مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا ایک سچا عاشق رسول

۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مولانا قاری سعیدالرحمٰن جدون بے نوا کی وفات ۔۔۔۔۔ جہاں۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے وہاں ہی ۔۔۔۔ ایک عالم کی موت، علم علم کی موت بھی ہے
بات یہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ کہ جنازہ کا حجم کیا تھا یا اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کتنے وی وی آئی پیز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ْ۔۔۔۔۔۔؟ یہاں سفر آخرت کی بات ہے اور اس مقام پر دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ صاحب میت اس دنیا میں انسانیت سے لینے والا تھا یا وہ انسانیت کو کچھ ڈیلیور بھی کر گیا۔۔۔۔۔۔ ؟ ڈیلیوری کی ایک قسم صدقہ جاریہ ہے اور ایک اس کی ذاتی زندگی ہے ۔۔۔۔ ایسا تو نہیں کہ ۔۔۔۔۔ اس کے اوپر جانے سے بہت سوں کی اس کی وجہ سے تھرتھلی والی زندگی میں قرار آگیا اور ان کوع کہنا پڑا کہ ۔۔۔۔۔ چلو جی زمیں کا بوجھ ہلکا ہوا ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایسا شخص تھا کہ ۔۔۔۔۔ کئی ایک خونی رشتہ نہ رکھنے کے باوجود اسد کے عالم بالا میں جانے کی وجہ سے یتیم ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مولانا قاری سعیدالرحمٰن جدون بے نوا کی وفات ۔۔۔۔۔ جہاں۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے وہاں ہی ۔۔۔۔ ایک عالم کی موت، علم علم کی موت بھی ہے۔۔۔۔ کے حوالے سے مولانا سعیدالرحمٰن جدون بے نوا برادری کی افرادی تعداد کے حوالے سے کثرت میں نہیں تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی روحانی اولاد کو دیکھا جائے تو ان سے زیادہ کثرت کسی کی نہیں ہو سکتی، وہ عالم بے بدل تو تھے ہی، ہمعصر علما انہیں خطیب سرکل بکوٹ کہا کرتے تھے، ان کی شیریں بیانی کے وجہ سے وہ بلبل گلستان نبوت بھی تھے، وہ جب بارگاہ نبوت میں اپنی زباں سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے تو حضرت حسان بن ثابتؓ کی یاد تازہ ہو جاتی، یہ تو ان کی زبان کا اعجاز تھا، ان کا قلم بھی مولانا سعید الرحمٰن جدون کی خدمت رسول اقدس ﷺ میں وہی شعلہ نوائی کرتا اور تمام آداب، رجز و انکساری کے ساتھ قرطاس پر کچھ رقم کرتا، ؎
وہ نور سید کونین ﷺ محو حمد یزداں تھا
مگر اک گوہر نایاب کے پردے میں نہاں تھا
ہزاروں سال سے محو ثنائے ذات وحدت تھا
حجاب در یکتا میں وہی نور نبوت تھا
وہ اسی نعت کے آخر میں فرماتے ہیں ؎
جو نور کبریا بھی ہوامام المرسلیں بھی ہو
شہہ کونین بھی ہو، رحمۃ اللعالمین بھی ہو
محمد نام ہو ہونٹوں پہ، رب اغفرلامت ہو
سعید بے نوا کے سر پہ اس کا ظل رحمت ہو

مولانا سعید کی کتاب عرفان حقیقت در اصل ایک ایسی دستاویز ہے جس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو لکھا وہ کا سرچشمہ زات نبوت ﷺ ہی تھی کیونکہ ادھر سے اگر اذن باریابی نہ ہو تو کچھ بھی ممکن نہیں ہو سکتا، عشق نبی ﷺ میں ان کے ڈوبے ہوئے اشعار اگر فنی نقطہ نظر سے دیکھے جائیں تو بھی ادبی معراج پر نظر آتے ہیں ساتھ ہی ساتھ اس معجز نما کلام میں دینی حرارت اور غیرت ملی بھی دکھائی دیتی ہے ؎
ادھر اک قوم خناس لعیں خاکے بناتی ہے
مسلمانان بحر و بر کی غیرت آزماتی ہے
ادھر اک ناگ ہے بیٹھا ہوا قومی خزانے پر
مگر بیٹھا ہوا ہے بحر ظلمت کے دھانے پر
یہ اس خناس کا تابع بھی ہے مرہون منت بھی
سمجھتا ہے اسی کے دم سے ہے میری قیادت بھی
جہاں خاکے ہیں، نبی کی شان کی توہین کی خاطر
جہاں خاکے ہیں نبی کی شان میں توہین کی خاطر
حکمراں سر بہ سجدہ ہیں اسی خناس کے در پہ
قیادت ہی جو زیر سایہ باطل نہ یوں ہوتی
دیار غیر میں قرآن کی توہین کیوں ہوتی
کیا اقبال نے جمہوریت کا جو خواب دیکھا تھا
یہی جمہوریت تھی کیا؟ یہی وہ خواب دیکھا تھا؟

مولانا سعید الرحمٰن جدون سلف الصالخین کی نشانی تھے، انتہائی با وقار و بےباک، کبھی کسی فرعون کے سامنے جھکے نہ بکے، اپنی کتاب میں ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد مولانا عبدالرحمٰن جدونؒ حضرت پیر مہر علی شاہؒ سے بیعت شدہ تھے، خواب میں حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے مولانا جدون کو سرکل بکوٹ میں اشاعت و تبلیغ دین کا حکم دیا، اس کی تعمیل میں انہوں باسیاں یو سی بیروٹ میں مسلسل چار عشروں تک امامت و خطابر کے فرائض انجام دئے، ان کی اہلیہ بھی حضرت پیر بکوٹیؒ کی بھانجی تھی اور مولانا سعرید الرحمٰن جدون کی والدہ ماجدہ، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے قبل باسیاں میں اپنے گھر کے پچھواڑے میں اپنی والدہ کے پہلو میں سپرد خاک ہونے کی وصیت کی اور اس وقت وہ اپنی والدہ کی بائیں طرف ابدی نیند سو رہے ہیں۔

مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا پیدائشی شاعر تھے، ان کی فیملی میں ان کی فرسٹ کزن فخرالنسا فخری بھی پنجابی کی شاعرہ تھیں، ان کے تایا مولانا عبدالحق جدون اپنے عہد کے نامور علما میں سے تھے اور انہوں نے پیدل حج کیا اور پھر اٹھارہ سال تک بیت اللہ شریف کے سائے میں اس عہد کے عرب علما سے قرآنی علوم میں سند فراغت حاصل کی، اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنے انہی چچا کی صحبت میں رہے اور ان کے رنگ میں ہی رنگ گئے،مولانا سعید الرحمٰن جدون نے نوا راقم الحروف کے بہنوئی اور خسر خطیب الرحمٰن جدون سمیت چھ بھائی تھے جن میں سابق ٹیچر اور عالم دین مولانا محبوب الرحمٰن جدون، مولانا خلیل الرحمٰن جدون آف گوجر کوہالہ، مولانا حبیب الرحمٰن جدون آف راولپنڈی، ماسٹر خطیب الرحمٰن جدون، اور جمیل الرحمٰن جدون شامل ہیں جبکہ صاحب زادگان میں عقیل الرحمٰن جدون، پروفیسر فضیل الرحمٰن جدون، مولانا قاری تنزیل الرحمٰن جدون جو کلر سیداں میں جامعہ ہجویریہ سعیدیہ مظہرالاسلام کے ناظم اعلیٰ بھی ہیں، طفیل الرحمٰن جدون اور دو جڑواں بھائی فواد الرحمٰن جدون اور جواد الرحمٰن جدون ان کے صاحبزادگان ہیں جبکہ دو صاحبزادیاں جو ایم فل اور ایم اے ہیں اسلام آباد کے کالجز میں لیکچرار ہیں۔
مولانا سعید الرحمٰن جدون نے دو پرس قبل جب اپنی کتاب کی اشاعت کا قصد کیا تو مسودہ سابق سجادہ نشین دربار عالیہ بکوٹ شریف حضرت صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹیؒ کو دکھایا تو انہوں نے مولانا بے نوا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا:۔۔۔۔۔۔ میں مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا کو عاشق الٰہی اسول ﷺ سمجھتا ہوں، ایسے دور قحط الرجال میں دین کی ترویج و اشاعت اور ملک و ملت کیلئے قیمتی سرمایہ اور امید کی کرن ہیں، خطہ کوہسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں مولانا یعقوب علوی بیروٹویؒ (بیروٹ) ، سید صادق بخاری (گھوڑا گلی، مری) اور علامہ سعید الرحمٰن جدون (باسیاں، یو سی بیروٹ) جیسے فصیح السان ، درد و سوز اور فہم و فراست سے مقالا مال جوہر قابل پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ الخ

ان کا تعلق پٹھان جدون خاندان کی سالار زئی شاخ سے تھا، انیسویں صدی کے اوائل میں جب ہزارہ میں طوائف الملوکی نے جنم لیا تو جدونوں سمیت یہاں کے قبائل ڈھونڈ عباسیوں، کڑرالوں، گکھڑوں، اعوانوں، علوی اعوانوں، سادات اور دیگر نے ڈوگرہ چنگیز صفت خونخوار جرنیل ہری سنگھ نلوا کا بے جگری سے مقابلہ کیا، اس عرصہ میں قبائل کی ہجرت بھی ہوئی ان میں جدون بھی شامل تھے، آج انہی جدونوں کی اولادیں اوسیاہ (مری)، باسیاں اور منہاسہ (تحصیل دھیر کوٹ، آزاد کشمیر) میں موجود ہیں اور اپنے اپنے علاقے کی خدمت اور تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔

مولانا سعید الرحمٰن جدون بے نوا نے نہایت سادہ زندگی بسر کی اور مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر دعوت تبلیغ کا کام کیا یہی وجہ ہے کہ آج ان کے قرآنی شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ بھی مولانا کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں، کیا اسے صدقہ جاریہ نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ اپنی زندگی کی بارگاہ رب العزت میں اپنی التجا میں وہ فرماتے ہیں ؎
مسلمانوں میں مولا جذبہ ایثار پیدا کر
خدایا! ان میں جوش حیدر کرارؓ پیدا کر
مسلمانان عالم کو ہے پھر باطل نے للکارا
الٰہی! بو عبیدہؓ سا سپہ سالار پیدا کر
صلیبی در پئے آزار ہیں، دین نبوت ﷺ کے
کوئی سلطان ایوبیؒ سا اک جرار پیدا کر
عقابی روح کو بیدار کر دے نوجوانوں میں
خدایا! ان میں حب سید ابرارﷺ پیدا کر
زمانہ منتظر ہے پھر قلم حرکت میں آ جائے
کوئی مرد قلندر کاتب اسرار پیدا کر
الہی! قطب دوراں مہر علی شاہؒ کے توسل سے
کوئی غازی علم دیں صاحب اسرار پیدا کر

اپنی آخری خواہش کا بارگاہ ایزدی میں اس طرح درد مندی سے اظہار کرتے ہیں ؎
نہ ہو دنیا میں باطل کا ذرا سا بھی نشاں باقی
خدایا! ساری دنیا میں ہوں ، اسلامی نشاں باقی
خداوندا! طفیل غوث اعظم شاہ جیلانیؒ
سعید بے نوا کو بخش دے از فضل ربانی
 
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 58763 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More