اس کمیٹی نے ملک کے طول و عرض سے تئیس لاکھ روپے جمع کئے، کہو والے حاجی سرفراز خان کی کوششوں سے سکول کیلئے ان کی برادری نے اراضی بھی فی سبیل اللہ دی اور اگلے سال آٹھ کمروں پر مشتمل مڈل سکول بیروٹ کی عمارت کھڑی ہو گئی جو انیس سو ستر میں ہائی سکول اور انیس سو ستانویں میں ہائر سیکنڈری سکول میں ڈھل گئی،بعد میں وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان کے اعلان کردہ فنڈز سے طلبا و طالبات کے سکولوں کی عمارت بنی، کاش زلزلہ نہ آتا اور آج ہمارے طالب علم در بدر نہ ہوتے۔ گورنر سردار مہتاب نے ان سکولوں کی نئی عمارات کی تعمیر نو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی نہ ہی بی ایچ یو کی اور ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ صرف اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ چھاڑ کر صرف کہو جلیال لنک روڈ کے افتتاح اور اعلانات کیلئے آئے تھے، انہوں نے ساڑھے سات کروڑ روپے چھ کلو میٹر جنڈالہ روڈ، ایک کروڑ بہتر لاکھ روپے دس کلو میٹر سورجال لنک روڈ اور ڈیڑھ کلو میٹر کہو جلیال لنک روڈ کیلئے مختص کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے بیروٹ میں ڈگری کالج،کوہالہ ، ریالہ اور نمبل میں ہسپتال کے قیام کا اعلان بھی کیا، مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کے امور کا ذمہ دار گورنر اپنے اعلان کردہ منصوبوں کیلئے رقم لائے گا کہاں سے۔۔۔۔۔؟ کیا یہ محض سادہ لوح عوام علاقہ کیلئے ان کے کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان کی طرح تالیوں کے گونج میں لپ سروس ہے یا اس کا کوئی حاصل وصول بھی ہو گا؟ گورنر سرادر مہتاب خان نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ یہ ان کا فرض ہی نہیں اپنے ننھیال کا قرض بھی تھا، اس معاملے میں جو تاخیر ہونی تھی تو وہ ہو چکی، اب دانش کوہسار کی اس قدیم کہاوت پر ایمان لانا ہی پڑے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوہیترمانوں پر مان نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوہیترمان بے وفا ہوتے ہیں۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 58788 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More