وسیلہ کیا ہے؟ مفہوم، اقسام و شرعی احکام - 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

وسیلہ کیا ہے؟ مفہوم، اقسام و شرعی احکام - 1
ازعثمان احمدحفظہ اللہ
January 26, 2016

تحریر: ابن جلال دین

وسیلہ کا معنی و مفہوم:

لغوی طور پر وسیلہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔
لغت عرب کی قدیم اور معروف کتاب ’’الصحاح‘‘ میں ہے:
الوسيلة : ما يتقرب به إلی الغير.
"وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔"
(الصحاح تاج اللغة و صحاح العربية لأبي نصر إسماعيل بن حماد الجوهري المتوفیٰ 393ھ، باب اللام، فصل الواو، مادة وسل : 1841/5، دارالعلم للملايين، بيروت، 1407ھ)

مشہور لغوی اور اصولی، علامہ مبارک بن محمد المعروف بہ ابن الاثیر جزری ( 544 – 606 ھ ) لکھتے ہیں:
في حديث الأذان : اللھم آت محمدا الوسيلة، ھي في الأصل : ما يتوصل به إلی الشيء ويتقرب به، وجمعھا : وسائل، يقال : وسل إليه وسيلة وتوسل والمراد به في الحديث القرب من الله تعالیٰ، وقيل : ھي الشفاعة يوم القيامة.

"اذان (کا جواب دینے کی فضیلت) والی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ اے اللہ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ دے۔ وسیلہ اصل میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ اس کی جمع وسائل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کی طرف وسیلہ بنایا۔ حدیث نبوی میں وسیلے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن ہونے والی شفاعت ہے۔"

(النھایة فیی غریب الحدیث والأثر، باب الواو مع السین، مادة وسل :555/5، المکتبة العلمیة، بیروت، 1399 ھ )

مشہور لغوی، علامہ ابوالفضل محمد بن مکرم بن علی، المعروف بہ ابن منظور افریقی (م : 711 ھ) لکھتے ہیں:
الوسيلة : المنزلة عند الملك، والوسيلة : الدرجة، والوسيلة : القربة.
"وسیلہ سے مراد بادشاہ کے ہاں مقام و مرتبہ ہے۔ اس کا معنی درجہ اور قربت بھی ہوتا ہے۔"
(لسان العرب، حرف اللام، فصل الواو، مادة وسل : 724/11، دار صادر، بيروت، 1414 ھ )

معلوم ہوا کہ وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس سے مراد نیک اعمال ہیں، جیسا کہ:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ (المائده : 35:5 )
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہ وسیلہ کیا ہے؟ تمام سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد نیک اعمال ہیں۔

دعا میں وسیلہ
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس کو قبولیت کے درجے تک پہنچانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اسے بھی وسیلہ کہہ دیا جاتا ہے۔ دعا چونکہ عبادت ہے اور ہر عبادت کا طریقہ بھی قرآن وسنت سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، لہٰذا دعا میں وسیلے کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے گا۔ دعا میں وسیلے کا جو جو طریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہو گا، وہ جائز اور مشروع ہو گا جبکہ دوسرے طریقے ناجائز و غیر مشروع ہوں گے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں:

وسیلے کی اقسام

جائز وسیلہ
دعا میں وسیلے کی تین قسمیں مشروع و جائز ہیں:

(1) نسان اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کا وسیلہ پیش کرے، مثلاًیا اللہ ! تجھے تیری رحمت کا واسطہ، ہمارے حال پر رحم فرما۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾ (الاعراف 180:7)
ا”للہ تعالیٰ کے بہت اچھے اچھے نام ہیں، اس سے ان ناموں کے ساتھ دعا کیا کرو۔"

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابوعبداللہ قرطبی رحمہ اللہ (م : 671 ھ) فرماتے ہیں:
قوله تعالیٰ : ﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ ، أي اطلبو امنه بأسمائه، فيطلب بكل اسم ما يليق به، تقول : يا رحيم ارحمني …..’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ (تم اسے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارو) ، یعنی اس سے اس کے ناموں کے وسیلے مانگو۔ ہر نام کے وسیلے اس سے ملتی جلتی چیز مانگی جائے، مثلاً اے رحیم، مجھ پر رحم فرما۔۔۔‘‘
الجامع لأحكام القرآن : 327/7))

(2) ایک یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جائے، جیسا کہ:
٭ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یوں بیان کی ہے:
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
آل عمران 16:3)
’’وہ لوگ کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! ہم ایمان لے آئے ہیں، لہٰذا ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں خاتمة المفسرین،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م : 774 ھ) فرماتے ہیں:
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا﴾ ، أي : بك وبكتابك وبرسولك، ﴿فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا﴾ ، أي بايماننا بك وبماشرعته لنا، فاغفرلنا ذنوبنا وتقصيرنا من أمرنا بفضلك ورحمتك، ﴿وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
"مومن کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! ہم تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسول پر ایمان لے آئے ہیں۔ تو اپنے ساتھ ایمان رکھنے اور اپنی نازل کردہ شریعت کو تسلیم کرنے کے طفیل اپنے فضل و رحمت سے ہمارے گناہ معاف اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔‘‘
تفسير القرآن العظيم : 23/2))

٭ اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا ایک قول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾
آل عمران 53:3))
"اے ہمارے ربّ ! ہم تیری نازل کردہ وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی پیروی کی،لہٰذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل فرما دے۔"

٭عقل مند لوگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ﴾
آل عمران 193:3))
"اے ہمارے ربّ ! ہم نے ایک پکارنے والے کی یہ پکار سنی کہ اپنے ربّ پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے ربّ ! (اس ایمان کےطفیل) ہمارے گناہ معاف فرما دے، ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔"

ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک اعمال کا واسطہ دینا مشروع ہے۔ نیک اور عقل مند لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ جائز وسیلہ استعمال کرنا چاہیے۔

٭ صحیح حدیث میں اصحاب غار والا مشہور واقعہ موجود ہے، جنہوں نے مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تھا اور ان کی پریشانی رفع ہوگئی تھی۔
(صحيح البخاري: 883/2، ح : 5974، صحيح مسلم : 353/2، ح: 2743

(3) تیسری مشروع صورت یہ ہے کہ کسی زندہ، صالح اور موحد انسان سے دعا کرائی جائے، جیسا کہ سوره نساء (64) میں اس کا ثبوت مذکور ہے۔ اس کی مکمل تفصیل آگے ديكھئيے۔

٭ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصیبت اور پریشانی میں دعا کراتے تھے۔ اس بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ ایک نابینا شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حق میں دعا کرائی تھی۔
(سنن الترمذی : 3578، وسندہ حسن)

٭ اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی۔ (صحیح البخاری : 137/1، ح 1010)

قرآن و سنت سے وسیلے کی یہی تین قسمیں ثابت ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کا انہی پر عمل رہا ہے اور مسلمانوں کو انہی پر اکتفا کرنا چاہیے۔
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 405180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.