پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک کیسے بنایا جاسکتا ہے

خالق کائنات نے اشرف المخلوقات سے لے کر ہر ذی روح کواُس کی بساط کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے فکر،عقل عطا فرمایا ہے۔لوگ کہتے ہیں جانور عقل سے عاری ہے حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے جانوروں کو بھی خدا نے حیوانی عقل عطا کی ہے،جہاں تک انسان کی بات کریں تو یہ انس سے نکلا ہے جس کے معنی انسیت،محبت،ہمدردی کے علاوہ بھی کئی مفہوم ہیں۔خدا نے انسان کو عقل سلیم عطا فرمایا ہے اس بناء پر انسان جانوروں سے افضل ہے۔اگر انسان اس عقل کو فرمان الٰہی کے مطابق اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لئے استعمال کرے تو یہ مٹی کا پتلا فرشتوں سے بھی افضل ہے۔یہ انسان اپنی عقل کی مدد سے علم اور تربیت حاصل کرتا ہے۔اس علم کی وجہ سے آج انسان چاند اور دیگر سیاروں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔نت نئے ایجادات اور ترقی کی شاہراہ پر آج کا انسان جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں مل سکتی ہے۔اب سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ انسان نے اس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کے منازل کس طرح طے کر ڈالا تو جواب یہ ملے گا کہ جہد مسلسل،لگن،ترقی کے حصول کا شوق،اپنی ذمہ داری،بے لوث اوراجتماعی سوچ کا عنصر شامل ہونے کی وجہ سے انسان کے سامنے کوئی چیز ناممکن نہیں اور وہ اسلئے ممکن ہے خدا نے یہ کائنات یہ نظام شمسی سب کچھ انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔اب آجائیں اصل موضوع کی جانب مذکورہ حقائق کی جانکاری کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں آیا انسان یہ سب کچھ تو کر سکتا ہے تو کیا جہاں کا وہ باسی،شہری ہے جس مملکت میں وہ پیدا ہوا جو مٹی اس کی جنم بومی ہے جہاں اس کا جینا مرنا ہے،جہاں اس کی پہچان ہے اور جہاں اسے نام اور مقام ملنا ہے کیا وہاں ترقی نہیں چاہے گا کیا وہاں امن کی حالی اس کی خواہش نہیں ہوگی کیا معاشی خوشحالی اس کی ضرورت نہیں؟پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک کیسے بنایا جاسکتا ہے یہ پاکستان کے سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں دنیا جہاں کے حربے بہ آسانی استعمال کر سکتے ہیں اربوں کی جائیدادیں بنا سکتے ہیں اور انہیں بیرون ملک بھی منتقل کر سکتے ہیں تو کیا انہیں نہیں معلوم کہ یہ ملک ترقی کیسے کرسکتا ہے؟جبکہ یہ خودتیزی کے ساتھ ترقی کرتے ہیں؟یہاں اس مثال سے میں سمجھانا چاہوں گا کہ ایک چرواہا، ایک ریڑھی والا،ایک مزدور،ایک کلرک بھی اپنے معاملات کو اچھی طرح سمجھتا ہے پھونک پھونک کر چلتا ہے نفع نْصان سے خوب آشنا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے ملک کے معاملات میں وہ اپنی بساط کا کام نہ کر پائے؟اصل بات ہی یہ ہے کہ لالچ اور خود غرضی نیچے سے اوپر تک یکسان رائج ہوچکی ہے ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں۔قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد آج تک کوئی بھی سیاستدان،حکمران صحیح معنوں میں انسان دوست،محب وطن اوور اپنے فرائض کے ساتھ مکمل طور پر مخلص ہوتا نظر نہیں آیا ہے۔حیرت اس بات کی ہے کہ بار ہا دھوکہ کھانے کے باوجود یہ عوام انہی کو اقتدار تک پہنچاتی بھی ہے اور بعد میں رونا پیٹنا بھی ان کا مقدر رہا ہے۔حقیقت میں دیکھا جائے تو دنیا میں نہ ایسے بے حس حکمران آپ کو نظر آئیں گے اور نہ ایسی لالچی اور بیوقوف قوم ملے گی سوائے پاکستان کے۔موجودہ سیاستدان میرا مطلب خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا باہر یہ کبھی بھی سدھرنے والے نہیں ہیں یہ بات سب کو اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھانا چاہئے۔اس کے بعد یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ ہم فرشتے کہاں سے لائیں تو اس کے ۲ جوابات ہیں جواب نمبر ایک یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے روابط کو بالائے تاک رکھتے ہوئے ہمیں نچلی سطح سے با کردار با صلاحیت اور ایماندار لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو واقعی قرآن و سنت کے مطابق صادق اور امین بھی ہوں خواہ وہ کتنا بھی غریب کیوں نہ ہوں عوام چاہئے تو اسے اقتدار تک پہنچا سکتی ہے جب کہ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ایسے عظیم شخص کا تعلق کسی بھی ذات پات اور مسلک سے کیوں نہ ہو یہ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ آیا یہ اس قابل ہے جو ایمانداری کے ساتھ قران سنت کے مطابق حکمرانیکی کر سکے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی نظریات کی پاسداری کر سکے معیار پر پورا اتر سکے اگر واقعی ایسا ہوا تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے وہ اس طرح کی پاکستان نام کا جو خطہ ملا ہے اس میں ہر زاوئیے کے قدرتی ذخائر موجود ہیں بس ان ذخائر کو درست سمت پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے اپنی نیت ٹھیک ہونی چاہئے باقی سب معمالات ٹھیک ہوجائیں گے۔قانون کی پاسدار ہو سزا و جزا سب کے لئے برابر ہو نظام عدل حقیقتاً عدل پر مبنی ہو تو نہ کوئی پاکستان سے باہر جانے کی سوچے گا اور نہ کسی کہ کوئی کمی پیشی ہوگی بلکہ دیگر ممالک سے لوگ روزگار کے لئے یہاں آئیں گے اس کے لئے ملک کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے تمام لٹیروں کا احتساب بلا تا خیر کیا جائے۔جواب نمبر دو جو بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں وہ اس طرح کہ جب الیکشن کا دور شروع ہوجائے تو پورے پاکستان کے عوام کو اس نام نہاد الیکشن سے بائیکاٹ کرنا چاہئے کسی کو بھی ووٹ نہ دیا جائے اور عوام کی جانب سے پاک آرمی کو یہ اپیل کیا جائے کہ جب تک ہم اپنا نمائندہ کھڑا نہیں کرین گے تب تک وہ نظام سنبھالے،اچھا ٹیکس جس کسی پر بھی لاگو ہوگا وہ ٹیکس باقائدگی سے ادا کرے گا اگر ستر فیصد بھی ٹیکس کا حصول ممکن ہوا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں صحت ، تعلیم مکمل مفت میسر ہوگا روزگار کی کسی کو فکر نہیں ہوگی،وجود میں آنے والی عوامی حکومت چوروں کے احتساب کے ساتھ ساتھ تمام افغانیوں کو یہاں سے چلتا کرے،دہشت گردی کے خلاف باضابطہ قانون کے تحت عمل ہو فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی تقاریر اور لیٹریچر پر سخت سزا دی جائے تو کوئی بعید نہیں کہ قائد آعظم کا پاکستان ہم پھر سے دیکھ پائیں گے۔اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی اپنی ڈیوٹی احساس ذمہداری کے ساتھ نہیں کرتا ہے اگر قانون انہیں قابو کرے اورشاہ سے گدا تک ہر کوئی اپنی ڈیوٹی اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرے تو ایک سال کے اندر اندر ملک ترقی کر جائیگا۔
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 17142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.