اکیسویں صدی کے استاد کے تقاضے

پاکستان میں ہر سال عالمی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے جس میں مختلف اساتذہ تنظیمیں اور ادارے اس دن کی مناسبت سے تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں اور اساتذہ کی اہمیت اور توقیر کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر تقاریب کا دائرہ کار سرکاری اساتذہ کو ڈسکس کرنے تک محدود رہتا ہے ۔ ہمارے ہاں گذشتہ ایک دھائی سے ’’یوم اساتذہ‘‘ منایا جارہا ہے مگر سرکاری اساتذہ ہی کی مناسبت سے تقاریر ، ریلیاں اور مطالبات کئے جاتے ہیں ۔ شازوناظر ہی کوئی تقریب ایسی ہوتی ہے جس میں سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی اساتذہ کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ یعنی یوم اساتذہ کا مقصد شاید سرکاری اساتذہ کے مسائل ہی ڈسکس کرنا رہ گیا ہے حالانکہ ان کی تعداد صرف ساڑھے تین لاکھ ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں فرائض سرانجام دینے والے اساتذہ کی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے ۔ ان نجی اساتذہ کا مقدمہ کوئی نہیں لڑتا ، حالانکہ مراعات کے معاملے میں وہ بھی سمندر میں نہیں نہا رہے ۔

امر واقع یہ ہے کہ بالخصوص ابتدائی کلاسز کیلئے استاد چاہے نجی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہو ، یا سرکاری سے ، مسائل سب کے ایک سے ہیں ۔ اگرچہ کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی اساتذہ کے ساتھ سلوک مذکورہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، تاہم بہتر ضرور ہے ۔

استاد انسان سازی کرتے ہیں اور اس صنعت میں وہ اس مزدور یا ورکر کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس سے کام تو پورا لیاجاتا ہے مگر معاوضہ اس کی محنت کے مطابق نہیں دیا جاتا ۔ اس کے باوجود اپنی مصنوعات تیار کرنے کے معاملے میں وہ بے ایمانی سے کام نہیں لیتا ، مگر معاشرے میں اپنے سٹیٹس پر کڑھتا ضرور ہے ۔

ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سے ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات گریجویشن اور ماسٹرز کے امتحانات پاس کرتے ہیں مگر مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے ان میں سے بیشتر مایوس ہوکر معاشرے کیلئے درد سر بن جاتے ہیں ۔ کچھ بیرون ممالک چلے جاتے ہیں ، کچھ خوش قسمتی سے چھوٹے موٹے روزگار سے منسلک ہوجاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ، وہ بوجوہ اپنے لئے تدریش کا پیشہ چن لیتے ہیں ۔ وگرنہ ہمارا مجموعی مزاج یہی ہے کہ ہمارا طالبعلم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب تو دیکھے گا مگر پیشہ پیغمبری سے منسلک ہونے کا کبھی نہیں سوچتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس شعبے میں ترقی دکھائی نہیں دیتی ……یعنی آج جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں ان میں سے کم از کم 70 فیصد اپنی خوشی اور شوق سے نہیں بلکہ باامر مجبوری ٹیچر بنے ہیں مگر اپنے پیشے سے انصاف کررہے ہیں ۔ آج تعلیمی اداروں میں جتنے بھی ایجوکیٹرز بھرتی ہورہے ہیں ، کوئی بھی ماسٹرز سے کم نہیں ہے۔ لہذا انہیں یوں نظرانداز کرنا سراسر زیادتی ہے ۔

استاد کی حیثیت کسی بھی طرح کسی بیوروکریٹ سے کم نہیں …… بیوروکریٹ اگر حکومتی امور نبٹانے اور ملک کے انتظامی معاملات چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو استاد بھی قوم کے وہ معمار تیار کرتا ہے ، جو ملکی ترقی کا پہیہ گھماتے ہیں …… انہی معماروں میں سے بعدازاں کوئی بیوروکریٹ بنتا ہے تو کوئی صدر ، وزیراعظم سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز ہوتا ہے ۔

یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم ایک انتہائی ترقی یافتہ دور میں سانس لے رہے ہیں ۔ اس دور کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر اس میں جینا بہت مشکل ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ایک عام سکول کا ٹیچر جتنی تنخواہ لے رہا ہے ، وہ یہاں بتانا بھی میں اس کا استحصال سمجھتا ہوں …… یوں کہئے کہ اس کا مشاہرہ حکومت کی جانب سے ایک مزدور کی طے کردہ ماہانہ اجرت سے بھی کم ہوتا ہے ۔ البتہ ان کی نسبت جو سکول کسی چین کے ساتھ ہیں ، ان میں ٹیچر کا مشاہرہ پھر بھی مناسب کہا جاسکتا ہے ، مگر بہتر نہیں ، تاہم اصل مسئلہ مراعات کا ہے ۔ محض تنخواہ ہی سب کچھ نہیں ہوتی ، اس کے علاوہ بھی زندگی میں بہت کچھ ہے ۔ اسے صحت کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں ، اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی اسے ادا کرنا ہوتے ہیں ، بیشتر اساتذہ ’’پردیسی‘‘ ہوتے ہیں ، انہیں رہائشی اخراجات کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے ۔ یہ تمام امور محض ایک لگی لپٹی تنخواہ میں پورے نہیں ہوپاتے ۔ اس کی محنت کے عوض دیا گیا معاوضہ تو محض یوٹلیٹی بلز اتارنے میں ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ جو جمع پونجی بچ جاتی ہے وہ گھر کا کرایہ ادا کرنے میں نکل جاتی ہے ۔ اس دوران اگر خدانخواستہ اسے یا اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس امتحان سے نکل سکے …… سرکاری تعلیمی اداروں میں اگرچہ میڈیکل الاؤنس اور ہاؤس رینٹ کی سہولت موجود ہے ، لیکن یہ رقم اس قدر محدود ہوتی ہے کہ میڈکل الاؤنس ایک ہفتہ کی ادویات بھی پوری نہیں کرپاتا جبکہ رہائشی الاؤنس کرایہ کے گھر میں مقیم استاد کے 10 دن کے کرائے کے برابر بھی نہیں ہوتا …… نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے ۔ ممکن ہے کچھ جگہوں پر میڈکل انشورنس وغیرہ کے نام پر اساتذہ کو یہ سہولت حاصل ہو ، مگر مجموعی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ اگرچہ ہر استاد ڈیوٹی اوقات کے بعد ٹیوشن پڑھا کر اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مہنگائی اور افراتفری کے اس دور میں وہ محض 50 فیصد ہی کامیاب ہوپاتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنے معاشرتی اور معاشی استحصال کے باوجود وہ قومی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔

یہ استاد ہی ہے جس نے طالبعلم کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد سکھایا ، سوچ اور فکر کی راہ متعین کی ، اعتماد دیا ، زندگی کی گٹھیاں سلجھانے کے گر بتائے ، محبتوں کے ساتھ اس وقت پہلا سبق پڑھایا جب ہم کچھ نہیں جانتے تھے ، ان پڑھ اور جاہل تھے ، انہوں نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اجالے کے سفر پر گامزن کیا …… اپنی صلاحیتیں ہم پر صرف کیں اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم مضبوط کردار اور مثبت روایات کے امین اور معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں ۔ تف ہے کہ آج استاد کو محض درانتی اور کھرپا بنانے والا کاریگر سمجھ لیا گیا ہے جو ایک لگی بندھی ڈگر کے ساتھ دیہاڑی پر درانتیاں بناتا چلا جائے ۔

نجی اساتذہ کا سب سے بڑا مسئلہ جاب سیکورٹی اور اس کے بعد تنخواہ ہے ۔ ایک پوش علاقے کے عام سے سکول میں ٹیچر کی تنخواہ 10 سے 12 ہزار تک ہوتی ہے جبکہ کئی سکول اس سے بھی کم دے رہے ہیں ۔ بڑے بڑے تعلیمی نیٹ ورک بھی استاد کے استحصال کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ بالخصوص دیہاتوں میں سرکاری و نجی دونوں طرز کے اساتذہ کو اپنے پیشہ ورانہ معمولات نبھانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اول تو وہ شہری طرز کی سہولیات سے ہی محروم ہیں ۔ دوسرا ، انہیں جاگیرداری اور زمینداری نظام نے ترقی سے روک رکھا ہے ۔ دیہی سرمایہ دار انہیں ذاتی ملازم یا کمی کمین کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے تنخواہ ادا کرنے کی پابندی سے گریزاں ہوتے ہیں ۔ حالانکہ دیہی اساتذہ کو اگر شہری اساتذہ کے برابر سمجھا جائے اور انہیں سہولیات دی جائیں تو نہ صرف ڈراپ آؤٹ ریشو میں کمی واقع ہوسکتی ہے بلکہ معیار تعلیم اور سرکاری سکولوں کی حالت زار کی بہتری بھی ممکن ہے ۔

طرفہ تماشہ تو یہ بھی ہے کہ اس وقت پرائیویٹ سکول ایجوکیشن ایک بزنس بن چکا ہے ۔ ہر گلی محلے میں سکول کھلے ہوئے ہیں اور یہ سب سے آسان بزنس تصور ہوتا ہے …… مگر درحقیقت یہ ایک ’’سفید ہاتھی‘‘ ہے جسے قابو کرنا بے حد ضروری ہے ۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ تمام رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ سرکاری و نجی اداروں کو ایجوکیشن منسٹری اور ایک مشترکہ سسٹم کے تابع لایا جائے …… اس سسٹم کے تحت جو مراعات سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو میسر ہیں ، نجی اداروں کو بھی مجبور کیا جائے کہ وہ مکمل نہ سہی ، کم از کم ان کا نصف ضرور ادا کریں ۔ اس ضمن میں ایک شرح طے کی جاسکتی ہے جو آدھی حکومت اور آدھی متعلقہ تعلیمی ادارہ اپنے استاد کو دے …… جو نجی ادارے اپنا یہ ’’خسارہ‘‘ طلباء سے نکالنے کی کوشش کریں ، مذکورہ سسٹم کے تحت حکومت ان کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرنے سے گریز نہ کرے ۔

مختصر یہ کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی اور سرکاری دونوں اساتذہ کیلئے مشترکہ سروس اسٹرکچر بنایا جائے …… حکومت نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تفریق سے بے نیاز ہوکر اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے …… اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ حوصلہ افزائی کیلئے مرکزی ،صوبائی اور ضلعی سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے اور نہ صرف سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جائے بلکہ ان کے نام تجویز کرکے ایوان صدر بھیجے جائیں جہاں قومی دن کے موقع پر قومی ہیروؤں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے …… نیز دونوں طرز کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے والے انہیں خصوصی الاؤنس دینے کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے کوٹہ مختص کیا جائے …… ان کے اہل خانہ کو صحت کے مسائل سے نبٹنے کے لئے سوشل سیکورٹی کے تحت میڈیکل اور پنشن کی سہولت دینے کے لئے قانون سازی کی جائے …… اور صحافی کالونی اور دیگر رہائشی سکیموں کی طرح اساتذہ کے لئے بھی تحصیل اور ضلعی سطح پر رہائشی کالونیاں بنائی جائیں ۔

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 82 Articles with 69976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.