حقا ئق مقدس ہیں اور تنقید کی پوری آزا دی

آ ج پو ری دنیا میں آزادی صحا فت کا دن منا یا جا رہا ہے ، ایک آزاد اور بے با ک پر یس کسی بھی معا شرے کے لیے ایک بڑی قوت ہو تا ہے ،اور اس قوت کو کچلنے کی ہر کو شش آزادی کی روح کو نقصا ن پہچا نا ہے ۔طا قت اقتدا راور نا جا ئز اصو لو ں سے خودی حق سے مقا بلہ بہت پر انا ہے، اٹھا رو یں صدی میں جب اخبا رکی اشا عت کا کام شروع کیا گیا ، تو اس زما نے کے اہل اقتدار اس با ت سے سخت خا ئف تھے کہ کو ئی خبر عا م لو گو ں تک پہنچ سکے۔ اس کے لیے انھو ں نے ہر حربہ استعما ل کیا ،اخبا را ت اتنے مہنگے دامو ں میں فرو خت کیے جا تے کہ عوام کی پہنچ سے دور رہیں، اخبا را ت پر حد سے زیا دہ ٹیکس اور پا بند یا ں لگا ئی گئی ، مگراخبا ر ملکان نے ہتیار نہیں ڈا لے ،اوربڑ ی بہا دری سے مخا لف قو توں کا مقا بلہ کیا ،کہ یہی دنیا ئے دستور ہے ۔،جب تک یہ دنیا قا ئم ہے کفر اور با طل قو توں کی یہ جنگ ہمیشہ ر ہے گی ۔

پاکستان ایک آزاد ملک ہو نے کے با وجود آج بھی پا کستانی پر یس پابندیو ں کی ز د میں ریتا ہے، ہما رے معا شر ے میں مد یر اور صحافی کو اثر رسو خ سے یا د ھمکی سے ڈرا یا جا تا ہے ، ایک صحا فی کو عنا یت مہر بانی اور تعا ون کے طلب گا روں سے خو دکو بچا نانہا یت مشکل کا م ہے ،ایک صحا فی کی معا شرتی حیثیت سے نا جا ئز فا ئدہ اٹھا نے والے اس کے سفا رشی کا فی تعدادمیں ہمیشہ مو جو درہے ہیں ،ان حالا ت میں اپنی آزادی اور سچا ئی کو بر قراررکھنا بہت مشکل کا م ہے ، طر ح طرح سے بہلا نے ،پھسلا نے ،دھما کنے اور للچانے کی کو شش کی جا تی ہے ،تا جر برادری کی طر ف ے بھی د با و ہو تا ہے کہ کسی خا ص معاملہ کے لیے نر می سے رپو ٹ تیا ر کی جا ئے ،مذ ہبی پیشوا صحا فی سے خا ص رو یہ کے طلب گا ر نظر آتے ہیں ، الغر ض طر ح طرح سے صحا فیوں ، مد یرو ں ، کا لم نو یسو ں کو مر عوب کرنے کی کو شش کی جا تی ہے ،ایسی حقیتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ جنھو ں نے اصول اور مقصد یت پر کو ئی سمجھو تہ نہ کیا وہ موت کے گھا ٹ اتار دیے گئے ۔

مقصدیت ہی کسی صحافی کا اہم اصول ہے ، صحا فت میں حق گو ئی کی حو صلہ شکنی کے لیے ایسے عنا صر ضرور سا منے آتے ہیں ، اور اسی مخالفت کا سامنا کر نا ہی صحافی کے لیے میدا ن جنگ ہے ،لیکن اگر ایک صحا فی اپنی حق گو ئی پر بہا دری سے قا ئم رہے تو مخا لف قو تیں اپنے آپ مر جاتی ہیں ،اس لیے تو کہا جا تا ہے کہ ہر شخص کی طر ح ایک اخبا ر کی بھی پر سنا لٹی ہو تی ہے ،سچ کو سا منے لا ناا س کی خصو صیت اس کا معیا ر ہو تا ہے اسی دیا نت داری کے تحت وہ خبر یں جن میں عوا م کی افا دیت اور اہمیت زیا دہ ہو، اسے ہی شائع کی جا تی ہیں ، اسکی مثا ل بلکل اس طر ح ہے کہ گند م کو پیسنا اور بھو سی الگ کر نا اخبا ر کا کام ہے، ایسا نہ ہو کہ بھو سی اخبا ر میں آجا ئے اور گند م پڑا رہ جائے ۔

آ ج کے دور میں معا شرہ اخبا ر کے بغیر نا مکمل ہے، پر یس کی قوت سب پر عیا ں ہے ،اخبا را ت کی آزادی ایک نعر ہ بھی ہے اور ایک جا ئز مطا لبہ بھی جمہوری ملک کی بقاء میں اخبا را ت کادر جہ تیسر ے نمبر پر آتا ہے ، تا ریک گوا ہ ہے کہ اخبا را ت کی آزادی نے حکومتیں قا ئم بھی کی اورکئی حکو متو ں کو جڑ سے اکھا ڑبھی پھینکا۔ مشہور مورخ جی ایچ ویلز نے کہا کہ ’’ روم کی طا قت ور ایمپا ئراس وجہ سے بھی دیر پا ثا بت نہ ہو سکی کہ اس زما نے میں اخبا را ت عا م نہ تھے ۔ مشہور فا تح نپو لین بو نا پا رٹ کو اخبا را ت کی طا قت کا بخو بی علم تھا۔ اس کا ایک قو ل پر یس کے حوالے سے ہے کہ ’ ’ تین مخا لف اخبا رو ں سے اک ہزار بندوق سے بھی زیا دہ خو ف کھا نا چا ہیے ،‘ بر صضیر کی آزادی کے حصو ل میں اخبا را ت کا ایک تا ریخی کر دار رہا ہے ،یہا ں یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اخبا را ت کی وجہ سے ہما ررے ملک کو ٓآزادی نصیب ہو ئی ۔

آزادی کے بعد ملک میں کئی حکومتیں آئی ما رشل لا کے نظام نے جہا ں ملک کی تر قی میں روڑے اٹکا ئے وہا ں پر یس کی آزادی میں بھی کئی نشیب و فراز آئے ، مگر آج صحا فت کا حال اور مستقبل روشن تر ین ہے ۔بحثیت ایک ادنی سی کا لم نگا رکے میں یہ کہنے میں حق بجا نب ہو ں کہ صحا فت کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں ، کو ئی فردبھی جو انداز تحر یر میں مہارت رکھتا ہو، اس میں دا خل ہو کر کا میا بی حاصل کر سکتا ہے -

ما ہر ین کا دعو یٰ ہے کہ پا کستان میں ایسے ہی اخبا ر ت کامیا ب رہے ہیں ،جنھو ں نے اپنے قا رئین کے ساتھ ایک آزادنہ تخا طب قا ئم کیا اور ان کی صیح رہنما ئی کی ،جنھو ں نے معا شرے کے ہر پہلو کو منصفا نہ انداز میں قا رئین کے سامنے پیش کیا،ا سکے بر عکس جو اخبا را ت کسی خا ص سیا سی جما عت سے بند ھے رہے ،وہ معا شرے کی جا ئز مسا ئل کی عکا سی میں اس لیے بھی نا کام رہے کہ ان پر نظر یا ت کی چھا پ لگی ہو ئی تھی ، جس نے ان کے دا ئر ہ کا رکو ان کی آزادی کو محدود کر دیا ایسے اخبا را ت اپنے فر ائض مکمل آزادی سے انجا م نہیں دے سکتے ۔

صحا فت کے شعبے میں ایک آزاد کالم نگار جو اپنے قلم کی طا قت کو غیر جا نب دار ہو کر استعما ل کر ئے، ایک جہا دکی حثیت رکھتا ہے ۔ایک کالم نگا ر اپنے کالم میں معا شرے کے مسا ئل کو ہلکے پھلکے انداز میں اپنے نظریہ سے پیش کر تا ہے ، میں سمجتی ہو ں کہ جس دن دنیا کے تمام مسا ئل ختم ہو جا ئیں گیں ،شا ئد اس دن اداریہ نگا ر اور کا لم نو یس بھی بیکا ر ہو جا ئیں گیں،جب تک دنیا قا ئم ہے ،انسا نی مسا ئل ختم نہ ہو ں گیں اور کالم نو یس کو مو ضو ع کی کمی نہ ہو گی ،اور کا لم نو یس عوامی مز اج سے وا قفیت کی بنا ء پرآزادا نہ کا لم لکھتا رہے گا ۔

صحا فت کی دنیا میں آزادنہ ذا تی کالم لکھنے کی ابتدا ء ۸سمتبر ۱۹۳۱ء کو میں وا لٹر لپ مین نے ’دی ہیر الڈ ٹر یبو ن ‘‘ میں کی،اس کا کالم پا نچ سو سے زا ئدامر یکی اخبا رو ں’’ میں آ ج اور کل‘‘ کے عنوا ن سے شائع ہو تے تھے۔آج بھی امر یکہ میں ایسے کئی کا لم نگا ر ہیں جوبیک وقت سینکڑو ں اخبا رو ں میں ایک سا تھ شا ئع ہو تے ہیں ،ان تمام لوگو ں نے اس لیے کا میا بی حاصل کی ،کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں۔ جہا ں صحا فت کو آزادی حا صل ہے،وہ اپنا کا م بنا ء کسی ر کا وٹ کے کر سکتے ہیں آج جب پو ری دنیا آزادی صحا فت کا دن منا رہی ہے ،ہمیں بھی پا کستانی صحا فت میں مزید اصلا حا ت پر غور کر نے کی ضرورت ہے۔
 
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 146683 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.