کتاب کا نام: امی جان مصنف ضیا شاہد

ضیا شاہد( اصلی نام ضیا محمد) کانام پاکستانی صحافت میں ایک مرد حر کی طرح جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔ انہیں بات کہنے اور کرنے کا خوب ڈھنگ آتا ہے۔ وہ مجدد صحافت مجیدنظامی مرحوم کی طرح جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے نہیں گبھراتے ۔اگر انہیں مزاحمتی صحافت کا نقیب کہاجائے توغلط نہ ہوگا ۔ وہ جس اخبار میں بھی رہے اور جس عہدے پر بھی فائز رہے انہوں نے اپنے وجود کوحقیقی معنوں میں منوایا ۔اپنی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ضیا شاہدلکھتے ہیں کہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ کمانے کے لیے سائن بورڈ اور دیواروں پر اشتہاربھی لکھاکرتا تھا ۔ روزنامہ تسنیم میں کاتب کی ملازمت کے لیے پہنچا تو اردو اچھی ہونے کی بنا پر سب ایڈیٹر کے طور پر مجھے نیوز ڈیسک پر بٹھالیاگیا ۔ پھر مختلف اخبارات سے ہوتا ہوا میں اردو ڈائجسٹ پہنچا ۔(جسے ڈائجسٹوں کی ماں قرار دیا جاتاہے ) جہاں مجھے ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا پھر یہی پر سب ایڈیٹر اور آخر میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گیا ۔4 جنوری 1945ء گڑھی یاسین ضلع شکار پور سندھ میں پیدا ہونے والے ضیا محمد روزنامہ تسنیم لاہور سے ہوتے ہوئے ہفت روزہ اقدام ٗ روزنامہ کوہستان ٗ روزنامہ حالات ٗ ہفت روزہ کہانی لاہور ٗ مغربی پاکستان ٗ ہفت روزہ صحافت ٗ نوائے وقت ٗ روزنامہ جنگ ٗ ہفت روزہ آواز پنجاب ٗ روزنامہ پاکستان اور زندگی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اب آپ روزنامہ خبریں ٗ خبرون (سندھی) ٗ خبراں (پنجابی ) دی پوسٹ (انگریزی)ٗ دوپہر کے اخبار"نیا اخبار"کے چیف ایڈیٹر / پبلشر ہیں ۔آپ سینئر نائب صدر اے پی این ایس کراچی ٗ سابق سینئر نائب صدر سی پی این ای کراچی اور صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر بھی ہیں ۔ بے باک صحافتی خدمات اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں آپ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شاہی قلعے کے مہمان بھی رہے اور سات ماہ تک جیل بھی کاٹی ۔ اعلی صحافتی خدمات کے عوض صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آپ کو اعلی سول اعزاز ستارہ امتیاز بھی ملا جبکہ سی پی این ای کی طرف سے آپکو وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی میسر آیا ۔ آپکی چند مشہور کتابوں میں خون کا سمندر ٗ چپکے سے ٗ حیرت ناک کہانیاں ٗ طوفان کی سرزمین ٗ جنگ عظیم کی کہانیاں ٗ خوفناک کہانیاں ٗ عقابوں کا نشیمن ٗ ولی خان جواب دیں ٗ جمعہ بخیر ٗ پاکستان کے خلاف سازش ٗ قائد اعظم زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات اور زیر نظر کتاب "امی جان "شامل ہیں ۔

آپ اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جالندھر کی تحصیل نکودر کے گاؤں "جھگیاں عیسی " میں ایک ہی پختہ اینٹوں کا بنا ہوا مکان تھا جسے عرف عام میں تحصیل دار کی بیٹھک کہاجاتاتھا ۔ اس مکان پر سفید پتھر کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر "بقا منزل "لکھا تھا ۔ بقا محمد ٗمیرے والد کے سب سے بڑے بیٹے تھے ٗجو والد چوہدری جان محمد اور میری والدہ کے پرتو تھے۔ شکل کے ساتھ ساتھ عاداتیں بھی ملتی جلتی تھیں ۔ جو اس وقت چوتھی یا پانچویں میں پڑھتے تھے۔ان سے چھوٹی بہن مظفر النساء ٗ ان کے بعد مزمل بھائی اور چوتھے نمبر پر میں تھا ۔جس وقت والد چوہدری جان محمد کا دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال ہوا تو والد ہ (جسے ہم سب بی بی جی کہہ کر پکارتے تھے ) اپنے چاروں کو بچوں کو لے کر جالندھر واپس چلی آئیں ۔ جہاں ان کا آبائی گھر اور خاندان کے دیگر لوگ آباد تھے ۔

ضیا شاہد اپنے آبائی گاؤں کے ایک ناقابل فراموش واقعے کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ایک دن سب سے بڑے بھائی بقا محمد کو میرے تایا زاد بھائیوں نے اس بات پر ڈانٹا کہ تم روزانہ سکول پڑھنے کیوں جاتے ہو۔ پڑھائی چھوڑو اور اپنے چاچوں ٗ تاؤں کی بھینسیں اور بکریاں چرایا کرو ٗ بھائی بقا محمد نے جب ان کی بات ماننے سے انکار کیا تو انہوں نے بھائی کو کنویں میں لٹکا کر اپنی بات ماننے پر مجبور کرنا چاہا ۔ اس واقعے کے چند چشم دید لڑکوں نے والدہ کو گھر آکر صور ت حال سے آگاہ کیا ۔والد ہ اپنے دو کزنوں کے ہمراہ جب کنویں کے پاس پہنچی تو اپنے بیٹے کو کنویں میں لٹکا ہوا پایا ۔تایا زاد بھائی اسے سکول چھوڑنے اور بھینسیں چرانے پر آمادہ کررہے تھے اور دھمکی دے رہے تھے کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں کنویں میں پھینک دیں گے۔ بھائی بقامحمد انکار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے میں اپنے ابا کی طرح تعلیم حاصل کروں گا اور پڑھتا رہوں گا ۔بی بی جی نے بھائی بقا محمد کو ان کے چنگل سے آزاد کروانے کے بعد جواب دیا۔ ان بچوں کے اباجی نے لاہور اسلامیہ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی ۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں اپنے بچوں کو بی اے سے بھی زیادہ ایم تک پڑھاؤں گی ۔ میرے بیٹے بکریاں نہیں چرائیں گے بلکہ میں انہیں پڑھنے کے لیے ولایت تک بھجواؤں گی ۔ یہ سن کر تایا زاد بھائی ہنس کر مذاق اڑ رہے تھے ۔ پھر کہا "پلے نئیں دھیلا ۔کردی اے میلہ میلہ "۔پھر بولے زمین کا مرلہ تمہارے پاس نہیں اور اس پر ہمارا قبضہ ہے گھر میں کھانے کو نہیں اور توبچوں کو ولایت بھیجنے کے خواب دیکھ رہی ہو ۔ چاچی عقل سے کام لے ۔ بی بی جی غصے میں آگئیں ۔ انہوں نے کہا اﷲ تمہارے باپ کو بھی زندگی دے اور مجھے بھی ٗ میں نے جو کہا کرکے بھی دکھاؤں گی ۔

پاکستان بنا تو ہم جالندھر سے ہجرت کرکے بہاولنگر آگئے ٗ تیس بتیس میل دور ہارون آباد کا شہر تھا جس کے قریب والد صاحب نے اپنی ملازمت کے دوران دو مربع زمین قسطوں پر خریدی تھی ۔ ہمارے نانا میاں نظام الدین محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بہاولنگر شہر سے تین میل دور واقع ایک گاؤں موضع ماتراں میں دو مربع زمین کے مالک اور رہائشی تھے ۔ انہوں نے اپناگھر جو بہاولنگر شہر میں تھا ہمیں رہائش کے لیے دے دیا ۔ بقا محمد بھائی ٗ باجی مظفر ٗمزمل بھائی اور مجھے سکول کی مختلف کلاسوں میں داخل کروادیاگیا ۔ وقت گزرتا رہا بقا محمد بھائی نے میٹرک کاامتحان پاس کرلیا تو بی بی جی ہم سب کو لے کر ملتان چلی گئیں ہم نے محلہ قدیر آباد میں کرائے پر گھر لے لیا اور بھائی بقامحمد گورنمنٹ ایمرسن کالج ٗ مزمل بھائی اور میں گورنمنٹ سکول میں داخل ہوگئے ۔چند سال بعد جب بقامحمد بھائی نے بی ایس سی کاامتحان پاس کرلیا تو والدہ ہمیں لے کر لاہور آگئیں یہاں ہم اچھرہ میں کرائے پر مکان لے کر رہنے لگے ۔ بھائی بقا محمد پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی ٹیکنالوجی اور باجی مظفر نے ایف ایس سی کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کلاس میں داخلہ لے لیا۔ جبکہ میں گورنمنٹ انٹر کالج کے شعبہ آرٹس میں فرسٹ ائیر میں داخل ہوگیا ۔بھائی بقا محمد ایم ایس سی ٹیکنالوجی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں لیکچرار بھرتی ہوگئے ۔باجی مظفر پانچ سالوں میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرکے ڈاکٹر بن گئیں اور مزمل بھائی بی فارمیسی کرنے کے بعد ایک دوا ساز کمپنی سے منسلک ہوگئے ۔انہی دنوں سعودی عرب سے ڈاکٹروں ٗ فارماسسٹوں ٗ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی تلاش میں آنے والے وفد نے باجی مظفر اور بھائی مزمل کو اپنے ہاں ملازمت کے لیے منتخب کرلیا۔ اس طرح بی بی جی ٗ بہن مظفر کے ساتھ بطور گارڈین اور بھائی مزمل بھی مدینہ منورہ چلے گئے۔جہاں امی جان نے اپنی زندگی کے بہترین 22 سال گزارے ۔ اس دوران 15حج اور 150 عمروں کی سعادت حاصل کی ۔یہ کہانی بے شک ایک ایسی مشرقی ماں کی ہے جس کی ہر ہر جھلک پرانی ماؤں میں پائی جاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ضیا شاہد کی امی جان کی کہانی میں اپنی ماں کو تلاش کرتا نظرآتا ہے ۔

ضیا شاہد (ضیا محمد ) ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب ہمارے نانا جان میاں نظام الدین کی وفات ہوئی تو بی بی جی نے اپنے بھائی کو ساتھ لے کر خود قبر کی جگہ منتخب کی ٗ قبرستان کے قریب ہی مسجد بنانے کی تلقین کی ٗ جس میں بچوں کو قرآن پاک پڑھا یا جائے ۔اس مقام پر دو تین نلکے اس لیے لگوانے کی ہدایت کی تاکہ نمازیوں کووضوکرنے اور راہگیروں کو پینے کا ٹھنڈا پانی میسرآسکے۔اپنے بھائیوں سے یہ بھی کہا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہونا چاہیئے ۔ ٹھنڈا پانی ساری عمر بی بی جی کی کمزوری رہا ٗ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے ٹھنڈا پانی پیا ہو اور ہاتھ اٹھا کر رب کا شکرادا نہ کیا ہو ۔ بی بی جی فرماتی تھی ٗ پانی سب سے بڑی نعمت ہے ٗروٹی کے بغیر انسان دو چار روز زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر نہیں ۔ گاؤں میں ہوتیں تو مویشیوں اور پرندوں کے لیے ٹھنڈے پانی کااہتمام کرتیں۔

مصنف اپنے بچپن کے ایک اہم واقعے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں ۔ایک مرتبہ بی بی جی ہمیں ہارون آباد لے جارہی تھیں جہاں محکمہ مال کے ایک افسر کے سامنے پیش ہوکر ہم نے کاغذات پر انگوٹھے لگانے اور دستخط کرنے تھے تاکہ باؤ جی ( والد مرحوم چوہدری جان محمد) کی دو مربع زمین جس کی قسطیں ادا ہوچکی تھیں ٗ اس کی ملکیت ہمارے نام ہوسکے ۔ ہارون آباد میں محکمہ مال کا چھوٹا سا افسر جسے کسی زمانے میں باؤ جی ( چوہدری جان محمد ) نے میٹرک پاس کرنے پر کلرک رکھ لیا تھا ۔بی بی جی نے اس کو خط لکھوایا کہ میں باؤ جی جان محمد کی بیوہ ہوں اور اپنے چار بچوں کے ہمراہ ہارون آباد آپکے دفتر آرہی ہوں ۔ہمارے کاغذات گاؤں سے آپ کے پاس منظوری کے لیے آئے ہوئے ہیں ۔ہمارا کام کروادیں ۔محکمہ مال کا یہ افسر معلوم نہیں کس طرح کلرک سے ترقی کرکے افسر بن گیاتھا ۔ بی بی جی بتایا کرتی تھیں کہ وہ رشوت کے بغیر فائل کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا ۔ہم ریل گاڑی پر سوار ہوکر ہارون آبادپہنچے تو سیدھا ان کی رہائش گاہ کا رخ کیا ۔ اس کا گھر انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ٹائلوں سے بنا ہوا تھا۔ کھانے کی میز بارہ سیٹوں والی تھی۔ ناشتے میں قدرت کی اتنی نعمتیں ایک ساتھ رکھی تھیں کہ ہم ہم حیرت زدہ ہوگئے ۔پراٹھے ٗ تلے ہوئے انڈے ٗابلے ہوئے انڈے ٗ جیم ٗ جیلی ٗ سیب کامربہ ٗ بھنی ہوئی کلیجی ٗ بند ڈبوں میں جوس ٗ جن پرمیڈان انگلینڈ لکھا تھا ۔ہارون آباد جیسے چھوٹے شہر میں ان کا ناشتہ لندن کی بنی ہوئی چیزوں پر مشتمل تھا۔ بی بی جی کی ہدایت کے مطابق ہم نے ایک ایک چیز لے کھاکر ناشتہ مکمل کرلیا ۔بعدازاں ہم محکمہ مال کے دفتر پہنچے تو رشوت خور افسر نے ہماری فائل منگوائی ۔بی بی جی اورہم نے دستخط کیے اور انگوٹھے بھی لگوائے ۔اس طرح والد مرحوم کی دو مربع زمین ہمارے نام ہوگئی اور شام کو گاڑی کے ذریعے بہاولنگر پہنچ گئے ۔بی بی جی اکثر کہاکرتی تھی کہ میں ہر چیز معاف کرسکتی ہوں لیکن بچوں کی پڑھائی سے عدم دلچسپی اور رشوت خوری ٗ شراب نوشی کبھی معاف نہیں کرسکتی ۔

ضیا شاہد ( ضیا محمد ) اپنے بڑے بھائی بقا محمد کی رحلت کی کہانی سناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھائی بقامحمد کو بی ایس سی طلبہ کے انٹرویو کے دوران ہی دل کا دورہ پڑا تو انہیں نشتر ہسپتال ملتان لے جایا گیا ۔اطلاع ملتے ہی میں چھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے جب میں ملتان پہنچا تو وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس جاچکے تھے ۔ میں جب بھائی بقامحمد کی رہائش گاہ میں داخل ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ محلے کی عورتیں گھر میں موجود ضرور تھیں لیکن رونے اور دھاڑیں مارنے کی آواز کہیں سے بھی سنائی نہیں دی ۔ جہاں بھائی بقامحمد کی میت پڑی تھی وہاں صرف بی بی جی اکیلی بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی ۔مجھے اور یاسمین کو روتے دیکھ کر انہوں نے سختی سے منع کیااور بولیں آنسو پونچھ لو اور وضو کرکے آؤ اور میت کی پائنتی بیٹھ کر تلاوت قران پاک شروع کردو۔ میت کے سرہانے کھڑے ہوکر روتے نہیں ٗ اس سے میت کو تکلیف ہوتی ہے پھر ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا جس کی امانت تھی ٗ اس نے واپس لے لی ۔چلو جاؤ اور وضوکرکے آؤ ۔ تب میں نے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے دیکھے ۔ میں نے کہا امی جان آپ خود تو رو رہی ہیں وہ بولیں یہ آنسو تو خود بخود نکل آتے ہیں مگر آواز نہیں نکالنی چاہیئے اور نہ ہی رونا پیٹنا چاہیئے ۔

مصنف کتاب ضیا شاہد ( ضیا محمد )اپنی والدہ بی بی جی کے آخری لمحات کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ سخت سے سخت انسان بھی جذبات میں آکر آنسو بہانے لگتا ہے۔ ان کی باتوں میں وزن بھی ہے اور رشتوں سے محبت کی چاشنی بھی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب بی بی جی کی عمر 88 سال ہوگئی تو بیماریوں نے بھی انہیں گھیرنا شروع کردیا۔سانس کی تکلیف پرانی تھی ٗدل بڑا ہوگیا اور گردے مکمل طور پر ناکارہ ہوچکے تھے ۔ ان بیماریوں کی یکے بعد دیگر یلغار کے نتیجے میں بی بی جی کومے میں چلی گئیں۔ یہ کیفیت ہم سب کے لیے یقینا تکلیف دہ تھی ۔ خاندان کے سبھی چھوٹے بڑے جناح ہسپتال کے اس وارڈ کے باہر موجود تھے ۔ جہاں آئی سی سی یو میں بی بی جی زیر علاج تھیں ۔سرگوشیاں چل رہی تھی ۔وہاں کھڑے ہمیں یہ محسوس ہورہا تھا کہ بی بی جی دونوں جہانوں کے درمیان کھڑی ہیں ایک طرف ان کے جگر گوشے پوتے پوتیاں ٗ نواسے نواسیاں تو دوسری جانب وہ محبت کرنے والے لوگ ہیں ٗ جو ان سے پہلے دنیا چھوڑ کر جاچکے تھے ۔ میں نے تصورات کی دنیا میں جھانک کردیکھا تو ہمارے والد چوہدری جان محمد اشاروں سے بی بی جی کو اپنے پاس بلا رہے تھے حشمت بیگم میرا ہاتھ پکڑ لو اور اوپر آجاؤ ۔ان کے ساتھ بی بی جی کے والد میاں نظام دین کی سرخ مہندی لگی داڑھی وکھائی دی ۔ وہ بھی کہہ رہے تھے نہ ڈر بیٹا اپنے باؤ جی کا ہاتھ پکڑ لے ۔ ان کے قریب ہی سب سے بڑے بیٹے بقامحمد موجود تھے انہوں نے بھی اپنا ہاتھ پھیلا رکھاتھا اور کہہ رہے تھے امی جی اوپر آجائیں ۔ان کے منجھلے بیٹے ڈاکٹر مزمل( جو روضہ رسول ﷺ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع جنت البقیع میں دفن تھے) وہ بھی تکرار کررہے تھے امی جی آجاؤ اس دکھ سے نجات پالو ٗیہاں آنے والوں کو پھر موت نہیں آئے گی یہاں ابدی زندگی ہے ۔اﷲ کی رحمت کے سائے تلے پرسکون زندگی گزاریں آپ دنیا کے مصائب جھیلتے ہوئے بہت تھک چکی ہیں پلیز ہماری بات مان لیں اور اباجان کا ہاتھ پکڑ کر اوپر آجائیں ۔ معلوم نہیں یہ کیفیت مجھ پر کتنی دیر طاری رہی ۔پھر اچانک تصور کی دنیا میں مجھے بی بی جی کاہاتھ بلند ہوتا دکھائی دیا ۔ بینرے سے سجی ہوئی چھت پر کئی ہاتھوں نے بی بی جی کا ہاتھ تھام رکھاتھا اور بی بی جی رفتہ رفتہ اوپر جارہی تھیں ۔ عالم ارواح کایہ منظر اس وقت ختم ہوا۔جب کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا "انا ﷲ و انا الیہ راجعون "۔ امی جی وہاں چلی گئی ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا ۔

ضیا شاہد ( ضیا محمد ) نے اپنی عظیم ماں کی جو کہانی ہم سب کو سنارہے تھے۔ اسی کہانی میں ہم سب کو اپنی اپنی مائیں بھی نظر آتی ہیں۔ فریم ایک ہی ہے لیکن فریم میں لگنے والی تصویریں مختلف ہیں ۔ مجھے یہ کامل یقین ہے کہ ماں کبھی نہیں مرتی بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی دعائیں اپنی اولاد کا اسی طرح تحفظ کرتی ہیں جیسے زندگی میں حصار کیے رکھتی ہیں ۔ ضیا شاہد کی کامیابیوں میں ماں کی دعاؤں پر بہت اثر ہے ۔وہ پاکستان کے دشمنوں کو جس جواں مردی سے للکارتے ہیں اور قبر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے یہ ہمت اور توفیق ماں کی دعاؤں کے طفیل ہی ضیا شاہد کی شخصیت میں موجود ہے ۔ یہاں مجھے ممتاز مفتی کاوہ واقعہ یاد آگیا جو انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا ۔ممتاز مفتی کچھ عرصے سے بیمار رہنے لگے تھے معالجین بھی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ انہیں کونسی بیماری ہے جس کاعلاج کیاجائے ۔کسی دوست نے مشورہ دیا شاید آپ پر کسی نے جادو کردیاہے آپ کسی بزرگ کو دکھائیں ۔ ممتاز مفتی مشورہ سن کر ایک بزرگ کے پاس پہنچے اور تمام حالات اور جسمانی کیفیت کا ذکر کیا ۔ بزرگ چند لمحے خلا میں گھورتے رہے پھر بولے مفتی صاحب آپ پر کوئی جادو نہیں ہوسکتا آپکی والدہ کی دعاؤں نے آپ کے گرد مضبوط حصار قائم کررکھا ہے ۔میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ ضیا شاہد بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کی ماؤں کی دعاؤں نے انہیں اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ وہ اپنی ماں کی دعاؤں سے وقت کے حاکم سے بھی الجھ پڑتے ہیں ٗ وطن دشمنوں کے لیے تو ننگی تلوار ہیں ان کی موجودگی میں کوئی پاکستان کوگالی دے کر کہا ں جاسکتا ہے ۔ آپ کی دو کتابیں" ولی خان جواب دیں" اور" پاکستان کے خلاف سازش" آپ کی عظیم حب الوطنی کا کھلا ثبوت ہیں ۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ضیا شاہد ایک ایسے سایہ دار درخت ہیں جن کے سائے میں بے شمارٗ حالات کے ستائے ہوئے لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے ۔ اﷲ تعالی انہیں صحت کاملہ اور دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا فرمائے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.