خواجہ سراء

یہ خواجہ سرا آخر ہیں کون لوگ کہاں سے آتے ہیں کہاں جاتے ہیں ؟کیا کبھی کسی نے سوچا یہ بھی ہمارے اسی معاشرہ کا ایک حصہ ہیں جن کو کبھی اس معاشرہ نے شائد قبول نہیں کیا ۔کوئی بھی انسان پیدائشی غلط نہیں ہوتا ؛جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک معصوم ہوتا۔جس طر ح وہ بڑا ہوتا ہے اسے جس طرح کا ماحول میسر آتا ہے ۔اس پر ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اگر اسے اچھا ماحول ملے گا تو وہ اچھا ہو گا اگر بُرا ماحول ملے گا تو ظاہری سی بات ہے وہ برا ہو گا۔کسی بھی انسان کی زندگی پر ماحول کا بہت حد تک اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی خواجہ سرا کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا معاشرے کا ناسور سمجھا جاتا ہے، اور اس کو چند روایتی لوگوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے ؛جو کہ ان کی تربیت کرتے ہیں ان کو ناچ گانا سکھا کر گلی گلی پھرنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ،اور اس طرح ایک خواجہ سرا لوگوں کو انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کیا قدرت نے خواجہ سرا کو دماغی جیسی نعمت سے مرحوم رکھا ہے؟ جو کہ آج خواجہ سرا صرف ناچ گانے پر ہی مجبور ہیں اگر ان پر توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ خواجہ سرا گرووں کو گود سے نکل کر کوئی ڈھنگ کا کام کر سکیں۔ اس طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں دی کہ ان خواجہ سرا کی ٖ فلاح کے لیئے بھی کچھ ایسا کیا جائے کہ جس گناہ کی دلدل میں یہ دھنس جاتے ہیں۔ان کو ان گناہوں کی دلدل سے نکالا جاسکے آج کے موجودہ دور میں خواجہ سروں کو بہت سے مسائل در پیش ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ معاشرتی بگاڑ کی وجہ بن رہے ہیں؟اس میں جتنا قصور ان خواجہ سرووں کا ہے اتنا ہی اس میں معاشرہ بھی ذمہ دار ہے ؛یا تو ان لوگوں کی اصلاح کر کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے، ان کو روز گار دیا جائے اور یہ گرو مافیا کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔جو کہ ان لوگوں کو صرف یہ تاثر مہیا کرتا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی کام نہیں کرنے کو یہ لوگ صرف اور صرف ناچ گانے کا م ہی کر سکتے ہیں ۔یہ تاثر ان کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے قدرت نے ان کو مکمل انسان بنایا ہے، ان کو ہاتھ پیر سب کچھ مہیا کیا ہے ایک خوجہ سرا ڈاکٹر انجٗنیر وکیل کسی بھی شعبہ میں جا سکتا ہے اگر ایک عورت آج کے دور مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہے، تو ان لوگوں کو گرو مافیا کے حوالے کیوں کر دیا جاتا ہے۔ اسلام سے یہ لوگ دور ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے سارے کام ہی اسلام کے خلاف ہوتے ہیں ان میں ساری عورتوں والی باتیں پائی جاتی ہیں ،یہ بات کس حد تک سچ ہے ٹھیک ہے ان کی چال ڈھال عورتوں جیسی ضرور ہوتی ہے لیکن اگر کرادار کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے، تو آپ کو ان میں غلاظت کے سوا کچھ نہیں ملے گا ایک عورت تو اس طرح کی نہیں ہوتی۔ جس طرح یہ لوگ ہوتے ہیں ایک عورت تو ماں۔بہن۔بیٹی۔بیوی۔ساس۔ بہو۔نند کئی رشتوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ صرف عورتوں کا لباس پہن کر عورتوں جیسا روپ دھار کر معاشرے میں ایک بگاڑ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔کئی نوجوان ایسے ہیں جن میں تمام مردانہ خصوصیات ہوتے ہوئے بھی خوجہ سرا جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی وجہ ہے کہ کسی کو ڈانس کے شوق نے اس دلدل میں دھکیل دیا ہے ایسے لوگ ڈانس سکھنے آتے ہیں،اور ادھر کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں ،اور کچھ لوگ شوقیا اس روپ کو دھار لیتے ہیں ،اور ہمیشہ کیلیئے گناہوں کی دلدل میں جا گرتے ہیں۔ اگر آنے والی نوجون نسل کو اس لعنت سے بچانا چاہتے ہیں، تو ان خواجہ سراوں کو گرو گینگ سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانی ہو گی،اور ان خواجہ سرووں کے عورتوں کا لباس پہننے پر پابندی لگانی ہو گی۔ اگر ان کا ایک مخصوص لباس ہوگا،تو یہ جو سر عام گلیوں بازاروں سڑکوں پر جو دعوت گنا دیتے ہیں۔اس چھٹکاڑا مل سکے گا ،اور ایک خواجہ سرا کی بھی معاشرہ میں عزت ہوگی ۔یہ تب ہی ممکن ہے جب گرو مافیا کا خاتمہ کر کے خواجہ سرا ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارنے کا حق دیا جائے ۔آج کے جدید دور میں لوگوں میں کافی شعور بیدار ہوا ہے کافی لوگوں نے اپنے خواجہ سرا بچوں کو گرو مافیا کے حوالے کرنے کے بجائے ان کی اچھی پرورش کی ہے ۔اچھی تعلیم یا ہنر کے زیور سے آراستہ کیا ہے،آج وہی خواجہ سرا اور کچھ نہیں تو عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں،اور عزت سے رزق کما کر خود بھی کھا رہے ہیں، اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھی پال رہے ہیں ۔اسی طرح میرا ایک تبلغی جماعت سے بات ہوئی انھوں نے بتایا،کہ آج کل ایک خواجہ سراوں کی جماعت تبلیغ کر رہی ہے۔ کافی لوگ اس میں شامل ہیں،یہ لوگ باقاعدہ سب کو اسلام کی دعوت دتیے ہیں۔بہت لوگوں کو اس جماعت نے گرو مافیا کے چنگل سے آزاد کریا ہے۔ اُن کو اس معاشرہ میں ایک مقام حاصل ہے نہ ان کا کوئی مذاق اُڑاتا ہے، نہ ان لوگوں کو کوئی غلط کام کیلئے اکساتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرومافیا ہی نے ان لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رکھا ہے، اور یہ لوگ معاشرہ کا ناسور بن کر گرو کے چیلے بن کر لوگوں کی گمراہ کر رہے ہیں ،یا عورتوں جیسا بھڑکیلا لباس پہن کر عورت ذات کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔ کون سی شریف عورت ہے جو کہ خواجہ سراوں جیسا لباس پہنتی ہے۔یہ ایک عورت کی عورت کے لباس کی توہین نہیں تو اور کیا ہے۔ آج عورتیں حقوق کی بات کرتیں ہیں تو،کیا کسی عورت نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ ایک مرد نما عورت کا یوں عورتوں کا لبا پہن کر عورت کر، لبا س کی عورت ذات کی بے حرمتی کرنا ٹھیک ہے۔عورتوں کو اس کے خلاف بھی آواز ضرور اُٹھانی چاہیے،کہ خواجہ سرا عورتوں کا لباس پہن کر اس معاشرہ میں ایک عورت کیا ماڈل پیش کر رہے ہیں۔ ایک طوائف بھی صرف اور صرف اپنے ناچ گانے کی جگہ اس طرح کا بیہودہ لباس پہنتی ہے ۔عام زندگی میں وہ بھی اس طرح کا لبا س نہیں پہنتی، تو پھر خواجہ سراوں کے ہاتھوں عورت کی بے حرمتی کیوں؟ اس پر پابندی لگائی جانی چاہیئے،یا تو خواجہ سرا مردوں والا ہی لبا س پہنیں،یا ان کا کوئی مخصوص لباس ہونا چاہیئے ۔تاکہ اس معاشرہ میں جو خواجہ سراوں کو ایک غلط تاثر دیا گیا ہے،کہ وہ صرف اور صرف بھیک مانگنے یا ناچ گانے کیلئیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔یہ تاثر ہمیشہ کیلیئے دم توڑ جائے ۔اگر یہ لوگ آج عورتوں کا لباس پہننا چھوڑ دیں تو ان کو معاشرہ میں عزت مل سکتی ہیں۔ان لوگوں نے اپنا ایک مخصوص روپ دھار کر،اور ایک مخصوص پیشہ سے منسلک ہو کر یہ لوگ خو د اپنا مذاق آڑا رہے ہیں ۔اگر یہ لوگ مہذب لباس پہننا شروع کردیں۔ اس غلاظت کو زندگی کو خیرباد کہہ کر کوئی ڈھنگ کا کام کرنا شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں ہے۔ کہ ان کو اس معاشرہ میں عزت کی نظر سے دیکھا جائے عزت کی بحالی کیلئے ان لوگوں کو گرو مافیا کو خیرباد کہہ کر اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور ایک بہتری کی طرف قدم بڑھانا ہو گا
اظہراقبال مُغل

azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 41 Articles with 37785 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.