ابھی امید باقی ہے

پاکستان بہت مشکل دوراہے میں ہیں ۔ یہاں اندرونی مسائل تو وہاں عالمی برادری میں انڈیا اور امریکہ کی سازشیں ۔ یہاں بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ تو وہاں مسلمان ممالک سے کشیدہ تعلقات ۔ ملک سے بے خبر حکمراں اور ملک سے باخبر دشمن ۔ لیکن جب نوجواں کو دیکھتا ہوں تو اخوت، جزبہ حب الوطنی اور جوش و ولولے سے بھرپور پاتا ہوں ۔ بچوں کو دیکھتا ہوں تو اپنی مٹی سے محبت کا احساس تروتازہ سا ہو جاتا ہے اور بے اختیار خود سے کہنے لگتا ہوں ، پاکستان ذندہ باد

1947 میں جب لاکھوں قربانیوں کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان آزاد ہوا تو مسلم نے سکھ کا سانس لیا ۔ ایک نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا ۔ نومولود وطن کو جوان کرنے میں لگ گیا ۔ اغیاروں کی ہر ممکن کوشش رہی کہ نومولودگی میں ہی اس کا گلا گھونٹ دیا جائے لیکن جس کلمے پہ پاک مٹی کا وجود ہوا اس کی بدولت اغیار کی ساری کوششیں رائگاں گئی ۔ پاکستان جوان ہوا اور مسلم برادری کو سہارا دینا شروع کر دیا ۔ دشمن نے گھات لگانے کی کوشش کی لیکن ایسی منہ کی کھائی کہ تاریخ رقم ہو گئی ۔ ۔ خون جگر دے کے نکھارا ہے رخ برگ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے . دشمن سمجھ گیا کہ آمنے سامنے لڑنا اور جیتنا کسی صورت ممکن نہیں تو روایتی چال چلی اور پھوٹ ڈال دی ۔ اپنے سمجھ نہ پائے اور جدا ہو گئے۔ پاکستان کو ایک بار پھر سے نومولود بنا دیا گیا ۔ لیکن وجہ بنیاد کی بدولت بہت جلد یہ نومولود پھر سے چلنا سیکھ گیا اور ایسا گبرو جوان ہوا کہ وقت کے سب سے طاقتور پہلوان کو پچھاڑ ڈالا۔ دشمن نے ایٹمی دھماکے کئے تو جواب میں پاکستان نے بھی اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کے امت مسلمہ کو تحفظ کا احساس دلایا۔ پھر دشمن نےخبردار کر کے دستک دی کہ کھلواڑ نہ کھولا تو دروازہ توڑ دینگے ۔ دشمن سے دوستی کرنی پڑی جو مہنگی ثابت ہوئی اور تا یوم خمیازہ بھگتنا پڑ رہا۔ اب تھوڑی مشکل ہو گئی ہیں کہ وطن حب الوطنوں کے ہاتھ میں نہیں ۔ ازلی دشمن کی دوستی کے خواہاں ہیں ہمارے بڑے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سانپ سے لاکھ دوستی ہو جائے لیکن آخر میں سانپ نے ڈسنا ضرور ہے ۔ نا اتفاقی کی بو نے پورے ملک کو گھیرا ہوا ہے ۔ مسلم کم ہونے لگے ہیں ۔ شیا ، سنی اور بریلوی زیادہ ہونے لگے ہیں ۔ جسموں سے زیادہ خون عبادت گاہوں اور بازاروں میں دستیاب ہونے لگا ہیں ۔ حیاء کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب چل رہے ہیں ۔ چاچا ماما تایا مزے میں ہیں ۔ دشمن کے جاسوس دندناتے پھر رہے ۔ غرض معاملہ نہایت ہی خراب چل رہا ۔ زندگی خوف سے بھرپور ہیں اور دل مایوس ہونے کو لیکن جب بھی میں وی وی آئی پیز کو قطع نظر رکھ کے اوسط درجے اور غریب درجے کے عوام کو دیکھتا ہوں تو تن جاتا ہوں ۔ نڈر ہو جاتا ہوں۔ کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔مایوسی چھٹ جاتی ہے اور امید کا ستارہ پورے آب و تاب سے چمکنے لگتا ہیں ۔ مجھے حب الوطنی نظر آتی ہیں ، مجھے اخوت دکھائی دیتا ہیں، محبت راج کرتی نظر آتی ہیں ۔ اور مجھے بس ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔
میرے وطن یہ حقیقت ہے کہ جان تجھ پہ نثار کر دوں
امید ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ پاکستان امن کا گہوارہ ہوگا ۔ ناساز حالات کی بناء پہ ابھی مسلم امہ کی خاطر خواں مدد نہیں کر پا رہا لیکن قریب ہے کہ پاکستان سب کے لئے ٹھنڈی چھاؤں بنے گا۔ ابھی قربانیاں دینی باقی ہے ۔ پروردگار سے دوستی مضبوط کرنی ہے اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

Salman khattak
About the Author: Salman khattak Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.