چند اچھی خبریں

ہمارے ملک میں ناامیدی کا اس قدر پرچار کیا جاتا ہے کہ کبھی کہیں سے کوئی بھولی بھٹکی اچھی خبر آ بھی جائے تو اس پر یقین کرنے کو دل نہیں کرتا۔ ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد رہا ہے اور نہ ہی لیڈران پر۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ کی گفتگو میں ہمارا پسندیدہ جملہ یہ بن چکا ہے کہ ”اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں!“ میں چونکہ مایوس ہونے والا شخص نہیں ہوں اس لئے ہمیشہ اچھی خبروں کی تلاش میں رہتا ہوں اور شاید اسی لئے اپنی اس کوشش میں اکثر کامیاب ہو جاتا ہوں۔ آج اپنی اس کامیابی میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں ۔05نومبر 2007ء کو پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے)کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ ایسے تمام بنک اکاؤنٹس جن کا بیلنس بیس ہزار روپے سے کم ہوگا اس پر چار فیصد منافع دیا جائے گا اور جن کا بیلنس پانچ ہزار روپے سے کم ہوگا ان پر پچاس روپے سروس چارجز عائد کئے جائیں گے۔ پی بی اے کا یہ اقدام آرڈیننس کی دفعہ 4کی صریحاً خلاف ورزی کے زمرے میں آتا تھا چنانچہ کمیشن نے اس پر بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے 10/اپریل2008ء کو پی بی اے کو تین کروڑ اور سات بنکوں کو جرمانہ کر دیا۔

20مارچ 2008ء کو روزنامہ ”جنگ“ کی ایک خبر کے مطابق آل پاکستان سیمنٹ مینو فیکچر ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت میں پندرہ سے بیس روپے کا اضافہ کر دیا جائے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پورے ملک میں سیمنٹ کی بوری کی قیمت یکدم دو سو چالیس روپے سے دو سو ساٹھ روپے ہو گئی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کہ ایسوسی ایشن اگلے ہفتے سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں مزید اضافے پر غور کرے گی۔”جنگ“ کی خبر پر کمیشن نے چار ممبران کی ایک ٹیم تشکیل دی جسے اختیار دیا گیا کہ وہ اس ضمن میں ایسوسی ایشن کے لاہور ہیڈ آفس کی تلاشی لے اور ضروری دستاویز اور ثبوت اکٹھے کریں۔ سیمنٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری نے دیگر چند افراد کے ساتھ مل کر کمیشن کے کام میں رخنہ اندازی کی اور انہیں ہیڈ آفس کی تلاشی لینے سے روکا جس کے بعد کمیشن نے آرڈیننس کی دفعہ 35کے تحت ٹیم کو”طاقت“ استعمال کرتے ہوئے تلاشی کی اجازت دی۔ قصہ مختصر یہ کہ ہیڈ آفس کی تلاشی کے دوران 8مئی 2003ء کو عمل میں لائے گئے ایک معاہدے کی کاپی ہاتھ لگی جس کے مطابق ایسوسی ایشن کے ممبران یعنی سیمنٹ کمپنیاں، ملی بھگت کے تحت سیمنٹ کی بوری کی قیمت کا تعین کر سکتے تھے۔ قانون کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر مسابقتی کمیشن نے ایک مرتبہ پھر ازخود نوٹس لیا اور سیمنٹ ایسوسی ایشن کو 13نومبر 2008ء کے لئے شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ کیس چلا۔ طویل سماعت کے بعد بالآخر کمیشن نے اپنا فیصلہ سنایا اور بیس سیمنٹ فیکٹریوں کے ”کارٹل “کو کل ملا کر 6352ملین یعنی لگ بھگ 6/ارب روپے کا جرمانہ عائد کر دیا جو ان کمپنیوں کے سالانہ ٹرن اوور کا 7.5فیصد تھا۔ الزام یہ ثابت ہوا کہ ان سیمنٹ کمپنیوں نے ملی بھگت کے ذریعے سیمنٹ کی بوری کی قیمت بڑھائی اور ایک ”کارٹل“ بنا کر عوام کو لوٹا۔ کمیشن کا یہ تاریخی فیصلہ 27/اگست2009ء کا ہے۔

16فروری 2008ء کو ”دی نیوز“ میں ایک خبر چھپی جس میں بتایا گیا کہ ایک نجی یونیورسٹی نے اپنے طلبہ کو پابند کیا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے درآمد شدہ لیپ ٹاپ خریدیں۔ یونیورسٹی نے 2006ء میں ساڑھے چار ہزار لیپ ٹاپ درآمد کئے تھے جنہیں 2007ء اور 2008ء کے دوران”جبراً“ طلبہ کو فروخت کیا گیا۔ یہ مسابقتی آرڈیننس کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی تھی چنانچہ کمیشن نے اس خبر پر بھی ازخود نوٹس لیتے ہوئے 04مارچ 2008ء کو یونیورسٹی کو ایک شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔ کیس کے نتیجے میں کمیشن نے فیصلہ سنایا کہ یونیورسٹی ان طلبہ کو ایک کروڑ روپیہ واپس کرے گی جنہوں نے قسطوں پر یونیورسٹی سے لیپ ٹاپ خریدے تھے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں یونیورسٹی نے نہ صرف کمیشن سے معافی مانگی بلکہ اپنی یہ لیپ ٹاپ فروخت کرنے کی اسکیم بھی فوری طور پر بند کر دی جس کے بعد کمیشن نے نرمی دکھاتے ہوئے مزید جرمانہ عائد نہیں کیا۔

یہ ان چند کیسوں کے حقائق ہیں جو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے 2007ء سے 2010ء کے دوران نمٹائے۔ ان کیسوں کا فیصلے پڑھنے کے بعد یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ بھی کام کر رہا ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اربوں روپے کمانے والے طاقتور گروہوں پر ہاتھ ڈال سکے یقیناً اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔اندیشہ تھا کہ مسابقتی آرڈیننس 18مارچ کو اپنی مدت ختم کرنے کے بعد شاید بحال ہی نہ ہو سکے تاہم ہمارے تمام تر منفی اندیشوں کے باوجود 26/اپریل کو دوبارہ اس آرڈیننس کا اجرا کر دیا گیا۔ اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی بھی جاری ہے اور اس کا بل سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس ہے جہاں یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار عدالت عالیہ کی بجائے ایک اپیلیٹ ٹربیونل کو دے دیا جائے جو 6ماہ کے اندر اندر اپیل نمٹا دے جس کے بعد صرف عدالت عظمیٰ میں کسی قانونی نکتے پر ہی اپیل کی جا سکے۔ اس وقت کمیشن کے کئے گئے بیشتر فیصلوں کے خلاف کیسز(زیادہ تر تکنیکی بنیادوں پر) اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جس کی وجہ سے بیشتر عائد شدہ جرمانے تا حال وصول نہیں کئے جا سکے کیونکہ خود چیف نے عدالتوں کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں پر کیسز کا فیصلہ کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب ان کیسوں کا نوٹس لے کر انہیں نمٹا دیں گے تو نہایت آسانی کے ساتھ 6سے 7/ارب روپیہ حکومتی خزانے میں جمع ہو جائے گا۔

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.