مزدور

علی محمد نے گھر جانے کا ارادہ کیاہی تھا کہ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ جیسے ہی بارش تھمے گی وہ اپنے گھر چلا جائے گا۔ اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھااس لیے اسے کوئی پریشانی بھی نہیں تھی۔ وہ پیدل چل کر بیس پچیس منٹ میں اپنے گھر پہنچ سکتا تھا۔ لیکن بارش اس کی توقع کے برخلاف تیز ہوتی جا رہی تھی۔ سارے مزدور چھٹی کر کے جا چکے تھے۔ لیکن اسے ٹھیکیدار نے ایک اہم کام کے لیے روک لیا تھا ۔ ٹھیکیدار اسے کام بتا کر کچھ دیر کے لیے اپنے کسی ذاتی کام کی غرض سے چلاگیا تھا ۔لیکن شاید بارش کی وجہ سے وہ وہیں رک گیا ہو۔ ورنہ وہ تو صرف آدھے گھنٹے تک واپس آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ لیکن اب اسے گئے تین گھنٹے گذر چکے تھے۔ علی محمد اپنا کام پورا کر کے صرف بارش کے رکنے کا انتظار کر رہا تھا۔

علی محمد نے دو سال پہلے جس عمارت کی تعمیر کے لیے مزدوری شروع کی تھی وہ عمارت آج ایک مکمل گھر میں بدل چکی تھی۔ بنیادوں سے لے کر عمارت کے ڈھانچے تک۔ ڈھانچے سے لے کر مکمل عمارت تک اور مکمل عمارت سے لے کر اس کی تزئین وآرائش تک اُس نے یہاں کام کیا تھا۔ آج سارا کام مکمل کر کے ٹھیکیدار کل یہ گھر اُس کے مالک کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ تعمیر میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی رہ جائے اور مالک مکان اس کی ادائیگی دبا کر بیٹھ جائے۔ اس بات کو مزدور بھی سمجھتے تھے کہ جب تک گھر کا مالک کام سے مطمئن نہیں ہو گا، تب تک ٹھیکیدار کو پوری رقم نہیں ملے گی۔ اورجب ٹھیکیدار کو ادئیگی نہیں ہو گی تو اُس کے پاس اُنہیں ٹرخانے کے لیے ایک ٹھوس بہانہ ہو گا۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سب مزدوروں اور کاریگروں نے بڑی دلجمعی سے کام کیا تھا۔ ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پتھر کو بڑی مہارت کے ساتھ لگایا تھا۔ ٹھیکیدار کی دن رات کی نگرانی اور مستری مزدوروں کی خون پسینے کی محنت آج رنگ لے آئی تھی۔ کام سو فیصد مکمل ہو چکا تھا۔ چم چماتا ہوا یہ نیا گھر اب اپنے مکینوں کے لیے بے تاب تھا۔

علی محمد نے ایک نظر پھر سے سارے گھر کو دیکھا کہ کہیں کوئی تھوڑی سی بھی کمی نہ رہ گئی ہو۔ وہ ایک ایک کمرے میں گیا ۔ واش روم کی ایک ایک ٹوٹی کو چیک کیا ۔ کھڑکیوں اور دروازوں کا معائنہ کیا۔کچن میں جا کر دیکھا۔ پورچ میں کھڑے ہو کر لان پر نظر دوڑائی جہاں پھول دار پودوں کی ننھی ننھی پنیری بارش میں نہا رہی تھی۔ اسے یہ منظر بہت اچھا لگا۔ وہ پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھا یہ منظر دیر تک دیکھتا رہا۔یوں ہی بیٹھے بیٹھے وہ تخیل کی اُن وادیوں میں پہنچ گیا جہاں ایک مزدور صرف خیالوں اور خوابوں میں ہی پہنچ سکتا ہے۔

"علی محمد بڑی سی گاڑی میں گھر میں داخل ہوتا ہے۔ پورچ میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد وہ مسکراتا ہوا لان میں جاتا ہے جہاں اس کے بچے کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پیار کرتا ہے۔ پھر وہ گھر کے اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کی بیوی اس کے ا نتظار میں پہلے ہی دروازے پر کھڑی ہے۔ وہ دلفریب انداز میں مسکرا کر علی محمد کا استقبال کرتی ہے۔ علی محمد بھی مسکرا کر اپنی بیوی کو دیکھتا ہے۔ پھر دونوں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ علی محمد اپنا کوٹ اور ٹائی اُتار کر اپنی بیوی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور خود لاؤنج میں رکھے ہوئے سوفے پر بیٹھ جاتا ہے۔ ملازمہ پانی کا گلاس لا کر سامنے ٹیبل پر رکھ دیتی ہے ۔پانی پی کر وہ اُٹھتا ہے اور اپنے بیڈ روم میں چلا جاتا ہے۔ کپڑے بدل کر وہ باہر لان میں کھیلتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگ جا تا ہے۔موسم بہت پیارا ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ لان میں کھلے ہوئے پھولوں کے رنگ موسم کو مزید رنگین بنا رہے ہیں۔ پھولوں کی خوشبو بھی مہک رہی ہے جو ماحول معطر کر رہی ہے ۔ علی محمد اپنے بچوں کے درمیان آ کر پورے دن کی تھکاوٹ بول چکا ہے"۔

بجلی کی چمک اور بادل کی گرج علی محمد کو اس کی اوقات میں واپس لے آئی تھی۔ وہ گڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ بارش کافی حد تک تھم چکی تھی۔ ٹھیکیدار نے واپس آنا ہوتا تو اب تک آچکا ہوتا۔ یہی سوچ کر وہ اُٹھا ۔ گھر کے مین دروازے کو تالا لگا یا اور ہلکی ہلکی بارش میں بھیگتا ہو اتیز تیز قدموں سے اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔ سارے راستے وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ اس کے پاس بھی ایک بڑا اور خوبصورت گھر ہو گا۔ جس کی چھت بارش کے موسم میں ٹپکتی نہ ہو گی۔جیسے ہی اُسے گھر کی چھت کے ٹپکنے کا خیال آیا اس کے قدم مزید تیز اُٹھنے لگے۔راستے میں اندھیرا بھی تھا، کیچڑ بھی اور کہیں کہیں گھٹنوں تک پانی بھی کھڑا تھا ۔لیکن اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اسے فکر تھی تو صرف اور صرف اپنے خستہ حال مکان کی۔اس نے بیس پچیس منٹ کا فاصلا دس منٹ میں ہی طے کر لیا تھا۔ وہ اپنے گھر کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ موڑ مڑتے ہی تین گھر چھوڑ کر اس کا گھر تھا۔ بارش اب بالکل تھم چکی تھی ۔ وہ گھر کے پاس پہنچا اور لوگوں کے ایک ہجوم کو دیکھ کر حیران رہ گیا جو اس کے گھر کے سامنے موجود تھا ۔ اس کے محلے کے کافی لوگ اس کے گھر کے سامنے جمع تھے۔ ہجوم کو چیرتا ہوا وہ گھر میں داخل ہوا تو عورتوں کے رونے کی آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔ گھر کے صحن میں تین چارپایاں بچھی ہوئی تھیں۔ خواتین نے جیسے ہی علی محمد کو دیکھا تو وہ زور زور سے رونے لگیں۔ ایک بوڑھی خاتون اُٹھی اور علی محمد کے گلے لگ کر ہچکیاں بھرنے لگی۔ علی محمد کا جسم بے حس و حرکت تھا۔ وہ بت بنا سب دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جب ایک عورت نے چارپائی پر لیٹے ہوئے اس کی بیوی ، اور دو بچوں کے چہروں سے کپڑا ہٹایا تھا۔ تینوں کے چہرے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس کے چھوٹے بیٹے کا تو سر ہی کچلا جا چکا تھا۔ علی محمد کے لیے یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔اس کے سوچنے سمجھنے کی قوت دم توڑ چکی تھی۔ وہ کبھی اپنے بیوی اور بچوں کے بے جان جسموں کو دیکھتا تو کبھی اپنے مکان کی گری ہوئی چھت کو-
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100137 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.