جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے

دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو کہ اپنی ناکامی کا شکوہ کرتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں ناکامیاں ہی ناکامیاں ہے آج تک انھوں نے کبھی کامیابی کا منہ تک نہیں دیکھا،شائد وہ زندگی میں کامیاب ہو نہیں سکتے ،ایسا نہیں ہوتا کہ وہ لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے ان کی ناکامی کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے جس کا ان لوگوں کو علم نہیں ہوتا،اس لیئے وہ مسلسل ناکامیوں کا شکار ہورہے ہوتے ہیں،اس دینا کا ایک سنہری اصول ہے، جس کو اپنا کر کوئی بھی انسان ترقی کر سکتا ہے۔اس کے بغیر ترقی کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔اگر انسان صرف اس ایک اصول کو اپنی زندگی میں شامل کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے،وہ اصول ہے جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے جس انسان نے بھی اس اصول کو اپنا لیا وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب ترین انسان ہے ۔اس کا مطلب کیا ہے کہ جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے،اس کا مطلب ہے جو انسان محنت کرتا ہے کسی بھی کام کو وقت دیتا ہے کامیابی یقینی ہوتی ہے،لیکن آج ہم کوئی آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں جب ناکامی ہوتی ہے تو شکوہ کرتے ہیں قصور وار قسمت کو ٹھہراتے ہیں، حالانکہ کہ ایسا نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں ہم کوئی ایسی غلطی کر رہے ہوتے ہیں جو کہ انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے، ورنہ کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ انسان محنت کرے اور اسے اس کا پھل نہ ملے۔کسی کی بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی محنت ضرور رنگ لاتی ہے۔لیکن محنت کے بعد پھل کے لیئے تھوڑا انتطار کرنا پڑتا ہے۔جیسے انسان کوئی درخت لگاتا ہے تو وہ فوری پھل نہیں دیتا،اس سے پھل حاصل کرنے کیلئے محنت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے، جوصبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے لیکن جو جلدی کرتا ہے اسے ناکامی ہوتی ہے کوئی بھی کام ہے اس کا ٹائم ہوتا ہے فوری طور پر کامیابی کسی کام میں حاصل نہیں ہوتی ، ہمیشہ جلد باز لوگ ہی ناکام ہوتے ہیں وہ جلدی جلدی ترقی کرے کے چکر میں ساری زندگی برباد کر لیتے ہیں لیکن ترقی نہیں کرپاتے ترقی کرنے کیلئے مستقل مزاج ہونا بہت ضروری ہے،جو انسان مستقل مزاج نہیں ترقی کران اس کے لیئے مشکل ہے۔ ایسا انسان نہ کھوتا ہے ضرور ہے لیکن پاتا نہیں۔جب کوئی فصل بوئی جاتی ہے تو اس کے پکنے کا انتظار ضرور کیا جاتا ہے،اگر فصل کو پکنے سے پہلے ہی کاٹ لیا جائے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا،الٹا نقصان ہوگا،ساری محنت رائیگاں جائے گی،اس لیئے کھونے کے بعد کچھ بانے کچھ حاصل کرنے کا انتظار کیا جائے،کیونکہ کہ کوئی بھی انسان کوئی بھی کام آہستہ آہستہ سرانجام دیتا ہے ایک دم کچھ نہیں کر سکتا،جس کی سب سے بڑی مثال انسان خود ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو بچہ ہوتا ہے آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا جاتا ہے۔یہی حساب انسان کی زندگی کا ہے کوئی بھی کام ہے پہلے آغاز کیا جاتا ہے تب ہی وہ کام انجام کو پہنچتا ہے۔موجودہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے آج دُنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی آہستہ آہستہ ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ہر کام کے لیئے وقت درکار ہوتا ہے جس کام کو آپ جتنا وقت دیتے ہو اس کام سے آپ کو اتنا ہی فائدہ ملتا ہے۔ایک طالب علم اپنی پڑھائی پر جتنی زیادہ توجہ دیتا ہے اس کو اس کا اتنا ہی صلہ ملتا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اگر آپ نے کسی کام میں ٹائم ضائع کیا ہو تو آپ کو اس کا صلہ نہ ملا ہو انسان جتنا کھوتا ہے اتنا ہی پاتا ہے محنت کی کوئی حد نہیں انسان جتنی محنت کرے گا اسے اسی حساب سے پھل ملے گا۔بعض اوقات ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک انسان کچھ بھی نہیں کر رہا اور کامیاب انسان ہے،اگر اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے تو کوئی لمحہ اس کی زندگی کا ضرور ہوگا جس میں اس نے محنت کی ہوگی لیکن اس کا پھل اب اسے مل رہا ہوگا، جب وہ کچھ کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے پیچھے کتنی محنت ہوتی ہے ایک عام انسان نہیں جانتا۔ کیوں کہ ایک سوئی سے لیکر جہاز بنانے تک میں محنت درکار ہوتی ہے۔اس لیئے دنیا میں وہی انسان کامیاب ہے جو محنت کرتا ہے، جو محنت نہیں کرتا وہ ایک ناکام انسان ہے بزدل انسان ہے کیوں کہ کامیاب انسان کی کامیابی کا راز ہی محنت ہوتی ہے ۔محنت کے بغیر کامیابی مشکل ہے،اس لیئے اس دنیا کا اصول ہے جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے جو کھوتا نہیں وہ نہیں پاتا اس سنہر ی اصول کو اگر اپنا لیا جائے تو انسان کی ترقی یقینی ہے۔ جو انسان مسلسل ناکامیوں کا شکار ہورہا ہے وہ اپنی زندگی کا بغور جائزہ لے کہ وہ اپنی زندگی میں کیا غلطی کر رہا ہے،جس کی وجہ سے اسے ناکامی ہو رہی ہے۔اگر انسان اس غلطی اس کمزوری کو دور کر لے جو اس کی ناکامی کی وجہ بن رہی ہے تو وہ دن دور نہیں جب کامیابی اس کے قدم چومے گی ۔اس کے برعکس انسان صرف ناکامی کا شکوہ کرے محنت نہ کرت اپنی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل نہ کرے، بلکہ سارا الزام قسمت کو دے کہ قسمت ہی خراب ہے، تو اس انسان کا تب تک کچھ نہیں ہو سکتا،جب تک وہ اپنی ذات پر غورو فکر کر کے اپنی کمزوریوں اور اپنی غلطیوں کو دور نہیں کر لیتا،کیونکہ انسان غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے،جب تک کچھ غلط نہیں ہوگا ٹھیک کا پتہ کیسے چلے گا،اس لیئے غلطی ہونا کوئی بڑی بات نہیں غلطی کو تسلیم کرنا،اپنی غلطیوں کو دور کرنا بہت بڑی بات ہے جو انسان اپنی کمزوریوں اپنی غلطیوں کو دور کر لیتا ہے،اس ترقی کامیابی دور نہیں ہوتی۔
azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 41 Articles with 38222 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.