دہشت گردی اور جمہوریت: چولی دامن کاساتھ

فلپائن کے ایک جوا خانےپر حملہ ہوا اور ۳۷ لوگ ہلاک ہوگئے۔ داعش نے فوراً اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی اور سی این این نے اعلان کردیا کہ داعش کا اگلا نشانہ فلپائن ہے۔ اس سے پہلے کہ ساری دنیا کو اسلامی دہشت گردی سے خوفزدہ کرنے کا گھناونا کھیل شروع ہوتا صدرراڈرگ ڈیوٹریٹ نے اپنے ایلچی سے اعلان کروادیا کہ حملہ آور داعش سے متعلق نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ لوگ بڑے سفاک ہوتے ہیں ۔ پولس کو اندازہ ہوگیا کہ حکمراں کیا چاہتا ہے ۔ اس نے کوئی نئی کہانی بنانے کے بجائے سیدھے سیدھے حقیقت بیان کردی کہ ہلاکت کی وجہ گولی باری نہیں بلکہ آگ لگنے سے اٹھنے والا دھواں اور دم گھٹنا تھا۔حملہ آورکوئی مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ جیسی جیویر کارلوس نامی ایک جواری تھا جو جوئے میں ہارنے کے سبب بہت مقروض ہوگیا تھا اور اس نے جواخانے کے کمپیوٹر کی چِپ چرانے کے لیے حملہ کیا تھا اورپولس سے گھرجانے کے اس نے خودسوزی کرلی تھی ۔ فلپائنی انتظامیہ اس بار کمال حق گوئی کامظاہرہ کرتے ہوئے علامہ جمیل مظہری کےاس شعر کا جیتا جاگتامظہربن گیا ؎
چہرے کی سیاہی دھو دیجئے آئینوں پہ غصہ مت کیجئے
آئینے تو سچ ہی بولیں گے آئینے کو جھوٹا کون کرے

داعش کے ذریعہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بابت پولس کا موقف تھا کہ وہ حقیقت سےگمراہ کرنےوالا سہل ترین حربہ ہے لیکن بھلا ہو ذرائع ابلاغ کی منفی ذہن سازی کا کہ جیسے ہی کاسینو پر حملہ ہوا لوگ بغیر جانے بوجھے آئی ایس کہہ کر چلانے پکارنے لگے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کے اعصاب پر یہ ہواّ کس قدر سوار کردیا گیا ہے کہ وہ بغیر جانے بوجھے ہر دہشت گردی کو داعش سے جوڑ دیتے ہیں۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں بھی حملے کی خبر اور داعش کی ذمہ داری خوب گونجی مگر اس کی تردید اور اصل مجرم کی پہچان کم ہی نظر آئی۔ اس حملے کے اگلے دن دو دھماکے ہوئے جس میں دومسلمان ہلاک ہوئے ۔ داعش نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی اور دعویٰ کیا کہ اس نے ۵ شیعہ حضرات کو ہلاک کردیا جبکہ صرف دو لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ پولس نے اسے بھی آپسی رنجش قرار دے دیا۔ ان واقعات سے داعش کے نام پر کئے جانے والےدعوں کی قلعی کھل جاتی ہے؟ فلپائن میں دونوں مرتبہ داعش کے دعویٰ کو مسترد کیا اس لیے کہ اس کے پیش نظر کوئی سیاسی فائدہ نہیں تھااگر ہوتا تو اسے خوب ہوا دی جاتی۔ ساری دنیا اس پر ایمان لے آتی اور مسلمان مدافعانہ پوزیشن میں آجاتے۔

فلپائن میں گزشتہ سال انتخابات ہوچکے ہیں اس لیے حکمراں اور پولس دانشمندی کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اس سے برعکس صورتحال برطانیہ کی ہے جہاں ایک ما ہ کے اندر یکے بعد تین دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے اندر نسلی تعصب و تشدد پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس آگ میں تیل ڈالتے ہوئے ان دھماکوں کو لندن کے مسلمان میئر سے جوڑنے کی گھٹیا کوشش کررہے ہں ۔ ٹرمپ نے برطانوی حکومت کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے اپنے تعاون کی پیشکش بھی کی ہے ۔ لندن کے پہلے مسلمان مئیر صادق خان نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کے جال میں پھنسنے کے بجائےلکھا فی الحال میں اپنے شہر یوں کے تحفظ میں مصروف ہوں اس لیے میرے پاس ٹرمپ کے نامعقول ٹویٹ کا جواب دینے کی فرصت نہیں ہے۔ اسی ہفتہ ۸ جون کو منعقد ہونے والے انتخاب کے پس منظر میں وزیراعظم تھیریسا مے نے کہا ہم لوگ دہشت گردی کو کچھ زیادہ ہی برداشت کرتےہیں۔’’اب بہت ہوچکا‘‘ کہہ کر انہوں نےاپنے سخت گیر موقف کا اظہار کردیا ۔

انتخابی فائدے کی خاطر دھماکوں کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے اسے بر طانیہ ، فرانس ، امریکہ اور اسپین کی مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔گزشتہ ماہ فرانس میں انتخاب ہونے والے تھے اور وہاں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے لگے۔ ٹرمپ نے اس وقت بھی ٹویٹ کیا تھا کہ ایک اور حملہ! آخر فرانس کتنابرداشت کرے گا؟ فرانس کے اندربائیں بازو کے رہنما فرینکوئس اولندی کی مقبولیت اس قدر کم ہوچکی تھی کہ انہوں نے ازخود انتخاب سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ دائیں بازو کی انتہا پسندرہنما لی پین نےمہاجرین کی آڑ میں مسلمانوں کی مخالفت کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی بھر پور کوشش کی ۔ ٹرمپ کا ٹویٹ لی پین کی بلاواسطہ حمایت میں تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ان دھماکوں اور دہشت گردانہ حملوں کے سبب ہی لی پین جیسی شدت پسندامیدوار کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے تھے لیکن یہ حربہ باریاب نہ ہوسکا۔ فرانس کی عوام نےاعتدال پسندایمانویل میکرون کو کامیاب کردیا۔ ٹرمپ اور میکرون کی مخاصمت اس وقت طشت ازبام ہوگئی جب انہوں نے حال میں ڈونالڈ ٹرمپ سے مصافحہ کرنے سے کنی کاٹ لی ۔

امرییس انتخابی مہم کے دوران خود ٹرمپ کی حالت لی پین سے اچھی نہیں تھی۔ سارے سروے یہ ظاہر کررہے تھے کہ ہیلری کلنٹن آگے چل رہی ہیں۔ ٹی وی مباحثوں کے اندر بھی ہیلری نے ٹرمپ کو مات دے دی تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ ٹرمپ ہار جائیں گے۔ اس کی وجہ خود ان کی سیاسی ناتجربہ کاری، رعونت اور عیاش سرمایہ دار کی شبیہ تھی جس کی زبان اور بیان دونوں کسی رہنما کو زیب نہیں دیتی تھی ۔ اپنی ان خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ٹرمپ نےمیکسیکو اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اور ملک کے بیروزگار سفید فام عوام کودیگر ممالک سے آکر امریکا میں رہنے بسنے والے مہاجرین کے خلاف ورغلانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس میں دھماکوں نے مدد کی لیکن انتخاب کے بعد اب وہ حملے نسلی تشدد میں بدل چکے ہیںیہ ایسا ہی جیسے اترپردیش انتخاب کے دوران کانپور میں ہونے والا انکاونٹر اور اب گئورکشکوں کی دہشت گردی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نےاپنے غیر ملکی دورے کی ابتداء سعودی عرب سے کرکے بناوٹی مخالفت کی نقاب خود نوچ کر پھینک دی ہے ۔

اسپین کے انتخاب میں بھی یہی ہوا تھا۔ عراق میں فوج کشی کے باعث برسرِ اقتدار قدامت پسند بے حد غیر مقبول ہوگئے تھے ۔ رائے دہندگی سے فوراً پہلے ٹرین کے زبردست دھماکے ہوئے جس میں ۲۰۰ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کا الزام پہلے القائدہ پر لگایا گیا اور عوام کی ہمدردیاں حکومت کو حاصل ہونے لگیں لیکن بعد میں بلقان دہشت گردوں کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا جو عوام کے گلے سے نہیں اترا اور انہوں نے قدامت پسندوں کے مقابلے بائیں بازو کی جماعت کو کامیاب کردیا۔ اسرائیل میں انتخاب سے قبل دھماکے تو دور جنگ چھیڑ دی جاتی ہے اور اس کا فائدہ دائیں بازو کی جماعتوں کو ہوتا ہے۔ ہندوستان میں انتخابات کے آتےہی سرحد پر کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور انکاونٹر کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔اس طرح عوام کو بے وقوف بناکر ان سے ووٹ چھیننے کا کام ایشیا ، یوروپ اور امریکہ ہر جگہ ہوتا ہے اور اس معاملے میں پہلے القائدہ مگر اب داعش کا نام زوروشور سےاستعمال ہوتا ہے لیکن اس سے ہر بارقدامت پسندوں کو مطلوبہ فائدہ نہیں مل پاتالیکن انتخاب کا موسم میں رونما ہونے والے ان تشدد اور دہشت گردی کی وارداتوں سے خوف کا ماحول پیدا کرکے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کی مذموم کوشش ضرور کی جاتی ہے۔

برطانوی انتخابات سے ۵ روز قبل لندن میں دوسرا دہشت گردانہ حملہ ہوا ۔ اس میں۳ لوگوں نے لندن بریج پر چلنے والے راہگیروں پر ٹرک چڑھا دیا اور پھر نیچے اترکر وہاں موجود بازار میں لوگوں پر چاقو سے حملہ کردیا۔ اس کارروائی میں ۷لوگ ہلاک ہوئے ۴۸ زخمی ہوئے جن میں سے ۲۱ کی حالت نازک ہے۔ ۸ منٹ کے اندر پولس نے تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کردیا ۔ یہ لندن میں دورا حملہ تھا۔ اس سےقبل پچھلے ماہ ایک نو مسلم نے ویسٹ منسٹر بریج پر جو ایوانِ پارلیمان کے سامنے واقع ہے چار لوگوں کو ہلاک کردیا تھا اور اس کے بعد مانچسٹر میں ایک خود کش حلے میں ۲۲ لوگ لقمۂ اجل بنے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اچانک یہ تشدد کا سلسلہ کیوں چل پڑا؟ لندن بریج کے حملے کی مختلف کڑیوں کو ملایا جائے تو عجیب و غریب صورتحال بنتی ہے اور شک کی سوئی مختلف سمت میں مڑ جاتی ہے۔
اس حملے میں پولس نے دو نام ظاہر کئے ایک لیبیا کا رہنے والا راشد رضوان اور دوسرا پاکستان میں پیدا ہونے والا خرم شہزاد بٹ ہے ۔ وہ دونوں مشرقی لندن میں رہائش پذیر تھے۔خرم شہزاد کی داعش کے نظریات کی حمایت جگ ظاہر تھی۔ اسی سبب سے اسے اہل اسقالمہ مسجد میں آنے سےروک دیا گیا تھا۔ مسلم عوام اس کی شکایت پولس کو کرچکے تھے اس کا اعتراف ایک شخص نے بی بی سی سے نشر ہونے والے انٹرویو میں کیا۔ پولس نےبٹ کی تفتیش کی مگر نگرانی نہیں کی۔ جوشخص مسجد میں داعش کی حمایت کرتا تھا پڑوسیوں سے نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتایہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کو اس کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔ یہ منظر خفیہ ایجنسیوں کی اس حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ جس میں وہ اپنے مخبروں کو اشتعال انگیزی کی کھلی چھوٹ دیےے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ شدت پسند سوچ رکھنے والوں تک رسائی ہوسکے ۔ خفیہ ایجنسیوں کا اپنے لوگوں کے ذریعہ دہشت گردی کی واردات کرواکران کا انکاونٹر کردینا بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے ۔دہلی میں انسل پلازہ کا واقعہ اس کی منہ بولتی مثال ہے۔

ان حقائق کے باوجود دہشت گردی کے تمام حملوں کے لیے داعش کوذمہ دار ٹھہرادیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ ذمہ داری کو قبول کرنے کی خبریں بھی آجاتی ہیں جیسا کہ منیلا کے معاملے میں ہوا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ داعش کوئی سیاسی جماعت تو ہے نہیں اور اس کا دائرۂ کار عراق و شام کا سرحدی علاقہ ہے ۔ ساری سیاسی جما عتیں اس کی مخالف ہیں اس لیے یوروپ اور امریکہ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی یا ناکامی سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ایسے میں اس کا انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سیاسی جماعتوں میں کچھ مسلمانوں کے تئیں کسی قدر نرم ہوتی ہیں اور کچھ سخت گیر رویہ رکھتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے دھماکوں سے اکثرو بیشتر اسلام مخالف جماعتوں کا فائدہ ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ گروہ اسلام دشمنوں کا بھلا کیوں کرتا ہے ؟ یا پھر اس کے نام پر کچھ اور لوگ اپنی سیاسی دوکان چمکاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں انتخاب و اقتدار کے لیے کھیلے جانے والے اس گھناونے کھیل کو سمجھ کر ان سے متاثر ہوئے بغیر ووٹ کا استعمال کیا جائے ۔

برطانیہ نے ابھی حال میں یوروپی یونین سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ وہاں پر ڈیوڈ کیمرون کی قیادت والی حکومت اس کی مخالفت کررہی تھی لیکن عوام نے اسے مسترد کردیا جس کا نتیجے میں وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا جو دائیں بازو کی جماعتوں کی عدم مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے۔حالیہ برطانوی انتخاب بھی مدت عمل کے درمیان ہی میں ہو رہے ہیں ۔رائے دہندگان کی تقریباً ۸۵ فیصد تعداد ٹوری یعنی قدامت پسند اور دائیں بازو کی لیبر پارٹی میں منقسم ہے اور وہاں لبرل ڈیموکریٹس کی حالت ہمارےتیسرے محاذ کی طرح پتلی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں تھریسا اور کوربن اپنی جماعتوں کو ٹوٹنے سے نہیں بچا پائیں گے اور اس وقت ان دونوں سے الگ ہونے والے رہنما لبرل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوکر اس تیسرے محاذ کو مضبوط بنائیں گے۔ اس قیاس آرائی میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ نتائج کے بعد ہی ہوسکے گا۔

فی الحال صورتحال یہ ہے کہ پہلےدو دھماکوں نے سیاسی ماحول کویکسر تبدیل کر دیا۔ لوگ بریکسٹ کے فائدے یا نقصان کو بھلا کر خوف کی نفسیات میں مبتلا کردیئے گئے ۔ بائیں بازو کے لیبررہنما کوربن کو حماس اور فلسطین کا حامی قرار دے کر بلاواسطہ دہشت گردی کا پرستار قرار دےدیا گیا۔ لندن کے میئر صادق خان کی آڑ میں نفرت کو ہوا دی جانے لگی لیکن تیستے حملے کے بعد ہوا کا رخ بدل گیا ۔ لندن حملے کے بعد حزب اختلاف نے ان کا الزام تھریسا مے کے پولس بجٹ میں کٹوتی پر رکھ کر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا کیونکہ ڈیوڈ کیمرون کے دورِ اقتدار میں وہ وزیر داخلہ تھیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھریسا اور کوربن کی مقبولیت کے درمیان ۶ فیصد کا فرق انتخاب سے قبل گھٹ کر ایک فیصد پر آگیا۔انتخابی نتائج گواہ ہیں کہ اسلامی دہشت گردی کی آڑ میں کھیلے جانے والایہ کھیل بھی تھریسا مےکی نیاّ پار نہیں لگا سکا اور ان کی قدامت پسند جماعت کو جملہ ۱۲ نشستوں کا نقصان ہوگیا ۔ اس کے برعکس جرمی کوربن کی لیبر پارٹی نے زبردست چھلانگ لگا کر ۳۱ نشستوں کا اضافہ کرلیا۔

تھریسا مے نے جس وقت وسط مدتی انتخاب کا اعلان کیا تھا ان کی جماعت کو ۲۰ فیصد کی فوقیت حاصل تھی لیکن آخری نتائج میں یہ فرق گھٹ کر ۳ء۲ فیصد پر آگیا۔ قدامت پسندوں کو جملہ ۴۵ء۴۲ فیصد ووٹ ملے اور وہ واضح اکثریت سے محروم رہی ۔ اب ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کی حمایت حکومت سازی کا دعویٰ کیا جارہا جسے ۹۱ء۰ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس اتحاد کو کل ۳۶ء۴۳ فیصد ووٹرس کی حمایت حاصل ہے جبکہ بقیہ ساری جماعتیں ان کی مخالف ہیں لیکن ان کے ووٹ منقسم ہیں ۔ ہندوستان کی طرح برطانیہ کا بھی انتخابی نظام ناقص ہے ۔ اس میں ۶۲ء۱ فیصد ووٹ پانے والی گرین کو صرف ایک سیٹ ملی جبکہ ۷۴ء۰ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سن فین نے ۷ نشستیں جیت لیں نیز ۵۱ء۰ فیصد کی مالک پلائیڈ کریمو کو بھی ۴ نشستیں مل گئیں۔ تھریسامے نے چونکہ اکثریت کا دعویٰ کرکے الیکشن منعقد کرایا تھا اس لیے ان کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوا اس لیے حکومت سازی کے اخلاقی حق سے وہ محروم ہوگئیں مگر آج کل جمہوری سیاستدانوں کے اقتدار ہوس ہندوستان، امریکہ اور برطانیہ میں یکساں ہے۔ ویسےبرطانیہ میں انتخاب سے فوراً پہلے ہونے والے دھماکوں نے ثابت کردیا ہے کہدہشت گردی فی زمانہ جمہوریت کی بہت بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ بقول شاعر؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ ِ جمہوری
جہاں میں آگ لگاتی پھریں گے فسطائی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207741 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.