نفلی حج پر خدمت خلق اور اقامت دین کو ترجیح دیں

محترم قارئین!جب تک یہ تحریر آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گی آپ کے احباب واقارب میں سےکچھ خوش بخت افراد خانۂ کعبہ کی زیارت وحج کے لیے نکل چکے ہوںگے اور کچھ لوگ سفرحج کی تیاری میں مصروف ہوںگے۔

حج ایک ایسی عبادت ہے جو اِسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، اوراِس کی فرضیت کاانکارکرنے والا دین سے ایسے ہی نکل جاتا ہے جیسے تیر کمان سے ۔
دیگر عبادتوں پر نظرکریں تو اُن میں سے نماز چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ فرض ہے،زکاۃ سال میں ایک بارمال داروں پر فرض ہے ،روزہ بھی سال میں ایک ہی بار فرض ہے، لیکن حج تنہاایسی عبادت ہے جو پوری زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، اور وہ بھی سب پر فرض نہیں ،بلکہ یہ صرف اس شخص پر فرض ہے جوحج کرنے کی قدرت واستطاعت رکھتاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ ہی کے لیےان لوگوںپرحج فرض ہے جو خانہ کعبہ جانےکی طاقت رکھتے ہیں۔(آل عمران:97)

بلاشک وشبہ حج دین کاایک اہم ستون ہے،اس کی ادائیگی کے لیے جس قدر بھی ذوق وشوق کا مظاہرہ کیاجائے کم ہے۔لیکن جوصاحبانِ ثروت حج کے لیےپُرجوش نظرتوآتے ہیںلیکن پنج وقتہ نماز یں،روزہ،زکاۃ وغیرہ اداکرنےسے جی چراتے ہیںاور حج کے علاوہ عبادتوںکوکوئی اہمیت اور حیثیت نہیںدیتے،اُنھیں اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہیے کہ’’رب کی پکڑ سخت ہے۔‘‘(بروج:12)

بارہایہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ صاحب ثروت افراد حج فرض اداکرنے کے بعد بھی حج پر حج کیے جاتے ہیں ،جب کہ ان کے پاس پڑوس میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھانے کے لیے دانے دانے کو محتاج ہوتے ہیں،کسی گھر میں بیٹیاں اس لیے بیٹھی رہتی ہیں کہ ان کے والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی وقت پر شادی کرسکیں، کچھ بچے ایسےبھی ہوتے ہیں جن کی عمر پڑھنے لکھنے کی ہو تی ہے،لیکن وہ کسی چائے کی دوکان پرگندے گلاس صاف کرتے ہیں ، یاپھر کسی فیکٹری میں مزدوری کرنے پرمجبور ہوتےہیں ،کیوںکہ ان کے والدین اس حیثیت کے نہیں ہوتے کہ اُن کی تعلیم کا خرچ برداشت کرسکیں، پڑوس میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی مہلک بیماری میں مبتلاہوتے ہیں اور علاج ومعالجے کے لیے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپناعلاج کراسکیں،اور بعض لوگ اس قدر قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں کہ ان کی اور اُن کی اولاد کی پوری زندگی قرضوں کی ادائیگی میں ختم ہوجاتی ہے، اُنھیں بروقت قرض نہ اداکرنے کی صورت میںذلت ورسوائی کاسامنابھی کرنا پڑتا ہے،ساتھ ہی دین کے لیے شب وروزجدوجہدکرنے والے بہت سےایسے ادارے ہیں جو مالی پریشانیوں کی وجہ سے دینی مشن کو تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھا پارہے ہیں۔

لہٰذا حج فرض اداکرلینے کے بعد ہر صاحب حیثیت پر لازم ہے کہ حج نفل کے لیے سفر پر نکلنے سے پہلے اپنے آس پاس کے لوگوںپر ضرور ایک گہری نظر ڈالیں،کیوں کہ ممکن ہےان کے اس عمل سے کسی گھر میں چولہاجل جائے،کسی کی بیٹی کا گھر بس جائے، غربت کے مارےبچوںکوتعلیم کی دولت میسرآئے،کسی کو مہلک بیماری سے نجات مل جائےاورکسی بھائی کا قرض ادا ہوجائے۔ بلکہ افضل ترین عمل یہ ہے کہ ایسی نفلی عبادتیں جو لازم ہیں یعنی جن کا فائدہ صرف فردِواحد کو پہنچتا ہے، اس پر ہمیشہ اُن نفلی عبادتوں کو ترجیح دی جائےجو متعدی ہیںیعنی جن کا فائدہ فردِواحد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اورمخلوق کوبھی پہنچتاہے۔چنانچہ لازم نفلی عبادت ، مثلاًنفلی حج پرمال خرچ کرنے کی بجائےمتعدی نفلی عبادت ،مثلاًاسلام کی نشرواشاعت پر خرچ کرناچاہیےاوردین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مالی اعتبارسے مضبوط کرنا چاہیے تاکہ دین کامشن تیزی سے آگے بڑھے،بےدینوںکا خاتمہ ہو،اور دینی نظام پر مشتمل ایک صالح انسانی معاشرہ وجود میں آسکے۔ یہ تمام باتیں نہ صرف دنیوی اعتبارسے ایک انسان کو باوقار بناتی ہیں، بلکہ دینی اعتبارسے بھی اللہ رب العزت اوراُس کےرسول کی بارگاہ میںسرخرو بناتی ہیں۔

ارشادنبوی ہےکہ جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی تکلیف دور فر مائے گا ،جو شخص کسی تنگ دست ومحتاج کے لیے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کے لیےآسانی پیدا فر مائے گا ، اوراللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندےکی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (صحیح مسلم،حدیث:2699)

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ اگر تم اللہ (کےدین)کی مددکروگےتواللہ تمہاری مدد فرمائے گااور تم کو ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔

اس میں دورائے نہیں کہ نفلی حج یادیگرنفلی عبادتوںپر خدمت خلق اوراقامت دین کی کوششوںکو بہر حال فوقیت حاصل ہے، چنانچہ اس طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ مشائخ کرام نفلی حج کے لیے نکلے ،مگر راستے میں کسی کو حاجت مند پایا تو اُس کی حاجت دور کردی اور حج ادا کیے بغیر واپس آگئے۔
ایساہی ایک واقعہ حضرت بایزیدبسطامی کے ساتھ بھی پیش آیا کہ آپ حج کے لیےسفرپر روانہ ہوئے،دورانِ سفرایک شخص سے ملاقات ہوئی۔اُس نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا:حج کا، اُس نےپھر پوچھا: تمہارے پاس کتنامال ہے؟ آپ نے فرمایا: دوسودرہم۔اس نے کہا کہ سنو! وہ سب درہم مجھے دے دو ، کیوں کہ میں صاحب ِعیال ہوں،اور مجھے اس کی سخت حاجت ہے۔ آپ نےایسا ہی کیا،دوسودرہم اُس کے سپرد کردیااور واپس لوٹ گئے۔(تذکرۃ الاولیاء-مثنوی معنوی،دفتر:دوم)

حاصل کلام یہ کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے کہ صاحب ثروت افراد حج فرض کی ادائیگی کے بعد اپنے سماج ومعاشرے میں موجود حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے میںمصروف ہوجائیں،اوردینی مشن کوآگے بڑھانے میںمدگارثابت ہونے لگیں تووہ دن دور نہیں کہ ہمارامعاشرہ خوش حال، تعلیم یافتہ اوردیندارہونے کے ساتھ آپسی محبت ومروت، ہمدردی،رحم دلی اور تحاد واتفاق کی ایک مثال بن جائے۔
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52181 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More