پاکستان ہوا‘ 70سال کا ۔سیاسی تغیر پزیری پر طائرانہ نظر

14اگست2017کو پاکستان فضل تعالیٰ 70برس کا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم، دائم اور آباد رکھے ، دشمنوں کی میلی آنکھ سے محفوظ رکھے ،شاد و آباد رہے ، نیک اور صالح اور وطن سے محبت کرنے والے ، مخلص ، ایماندار حکمراں نصیب کرے، بہادر افواج جواں مردی اور بہادری سے اس کی حفاظت کرتی رہیں، ربِ کریم انہیں پاکستان پر اٹھنے والے غلط ہاتھوں کو تن سے جدا کرنے کی طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔ قیام پاکستان 14اگست خوشی و شادمانی کادن ضرور ہے لیکن یہ ہمیں اپنا احتساب کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ کہ جس وطن نے ہمیں آزادی کے سانس لینے کی استطاعت دی، دنیا کے سامنے ایک آزاد ریاست کے باسی ہونے کی سعادت دی، ہم فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی بڑی اسلامی اور جوہری قوت کے شہری ہیں، ہمارا گرین پاسپورٹ فخر کا نشان ہے ۔ سینکڑوں پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں فخر کے ساتھ ، غرور کے ساتھ محنت مزدوری کررہے ہیں،وہ پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث ہیں۔ جس دھرتی نے ، جس ماں نے ہمیں اتنا کچھ دیا قیام پاکستان کا دن ہمیں سوچ و بچار کی دعوت دیتا ہے ، اپنا محاسبہ کرنے کی فکر عطا کرتا ہے کہ اس نے ہمیں کیا دیا اور ہم نے اسے کیا دیا۔ وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والے ایسے حکمران دیے جنہوں نے قوم کو بیرونی قرضوں پر گزر بسر کرنے والی قوم بنا کر رکھ دیا۔ یہ حکمراں اوپر سے نازل نہیں ہوئے، کسی بیرونی ملک نے نہیں بھیجے یہ ہمارے ہی منتخب کردہ ، ہمارے ہی اداروں سے طاقت کی بنیاد پر حکمرانی کے مسند پر براجمان ہو ئے۔ آخر کہاں غلطی ہوئی ، کہا ں کوتاہی ہوئی، کس نے اس قوم کو غلط انتخاب کی جانب ڈالا دیا، یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا، سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں بار بار کیوں غلطی کا شکار ہورہے ہیں، کیا ہماری قوم میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ، پاکستانی قوم کی بھلائی کا سوچنے والے حکمراں نا پید ہوچکے ہیں ۔ جائزہ لیناہوگا کہ ان 70سالوں میں ہم پر کس کس نے حکمرانی کی ۔ حکمران بننے سے قبل کے دعووں کو بھول جائیے کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کا طرز عمل کیا رہا، انہوں نے وطن عزیز کے لیے کیا کیا، انہوں نے غریب پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ سر سری جائزہ ہی ہمیں بتا دیتا ہے کہ ابتدائی حکمرانوں کو چھوڑ کر باقی سب نے پاکستانی قوم کوسبز باغ دکھائے، دودھ کی نہریں بہا دینے کے جھوٹے نعرے لگائے، کشکول توڑ دینے کی باتیں کیں ۔ جب کے ان کا عمل اس کے برعکس رہا ، نہ تو غربت کا خاتمہ ہوا، نہ غریب کی حالت بدلی، نہ کشکول ہاتھ سے چھوٹا۔ قرضے اس قوم کا مقدر بنانے والے یہی جھوٹے حکمران رہے۔ ان کی اپنی جائیدادیں ، دولت وقت کے ساتھ ساتھ آسمان کو چھوتی رہیں اور ملک غربت کے اندھیروں میں، مقروض سے مقروض تر ہوتا چلا گیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح جن کی سیاسی بصیرت کو سلام کہ انہوں نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کو عملی جامہ پہنایا جس کا خواب شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھاتھا۔ قائد نے تو ایک مضبوط ، مستحکم ، جمہوری، اسلامی ریاست حاصل کر کے دی تھی ہم نے 70سالوں میں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا، کیا قائد اعظم نے مقروض پاکستان دیا تھا، کیا انہوں نے یہ کہا تھا کہ اگر تمہیں اس مملکت خداداد کی حکمرانی کسی بھی طرح حاصل ہوجائے تو اپنی دولت میں خوب اضافہ کرنا، ملیں بنانا، کارخانے لگانا، شوگر ملیں لگانا، اسٹیل ملیں لگانا، آف شور کمپنیاں بنا نا، ملک کی دولت بیرون ملک لے جانا، اپنی کرسی کو ہر صورت میں قائم رکھنے کے لیے ملک کو داؤ پر لگا دینا۔ قیام پاکستان کے بعد چند سال امن و سکون سے گزرے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست پہلے وزیر اعظم قائد ملت خان لیاقت علی خان کو پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے راستے سے ہٹادیا انہیں بھرے مجمع میں شہید کردیا گیا ، بس پھر کیا تھا ، پاکستان میں گویا اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ ایک کے بعددوسرا حکمران آتا رہا ، اس کی ٹانگیں پکڑ کر کھینچی جاتی رہیں ان عوامی یا جمہوری حکمرانوں میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر، فیروز خان نون کی حکمرانی کے بعد اس وقت جب اسکندر مرز ملک کے صدر تھے 1958میں فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان نے تاریخ میں پاکستان کے پہلے فوجی آمر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ میری عمر اس وقت 10سال تھی ، ایوب خان کی تقریر اور جمہوری حکمرانوں کے بارے میں الزامات اور ان کے غلط پالیسیوں کا رونا رویا اور اپنے دور اقتدار کا آغاز کردیا۔ ایک وقت آیا کہ ایوب خان سے قوم بیزار ہوگئی، ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خان کی کیبنیٹ میں تھے ان سے ناراز ہوگئے اور انہوں نے سیاسی جدجہد کا آغاز کردیا۔ گلی گلی میں ایوب خان کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں ، حالانکہ ایوب خان کے دور میں1965کی جنگ میں پاکستان فاتح کی حیثیت سے ابھرا تھا لیکن ایوب خان کو بھی اس کے وزیروں، مشیروں اور ان کے بیٹے گوہر ایوب خان نے اس مقام پر پہنچا یا ، یہاں تک کہ انہیں اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا لیکن اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں سقوط ڈھاکہ بھی ہوا، ان کی شہرت انتہائی خراب تھی ۔ انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اور شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل کی ۔ اب’ اِدھر ہم اُدھر تم‘ کی باتوں نے ملک کو دو لخت کر دیا، بھارت تو تھا ہی پاکستان کا دشمن نمبر ایک۔ دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی قوت دو لخت ہوگئی۔ پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا مشرقی بنگال ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔ بھٹو پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمینسٹریٹر پھر وزیر اعظم بنے ، نور الا امین نے بھی چند دن صدارت کی، لیکن پاکستان کو یہ جمہوریت بھی راس نہ آئی، بھٹو صاحب نے فوج کا سربراہ بہت سوچ سمجھ کر جنرل ضیاء الحق کو بنایا انہوں نے ہی بھٹو صاحب کو اقتدار سے محروم کر کے خود اقتدار کے مالک بن بیٹھے ۔ وعدہ 90دنوں کا کیا لیکن کرسی کی چاہت نے ایسا رنگ جمایا کہ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتے۔ اسی دوران بھٹوپر مقدمہ چلا اور سپریم کورٹ نے انہیں بھانسی کی سزاسنادی جس پر عمل بھی کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اور وہ حادثہ میں جان بحق ہوگئے۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا یا اور خود ہی انہیں معزول بھی کر دیا۔ غلام اسحاق خان صدارت کے منصب پر فائز ہوئے، انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر اقتدار میں آئیں لیکن انہیں صدر مملکت نے نکال باہر کیا، غلام مرتضیٰ جتوئی ، بلخ شیر مزاری عارضی وزیر اعظم بنے۔ پھر نواز شریف صاحب کی پہلی باری آئی ، غلام اسحاق خان نے انہیں نکال باہر کیا،معین الدین قریشی وزیر اعظم کے طور پر لائے گئے،انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر کی دوسری باری آئی وہ اسی ڈگر پر قائم رہیں، اس بار وہ اپنے ہی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کر دی گئیں۔ ملک معراج خالدکے بعد نواز شریف اقتدار میں آئے، یہ ان کی دوسری باری تھی1999میں جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو فضاء میں رہنے اور پاکستان کی سرزمین پر اترنے نہ دینے کی صورت میں فوج اقتدار پر قابض ہوگئی اور پرویز مشرف پاکستان کے چوتھے فوجی حکمراں بن گئے ۔ انہیں وردی اتارنا پڑی جس کے نتیجے میں ان کی صدارت بھی چلی گئی۔ میاں محمد سومرو صدر بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیر وزیراعظم رہے۔ پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ہوئے۔ انتخابات2013کے نتیجے میں نواز شریف کی تیسری باری آئی اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ نواز شریف صاحب کا یہ تیسرا دور عمران خان کے ہاتھوں مشکل میں رہا۔ عمران خان نے نواز شریف کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ کبھی کچھ کبھی، کبھی جلسہ جلسہ، کبھی دھرنا دھرنا، کبھی ریلی ریلی کے ذریعہ نواز شریف کو چین نہ لینے دیا۔ ابھی نواز شریف کے تیسرے اقتدار کو دو سال ہی ہوئے تھے کہ پاناما لیکس سامنے آگیا، جس میں نواز شریف کے بیٹوں کے نام شامل تھے۔ عمران خان نے کیس کردیا، اسی دوران ڈان لیکس معرض وجود میں آگیا یہاں بھی نواز شریف کو سبکی ہوئی، اپنے قریبی ساتھی پرویز رشید کی قربانی دینا پڑی، سپریم کورٹ نے پہلے 3/2کا فیصلہ دیا یعنی دو معزز ججوں نے نواز شریف کو نہ اہل قرار دیا جب کہ تین معزز ججوں نے مزید تحقیق کی سفارش کی جے آئی ٹی بنی جس کے نتیجے میں آف شور کمپنی کے علاوہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام بہت کچھ نکل آیا۔ عرب ممالک کا اقامہ نواز شریف کے گلے پڑگیا، اور سپریم کورٹ نے0/5یعنی پانچوں معزز ججوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں سپریم کورٹ نے نا اہل کردیا۔ یہ تیسری مرتبہ تھا کہ نواز شریف ایوان اقتدار سے قبل از وقت نکالے گئے ۔ پہلے صدر نے نکالا، دوسری مرتبہ آرمی چیف نے نکالا اور اب سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے پانچ معزز ججوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ نتیجے کے طور پر نواز شریف کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، افسوس اس بات کا کہ اقتدار اپنے خاندان سے باہر کسی کو دینے کو تیار نہیں ، بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ 45دن کے لیے خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا جائے اس کے بعد شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ جب محسوس ہوا کہ شہباز کا بھی کوئی پتہ نہیں وہ حدیبیہ کیس میں نا اہل ہوسکتے ہیں تو بیان آیا کہ نہیں شہباز پنچاب کے محاز پر ہی رہیں گے اور خاقان عباسی اپنی مدت پوری کریں گے۔

یہ ہے پاکستان کی 70سالہ سیاسی تاریخ ،اس دوران کتنے ہی ملک آزاد ہوئے وہ ترقی کر کے کہیں آگے نکل چکے ہمیں اقتدار کے حصول، اقتدار کو بچانے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تذلیل کرنے، کیچڑ اچھالنے سے ہی فرصت نہیں۔ ہم خراب میسج بھیجنے پر اپنی انرجی صرف کررہے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے ٹی وی چینل اسی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ریکارڈ پر آچکا کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے اثاثے ان کی حیثیت سے کہیں زیادہ ہیں، سب کو چھوڑیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اثاثہ مختصر سے وقت میں کہیں سے کہیں پہنچ چکے، سمدھی جی پہلے بھی وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں انہوں نے سپریم کورٹ میں جو ریکارڈ جمع کرایا اس کے مطابق وہ5 سالوں میں 9ملین سے 837 ملین کے اثاثہ جات کے مالک ہوچکے ہیں۔ ایسی کونسی جادو کی جھڑی ان کے ہاتھ میں ہے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں پھنساتے رہے خود امیر سے امیر بننے کی دوڑ میں لگے رہے۔ پرویز مشرف جس کو ایک آمر کے طور پر تاریخ میں یاد کیا جائے گا لیکن اس کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے پاکستانی قوم کے ہاتھ سے کشکول لے کر پھینک دیا تھا۔ پاکستان مقروض نہیں رہا تھا۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں قرضوں کا سلسلہ شروع ہوا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسے بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ یہ ہے 70سال کا پاکستان۔ اسے تو مضبوط و مستحکم اور قرضوں سے آزاد ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے پاکستان کی ترقی کے مقابلے میں اپنے اثاثے وسیع سے وسیع تر کرنے پر توجہ دی جس کے نتیجے میں پاکستان کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا۔ دہشت گردی نے پاکستان میں ڈیرے ڈال لیے ہیں ۔ اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات اسی وقت ہوسکتے ہیں جب حکومت سنجیدہ ہو۔ وہ یک سو ہوکر دہشت گردی اور دیگر اہم مسائل پر سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرے۔ یہاں تو حکومت کو اپنی کرسی بچانے کے سو ا کوئی کام نہیں ہوتا۔ زرداری صاحب نے اپنی تمام تر توانائیاں اور کوششیں اس میں صرف کیں کہ کسی طرح ان کی صدارت کے پانچ سال مکمل ہوجائیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔میاں صاحب کی سیاست مختلف ہے یہ اقتدار کے حصول کے بعد اگلی باری کے چکر میں مظلوم بننے کی فکر میں رہتے ہیں۔ تیسری باری کا جو برا انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے، فیصلے سے اختلاف کریں یا اپنا سر پھوڑیں ، نہ اہل ہوئے، کرسی چھوڑنا پڑی، اب الیکشن کمیشن نے پارٹی کی صدارت سے بھی الگ ہوجانے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔اس سے بڑھ کر تذلیل اور ندامت اور کیا ہوگی۔لاکھ مظلوم بنیں، فیصلہ پر عمل تو کیا لیکن اختلاف کریں ۔ آپ کا انجام دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ میں تغیر پزیری کی ایسی ایسی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں جن کو سوچ کر پاکستان کے قیام پر یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ مملکت انسانی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس کے قیام میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء شامل تھی۔ یہی وہ ہے کہ اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے حکمرانوں اور ان کے درباریوں کی ظالمانہ و بے رحم لوٹ مار کے باوجود یہ مملکت قائم و دائم ہے۔ اللہ اسے تاادبد قائم و سلامت رکھے ؂
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن تجھ کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273530 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More