"آپ پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟"

بہتر تفہیم کے لیے راقم نے مضمون"آپ پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟" کوتین حصوں میں تقسیم کیاہے۔
1. " آئیڈیل پاکستان" جو کہ ہر پاکستانی شہری کی خواہش ہے، سے کیا مراد ہے؟
2. موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر تبدیلی کے ممکنہ طریقے کون کون سے ہیں؟
3. پاکستان کو آئیڈیل بنانے کے لیے کیا عملی اقدامات ہوسکتے ہیں؟

1۔آپ پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟:
اس سوال کا جواب ہر پاکستانی شہری لازمی طورپر یہی دے گا کہ میں پاکستان کو "ترقی یافتہ" "خوشحال" اور "کامیاب" ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک ہی لفظ میں یہ جواب بنتا ہے کہ میں پاکستان کو ایک "آئیڈیل"ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کن خصوصیات کی بنا پر کسی ملک کو "آئیڈیل"کہا جاسکتا ہے؟

میرے خیال میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک آئیڈیل نہیں ہو سکتی جب تک وہ تین خصوصیات کی حامل نہ ہو۔ ان تین اوصاف کی حیثیت کسی بھی مملکت میں مثلث کے اضلاع کی سی ہے کہ جن میں سے ایک کی بھی عدم موجودگی سے مثلث مکمل نہیں ہوسکتی۔باالفاظِ دیگر ہم ان تین خصوصیات کو"ترقی کا سہ نکاتی فارمولہ" بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک کی جس قدر خصوصیات ممکن ہوسکتی ہیں وہ ان تین ہی کے ضمن میں آسکتی ہیں۔ تری کا "سہ ِنکاتی فارمولہ" ذیل میں درج ہے۔
١۔ ہدایت
٢۔ حکمت
٣۔ حکومت

ان تین خصوصیات کی مختصر مگر جامع تفصیل بیان کی جاتی ہے۔
1. اگر کوئی قوم مادی ترقی کی انتہاء تک پہنچ جائے لیکن ہدایت ِ ربّانی سے محروم ہوتو وہ کسی واضح مقصدِ حیات کا تعیّن نہیں کر سکتی اور نتیجتاً بے چینی، کرب اور اضطرابی کیفیت میں زندگی بسر کرتی ہے۔ایسی قومیں بچوں کی طرح وقتی تماشوں سے دل بہلاتی ہیں اور حقیقی قلبی سکون سے محروم رہتی ہیں۔
2. "علم و حکمت "قوموں کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے۔دنیا کی تمام تر مادی اور روحانی ترقیوں کے پیچھے ہمیشہ دو اصول یعنی "جہاداور اجتہاد" کارفرما رہے ہیں۔ جہاد اور اجتہاد دونوں کا تعلق براہ راست علم و حکمت کے ساتھ ہے۔ جب تک کوئی قوم ان دو اصولوں پر کار فرما رہتی ہے تب تک افق پر اسکا سورج چمکتا رہتا ہے مگر جب ان کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
3. تیسرا نکتہ یعنی "حکومت" پہلے دو نکات کا ثمر ہ ہے۔ قانونِ فطرت ہے کہ جو قوم ہدایت اور علم وحکمت کے اسلحہ سے لیس ہوئی ہے قدرت نے دنیا کی فرمانروائی اسی کے سپرد کی ہے۔ مسلمانوں نے ہدایت اور حکمت کی بدولت ہی دنیا کے معتد بہ حصہ پر کوئی ایک ہزار سال تک فرمانروائی کی۔ دنیا میں اسی قوم کا سکہ چلتا ہے جس کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہوتی ہے۔مقتدر قوموں کے افکار و نظریات مسلّمہ اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے متاثر ہوکر محکوم اور ترقی پذیر قومیں رفتہ رفتہ اپنی روایات، تہذیب و تمدن حتی کہ مذہب کو بھی چھوڑ دیتی ہیں اور ترقی یافتہ قوموں کے تہذیب و تمدن کی نقالی پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ اس امر کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علم وحکمت سے عاری اقوام زمانے کی گردش کے ساتھ ساتھ اپنا تشخص تک کھو بیٹھتی ہیں۔

سطورِ بالا میں بیان کردہ تین اوصاف کواگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ترقی کے دولازمی عناصر ہیں: "مادی اور روحانی"۔ ان دونوں عناصر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی بھی قوم ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر حقیقی ترقی کی حامل نہیں ہوسکتی۔ کامیاب قوم وہی ہو گی جو دونوں پہلوؤں میں پہلو بہ پہلو پیش رفت کرے گی۔اسکی واضح مثال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مغرب نے مادی ترقی کو زندگی کا مطمع نظر بنایا اور روحانیت کو پس پشت ڈال دیا جس سے دیّارِ مغرب میں اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا دوسری طرف مشرق نے راہبانہ تصور کا پرچار کیا اور نتیجتاًمادی ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئیں۔ علامہ اقبال نے ایک ہی مصرے میں دونوں غلط فہمیوں کو واضح کردیا کہ :
ضمیر مشرق ہے راہبانہ ضمیر مغرب ہے تاجرانہ

2۔تبدیلی کے ممکنہ طریقے:
تاریخ بتلاتی ہے کہ کسی بھی قوم نے جب ترقی کا سفر شروع کیا ہے تو دو طرح سے اپنی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کا ازالہ کیا ہے۔
1. اوپر سے نیچے تبدیلی (Top to Bottom Change)
2. نیچے سے اوپر تبدیلی (Bottom to Top Change)

اوپر سے نیچے تبدیلی کا تعلق ریاستی اختیارات کے ساتھ ہے جو کہ قانونی اور آئنی طریقے سے ہوا کرتی ہے جبکہ نیچے سے اوپر تبدیلی کسی بھی قوم کے ذہین ، بیدار اور ہوشیار لوگوں کی مرہون منت ہوا کرتی ہے۔ ہمیں ان دونوں طریقوں کو پہلو بہ پہلو اختیار کرنے کے ضرورت ہے۔

3۔ پاکستان کو آئیڈیل بنانے کے لیے عملی اقدامات:
اب ہم اوپر بیان کردہ تبدیلی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند عملی تجاویز پیش کرتے ہیں جن پر عملدرآمد کرکے پاکستان کو ایک "آئیڈیل ریاست" بنایا جاسکتا ہے۔

تبدیلی کے "پہلے اصول" کے مطابق درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔
1. ارباب اقتدار اور وہ لوگ جو معاشرے میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں ان سے رابطے قائم کیے جائیں ۔ ان کو اللہ کی طرف سے دیے گئے منصب اور دیگر نعمتوں کی یاددہانی کروا کر ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے۔
2. قرآن و حدیث اور تاریخ ِاسلام سے مثالوں کے ذریعے ان کو معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے جدوجہد میں معاونت پر آمادہ کیا جائے۔
3. دنیا کی بے ثباتی، آخرت میں باز پرس، مخلوقِ خدا کی خدمت اور اللہ کی طرف سے اجر کے واقعات حصولِ مقصد کے لیے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
4. ان لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہا جائے اور ان کے ذریعے ہی حکومتی سطح پر اور ایوانِ حکومت میں کرپشن، بد عنوانی، بے انصافی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنے کےخلاف آواز بلند کروائی جائے۔
5. اگر ان لوگوں میں چند لوگ بھی اصلاح اور کارِ خیر کے آمادہ ہو جائیں گے تو نہایت ہی خوشگوار اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے جن کی الفاظ میں تعبیر ممکن نہیں ہے اور خالصتاً مشاہدے سے ہی ان کی قدروقیمت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

تبدیلی کے "دوسرے اصول" کے مطابق درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔
1. معاشرے کے ذہین، ہوشمند اور بیدار افراد ایک یونین قائم کریں جس کو ایک ادارے کی شکل دی جائے۔
2. اس ادارے کا بنیادی مقصد عامۃ الناس کے اندر شعو ر کی بیداری اور ان کو آئنی اور قانونی حقوق سے آگاہ کرنا ہو۔
3. عوام کے لیے فوری طورپر ایسے چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کے جائیں جہاں غیر رسمی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے اورضروری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھا جائے۔
4. عوام کے اندر محکمومی اور غلامی کی زنجیروں سے نکلنے اور عزت والی زندگی گزارنے کی سوچ بیدار کی جائے۔
5. جب من حیث القوم تمام کی تمام یا عوام کا اکثریتی حصے کا شعور بیدار ہوجائے تو قانونی اور آئنی طریقہ سے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے "صالح قیادت" کا انتحاب کا جائے۔

نوٹ: یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر کا کام شروع کرنے کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ اسکی تکمیل کا سارا ساماں ابتدا ہی میں موجود ہو۔ بالکل اسی طرح جو کام ہم شروع کریں گے یہ ایک مسلسل کام ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہم اسکی صرف بنیاد ہی بنا پائیں اور آنے والی نسلیں ہماری بنائی ہوئی بنیادوں پر دیواریں بنائیں اور ان کے بعد والی نسلیں چھت ڈال کر عمارت کو مکمل کر دیں لہذا اس بات سے مایوس ہونا کہ ہمارے کرنے سے کیا ہوگا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔ دنیا میں کوئی بھی کام حادثاتی یا اتفاقی طور پر نہیں ہوتا بلکہ تمام امور"اصولِ تسلسل" کے تحت ہی وقو ع پذیر ہوا کرتے ہیں۔

نوٹ: "علم وحکمت" کے ضمن میں جو ہم نے جہاد کا ذکر کیا ہے اس سے ہماری مراد صرف جہاد بالسیف نہیں ہے بلکہ جہاد کا وہ وسیع تصور ہے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہے اور جہاد کی تمام جہات یعنی جہاد بالعلم، جہاد بالمال، جہاد بالسیف، جہادباللسان اور جہاد بالنفس پر مشتمل ہے۔ نیز یہ کہ اسلام کے مطابق کسی فرد واحد، گروہ یا چند گروہوں کو مسلح جدوجہد کی قطعا اجازت نہیں ہے جہاد اور اس سے متعلقہ امور ریاست کی ذمہ داری ہے۔

(واضح رہے کہ ہماری ویب کی جانب سے یہ آرٹیکل بطورِ فیچرڈ آرٹیکل 5 ستمبر کو شائع کیا گیا ہے تاکہ یوزرز واضح انداز میں فاتح آرٹیکل کے بارے میں جان سکیں اور اس کا مطالعہ بھی کرسکیں جبکہ یہ مضمون نویسی کے مقابلے میں اپنے وقت پر ہی شامل کیا گیا تھا- اس آرٹیکل کے شائع ہونے کی حقیقی تاریخ جاننے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

https://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=12446

شکریہ)
YOU MAY ALSO LIKE: