حقیقی جشن

لاہور کے لبرٹی چوک کے قریب سے گزر ہوا تو اچانک شام کی سرخی لپٹے آسمان پر رنگا رنگ آتش بازی کا مظاہرہ دکھائی دیا ،اپنے کمزور ذہن پر تھوڑازوور دیا تو یاد آیا کہ یہ یومِ پاکستان کا جشن ہے جو تاحال جاری ہے۔دلکش منظر دیکھتے ہی وہ واقعات اور تاریخ کے وہ اوراق یاد آنے لگے جو ایک شخص کو اس دن کے سیاسی، جغرافیائی اور نظریاتی اہمیت سے روشناس کرواتے ہیں۔

۲۳مارچ أ۱۹۴۰ کا دن ہے،لاہور کے اقبال پارک میں مسلمانانِ ہندوستان کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دے رہا ہے شاید یہ لوگ کسی خاص مقصد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں ان کے جوش و جذبے سے لگتا ہے کہ شاید یہ مقصد ان کے لئے متعین بقاء ہے، اس عظیم الشان اجتماع میں بچے، بوڑھے، عورتیں مرد سبھی شامل ہیں۔ ان سب کی نظریں محمد علی جناحؒ نامی ایک عظیم لیڈر پر لگی ہوئی ہیں جو انکے خیال میں ہندی مسلمانوں کا سب سے قابل اور پراعتماد لیڈر ہے۔وہ سب اپنی بقاء کے فیصلہ کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔اچانک ہجوم کا جوش بڑھتا ہے ،مسلمانوں کا عظیم لیڈر خطاب کے لئے کھڑا ہے وہ ایک ایسا تاریخ ساز اعلان کرنے جا رہا ہے جو ۱۴۰۰ سال کی اسلامی تاریخ میں ایک ایسی اسلامی نظریاتی ریاست کو جنم دے گا جو اتحاد بین المسلمین کی سفیر اور امت مسلمہ کی نگہبان کی حثیت سے جانی جائے گی۔ آخرکار عظیم حکمران اور قائدِ اعظم اپنے اعلان میں فرماتے ہیں کہ ۔’’مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں کیونکہ ان کے رسم و رواج روایات، تہذیب و ثقافت اور سب سے بڑھ کر ان کا مذہب جدا ہے، صدیوں سے ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان اپنی اپنی جداگانہ پہچان رکھتے ہیں اگر برصغیر متحدہ صورت میں آزاد ہوا تو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہیں ہو سکے گی‘‘

مزید فرمایا کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘

گویا کہ اس رہنما نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کے حقیقی مقصد سے متعارف کروایا بلکہ اس مقصدکے لئے کی جانے والی جدوجہد سے جو اسلامی ریاست جنم لے گی اس کے نظریہ سے بھی روشناس کروایا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نظریہ پاکستان دراصل اسلامی تعلیمات اور مقصد حیات پر مبنی ہے۔

اس نظریہ سے ایک تحریک نے زور پکڑا ۔ اس تحریک نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے دس لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آخرکار عظیم قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ یہ تو ہوئے ماضی کے واقعات اور اس دن (یوم پاکستان) کا عظیم تاریخی پس منظر، اب آج کے حالات پر روشنی ڈالتا ہوں۔آج پاکستان کے قیام کے ۶۸ برس بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم دس لاکھ جانوں کا نذرانہ بھول چکھے ہیں؟ یا شاید نظریہ پاکستان کی اہمیت سے ناآشنا ہو چکے ہیں؟ وہ قوم جو دنیا بھرکے مسلمانوں کی ہدایت اور عملی مثال کے طور پر اٹھی تھی آخر بھٹک کیسے گئی؟ ہم اس لئے بھٹک گئے کیونکہ ہم نے نظریہ پاکستان اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ، افسوس! ہم اسلامی جمہوریت کو چھوڑ کر مغربی سیکولرازم کی طرف چلے گئے۔ ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہو گئے لیکن عقلی طور پر اب بھی مغرب کے غلام ہیں ہم نے اسلام کا معیاری معاشی نظار چھوڑ کر مغربی معاشی نظام کو گلے سے لگایا اور سودی لین دین کے ذریعے اﷲ اور اس کے رسولﷺ سے کھلی اعلان جنگ کی ۔ہم فیشن کی ڈور میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ حیاء کی حدود کو تجاوز کر گئے۔پاکستان جن مسائل سے گزر رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں ۔ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔اپنی اصلاح خود کرنا ہوگی۔تبھی معاشرہ اصلاح کی طرف بڑھے گا اور پاکستان حقیقی معنوں میں وہ ریاست بنے گی جس کا خواب ڈاکٹر اقبالؒ نے دیکھا تھا۔ان شا ء اﷲ تعالی ہم حقیقی آزادی کا جشن منائیں گے

 
Suneeq bin Shahzad
About the Author: Suneeq bin Shahzad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.