سرور کا ئنا ت وروشن چراغ انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ

اﷲ تبارک و تعالیٰ کے بعد پیارے نبی ؓ سے محبت اور انہیں تمام دنیاوی مال و دولت ، عزیز و اقارب سے زیادہ عزیز رکھنا تکمیل ایمان کی اولین شرط ہے ۔ایمان کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بے پناہ محبت ہمارا نصب العین نہ ہو اور آپ ﷺ ہمیں دنیا کی ہر شہ سے زیادہ عزیز نہ ہوں اﷲ تعالیٰ سورۃ لنسا ء میں فرماتے ہیں کہ جس نے رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی ۔اطا عت محمد ﷺ اطاعت الٰہی کا دوسرا نام ہے ۔چھٹی صدی عیسوی زمانہ جاہلیت کا سیاہ ترین دور تھا سخت المناک اور شرمناک حالت نے اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ہر طرف فسق و فجو ر ظلم مکرو فریب ۔قتل و غارت گری ، بے حیائی اور بے شرمی کا بازار گرم تھا یہ واقعات صرف دنیائے عرب کے ساتھ مخصوص نہ تھے ۔بلکہ ساری دنیا میں ہوسناکی اور سفاکی کی لرزہ خیز داستانیں رقم کی جا رہی تھیں ۔ایک بھیانک اندھیرا تھا جس نے قرہ ارض کو چاروں طرف سے لپیٹ میں لے رکھا تھا ان حالات میں مشیت الٰہی نے بنی نوع انسان کو اس ہولناک تاریکی سے نکالنے کیلئے حضرت محمد ﷺ کو عرب کے شہر مکہ میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ ؐ رشد و ہدایت کا آفتاب بن کر ساری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور فرما دیں۔یہ صبح نو بہار بارہ ربیع الاول کو طلوع ہوئی جب عبداﷲ جگر گوشہ آمنہ ، شہنشاہ بحر و بر سید العرب والعجم عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف لائے۔والدہ محترمہ حضرت آمنہ ؓ نے ’’محمد ؐ‘‘نام رکھا دادا نے اسی نام کا اعلان کر دیا ۔آپ ؐ کے والد جناب عبداﷲ کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ ؓ کی آغوش عاطفت میں پرورش پانے لگے ۔حضرت عبداﷲ کی وفات کے بعد جناب آمنہ ؓ کے ہاں حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے جب آپ ﷺ کی آٹھ سال دو مہینے عمر ہوئی آپ ؐ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہو گیا ۔اس سے پہلے جب آپ ؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ (ایواء ) کے مقام پر انتقال کر چکی تھیں اور وہیں آپ مدفون بھی ہوئیں ۔والدہ اور دادا کے انتقال کے بعد آپ ؐ کے چچا ابو طالب نے با کمال رافت و شفقت آپ ﷺکو اپنی کفالت میں لے لیا اور جب تک زندہ رہے آپ ؐ کی تربیت فرماتے رہے اولاد سے بڑھ کر آپ ؐ کو چاہتے اور کبھی یتیمی کا احساس آپ کو نہ ہونے دیتے ۔(اسٹینلے لین پول ) نے اپنی کتاب (دی اسپیچز اینڈ ٹیبل ٹاک آف محمد ؐ)میں لکھا ہے کہ آپ ؐ میں شرم و حیا کا مادہ اتنا زیادہ تھا جیسا کسی پردہ نشین دو شیزہ میں ہوتا ہے ایک دوسرے یورپین مورخ (سرولیم میو ر ) نے اپنی تصنیف (لائف آف محمد ؐ ) میں لکھا ہے ۔مغرب کے تمام محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضرت محمد ؐ اپنی جوانی کے زمانے میں بے حد سنجیدہ ، کم سخن ، نرم گفتار ، خوش خلق ، شریف الطبع اور صادق القول تھے ۔جس کی وجہ سے قریش مکہ اور عوالناس نے آپ ؐ کو صادق و امین کے لقب سے سرفراز کر دیا تھا ۔ختم المرسلین اور انسان کامل کی سیرت طیبہ تو خود خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں بیان فرمادی ہے جن کی سیرت ، اخلاق و کردار کے بارے میں اﷲ تبارک وتعالیٰ خود شہادت دے ان کے اخلاق و کردار پر کچھ لکھنا انسانی بس سے باہر ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ :
’’آپ ﷺ تو ایک چراغ ہیں بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ دکھانے والے دنیا سے گمراہی کا اندھیرا مٹانے والے ‘‘
اس طرح قرآن پاک میں ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ہم نے تمہار ابول بالا کیا تمہارے نام کے نقارے بجوائے کیساے نقارے پنج وقتہ اذان میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا دیا صرف لا الہ الا اﷲ کہنے سے آدمی مسلمان نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد محمد رسول ﷺ کہنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے ۔آپ ﷺکی زندگی قول فعل اور تعلیم و عمل کا حسین مرقع ہے آپ ؐ کی سیرت قرآن پاک کی تفسیر ہے قرآن مجید نے خلق کو یوں بیان فرمایا ہے ۔بے شک آپ ﷺ خلق عظیم ہیں ۔‘‘حضور سرور کائنات ﷺ کی حیات طیبہ ہماری زندگی و آخرت کیلئے مشعل راہ ہے ۔آپ ؐ نے وصال سے قبل تاریخی و اصلاحی خطبہ دیا ۔یہ خطبہ نہ صرف آنحضرت ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا ایک بے مثال نمونہ ہے ۔بلکہ قیامت تک ہر زمان و مکان کیلئے تمام بنی نوع انسان کے واسطے ہدایت و رہنمائی کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے درحقیقت یہ خطبہ دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے پہلا آفاقی دستور ہے ۔آپ ؐ نے و ہ رات ذوالحلفیہ میں بسر کی صبح کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔آپ ؐ نے فرمایا :’’لوگوں قیامت کے روز اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ یا میری پھوپھی صفیہ کے نامہ اعمال میں نیکیوں کے مقابلے میں برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا تو میں اﷲ کے حضور کوئی مدد نہیں کر سکوں گا ۔‘‘پھر آپ ﷺ دنیا سے پردہ فرماتے وقت یہ آخری یہ الفاظ تھے ’’لوگوں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا اپنے غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ‘۔آپ ﷺکو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حجرے میں مدفون کیا گیا ۔آپ ؐ نے قمری حساب سے 63سال کی عمر پائی ۔آپ ﷺکا روضہ مبارک جو دنیائے اسلام میں گنبد خضرا کے نام سے پہنچانا جاتاہے ۔آج بھی مرجع ہر خاص و عام ہے اﷲ تعالیٰ دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام اور سنت نبوی ﷺ اور سرکار دو عالم ؐ کی روشن تعلیمات پر قائم اور چلنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔(آمین)
Syed Mehboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishty: 8 Articles with 5810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.