پاکستان میں ہر روز ہونیوالی خودکشیاں اعداد شمار

لاہور کے علاقے شاہ پور کانجرہ میں ایک ایسا انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا ہے جس سے تمام پاکستانی غم زدہ ہو گئے ہیں لیکن پاکستان میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ایسے واقعات ہر روز رونما ہوتے ہیں کہیں تو تاریخ میں ایسے مسلم حکمران بھی گزرے ہیں جن کا کہنا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوگی۔

اور آج مسلم ممالک میں ہزاروں افراد غربت، بھو ک وافلاس، کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں لیکن ان کی ذمہ داری کوئی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ اس سے قطعی بےخبر ہیں کہ ہمارے ملک میں عام آدمی جس کی آمدنی موجودہ حکمرانوں کی مصنوعی مہنگائی سے کہیں کم ہے وہ کیسے سانس لے رہا ہے جس کو ہر سانس کے بدلے بھاری بھر اذیت ناک قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے کہیں تو کوئی اپنے بیوی بچوں کو زہر دے کر قتل کرنے کے بعد خود کو قتل کر لیتا ہے تو کہیں کوئی شخص کسی نہر میں چھلانگ لگا دیتا ہے پاکستان میں قائم جمہوریت کی ایک آدمی کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ہر روز نئی حکومت آتی جاتی ہے نئے آنے والے حکمران موجود مسائل کو سابق حکومت کی جھولی میں ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں موجودہ حالات کچھ اسطرح ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بدترین بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر قسم کا نظام حکومت ناکام رہا ہے۔ صدارتی‘ پارلیمانی‘ آمرانہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی ناکامی کی بھی اصل وجہ کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر شعبے کے طاقتور افراد اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ ایسا میکنزم بنایا جاچکا ہے کہ غریب عوام کا استحصال اشرافیہ کی مجبوری اور ضرورت بن چکا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے اشیاء ضروریہ بھی اب غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں غریب لوگ بدترین نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت آنے کے بعد سے اب تک مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پاکستان میں خودکشی کرنیوالے افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد جیسے شہروں میں غریب افراد ہر روز خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں غربت اور بھوک کی وجہ سے ہر روز 8سے 10افراد خودکشی کرتے ہیں سال 2008میں 2528افراد نے خودسوزی کی جن میں ایک ہزار725مرد او803 خواتین شامل ہیں۔ گزشتہ سال 2009میں ملک بھر میں 1800 غریب سرکاری ملازمین نے مہنگائی سے تنگ آکر خود کشیاں کی ہیں۔ جبکہ 9 ہزار ملازمین بم دھماکوں میں دہشت گردی کا شکار ہو گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی بچیوں کی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں کہ ان کے پاس جہیز کے پیسے نہیں ہیں جبکہ حکمران آئی ایم ایف اور امریکہ کی مرضی کے فیصلے کر کے ملک میں مہنگائی کا سیلاب برپا کر رہے ہیں۔ دیگر ممالک میں خودکشی کی شرح کے حوالے سے عالمی صحت کی تنظیم کے مطابق سب سے زیادہ موت کی شرح فی 10ہزار کی آبادی پر تقریباً 98لوگ خودکشی سے مرتے ہیں۔ دنیا میں موت کی سزا تقریباً 60فیصد بڑھی ہے جو زیادہ تر ایشیا کے ترقی پذیر ممالک پر منحصر کرتا ہے۔ عالمی یوم انسداد خود کشی 2008کے موقع پر عالمی صحت تنظیم نے کہا کہ پوری دنیا میں خودکشی کے تقریباً 40فیصد واقعات صرف جاپان، چین اور ہندوستان جیسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت نواز ملک میں ہوتے ہیں۔ مرکزی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 1.2 لاکھ لوگ ہر سال ہندوستان میں خود کشی کرتے ہیں۔ جبکہ تقریباً 4لاکھ لوگ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں ان میں 30سال کی عمر کے لوگ 37.8فیصد اور 44سال سے کم عمر کے لوگ تقریباً 71فیصد ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ صحیح وقت پر بہتر طریقے سے اگر ان کی کاؤنسلنگ کی جاتی تو مرنے کی شرح تقریباً60فیصد کم کی جاسکتی ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق ہر ایک لاکھ افراد میں خودکشی کی شرح 24.4 فیصد ہے۔ دنیا میں خودکشی کا سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں جاپان کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پر روس ہے جہاں لاکھ میں سے 30.1 فیصد ہر سال خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا تیسرے نمبر پر ہے جہاں ہر لاکھ کے افراد میں سے 23.3 خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے کا رجحان 50 سے60 سال کی عمر کے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو انفرادی یا گروپ خودکشیاں کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں جاپان کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پر روس ہے جہاں لاکھ میں سے 30.1 فیصد ہر سال خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا تیسرے نمبر پر ہے جہاں ہر لاکھ کے افراد میں سے 23.3 خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے کا رجحان 50 سے60 سال کی عمر کے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو انفرادی یا گروپ خودکشیاں کرتےہیں۔ امریکا میں2000سے2005 تک خودکشی کے132000واقعات ہوئے،۔

پاکستان خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح ملکی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دار پاکستان میں مکروہ بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ سرمائے کی طاقت کو استعمال کرکے غریب طبقے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ حکومت‘ بیوروکریسی‘ اسٹیبلشمنٹ میں سرمایہ دار‘ جاگیردار اور جرنیل بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف اپنے طبقے کی بہتری کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدان پالیسی سازی میں غریب طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اور امارات میں خوفناک حد تک فاصلہ پیدا ہوچکا ہے۔ غربت اور امارت میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے سماجی معاشرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 84838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.