قلم تھرتھرا اٹھتا ہے

یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روز بروز ایسے خوفناک حقائق و واقعات سامنے آتے ہیں کہ جن کو شیطنت و درندگی کے کھلے مظاہر کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چند سال پہلے تک ہمارے معاشرے میں اس قسم کے شرمناک جرائم کی اتنی بھرمار نہ تھی۔ جنسی زیادتی پاکستان کا تیسرا بڑا سنگین جرم بن چکا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں چند سالوں میں آٹھ ہزار سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بہت سوں کو تو شیطان صفت درندوں نے زیادتی کے بعد قتل ہی کر ڈالا۔ بچوں کے ساتھ ایسے ایسے دل دہلا دینے والے سانحات رونما ہوتے ہیں، جن کو لکھتے ہوئے قلم بھی تھرتھرا اٹھتا ہے۔ بچوں کا جنسی استحصال دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپ میں جنسی تشدد کے واقعات کی شرح منٹوں اور سیکنڈوں کے اعتبار سے ہے۔ مغربی پریس کے مطابق امریکا میں ہر سال تیس لاکھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، جن میں سے بیس فیصد کی عمریں آٹھ سال سے بھی کم ہوتی ہیں۔ صرف برطانیہ میں ہر سال بارہ لاکھ لڑکیاں اسقاط حمل کرواتی ہیں، ان میں زیادہ تر تعداد اسکول کالج کی کم عمر لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کم عمر لڑکے ان کے علاوہ ہیں۔ برطانیہ میں ”چائلڈ لائن“ ادارے کے مطابق 11 سال کی عمر تک کے 11 فیصد بچوں کو برطانیہ میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہر چوتھا بچہ جنسی استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق جنوبی افریقہ میں 15 فیصد افراد نے کم سن بچوں کے ساتھ جنسی جارحیت کا خود اعتراف کیا۔ نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں 7 سال سے کم تھیں۔ جنوبی افریقہ کے وزیر صحت ایرن موٹسوالیڈی کے مطابق 2011ءکے دوران ملک میں اسکولوں کی 94 ہزار طالبات حاملہ ہوئی تھیں، ان میں بیشتر دس برس کی عمر کی تھیں۔ تائیوان میں سو میں سے 25 فی صد نوجوانوں نے کم سنی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کا اعتراف کیا۔ یو کے میں 2010ءکے ایک سروے کے مطابق 23 ہزار سے زیادہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ بھارت میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور دی پاپولیشن کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 80 فیصد لڑکیاں اور لڑکے اسکول اور کالج لائف میں جنسی عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں جن میں 15 سال تک کی 42 فیصد لڑکیاں اور 26 فیصد لڑکے ہوتے ہیں۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنسی تشد د انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹس کے آنے کے بعد زیادہ ہوا۔ ماہر نفسیات و سماجیات ڈاکٹر امجد طفیل کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی وجہ میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذریعے دستیاب ایسا (فحش) مواد ہے، جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور پھر وہ اپنی تسکین اور تناﺅ کو کم کرنے کے لیے آسان ہدف کی تلاش کرتے ہیں۔ ”جان کورٹ“ نے تو متعدد یورپین ممالک میں جنسی جرائم کی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ جوں جوں معاشرے میں فحش مواد بڑھا ہے، توں توں جنسی جرائم بھی بڑھے ہیں۔ مجرموں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو اسی فحش مواد سے متاثر ہو کر جنسی جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔ تحقیق کے دوران بے شمار ایسے کیس سامنے آئے کہ مجرم جنسی جرم سے کچھ ہی دیر پہلے فحش مواد دیکھنے میں مشغول تھے۔

امام غزالی فرماتے ہیں: ”جانوروں میں خواہش ہوتی ہے، عقل نہیں۔ فرشتوں میں عقل ہوتی ہے، خواہش نہیں۔ انسان میں عقل اور خواہش دونوں ہوتی ہیں۔ اگر عقل خواہش پر غالب آ جائے تو انسان فرشتہ بن جاتا ہے اور اگر خواہش عقل پر غالب آ جائے تو انسان جانور بن جاتا ہے۔“جب انسان فحش مواد دیکھتا ہے تو وہ ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی خواہش عقل پر غالب آ جاتی ہے۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے خواہش کا پجاری انسان آسان اور کمزور ہدف بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتا ہے۔

ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد متعدد ممالک فحش سائٹس پر پابندی لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال برطانوی وزیر ِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ وہ فحش ویب سائٹس کو بلاک کر دیں، ایسا فحش مواد رکھنا جس میں جنسی زیادتی کی عکاسی کی گئی ہو جرم قرار دیا جائے گا۔ ”ڈیلی ٹیلی گراف“ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ میں شامل ڈچ ممبر’ ’کارتیکا تمارا“ نے یورپی پارلیمنٹ کے سامنے مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہر قسم کی فحاشی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ جبکہ بھارت میں سینٹر فار سوشل ریسرچ سے تعلق رکھنے والی ”رنجنا کماری“ اور ”کملیش واسوان“ کا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہنا تھا : ”فحش نگاری خواتین اور بچوں کے خلاف جارحیت اور جنسی تشدد کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا انٹرنیٹ پر جاری فحش سائٹس پر فوری پابندی لگائی جائے۔“

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے کافی سنجیدگی سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوںجسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی اے قابل اعتراض مواد کو روکنے کے لےے بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔ پچھلے 3 سالوں میں 49 ہزار سے زاید فحاشی و عریانی کی ویب سائٹس بند کی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والے قابل اعتراض 3365 صفحات ختم اور بند کےے ہیں۔10 ہزار سے زاید پراکسی ویب سائٹس بھی بند کی گئی ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے مثبت، تخلیقی اور تعلیمی مواد پھیلانے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہےے، جبکہ منفی سرگرمیوں اور نوجوان نسل کی تباہی کا سبب بننے والے تمام تر مواد کی انٹرنیٹ سے ترویج کو یقینی طور پر روکا جانا چاہےے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس ملک میں جتنی زیادہ فحاشی ہے، اس ملک میں جنسی زیادتی کے اتنے ہی زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ دنیا میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے ناسور کا کافی حد تک علاج فحش سائٹس پر پابندی لگا کر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ فحش ویب سائٹ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کا اہم محرک ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.