کٹی پتنگ

(ایک معاشرتی اصلاحی ڈرامہ)

مختصرکہانی:
بشیراں بی بی اور محمد شریف کی اُنکے والدین اپنی پسند سے شادی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی نہیں ہے ۔تبھی وہ ضد پر اڑ جاتے ہیں اور اپنے بچوں بسمہ ،ماریہ اورعمر حیات کی تربیت پر خاص خیال نہیں کرتے ہیں ۔ اُن کو اولاد کی جانب سے دُکھ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔دوسری طرف فرہاد شاہ اپنی والدہ شاہین شاہ کی بدولت ایک اچھا جیون ساتھی پالیتا ہے اور خوشگوار زندگی گذارتا ہے۔جبکہ دوسری طرف سلمان ایک ناکام عاشق محبت کے حصول میں غلط اقدام کی بدولت اپنی محبت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اپنے محبوب کی عزت بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔حفصہ اپنے والدین کی وجہ سے غلط راہ پر چل رہی ہوتی ہے مگر اپنی محبت کی جانب سے منفی رویئے کی وجہ سے سنبھل جاتی ہے اوروالدین کی پسند پر شادی کر کے اپنی زندگی کو مزید عذاب بننے سے روک لیتی ہے۔

کردار
]
بشیراں بی بی
-ایک لاپروا بیوی اورماں
محمد شریف
-ایک ذمہ دارسخت گیر باپ
بسمہ
بیٹی
ماریہ
بیٹی
حنا
بیٹی
عمرحیات
بیٹا
حفصہ
-ماریہ اور بسمہ کی دوست
بریرہ
ماریہ کی دوست
عطیہ
ماریہ کی دوست
فرہاد شاہ
E ایک سلجھا ہوا متوسط طبقے والا شخص
احمد حسن
حفصہ کے والد
ولی حسن
حفصہ کا بھائی
حاجراں خاتون
)حفصہ کی سوتیلی والدہ
سلمان
7بشیراں خاتون کی بہن کا بیٹا
کرن
سلمان کی بہن
تنزیلہ
کرن کی دوست
شاہین شاہ
فرہاد کی والدہ

(ایک پتنگ کٹ کر آسمان پر ہوا کے دوش اڑتی جا رہی ہے اور پھر ایک گھر کی بیرونی دیواروں اور گیٹ کا منظر سامنے آتا ہے۔)
۔۔۔پہلا منظر۔۔۔
بسمہ: ( اپنے کمرے سے نکلتے ہی آواز لگاتی ہے)
امی ۔امی ۔امی جی جلدی کر دیں نا،مجھے یونیورسٹی سے دیر ہو رہی ہے۔
بشیراں بی بی:۔کب سے حنا کو بھیج کر جلدی اُٹھانے کا کہہ چکی تھی ،پھر بھی نواب زادی سوئی رہی ۔اب تھوڑا صبر کرلو۔
(حنا ناشتہ میز پر رکھ دیتی ہے۔سب بہن بھائی ناشتہ شروع کرتے ہیں)
بسمہ: آپ کو پتا ہے مجھے یہ صبح صبح رات والا کھانا نہیں کھایا جاتا ہے،آپ روز اسی طرح سے کرتی ہیں۔اماں ۔میں نہیں کھا رہی ۔
بشیراں بی بی:بے شک مت کھاؤ،اپنے باپ سے کہو کہ لاڈلی کے لئے فائیو سٹار ہوٹل سے کچھ منگوالیا کریں۔مجھے سے تمہاری فرمائش پوری نہیں ہوتی ہیں۔اب کیا روز نئے پکوان بنا کر رکھ دیا کروں،مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام۔
ماریہ: ( اپنی کہنی مارتے ہوئے ) بسمہ ابو آ رہے ہیں۔دوپٹہ سر پر لے لو۔
بسمہ : ( دوپٹہ سر پر رکھتے ہوئے شکایتی انداز میں) ابو ۔ابو دیکھیں یہ امی کیا کہہ رہی ہیں۔
محمد شریف: بیٹا ۔جلدی کرو ،یونیورسٹی کی بس نکلنے والی ہوگی ،تم یہاں بحث مت کرو،جلدی سے جو مل رہا ہے کھاؤ، کفران نعمت سے باز رہو۔میری تنخواہ جتنی ہے اُس میں تمہاری ماں کیسے گھر چلا رہی ہے ۔ہم ہی بہتر جانتے ہیں۔تم اپنی ماں کی باتیں سن کر مان بھی لیا کرو، اُسکی لاپروائی تمہیں بگاڑ رہی ہے۔
ماریہ: ابو۔کبھی تو انصاف کے ساتھ کام لیا کریں۔
محمد شریف۔( قدرے ناراضگی سے بولتے ہوئے) ماریہ کی بچی ،خاموش رہو،تمہاری زبان زیادہ چلنا شروع ہو گئی ہے۔تب ہی میں تمہیں تعلیم دلوانے کے حق میں نہیں ہوں۔تمہاری ماں کی ضد پر ہی یونیورسٹی جانے کی اجازت دی ہے کہ اُس کے بقول تم کچھ سدھر جاؤ گی۔
محمد شریف۔چلو اب اُٹھو ،دیر ہو رہی ہے ، مجھے اپنے دفتر بھی جانا ہے۔ عمر حیات بیٹا تم بھی جلدی سے ناشتہ کرکے کالج جاؤ۔
عمر حیات: جی ابو۔بس ناشتہ کر لو ں تو وقت پر پہنچ جاؤں گا۔حنا تم ذرا سالن کی پلیٹ پکڑانا۔
حنا: یہ لو بھائی ۔جلدی سے کھاؤ۔
محمد شریف:(اُٹھتے ہوئے )چلو اُٹھو اب وقت نکل رہا ہے۔
(حنا برتن اُٹھانے لگتی ہے،بشیراں بی بی واپس کچن میں اور باقی افرادگھر سے باہر نکلتے ہیں۔)
۔۔۔دوسرا منظر۔۔۔
(حنا سوئی ہوئی ہے اور شور کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے۔اسکے والدمحمد شریف بھائی عمر حیات کو مار رہے ہیں، کمرے سے نکلتے ہی اسکی نظر اس مار پیٹ پر پڑجاتی ہے،دوڑ کر پاس پہنچ جاتی ہے)
حنا : ابوجی۔عمر بھائی نے کیا ایسا کیا ہے جو اُس کی یوں شامت آئی ہوئی ہے۔
محمد شریف:: (غصے سے )یہ تو اس سے پوچھو کہ جناب کیا کارنامے آج کل سرانجام دیتے پھر رہے ہیں۔
حنا : ابوجی۔اچھا بہت ہوئی پٹائی،اب اس کی جان بخشی کر دیں،میں اس سے پوچھتی ہوں کہ کیا اورکیوں کرلیا تھا ۔
محمد شریف:اس کو آخری موقعہ دے رہا ہوں،سدھر جائے،ورنہ اسکی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
حنا : ابوجی۔میں اس کو سمجھاتی ہوں۔چلو عمر میرے کمرے میں وہاں چل کر بات کرتے ہیں۔
(دونوں ڈرائنگ روم سے نکل کر کمرے میں آتے ہیں،ابو وہیں سگریٹ کا کش لگاتے ہیں اور دھواں چھوڑتے ہیں۔)
عمر: آپی ۔مجھے ایک رانگ نمبر سے فون آیا تھا، تو میں نے اس سے بات کرلی تھی،پھر یوں ہی اُن آنٹی نے مجھے کہہ دیا کہ میراایک کام تو میرے گھر تک آ کر کرا دو،میں نے سوچا نیکی کرلو اورانکے گھر کی طرف چل پڑا۔(عمر سانس لینے کے لئے رکتا ہے)
حنا: اچھا پھر کیا ہوا بتاؤ بھی؟
عمر :آپی ۔میں وہاں گیا ،تو جب اُنکو فون کیا توانہوں نے اپنے شوہر سے میری شکایت کر دی۔جب وہ باہر آئے تو مجھے فون کرتا دیکھ کر فون کھینچ لیا ۔اورکالونی کے انچارج صاحب کے پاس لے گئے کہ میں یوں شریف خواتین کو تنگ کرتا ہوں۔انہوں نے بابا جانی کو بلوایا۔انہوں نے وہاں سب کی باتیں سن کر میرا قصور تسلیم کرلیا۔میرا کیا قصور تھا بس ایک رانگ نمبر نے مجھے سزا دلوائی ہے۔
حنا : دیکھو عمر! تم اتنے بھی چھوٹے نہیں ہو،میٹرک میں پڑھ رہے ہو، تمہیں اس طرح کے معاملات کا پتاہونا چاہیے تھا،بابا کی اس کالونی میں ایک عزت ہے،تمہاری وجہ سے ہم سب کی عزت خراب ہوئی ہے۔کل کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ دیکھو اُس لڑکے کی بہن جا رہی ہے۔دیکھو میں بھی جہاں نوکری کرنے جاتی ہوں ،وہاں احتیاط سے کام لے کر اپنی عزت کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔
عمر: آپی۔اچھا میں اب ایسا کوئی کام نہیں کروں گا کہ بابا جانی کی عزت پر حرف آئے۔
حنا : ٹھیک ہے ،شاباش۔چلو بھاگو اب،مجھے سونے دو،تمہاری وجہ سے میری نیند بھی پوری نہیں ہوئی ہے۔
(عمر کمرے سے باہر نکلتا ہے اور حنا کمبل کی طرف ہاتھ بڑھتی ہے۔)
۔۔۔تیسرا منظر۔۔۔
(یونیورسٹی میں بسمہ اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھی گپ شپ کر رہی ہے۔طلبا کی آمدروفت بھی کیفے ٹیریا میں جاری ہے۔)
حفصہ:یار ۔ بسمہ کب سے کوئی فلم دیکھنے نہیں گئے ہیں؟
بسمہ: تو میں کیا کروں، آج بھی اماں ،ابا سے ڈانٹ سن کر آئی ہوں،اور تم اب مزید سنوا کر ستا رہی ہوکہ تفریح کریں۔فلم دیکھنے کے لئے بندے کا مزاج تو خوشگوار ہو، اس اُترے ہوئے منہ کے ساتھ کیا خاک مزہ آئے گا۔
بریرہ: ارے بات تو سنو۔ہم کہیں گھومنے کے لئے جاتے ہیں۔
بسمہ : بھاڑ میں جائیں گے نا (ہنستے ہوئے)
حفصہ:یوں بھی کل صبح دو لیکچرز نہیں ہونگے،ہمارے پاس کافی وقت ہوگا،ہم گھوم پھر کرواپس آ جائیں گے ۔یوں بھی ماریہ آج یونیورسٹی نہیں آئی ہے تو تمہاری شکایت لگانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
بسمہ:چلو پھر ٹھیک ہے،ہمیں بھی آزادی ملے نا،کب تک گھر کی طرح یہاں چھپ کر رہیں۔ہم قانون پڑھنے والے ہی اگر قانون کی خلاف ورزیاں نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
بریرہ: پھر گھر روانہ ہو جائیں گے( آنکھ مارتے ہوئے) کسی کو کیا خبر ہونی ہے کہ صاحبزادیاں کہاں پھرتی رہیں ہیں۔
( تینوں کا ایک ساتھ زور دار قہقہ گونجتا ہے تو آس پاس کے افراد متوجہ ہو جاتے ہیں اور وہ کیفے ٹیریا سے باہر نکلنے کے لئے اُٹھ جاتی ہیں۔)
۔۔۔۔۔۔ چوتھا منظر۔۔۔۔۔۔
(شاہین شاہ اور فرہاد اپنے گھر کے کمرے میں موجود ہیں۔دونوں کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔)
شاہین شاہ:فرہاد۔بیٹا آخر کب تک شادی کرنے کا ارادہ ہے۔ہر جگہ تمہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ نظر آجاتا ہے۔آخر کوئی تو اپنے انتخاب پر پورا اُتار لو۔
فرہاد شاہ:آپ کو پتا ہے اماں جی۔میرے کچھ خواب ہیں ،میں نے اتنی تعلیم اس لے حاصل نہیں کی ہے کہ میں فورا سے شادی کرلوں اور اپنے آپ کو جھمیلوں میں اُلجھا لوں،آپ کو پتا ہے کہ شادی کے بعد کتنی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔میں اچھی نوکری تو کرہی رہا ہوں،مجھے ابھی ایک اچھا لکھاری بننا ہے،اپنے آپ کو منوانا ہے۔اس کے لئے مجھے تھوڑا وقت دیں۔ابھی تو میری شروعات ہوئی ہیں۔
شاہین شاہ:بیٹا۔تمہارے ابا جی کے بعد اب میں اکیلی کب تک اس گھر میں رہوں گی۔
فرہاد شاہ:آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہوں،خالہ امی کے گھر جب گئے تھے تو وہاں کس طرح سے راحیلہ نے شادی سے انکار کر دیا تھا، وہ اپنی پسند سے کرنا چاہ رہی تھی۔آپ بھول رہی ہیں کہ میں آپ کی وجہ سے ہی کتنے گھرانوں کی دعوتیں کھا چکا ہوں،سب اپنی بیٹی کو لالچ رکھ کر بیاہنے کی خواہش رکھتے ہیں ،ہم شرافت کے ساتھ رہنے والے معمولی حیثیت کے لوگوں سے بھی لڑکی والوں کی سوچ ہے کہ بہت کچھ لکھوا لیں،بیٹی کی اگلی زندگی کی خوشی کی طرف بعد میں سوچتے ہیں پہلے تو وہ چاہتے ہیں کہ بیٹی کے نام بہت کچھ لکھوا یا جائے،پھر الگ گھر لیا جائے،جب بیٹی کی وہ لوگ ایسا سوچ رکھ کر شادی کرنا چاہیں گے تو لڑکی کہاں بسنا چاہے گی۔وہ بھی تو اپنے من مانی پر اتر آئے گی۔جب وہ ایسا کرے گی تو آپ کا اکیلا پن پھر سے آسکتا ہے اگر وہ الگ گھر رہنے کی ضد کرے گی۔میں آپ کی خواہش کا احترام کرتا ہوں،میں دوسروں کو سمجھانے کی کوشش لکھ کر کرتا ہوں،آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ جو چاہیں گی وہ کرلوں۔
شاہین شاہ:تم ایسا کرو کہ فی الحال نکاح کرلو،بعد میں جب دل ہو تو رخصتی کروا لینا۔
فرہاد شاہ:اچھا امی جی۔میں ابھی تو دفتر کے لئے نکلتا ہوں، میں اس بارے میں سوچتا ہوں کہ کب اورکیا کرنا ہے۔آپ کو پتا ہے کہ میرے خواب اہم ہیں،انسان خواب دیکھتا ہے توتعبیر کے لئے کوشش بھی کرنا چاہیے۔ابھی مجھے جہدوجہد کرنے دیں پھر میں دیکھتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔آپ ایسا کریں کہ کہیں اچھا سا رشتہ دیکھ لیں۔آپ ہی تو ہیں جس نے مجھے اس منزل تک پہنچانے میں مدد دی ہے۔میں آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتا۔آپ کہیں دیکھ لیں،اگر مجھے کوئی پسند آئی تو میں آپ کو اس حوالے سے بتا دوں گا۔
شاہین شاہ:چلو ٹھیک ہے۔
فرہاد شاہ:اچھا امی اب چلتا ہوں،دفتر کو دیر ہو رہی ہے۔
(فرہاد شاہ: اپنا بیگ لے کر اُٹھتا ہے اور شاہین شاہ اخبار لے کر دیکھنا شروع کرتی ہیں۔)
۔۔۔۔پانچواں منظر۔۔۔
(یونیورسٹی کا منظر ہے، ماریہ ،حفصہ کے ہمراہ بیٹھی گپ شپ کر رہی ہے۔طلبا کی آمدروفت بھی کلاس روم میں جاری ہے۔)
ماریہ:(اپنے ہاتھوں سے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے) حفصہ! تم یار کہاں رو ز روزیونیورسٹی سے نکل کرجاتی ہو، مسئلہ کیا ہے،تم اتنے دور سے آتی ہو، پھر یہاں بھی دل لگا کر پڑھتی نہیں ہو،بسمہ کی دوست ہو،میری بہن کی دوست ہو بتا دو نا کہاں جاتی ہو۔
حفصہ:ارے ماریہ کہاں جاؤں گی میں، بس اپنے ایک کزن سے ملنے جاتی ہوں،و ہ بڑا پسند کرتا ہے مجھے۔!
ماریہ: ایک تمہارا کزن ہے ،جو تم پر مر مٹا ہوا ہے،ایک ہم ہیں جس کا کوئی دیوانہ ہی کہاں ہے۔ایک ہے اُس کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ میں اُ س سے بڑی ہوں،پھر بھی میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔اماں اپنے بھائی کی وجہ سے اُسکی شکایت نہیں کرتی ہیں اور ابا جی کو غصے کے تیز ہیں تو بتایا نہیں ہے کہ پھر تماشہ کھڑا ہو جائے گا۔
حفصہ:ارے میرے گھر میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،ابا جی نے دوسری شادی کرلی ہے،بھائی اپنی زندگی میں مصروف رہتا ہے۔مجھے کوئی روکنے والا کہاں ہے جو میں یہاں وہاں گھومنے سے بازرہوں گی۔
ماریہ: ہمارے ہاں تو نرالا رواج ہے کہ ہم بس چپ ہو کر اپنی زندگی گذار لیں،کسی کو بھی ہماری پروا نہیں ہے،ہم اپنی زندگی نہیں جی سکتے ہیں۔امی کی خود پسند سے شادی نہیں ہوئی تھی تو اب وہ ہم سے اپنے بدلے چکا رہی ہیں۔
حفصہ: اچھا چلو ماریہ چلتے ہیں، ہماری کلاسز کا وقت ختم ہورہا ہے۔آج ہماری پروفیسر حضرات بھی لگتا ہے کہیں مصروف ہیں ،گاڑی بھی نکلنے والی ہوگی تو جلدی چلو،اب پھر پرائیوٹ ٹرانسپوٹ میں جانا پڑا تو پھرابو جی سے باتیں سننی پڑجانی ہیں۔
(دونوں کلاس رومز سے باہر کی جانب چل پڑتی ہیں۔)
۔۔۔ چھٹا منظر۔۔
( جوں ہی حفصہ گھر میں داخل ہوتی ہے اُسکا بھائی ولی حسن اس کو گھر کے اندرداخل ہوتا نظر آتا ہے ، ڈرائنگ روم میں جوں ہی آتی ہے ،دونوں کے درمیان گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔)
ولی حسن: السلام علیکم۔
حفصہ: وعلیکم السلام بھائی۔
ولی حسن۔کیسی ہے میری بہن۔
حفصہ: آ ہی گئی بہن کی یاد۔جی ہی رہی ہوں۔
ولی حسن۔یاد تو رہتی ہی ہو،آ ب تم جانتی ہو کہ شادی اور کاروبار کی مصروفیات کہاں اپنوں سے ملاقات کا وقت بچاتی ہیں۔
حفصہ: بھائی ولی حسن۔آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، آپ نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے، اور بھابی کو بھی الگ گھر میں رکھ لیا ہے۔آخر میں بھی توآپکی ہی بہن ہوں،بھیا فرض بنتا ہے کہ میرا حال پوچھ لو۔بھابی کے ساتھ اتنے مشغول ہو گئے ہوکہ باباجانی کا اور میرا تو حال پوچھنا گوارا نہیں ہے۔بس اپنے کاروبار اور بھابی کے ساتھ سیر سپاٹے میں لگے رہتے ہیں۔
ولی حسن :حفصہ ۔تم مجھے سے چھوٹی ہو کر اس طرح سے بات کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔میری اپنی زندگی ہے،آخر بابا نے دوسری شادی کرلی ہے ،انہوں نے بھی تو اپنی من مانی کی ہے،ہم پر توجہ نہیں دی ہے تو کیا میں اُن سے کچھ بھی نہیں سیکھوں گا،تم پر کیا توجہ دوں، تم یونیورسٹی جا رہی ہو، تمہاری فیس ادا ہو رہی ہے،جیب خرچ دے رہیں اور اب کیا کریں۔
حفصہ: یہ تو غلط سوچ ہے کہ آپ بس ضروریات پوری کر دیں اور حال چال نہ پوچھیں۔
ولی حسن:حفصہ۔تم حد سے بڑھ کربات کر رہی ہو۔
حفصہ:بس آپ نے اپنی من منوانی کر لی ہے تو اب مجھے بھی کرنے کا حق ہے،بابا جانی کو بھی کاروباری معاملات سے فرصت نہیں ملتی ہے تو میں کہاں جاؤں ،کس کے ساتھ وقت گذاروں کہ ہماری دوسری امی کو تو اپنے ہی رشتے داروں کی دعوت سے ہی وقت نہیں ملتا ہے۔
ولی حسن:میرا سر مت کھاؤ، تم نے جو کرنا ہے کرلو،میری طرف سے اجازت ہے،تم اپنے اچھے برے کی خود ذمہ دارہو گی۔
حفصہ:جی جی بھیا۔میں نے مر کر اپنے ہی اعمالوں کا حساب دینا ہے،میں جو بھی کروں گی ،اُس کی سزا بھی بھگت لوں گی۔
ولی حسن:تم سے بحث کا فائدہ نہیں ہے، میں جا رہا ہوں، تم بابا کو بتا دینا کہ میں جب آیا تھا تو وہ گھر پر نہیں تھے،اُنکو بھی شکوہ رہتا ہے کہ میں جب سے الگ ہوا ہوں،ملنے سے کترانے لگا ہوں۔
حفصہ:ٹھیک ہے میں بتا دوں کہ آپ نے آنے کی زحمت کرلی تھی۔
(ولی حسن معمولی خفگی کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے)
۔۔۔ ساتواں منظر۔۔۔
( کرن اور تنزیلہ ایک پارک میں واک کرتے ہوئے باتیں کر رہی ہیں۔)
کرن: بہت دن بہت آنے کی توفیق کرلی ہے۔لگتا ہے آج کل تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ رہی ہو۔
تنزیلہ:ارے یار۔میں تمہاری طرح اب یونیوسٹی میں تو نہیں پڑھ رہی ہوں،جو اپنی صحت کا خیال رکھوں گی،اگر ایسا ہوتا تو تمہاری پیاری آنکھوں جیسی میری بھی آنکھیں ہوتی( ہنستے ہوئے)۔اچھا سناؤکرن،کیسے مجھے آج یہاں پر آنے کی دعوت دے دی ہے،پتا ہے تجھے پرائیوٹ ادارے میں کام کرنے والوں کو کس طرح سے آنکھوں کا سامنا کر کے چھٹی لینی پڑتی ہے،بندہ جائز کام سے بھی آدھی چھٹی لے تو لڑکی کی ذات پر شکوک و شبہات اُٹھتے ہیں۔
کرن: ہاں میں بھی سمجھتی ہوں، تم بھی اگر ماسٹرز کے لئے میرے ساتھ یونیورسٹی کا حال دیکھ لیتی تو اندازہ ہوتا ہے کہ بگاڑ ہر طرف ہے،یہی دیکھ لو میرے ابو جان خود دوسروں کے بچوں کوپڑھاتے اور سدھارتے ہیں ،مگر اُن کے شاگردوں کی نسبت انکا اپنا بیٹا سلمان خود بگڑ رہا ہے،میں نے اپنی اماں سے کافی بار بات کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ تو ایک کانوں کی کچی ہیں،کئی بار بتایا بھی تو سلمان کو بتا دیا کہ تمہاری بہن کو تمہاری ذات پر شکوک ہیں تو ہماری لڑائی ہوگئی۔اب میں اس کو سمجھاؤں تو کیسے سمجھاؤں ۔
تنزیلہ:ارے یار۔تم دیکھو کہ اس کے دوست کیسے ہیں،اسکی سوچ کو پڑھو ،دیکھو اس کی سرگرمیاں کیسی ہیں،اس پر زیادہ روک ٹوک مت کرو، اس کی جاسوسی مت کرو، اسکے ساتھ دوستی بناؤ،دیکھو کہ وہ کیا چاہ رہا ہے،جب وہ اس حوالے سے کچھ سامنے لائے تو پھر اسکے سدھر جانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
کرن: اچھا میں سوچتی ہوں،چلو واپس لیں،دیر ہو گئی ہے۔امی انتظار کر رہی ہونگی،تم کبھی گھر پر چکر لگانا ۔امی بھی بہت دنوں بعد مل کر خوش ہونگی۔
تنزیلہ:کیوں نہیں۔
(دونوں پارک کے دروازے سے باہر نکلنے کے لئے چل پڑتی ہیں۔)
۔۔۔آٹھواں منظر۔۔۔
(حاجراں خاتوں اور احمد حسن ڈرائنگ روم میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔)
حاجراں خاتون:آپ ذرا حفصہ پر نظر رکھا کریں۔
احمد حسن:بھئی اب کیا ہو گیا ہے۔
حاجراں خاتون:آپ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ کچھ ہو جائے۔
احمد حسن:حاجراں تم کیا کہنا چاہ رہی ہو،صاف صاف بول دو، پہلیاں مت بھجوایا کرو۔
حاجراں خاتون:ارے ولی حسن تو اپنی شادی کے بعد ہمیں چھوڑ کر جا چکا ہے۔اگرچہ وہ میرا بیٹا نہیں ہے مگر پھر بھی سوتیلی ہی سہی ماں تو ہوں،وہ کبھی گھر پر چکر لگانے سے بھی ڈرتا ہے کہ آپ نے اس پر اس قدر سختیاں کی ہوئی تھیں۔
احمد حسن:میں نے رعب اس لئے بچوں پر ڈال دیا تھا کہ وہ سدھر جائیں مگر اس کے برعکس حال ہوا ہے۔شکر کرتا ہوں کہ حفصہ اپنے اقدارکی پاسداری کرنا جانتی ہے۔
حاجراں خاتون:یہ تو آپ ہی جانتے ہیں کہ وہ کس قدر فرماں بردار ہے،جوان بیٹی ہے ،اتنے دور دوسرے شہر میں پڑھنے جاتی ہے ،اس کی آمدورفت کا خیال رکھا کریں،پوچھا کریں کہ کہاں کہاں جاتی ہے۔
احمد حسن:تم میری بیٹی پر شک مت کیا کرو،ولی حسن پر بھی نہیں کرتی تھی ،اس نے بھی تو ہمارے اعتماد کو توڑا ہے،اپنی پسند کی شادی کرلی اور ہمیں اطلا ع تک نہیں دی تھی۔مگر تم اسکے خلاف زیادہ نہیں جاتی ہو۔
حاجراں خاتون:وہ لڑکا ہے،آزادی حاصل ہے،وہ جو چاہے کر سکتا ہے ۔
احمد حسن:یہی تو ہمارے معاشرے کی خرابی ہے کہ عورت کی ایک غلطی اسکی پوری زندگی داغدار کر دیتی ہے مگر مرد کو پھر بھی سب کہتے ہیں کہ مرد ہے ،غلطی کرسکتا ہے۔
حاجراں خاتون:آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر حفصہ پر نظر رکھیں یہ نہ ہو، ولی حسن کے بعد وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے۔
احمد حسن:ٹھیک ہے بھئی، وہ آتی ہے تو میں اس کے ساتھ بیٹھ کر حال احوال پوچھ لوں گا۔تم ایک اچھی سی کافی بنا کر دے دو۔
حاجراں خاتون:ایک یہ اخبار اور کافی سے میری کبھی جان نہیں چھوٹنی ہے۔
(حاجراں خاتون کافی بنانے کیلئے ڈرائنگ روم سے کچن کی طرف جاتی ہیں)
۔۔۔ نواں منظر۔۔۔
(سلمان اپنی بہن جو کہ کمرے میں اپنی کتابیں کھولے پڑھ رہی ہے کہ پاس آتا ہے اور دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے۔)
سلمان: باجی۔میرا دل آج کل پڑھائی میں نہیں لگ رہا ہے۔بس آپ ابو سے کہہ دیں کہ میری کہیں نوکری کا بندوبست کروا دیں۔
کرن: سلمان تم یہ کیا کہہ رہے ہو،اتنے اچھے کالج میں ابو نے داخلہ کرایا ہے،تمہیں یاد ہوگا کہ ابھی پچھلے سال بھی تم دو مضامین میں فیل ہو گئے تھے تو کتنی مشکل سے ابو سے تمہاری شامت رکوائی تھی،اس بار تم پھر سے نیا بہانا لے کر آ گئے ہو،تاکہ تمہاری جان پڑھائی سے چھوٹ جائے۔
سلمان : تو میں کیا کروں، جب سے میں نے ماریہ کو دیکھا ہے ،میں اس کے بغیر اب خود کو اُدھورا سا محسوس کرنے لگا ہے،مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے ،مگر اس کو تو میری پروا نہیں ہے، جب وہ ہمارے گھر میں آئی تھی تب بھی میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا،مگر تب بھی اس نے میرے ساتھ برتاؤ اچھا نہیں کیا تھا،اس نے تھپڑ لگا دیا تھا۔
کرن: دیکھو !سلمان،تم ابھی چھوٹے بچے نہیں ہو،یہ سب کچھ تم ڈراموں اور فلموں میں دیکھ کر سیکھ رہے ہو،اچھی صحبت میں رہتے تو آج ایسے نہ ہوتے،مجھے شرم آ رہی ہے کہ میرا بھائی ہو کر تم ایسے میرے سامنے باتیں کر رہے ہوں۔اُس نے غلطی کرلی تھی جو ہمارے گھر پر رہنے آئی تھی۔دوسروں کے گھرآنے والوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تھا،تم کیا سمجھتے ہو،اس نے خالہ کو بتا یا تو تمہاری وجہ سے کتنی سبکی ہوگی۔
سلمان : مجھے آپ کی یہ باتیں پسند نہیں آئی ہیں،آپ کو چاہیے کہ اپنے بھائی کا ساتھ دو، میرے کتنے دوست ہیں جن کی بہن ان کا ساتھ دیتی ہیں اور ایک آپ ہیں جو میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہیں۔
کرن: سلمان۔اگر سب غلط کر رہے ہوں ،تو یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ آپ بھی غلط کرو،اُ ن کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے مگر میں تم سے بڑی ہوں،ابو اور امی کے جذبات سمجھ سکتی ہوں، تم پہلے ہی ابو کے کالج میں تھے اور اپنی پڑھائی سے غفلت پر انکی شرمساری کا سبب بن چکے ہو،اب سدھر جاؤ، بہتر ہوگا۔
سلمان: آپ سے باجی بات کر کے میں نے غلط کیا ہے۔آپ سے کوئی اچھائی کی امید نہیں ہے،اب میں جو بھی کروں گا ،خود کرلوں گا۔
کرن: سلمان جو بھی کرو گے خود ہی بھگتو گے،میں کسی بھی وقت تمہیں ضرورت ہوئی تو ساتھ نہیں دوں گی ۔
( سلمان ٖغصے کا اظہار کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل جاتا ہے)
۔۔۔دسواں منظر۔۔۔
(فرہاد دفتر سے واپس گھر کے لئے آتا ہے ،دروازے کی گھنٹی بجاتا ہے تو گھر کا دروازہ کھلتا ہے اور وہ اپنی والدہ کے پاس کمرے میں جاتا ہے)
فرہاد شاہ: السلام علیکم امی جان۔
شاہین شاہ: وعلیکم السلام علیکم ۔بیٹا آؤ یہاں پاس بیٹھ جاؤ۔
فرہاد شاہ: جی امی ( وہ پاس بیٹھ جاتا ہے)۔ سنائیے آپ کی آج طبیعت کیسی ہے۔
شاہین شاہ: آج تو پہلے سے بہت بہتر ہے۔
فرہاد شاہ: یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ صحت کاخیال رکھ رہی ہیں۔کل صبح میں آپ کو خود ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔جب پچھلی دفعہ گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کے کچھ میڈیکل ٹیسٹ لینے ہیں تو وہ کل ہی کروا لیتے ہیں۔
شاہین شاہ ۔ٹھیک ہے بیٹا۔ماشا اﷲ بہت فرماں بردار ہو، اﷲ کرے کہ میری بہو بھی کچھ ایسی ہی آئے۔
فرہاد شاہ: امی جی۔آپ کو پھر سے میری شادی کا خیال آ جاتا ہے ،ایک تو یہ آپ کی خواہش پوری کرنی پڑے گی۔آپ کل ڈاکٹر کی طرف سے ہو کرآجائیں ،پھر اس پر پھر سوچتے ہیں۔
شاہین شاہ: فرہاد بیٹا ۔میں تم کو بتانا تو بھول گئی ہوں کہ کل خیراں بی بی آئی تھی،انہوں نے ایک شریف گھرانے میں تمہارا رشتہ کروانے کی بات کی ہے،اُس نے خود تو وہاں بات نہیں کی ہے،اگر تم کو کوئی اعتراض نہ ہو تو پھر وہاں شادی کے لئے بات کرنے چلے جاتے ہیں۔
فرہاد شاہ: امی جی۔آپ جیسا مناسب سمجھیں کرلیں،مجھے تو آپ کی خوشی دیکھنی ہے اور میں اس حوالے سے مزید آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا ہوں۔
شاہین شاہ: چلو ٹھیک ہے بیٹا۔تم ابھی آرام کر لو، میں نماز کی ادائیگی کر کے پر تمہارے لئے کھانا لے آتی ہوں، تم بھی نماز کی ادائیگی کر لینا ،ابھی وقت ہو رہا ہے۔
فرہاد شاہ: ٹھیک ہے ۔امی جان۔آپ کی بدولت ہی نماز کی عادت پختہ ہو چکی ہے ،اب میں بھی اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا ہوں۔لیکن آپ کی سچ بولنے کی ہدایت اکثر مسائل کھڑے کرتی ہے مگر سچائی کی خاطر تو سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
شاہین شاہ: بالکل بیٹا۔کچھ اچھا کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
(شاہین شاہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکلتی ہیں اور فرہاد شاہ وہیں بستر پر لیٹ سا جاتا ہے۔)
۔۔۔ گیارہواں منظر۔۔۔
(گھر کا منظر ہے اور دلان میں حنا اور ماریہ باتیں کر رہے ہیں)
حنا: ماریہ آج کل تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو،کیا بات ہے۔
ماریہ: ارے حنا آپی،ایسی کوئی بات نہیں ہے،آپ کو کچھ غلط فہمی لگ رہی ہے۔
حنا: میں تم سے مختلف طبیعت کی مالک ہوں،خاموش رہتی ہوں تو کسی کو احساس کم ہوتا ہے کہ میں اندر سے کیا محسوس کر رہی ہوں،مگر تم تو چنچل سی ہو،شریر سی ہو،آج کل کچھ خاموش سی ہو تبھی لگ رہا ہے کہ کچھ دال میں کالا سا ہے۔
ماریہ: اچھا جی۔آپ کو کیا بتاؤں آپی وہ حفصہ ہے نا،اس کا کزن اُسکو بہت پسند کرتا ہے،وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے،میں کافی دنوں سے پریشان ہوں کہ میرے ساتھ ایسا کیا معاملہ ہے کہ مجھے کوئی محبت نہیں دیتا ہے،ابا جی تو غصے کے تیز ہیں،جب فرصت ملتی ہے تو سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرلیتے ہیں،ہماری نقلیں بھی اُتار لیتے ہیں،مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ امی کی سختی کی وجہ سے میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگی ہوں۔
(بسمہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دلان میں داخل ہوتی ہے اور دونوں کے درمیان گفتگو بند ہو جاتی ہے،بسمہ اپنے باتیں شروع کر دیتی ہیں)
بسمہ : واہ بھئی ۔آج تو مزہ آگیا ہے،امی کے ساتھ بازار گئی تھی،وہاں پر نت نئے رنگ کے سوٹ دیکھے ہیں، پرس وغیرہ بھی اچھے مل رہے تھے، آج تو وہاں کی گہماگہمی دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہے۔مگر بات یہ ہے کہ امی کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ کچھ بندہ اچھا سے لے لے،ایک تو ابا جی کی تنخواہ ہی اتنی ہے کہ ہماری پڑھائی ہی مشکل سے ہو رہی ہے۔کاش میں کسی امیر گھرانے میں جنم لے لیتی۔
حنا: ایسا مت کہا کرو بسمہ۔اﷲ نے ہر ایک کے لئے اس کا رزق مقر ر کیا ہے،کیا پتا تمہاری شادی کسی اچھے امیر گھرانے میں ہو جائے تو تم بھی خوشحال زندگی گذار سکتی ہو۔
بسمہ: بس کردو،حنا باجی۔امی کی جس طرح سے سوچ ہے،جس طرح سے وہ مزاج کی سخت ہیں ،ہمارے گھر میں تو کوئی سوچ کر ہی آئے گا،میری کتنی ہی دوست یونیورسٹی میں آتے ہی پڑھائی چھوڑ کر سسرال میں جا بسیں ہیں،ایک ہم ہیں جو کہ ابھی تک گھر میں ہی ہیں۔
( بشیراں بی بی بھی دلان میں آتی ہیں اور وہ بسمہ کی پوری بات سن لیتی ہیں او ر اُس سے مخاطب ہوتی ہیں،جبکہ حنا اور ماریہ خاموش رہتی ہیں)
بشیراں بی بی :بسمہ۔تم کچھ حد سے ہی زیادہ بڑھ رہی ہو،تم کو شرم آنی چاہیے جو اس طرح سے باتیں کر رہی ہو۔
بسمہ: امی آپ فضول میں ڈانٹ رہی ہیں۔
بشیراں بی بی: تم نے دوسرے گھر میں جانا ہے اگر اس طرح سے جاؤ گی تو پھر تمہارا حال جو ہونا ہے وہ مجھے صاف دکھائی دے رہا ہے۔
بسمہ :اب آپ بد دعائیں دینا شروع ہو جائیں۔میں آپ کے ہاتھوں سے کسی دوسرے کے گھر میں جاؤں گی ہی نہیں،میں اپنی شادی اپنی مرضی سے کروں گی۔
بشیراں بی بی: دیکھ رہی ہو تم حنا اور ماریہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔
بسمہ: امی آپ دیکھنے کی بات مت کریں،آپ نے ہی جو بویا ہے وہ کاٹیں گے۔
(بشیراں بی بی ذرا آگے بڑھ کر بسمہ کو مارنے لگتی ہیں ،حنا آگے بڑھ کر روکتی ہے اور بسمہ دلان سے کمرے میں چلی جاتی ہے)
۔۔۔ بارہواں منظر۔۔۔
(شاہین شاہ ، حاجراں بی بی اور احمد حسن ایک کمرے میں بیٹھے ہیں اورگفتگو ہو رہی ہے)
حاجراں خاتون:شاہین باجی۔ بہت خوشی ہوئی ہے کہ نیک مقصد کیلئے تشریف لائی ہیں۔
شاہین شاہ: ارے بہن جوڑے تو کہا جاتا ہے کہ آسمانوں پر بنتے ہیں تو میں تو بس اپنی کوشش کرنی آگئی ہوں۔
حاجراں بی بی: یہ تو آپ کی بات درست ہے مگر آپ نے جس طرح خلوص سے نے ہمیں آپ نے رشتہ کے لئے حامی بھر کی درخواست کی ہے ، میرا تو دل کر رہا ہے کہ ابھی حفصہ کو نکاح کروا کر رخصت کر دوں،مگر آپ جانتی ہیں کہ آج کل کی نوجوان نسل کو اپنی من مانی کا شوق ہے تواس کی رضا مندی بھی جاننا ضروری ہے۔
احمد حسن: شاہین صاحبہ: آپ کو فی الحال تو ہم حامی نہیں بھر رہے ہیں مگر آپ نے جس قدر تفصیلات سے آگاہ کیا ہے ،ہمیں تو سچ مانو کہ فرہاد شاہ سے ملاقات کا اشتیاق ہو رہا ہے۔
شاہین شاہ: بھائی جان؛آپ کا اپنا گھر ہے جب جی کرے ، آپ تشریف لا سکتے ہیں۔
حاجراں بی بی(مٹھائی کی پلیٹ آگے کرتے ہوئے) باجی آپ تو تکلف کر رہی ہیں بس چائے پر گذار ہ کر رہی ہیں،یہ لیجئے نا۔
احمد حسن: بالکل آپ اتنا تکلف بھی مت کیجئے ۔رشتے ہو نا اور نہ ہونا قسمت کی بات بھی ہے اور ہماری آپس کی سوچ اور رویئے پر بھی مبنی ہوتا ہے مگر رزق تو اﷲ کی جانب سے عطا ہوتا ہے ،آپ اس سے تو تکلف نہ برتیں۔
(شاہین شاہ مٹھائی لے لیتی ہیں اور پھر واپسی کے لئے کھڑی ہو جاتی ہیں)
شاہین شاہ: اچھا بھائی جان۔اب میں چلتی ہوں،آپ ہمارے ہاں چکر لگائیں اور باجی آپ کی منتظر رہوں گی۔دیکھ لیجئے گاکہ آپ کے ہاں امید سے آئی ہوں،مایوس مت کیجئے گا۔
حاجراں بی بی: ضرور ہم اس پر سوچیں گے۔
(شاہین شاہ نکلنے کیلئے تیار ہو روانہ ہوتی ہے تو باہر کے دورازے میں جب وہ باہر نکلنے کے لئے قدم رکھتی ہے تو اسی وقت سامنے سے حفصہ گھر میں اندر داخل ہونے کو ہوتی ہے،دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں)
حفصہ : بابا جانی۔یہ خاتون ہمارے گھر میں کیا کرنے آئی تھیں (کمرے میں داخل ہوتے ہوئے باہر گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)
احمد حسن: یہ بیٹا تمہارا رشتہ لے کر آئی تھیں۔
حفصہ : (حیران ہوتے ہوئے) یہ کیا کہہ رہے ہیں،آپ تو جانتے ہیں کہ میں یونیورسٹی میں ابھی پڑھ رہی ہوں، ابھی سے میری شادی کی کیا فکر پڑ گئی ہے آپ کو۔
حاجراں بی بی: ارے بیٹا !یہ کیا بات کہہ رہی ہو، جس گھر میں جوان بیٹی ہو ،وہاں تو لوگ رشتے لے کر آتے ہیں،اب کیا ہم انکو بے عزت کر کے بھیج دیتے یا انکار کردیں۔
حفصہ: (غصے سے) میں نہیں کر رہی ہوں شادی۔
احمد حسن: بیٹا آپ سے ابھی کس نے کہا ہے کہ ابھی سے شادی کرلو۔
حاجراں بی بی: تم اتنی پریشان کیو ں ہو گئی ہو۔
حفصہ: امی۔آپ تو مجھ سے بات ہی نہ کریں ،آپ کی وجہ سے ہی تو ایک میں بے حد پریشان ہو چکی ہوں، ہر معاملے میں آپ کا بولنا ضروری ہوتا ہے،میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ ابھی تو میری پڑھائی ہے او رمیں ابھی اپنی تعلیم مکمل کروں گی اور پھر آپ نے اپنی پسند سے شادی کی ہے تومیں بھی کر سکتی ہو۔
احمد حسن: تمیز سے بات کرو حفصہ، تم ہر وقت بدتمیزی سے بات کرتی ہو، تمہیں یونیورسٹی میں جا کر بھی کچھ سیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ہم والدین اپنی من مرضی سے نہیں تمہاری مرضی سے بھی شادی کر سکتے ہیں،تم ہر بات کو منفی طور پر سوچتی ہو،کبھی مثبت ہو کر بھی سوچا کرو۔
حفصہ :میں بچپن سے ہی بہت کچھ دیکھ چکی ہوں،کس طرح سے میں مثبت سوچ سکتی ہوں(قدرے خفگی سے)
احمد حسن : بہرحال ان کو تمہاری مرضی کے بغیر شادی کے لئے ہاں نہیں کر سکتے ہیں۔تم فی الحال خود کو مزید ہلکان مت کرو۔ہم سوچ سمجھ کر اس بار ے میں فیصلہ کریں گے، تم اپنی مرضی سے کچھ کرنا چاہتی ہو تو کرلو،مگر پھر یہ یاد رکھنا کہ ہم اس کے ذمہ دارنہیں ہونگے جو اس فیصلے کے اثرات ہونگے تم کو ہی بھگتنے ہونگے۔
حفصہ:(غصے سے ) سہہ لونگی۔
حاجراں بی بی: میں نے کہا تھا نا کہ اس کو قابو کرکے رکھیں ۔دیکھا کس طرح سے بات کرنے لگ گئی ہے ،مجھے شک ہے کہ یہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔
احمد حسن : جو بھی ہو، ہم نے اسکی شادی دیکھ بھال کر ہی کرنی ہے، میں کل ہی فرہاد شاہ سے بھی جا کر مل لیتا ہوں اور انکے گھر جا کر بھی حالات کا جائزہ لیتا ہوں،تم تیار رہنا ،میں دفتر سے واپسی کے بعد تم کو لے کر وہاں جاؤں گا،لڑکی کی شادی جتنی جلدی ہو کرنی چاہیے ،ورنہ بعد میں کئی مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے،حفصہ کے رویئے سے بہت کچھ ظاہر ہو رہا ہے۔
(حاجراں بی بی چپ ہوجاتی ہے اور احمد حسن اخبار کی بات کہہ کر مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔)
۔۔۔تیراہواں منظر۔۔۔
(سلمان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا اپنی کزن ماریہ سے فون پر باتیں کر کے اپنی محبت کے حوالے سے بتانا چاہ رہا ہے اور ماریہ اس کو نظر انداز کر رہی ہے ، وہ گھر کی چھت پر ٹہل رہی ہے)
سلمان: کیسی ہو ماریہ؟
ماریہ: جیسی بھی ہوں،تم کو اس سے کیا مطلب؟
سلمان: ارے ماریہ،یوں کیوں بات کر رہی ہو۔
ماریہ: تو اب تم مجھے بات کرنے کا انداز بھی سمجھاؤ گے۔
سلمان: میں نے بہت دفعہ برداشت کرلیا ہے، تم کو آخری میری محبت پر ایمان کیوں نہیں آتا ہے، تمہی ہی پریشانی میں ایک بار میں موٹر بائیک سے بھی گر کرخود کو زخمی کر چکا ہوں،ابھی بھی تم مجھے اپنا محبو ب تسلیم نہیں کرتی ہو،جبکہ میں تو تمہارے ہاتھ کو ہاتھ کر اظہار محبت بھی کر چکا ہوں۔
ماریہ:سلمان اپنی بکواس بند کردو۔جب میں کئی بار کہہ چکی ہوں کہ میں تم سے محبت نہیں کر تی ہوں ،تو مجھے تم کیوں تنگ کرتے ہو۔
سلمان : ماریہ تم جس طرح سے بھی بات کرو گی میں برداشت کرلوں گا ،یاد رکھنا میں ہمارے بیچ کسی کو بھی نہیں آنے دونگا۔
ماریہ: سلمان تم پہلے ہی بہت اپنی حد کراس کر چکے ہو۔تم نے پہلے بھی میرے ہم جماعت ذوالقرنین کو جان سے مارنے کے لئے اپنے دوستوں سے پٹوایا تھا جس کو میں بے حد دل سے پسند کرتی تھی۔
سلمان: میرے علاوہ جو بھی تم کو پسند کرے یا تم اُس سے محبت کرنے کا دعویٰ کرے گا میں اسکی جان لے لوں گا، اُس دن تو وہ بچ گیا تھا،اُس کی قسمت اچھی تھی۔
ماریہ: پھر اپنی بکواس شروع کر دی ہے۔اُس کی وجہ سے میں تو چپ رہ گئی ہوں،تمہاری وجہ سے اُ س کی محبت سے محروم ہوئی ہوں،یاد رکھنا اب کی بار کچھ ایسا کیا تو میں تمہارے ساتھ بہت بُرا سلوک کروں گی۔
سلمان: تم نازک سی لڑکی ،مجھے دھمکی دے رہی ہو، اگر تم نے ایسا کیا تو پھر میں تمہارے والد کو سب سچ بتا دوں گا کہ تم کس سے کتنی محبت کا دعویٰ کر چکی تھی اگر میں اس کو ٹھکانے نہ لگا دیتا تو تم کہاں تک جانے والی تھی۔
ماریہ: کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔شیر ہو نا تو اب میرے سامنے آکر کچھ کہنا پھر دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔ایک تو میری محبت مجھ سے چھین چکے ہوپہلے ہی کونسا مجھے گھر میں محبت مل رہی تھی ،اُوپر سے تم نے یہ کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔
سلمان: تمہاری یونیورسٹی میں آجاتا مگر وہاں تو لڑکیاں پڑھتی ہیں،خیر کسی دن تمہارے سامنے آجاؤں گا ،تم میرا انتظار کرنا۔
ماریہ: تم سے ہر حساب لے لونگی،میں اتنی چھوٹی بھی نہیں ہوں کہ اپنی محبت سے محرومی کا انتقام نہ لے سکوں۔
سلمان: تم ایسا نہیں کر سکتی ہو،تم نے خود ہی مجھے اپنے قریب ہونے کا موقع دیا تھا اب کیسے خود کو ایسا کرنے پر اُکسا پاؤں گی۔میں تمہارے پاپا کو بتادوں گا کہ تم آج کل کیا کچھ کرتی پھر رہی ہو۔
ماریہ:بکواس بند کروسلمان۔
(ماریہ یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیتی ہے اور دوسری طرف سلمان اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔)
۔۔۔ چودہواں منظر۔۔۔
(حفصہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہے اور اپنے کزن سے جو اس سے محبت کے بے پناہ دعویٰ کرچکا ہے اُس سے گفتگو کر رہی ہے اوراُسکی باتوں پر غصے میں آتی جا رہی ہے۔)
حفصہ: سنو تو سہی ، تم ہر وقت اپنی سناتے رہتے ہو، میں کیا کروں ،تمہاری وجہ سے سب میری دوستوں تک کو پتا چل چکا ہے کہ میں یونیورسٹی سے باہر نکل کر تم سے ملتی رہی ہوں،اب تم عرفان احمد کس طرح سے میری محبت کو چھوڑنے کا کہہ سکتے ہو۔تم محبت کے دعویٰ تو آج تک بہت کرچکے ہو، مگر اب جب میں ساتھ دینے اور رشتہ بھیجوانے کی بات کر رہی ہوں تو تم بہانے بازی کر رہے ہو،مجھ سے بھاگ رہے ہو ،جیسے وہ سب کچھ ایک وقت گذاری کے لئے تھا۔سنو!عرفان احمد۔ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسکے لئے اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اسی بخوبی محسوس کیا جاسکتاہے۔محبت کی نہیں جاتی ہے یہ تو بس کسی سے کسی وقت بھی ہوسکتی ہے۔اس بات کا دارومدارقسمت پر ہوتاہے کہ فریق ثانی بھی محبت کا جواب محبت سے دے۔اکثر اوقات ہمیں ان لوگوں اور اشیاء سے بھی محبت و پیار ہو جاتا ہے جو کسی طور ہماری دسترس میں نہیں آسکتی ہیں لیکن کیا کریں محبت تو بن صلہ کے سب کچھ کسی پرنچھاورکر دینے کا نام ہے۔کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے اور میرے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔میں تم سے بے پناہ پیار کرنے لگی ہوں،اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج جب میں تمہارا زندگی بھر کا ساتھ چاہ رہی ہوں،تم اپنے گھر کے حالات اوروالدین کی خوشی کا کہہ رہے ہو،تب تم کو یاد کیوں نہیں آیا تھا،جب تم میرے ساتھ محبت کے اظہار کے لئے مجھے بہانے بہانے سے مستقبل کے خواب دکھا کر ملا کرتے تھے، عرفان احمد!تم جو کرنا چاہتے ہو کرلو، مگر یاد رکھنا کہ تم نے جس طرح سے میری محبت کا مذاق اُڑایا ہے ، یہ کسی نہ کسی دن مکافات عمل کے تحت تم کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے گا۔میں آج سے تم کو چھوڑ رہی ہو، جہاں محبت کا دعویٰ کرنے والے ہی محبوب کو اپنانے کا نہ سوچیں ،وہاں اُن کی خاطر والدین سے لڑجھگڑکراپنی زندگی کو مزید پریشانی کا شکار نہیں کرنا چاہیے،آج میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جو بھی ہو میں تمہارے بنا بھی خوش رہوں گی، میں یہ سوچ کر اپنے آپ کو سمجھالوں گی کہ میری محبت سچی تھی مگر تم نے میری محبت کی توہین کی ہے تو ایسے فرد کویا د رکھ کر مزید ذہنی اذیت میں رہنے سے بہتر ہوگا کہ میں بھول جاؤں کہ میں نے کبھی محبت بھی کی تھی۔
(حفصہ فون رکھ کر رونا شروع کر دیتی ہے)
۔۔۔ پندرہواں منظر۔۔۔
(ماریہ،حنا ،بسمہ اوربشیران بی بی ایک ہی کمرے میں ہیں، حنا اپنے لیپ ٹاپ میں مشغول، ماریہ پڑھائی کر رہی ہے اور بسمہ بناؤ سنگھار کر رہی ہے )
بشیراں بی بی :بسمہ۔ تمہارے لئے ایک رشتہ آیا ہوا ہے۔تمہارے ابو کا فرمان ہے کہ تمہاری رضا مندی پوچھ لوں۔
بسمہ: امی آپ سے پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ مجھے ابھی تعلیم مکمل کرنے دیں۔
بشیراں بی بی:تمہاری پڑھائی پر کہاں ہم پابندی لگوا رہے ہیں،تم رضا مندی ظاہر کردو، ہمیں پڑھائی کے مکمل ہونے تک رخصتی کا اُن سے وعدہ لے کر نکاح کر دیں گے۔
بسمہ: امی آپ بات کو سمجھ کیوں نہیں رہی ہیں،میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے اور پھر کچھ عرصہ نوکری کرنی ہے۔ابھی تو مجھے وکالت کے میدان میں ترقی کرکے بڑا وکیل بننا ہے اورآپ سب مجھے شادی جیسے فریضہ کو فرض سمجھ کر مجھے کسی کے پلے باندھنے کے در پہ تلے ہوئے ہیں۔
بشیراں بی بی: تم سے پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ تمہاری یہ آزاد خیالی مجھے پسند نہیں ہے۔
بسمہ : آپ کی تو خود اپنی مرضی سے ابا کے ساتھ شادی نہیں ہوئی او ر ابھی جب میری باری آنے لگی ہے تو آپ کو ابھی سے میرے بارے میں فکر پڑی ہوئی ہے کہ آپ کے نقش قدم پر چل پڑوں۔
بشیراں بی بی:تم ضرورت سے زیادہ بول رہی ہو، ہماری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ، میں بھی دیکھتی ہوں کہ تم کس طرح سے اپنی مرضی سے شادی کرتی ہو۔
بسمہ: بے شک آپ جو بھی کریں،میں جس کو پسند کرتی ہوں،اس سے شادی کروں گی،ابھی پڑھائی تو مکمل ہو جانے دیں ، لیکن جو رشتہ آیا ہوا ہے ،مجھے وہاں نہیں کرنی ہے۔
بشیراں بی بی : چلو دیکھ لینا وہ جس دن بھی آئے وہ میرے ہاتھوں سے ذلیل ہو کر ہی جائیں گے۔
بسمہ: اگرآپ نے ایسا کردیا تو امی جان میں بھی وعدہ کرتی ہوں کہ میں خودکشی کرلوں گی۔
بشیراں بی بی: بس بس کرولڑکی،یہ دھمکیاں مت دو،آج آ جانے دو اپنے ابا کو میں تمہارے کرتوت کے بارے میں آگاہ کرتی ہوں۔
(بسمہ غصے سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے اور بشیراں بی بی کیچن کی طرف رخ کرتی ہیں۔)
۔۔۔ سوالہواں منظر۔۔۔
حفصہ کی مہندی کی تقریب ہے جس میں اسکے والدین اور بھائی کے علاوہ فرہاد شاہ اور اسکی والدہ اوردونوں طرف سے چند خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔حفصہ کے چہرے پر اُداسی کی لہر واضح دکھائی دے رہی ہے۔ مگر دوسری طرف فرہاد شاہ بہت حد خوش دکھائی دے رہا ہے کہ اسکی والدہ کی خواہش پوری ہو رہی ہے۔
۔۔۔ستراہواں منظر۔۔۔
حفصہ وفرہاد کی رخصتی کی تقریب ہے جس میں والدین اور بھائی بہنوں کے علاوہ فرہاد شاہ اور اسکی والدہ کے رشتے داردونوں طرف سے چند خواتین و بچے بھی شامل ہیں جوکہ بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔حفصہ کے چہرے پر اُداسی و غم کی لہر واضح دکھائی دے رہی ہے۔ مگر دوسری طرف فرہاد شاہ بہت حد خوش دکھائی دے رہا ہے کہ اسکی والدہ کی خواہش پوری ہو رہی ہے اور گھر میں کوئی والدہ کی دیکھ بھال کرنے کیلئے آ رہا ہے۔
۔۔۔ اٹھارواں منظر۔۔۔
( حفصہ ولہن بنی ہوئی بیٹھی ہے اور فرہاد شاہ اُسکے پاس آتا ہے اور دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے۔)
فرہاد شاہ: مجھے نہیں معلوم کہ تمہاری اس شادی میں کتنی دلچسپی تھی، تم مجھے کتنا پسند کرتی ہو، مگر میں تمہیں آج کے دن یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے تمہارے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہے، میں یہ نہیں چاہوں گا کہ تم مجھے اپنے ماضی کے حوالے سے کچھ ایسا بتاؤں جو ایک مرد ہونے کے ناطے مجھ سے برداشت نہ ہو اور میں پھر اس کے ردعمل میں تمہارے ساتھ کچھ غلط برتاؤ کروں،مگر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے احساسات و جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رشتے کو مرتے دم تک قائم رکھنا چاہوں گا۔
(حفصہ فرہاد شاہ کی بات سنتے ہی اسکے ہاتھ کو تھام لیتی ہے)
میری خواہش ہے کہ تم اپنی زندگی کے اس سفر کو یوں ماضی کو بھلا کر شروع کروں کہ جیسے میں چاہ رہا ہوں کہ ماضی کا کوئی بھی واقعہ اس پر اثرات مرتب نہ کر سکیں۔
حفصہ: انشا اﷲ۔میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کو کبھی مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔(مسکراتے ہوئے)
(فرہاد شاہ یہ سنتے ہی کمرے کی جلتی ہو ئی روشنی کو گل کرنے لے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور بتی بند کر دیتا ہے۔)
۔۔۔ انیسواں منظر۔۔۔
(بشیراں بی بی اور چند خواتین ایک کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی ہیں)
بشیراں بی بی: اچھا تو آپ آئے ہیں میری بیٹی بسمہ کا رشتہ لے کر۔
پہلی خاتون: جی ہاں۔آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ آج کل کی نوجوان نسل اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو اسی وجہ سے آئے ہیں۔
بشیراں بی بی : مگر آپ کو معلوم ہے کہ آپ کسی غلط گھر میں تشریف لے آئی ہیں۔آپ جس لڑکی کے گھرآئے ہیں ہو سکتا ہے وہ میری بیٹی کی ہم نام ہو، وہ آپ والی بسمہ نہیں ہے۔
پہلی خاتون: جی آپ بجا فرما سکتی ہیں۔ایسا بھی ہو سکتا ہے مگر ہمارے پاس جو گھر کا پتا ہے وہ تو یہی ہے۔
بشیراں بی بی: بالکل گھر کا پتا درست ہو سکتا ہے کسی نے میری بیٹی کو بدنام کرنے کے لئے دیا ہو، میری بیٹی یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی ہے ، وہ وہاں یاریاں نہیں نبھانے جاتی ہے۔کسی نے دشمنی میں میری معصوم بیٹی کو پھنسانے کے لئے یہ جال بنا ہے۔
دوسری خاتون: مگر ایسا کوئی کیوں کرے گا۔ایسے ہی تو کوئی نہیں کسی کے ساتھ کرتا ہے۔
تیسری خاتون: دھواں تو وہیں سے ہی اُٹھتا ہے جہاں پر آگ لگی ہو۔
بشیراں بی بی: میں نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ میری بیٹی آپ کے بیٹے تک کے نام کو بھی نہیں جانتی ہے، پتا نہیں کون کون میری بیٹی کی عزت کا دشمن بنا پھررہا ہے۔آج کل کے لڑکے تو جہاں بھی لڑکی کو دیکھتے ہیں اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔آپ یہا ں سے تشریف لے جائیں۔آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ میری بیٹی ہی آپ کے بیٹے کے ساتھ دوستی رکھتی تھی۔
پہلی خاتون: آپ اپنی بیٹی سے پوچھ تو لیں شاید وہ جانتی ہو،ہم سے اتنی بڑی غلطی تو نہیں ہو سکتی ہے کہ کسی غلط گھر میں تشریف لے آئیں۔
بشیراں بی بی: آپ کے بیٹے کی جگہ میرا بہن کا بیٹا بھی ایسا کچھ کرتا تو میں اس کو بھی سیدھا کر دیتی ،آپ سے کہہ دیا کہ میری بیٹی آپ کے بیٹے کو نہیں جانتی ہے تو آپ تشریف لے جائیں۔
(خواتین جانے کیلئے کھڑی ہو جاتی ہیں اور بشیراں بی بی ان کے لئے باہر جانے کے لئے دروازہ کھولتی ہیں)
۔۔۔بیسواں منظر۔۔۔
( بسمہ یونیورسٹی سے جب واپس گھرمیں داخل ہوتی ہے جب وہ خواتین گھر کے مرکزی گیٹ سے نکل رہی ہوتی ہیں)
بسمہ: یہ کون خواتین تھیں امی۔
بشیراں بی بی: پتا نہیں کون تھے ،ایو یں منہ اُٹھا کر رشتے کے لئے آگئی تھیں۔
بسمہ: ہوں، ٹھیک ہے۔
(ّبسمہ جوا ب سن کر فورا کمرے میں جاتی ہے اور فون نکل کر کال کرنے لگتی ہے۔دوسری طرف محمد شریف انتہائی غصے کی حالت میں گھر میں داخل ہوتے ہیں اور بشیراں بی بی کو پکارتے ہیں اور وہ انکے سامنے آتی ہیں۔)
بشیراں بی بی: کیا مسئلہ ہے ،کیوں اتنا آج مزاج برہم ہیں۔
محمد شریف : تم آخر اس گھر میں کیا کر رہی ہو۔
بشیراں بی بی:آپ سب جانتے ہیں کہ میں اس گھر میں جب سے آئی ہوں ،کیا کچھ کر رہی ہوں،بچوں کی ضرورت سے آپ کی توقعات تک کو پورا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔
محمد شریف : بس یہی کچھ کرتے رہنا ،پتا بھی چل رہاہے کہ تمہاری ناک کے نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے۔
بشیراں بی بی : مجھے سب پتا ہے اسی وجہ سے تو سب کو سختی کے ساتھ سدھارنے میں لگی رہتی ہوں تاکہ بچے خراب نہ ہو جائیں۔
محمد شریف:بس بہت ہو گیا ہے،تم خود جوغلط کر رہی ہو ،اس کا انجام بھی سب کو دیکھنا پڑے گا۔تمہاری تربیت کے اثرات تو واضح بچوں کی حرکات میں نظر آ رہی ہیں۔
بشیراں بی بی : آخر ہوا کیا ہے۔
محمد شریف :کہا ں ہو ماریہ (غصے سے پکار ہوئے)
ماریہ :( آتے ہوئے) جی ابو۔
محمدشریف: کل سے تمہارا یونیورسٹی بند ہو چکا ہے،اب تم گھر داری سیکھو گی۔
ماریہ :جی(روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے)
بشیراں بی بی: اب مجھے تو بتا دیں کہ ہوا کیا ہے۔
آج میں جب ایک میٹنگ میں تھا تو ایک فون آیا تھا کہ ماریہ کو کسی نے یونیورسٹی سے باہر کسی لڑکے سے ملتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ تمہاری بہن کے بیٹے سلمان نے اس کو تنگ کر کے رکھا ہوا ہے ، ماریہ کو سلمان نے اپنی محبت کا یقین دلوانے اور شادی کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے ۔تم ماں ہو کر بھی بچوں سے اتنی دور ہو کہ کوئی تیسرا مجھے سچائی بتا رہا ہے۔اس نے جس انداز سے بات کی تھی تو میں نے ’’ اپنی بکواس بند کرو‘‘ کہہ کر حپپ کر ا دیا تھا،مگر مجھے اب یقین آگیا ہے کہ تمہاری نالائقی کی وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ مجھے اپنی بیٹی کو ہی یونیورسٹی جانے سے روکنا پڑے گا۔جب ہماری ہی تربیت میں خامی ہو تو دوسروں پر اُنگلی اُٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتاہے۔اگر بچے اپنی پسند رکھتے ہیں تو گھر میں والدین کو بتا دیں تاکہ درست طریقے سے بات بنائی جا سکے۔مگر تم نے تو سچائی بتانے کی زحمت ہی بچوں میں نہیں ڈالی ہے ،اگر وہ سچ بولنا بھی چاہیں تو تم نے کہاں کوئی بات مجھ تک آنے دی ہے۔
بشیراں بی بی:یہ سب جھوٹ اور بکواس ہوگا،آپ کیوں اپنی بچیوں پر شک کر رہے ہیں۔
محمد شریف :تم اب چپ رہو، تمہاری وجہ سے ہی اولاد بگڑ چکی ہے ،ماریہ کو تو میں نے یونیورسٹی سے واپس گھر لے کر آتے ہوئے سمجھ ا دیا ہے کہ اگر کچھ ایسا معاملہ تھا تو مجھے بتا دیتی،اس نے سچائی بتا دی ہے مگر اب تمہارا اپنے ہی میکے میں جانا بند ہوگا۔اب جس نے بھی ملنا ہوگا یہاں ہی آئے گا۔مجھے اپنی بچیوں کی خوشیاں عزیز ہیں،میرے غصے کی بدولت ہی آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں مگر اسکی سزا میرے ساتھ اب تم کو بھی بھگتنی ہوگی۔
بشیراں بی بی:(روتے ہوئے )آپ اب مجھے پر پابندیاں لگا دیں۔
حنا: (تقریباََ بھاگتے ہوئے آتی ہے)امی ،امی ،ابو،وہ بسمہ آپی ۔
بشیراں بی بی:کیا ہوا ہے بسمہ کو۔
محمد شریف:حنا بتا ؤ بیٹا کیا ہوا ہے۔
حنا: امی ،ابو وہ بسمہ آپی نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں، بہت پریشان سی تھیں ،جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو وہ گولیاں کھا رہی تھی۔
محمد شریف :( کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے) بسمہ ۔بسمہ ۔میری بچی۔
بشیراں بی بی: ہائے میں مر گئی میری لاڈلی ۔
محمد شریف:(بے ہوش بسمہ کو اُٹھاتے ہوئے) عمر حیات کہاں ہے،بلاکر لاؤ کہو کہ فوراََ گاڑی اسٹارٹ کرے۔
حنا: اچھا ابو میں کہتی ہوں۔
(جب تک بسمہ کو ہسپتال میں لے جایا جاتا ہے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو دیتی ہے)
ڈاکٹر:محمد شریف صاحب آپ نے بیٹی کو لانے میں دیر کر دی ہے، معذرت خوا ہ ہوں کہ ہماری ہرتال بھی تھی جس کی وجہ سے تھوڑی دیر آپریشن میں ہوگئی مگر اﷲ کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔
محمد شریف:اﷲ کی آزمائش اپنی جگہ مگر ہم انسان بھی اپنے کئے کی سزا دنیا میں بھگتے لیتے ہیں۔
(محمد شریف ،بشیراں بی بی اور ماریہ اپنے اپنے سر پکڑ کر وہیں بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں،حنا اور عمرحیات رو رہے ہیں۔)
۔۔۔۔اختتام۔۔۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 478371 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More