ہمیں پاکستانیت چاہئے

چودہ اگست 1947ءمیں معرض وجود میں آنے والا پاکستان چودہ اگست 2017ءکو ستر سال کا ہو گیا ہے مگر اسکی جو شکل اور نظریات و مقاصد اپنے قیام کے وقت اور اور اس سے پہلے تھے وہ اب شکل ہے نہ نظریات مقاصد نظر آتے ہیں قائداعظم محمد علی جناح سے لیکر محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح تک وہ انکے ساتھی بھی پاکستان کو اسکے قیام کے مقاصد کے مطابق سنوارنے کے خواب آنکھوں میں لیے حالات سے لڑتے ہوئے دار فانی سے کوچ کر گئے جسکے بعد وہ پاکستان جسکے عوام نے جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گئے ان سے زیادہ قربانیاں وینے والے جو قیام پاکستان سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ انڈیا کے اندر متحدہ ہندوستان کے نظریہ کی حمایت کرنے والے علاقوں آبادیوں کے مکین تھے مگر قیام پاکستان کیلئے اپنے ہی گھر خاندان مستقبل سب کچھ قربان کرتے ہوئے بن کر رہے گا پاکستان کے نعرے پر مر مٹے اور سب کچھ لٹا دیا ان ہی میں سے جو بچ گئے وہ ہمت کر کے یہاں پاکستان آئے ان سب نے جو پہلے سے تھے یا بعد میں آئے جو خواب دیکھے تھے وہ ستر سال بعد بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے کیونکہ قابض انگریز سے تو آزادی حاصل کر لی مگر نظام انگریز کے مائنڈ سیٹ سے بازیابی عمل میں نہ آسکی جو سرمایہ درد جاگیردار پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتے ہوئے سارے نظام اور اسکے اداروں میں قبضہ کرتے ہوئے اپنی قسمت بلکہ اپنی نسلوں کے مستقبل سنوارتے ہوئے آگے بڑھتے ہی چلے گئے مگر خلق خدا یہاں آج بھی بھوکی ننگی ہے اسے اسلام کے نام پر بے وقوف بنایا گیا سنی شیعہ ،وہابی کے نعروں سے لڑایا گیا پنجابی سندھی ، بلوچی ، پٹھان مہاجر کے نام دیکر استحصال کے ایندھن میں جلاتے رہے یہ سب جو قیام پاکستان سے پہلے سچے بے لوث پاکستانی تھے اور ہیں سے انکی پہچان پاکستانیت چھین لی گئی جو سب مسائل مشکلات مصائب کا اصل مسئلہ بن چکی ہے اور جس کسی نے پاکستانیت چھیننے والوںسے مزاحمت اختیار کی وہ لیاقت علی خان سے لیکر فاطمہ جناح اور انکے بعد والوں جوانکے نقش قدم پر چلے کو عبرت کا نشانہ بنایاگیا غریب تو عبرت بنا تھا ہے ایسے میں جب نیا پاکستان یا اصلی پاکستان کے نعرے لگوائے جارہے ہیں ہمیں ہمارا وہی 1947والا پاکستان اسکی اصل روح پاکستانیت کے ساتھ مل جائے تو یہ ملک سب ملکوں سے عظیم تر ملک بن جائے مگر اسکے لئے ضروری ہے کہ پاکستانیت کو سب پر بالادستی حامل ہو جائے ان کو اسلام مسلک صوبے، علاقے، زبان، سمیت ہرطرح کے تعصبات اور غداری، حب الوطنی اعلیٰ ادنیٰ جیسے ناموں نعروں پر بے قوف بنانے کا سلسلہ بند ہو میرے لیئے سب پاکستانی ہی سب سے اعلیٰ اور پاکستانیت سب سے بلند تر عزیز جان ہے ہاں اگر مسلمان ہونے پر برتری سمجھی جائے تو بھارت میں بھی ہم سے زیادہ مسلمان ہیں ۔مسلمان ہونے کا مطلب فریضہ انسانیت ہے ہر کام میں جو اپنے لیئے پسند کرو ایسا ہی دوسرے کیلئے پسند کرو ۔یہاں تاریخ انسانیت کو رہنما بنایا جائے اس کے اصول کے تحت انصاف کے ساتھ سادہ معیار زندگی اختیار کی جائے ۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم بطور قوم اپنے ملک کے نام سے قوم کی شناخت تیار کرنے والے کامیاب ہوئے اور ہوتے رہےں گے ، محلات ،اونچی شان و شوکت ،راحت کا انقلاب یا تبدیلی سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہے ۔کیا 1947ءکو اپنا سب کچھ قربان کر تے ہوئے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے آج بھی پنڈی سے کراچی تک اپنی چوتھی نسل کے ساتھ کرائے کے ایک ایک کمرے کے مکانوں میں نہیں رہتے ،کیا قیام پاکستان سے قبل پاکستان کے اندر ہی رہنے والے مزدور محنت کش ہاری کسان آج بھی جھونپڑیوں میں نہیں پڑے ہیں ،زندگی کی بنیادی سہولیات پینے کے پانی سے لیکر تعلیم تک کے بنیادی حق سے محروم نہیں ہیں۔ یہ محرومیاں کس طرح ختم ہوں گی اس کا وہی اصول ہے جو (حضرت قائداعظم کے پاس ٹائپ رائٹر مکینک ایس ۔ایم مبین انکی ٹائپ رائٹر مشین ٹھیک کر کے لے کر گئے تو ان کے ساتھ ایک بڑی محنت و محبت و اخلاص کے ساتھ تیار کردہ گاﺅں تکیہ بھی تھا ،پوچھا یہ کیوں لائے ہو بایا میری ماں نے آپ کیلئے تیار کر کے بھیجا ہے آپ دن رات کام میںمصروف ہوتے ہیں بہت تھک جاتے ہوں گے، اسے کام کرتے ہوئے اپنی کمر کے پیچھے رکھ لیا کریں تو بہت ہی شفقت ، اخلاص کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکیا باقی سب لوگوں کے پاس ایسا تکیہ ہے بتایا نہیں ہے اور قائد اعظم نے فرمایا میری قوم کے باقی فرد آرام سے نہیں ہیں تو میں کسطرح آرام کروں) جناب باوقار ترقی خوشحال پاکستان کیلئے خوشحال ملت پاکستان کا ہونا ضروری ہے ۔کسی سی پیک ،جہاز،میٹرو کی نہیں بلکہ کام کام اور کام کی ضرورت ہے۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ایک میثاق پاکستانیت کریں ،چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے پارلیمنٹیر ین لیڈر شب (سیاستدان )جج ،جنرل سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو بیٹھک کی جو دعوت دی ہے اسے قبول کرتے ہوئے ایک ایسا اصول طے ہونا چاہئے جس کے سب پابند ہوں اور وہ ہے پاکستانیت کو زندہ کر کے پاکستانیوں کو خوشحال بنایا جائے ۔پاکستانی خوشحال ہو گا تو پاکستان بھی باوقار ہو جائے گا۔ورنہ چئرمین سینیٹ نے جیسا کے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے انگریز چلا گیا لیکن کالے رنگ کے سانپ آج بھی ساری قوم کو محکوم بنائے ہوئے ہیں ۔میرے جیسا آدمی پیسے بغیر الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ غریب آدمی دو وقت کی روٹی سے آگے سوچنے کے قابل ہی نہیں رہا ہے تو وہ ملک و ملت کےلئے کیسے سوچے گا۔اس کی سوچ پاکستانیت کی بحالی کےلئے ضرور ی ہے کہ ان کو روٹی ،کپڑا اور مکان یقینی بنایا جائے-

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 206 Articles with 131760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.