سانحہ سہون اور دمام دم مست قلندر

دمام دم مست قلندر کس صیغہ سب سے زیادہ سیاسی مداری کرتے نظر آتے ہیں خاص طور پر شیخ رشید صاحب تو اس جملے کے بغیر اپنی سیاسی پیش گوئیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے، جب بھی انہیں میڈیا والے اپنے پروگرامز میں مدعو کرتے یہں تو شیخ صاحب ایک جذب کے عالم میں یہ اکثر کہتے نظر آجاتے ہیں کہ بس جی اب تو دمادم مست قلندر ہونے والا ہے۔ سانحہ سہون نے قوم کو جھنجوڑنے کی کوشش کی مگر ہم نے دیکھا کہ سانحہ سہون کے شہدا کے جسم کے ٹکڑوں کو جس طرح نالوں اور کوڑوں میں ڈال دیا گیا اس پر حکومت سندھ کو بھی یہاں اور وہاں جواب دہ ہونا ہے مگر توبہ کریں جو بے حسوں میں کوئی حس آپکو محسوس ہو، سندھ کے حکمران اس بات سے کوئی خوفزدہ معلوم نہیں ہوتے کہ شہدا کے جسم کے ٹکروں کا انہوں نے حساب دینا ہے وہ تو صرف میڈیا پر چلنے والے اپنی مخالف خبروں سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔

انہیں خوب معلوم ہے کہ کیا ہوا اگر عوام کے جسموں کے ٹکڑے اڑ کر دو ڈھائی میل دور کے نالوں میں جاکر گرتے ہیں، انہیں تو بس یہ معلوم ہے کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا اور بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ حکمرانوں کو شائد اتنی سادہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب تک پیپلز پارٹی کی کسی بھی سطح پر حکمرانی قائم ہے جب تک بھٹو زندہ ہے ایک بار یہ حکومت سے نکل گئے تو پھر کیا بھٹو اور کیا بھٹا۔

اس سانحے سے ہم نے بحیثیت ایک قوم کچھ سبق حاصل کیا؟؟ جناب اس کا جواب سادہ سا ہے کہ بالکل نہیں ہمیں اس سانحے سے زیادہ دلچسپی اس بات سے ہے کہ پاکستان سے دور ایک ملک میں پاکستان سپر لیگ کا ٹورنامنٹ جاری ہے اور اس ٹورنامنٹ میں ہماری پسندیدہ ٹیم کے پوائنٹس کی تعداد کتنی ہے ! یہ حالت ہے ہماری قومی بے حسی کی ہم سوچتے ہیں کہ کوئی نہیں جناب اتنے مر گئے اتنے زخمی ہوگئے چلو شکر ہے ہم تو زندہ ہیں ناں تو جب تک جان ہے جہان ہے، مرنے والا مر گیا چلو بھی دعائے مغفرت کرلو اور یار فلاں ٹیم کے ساتھ فلاں ٹیم کے میچ کتنے بجے ہے ۔

اللہ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے
 
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.