شیخ عبداللہ ،ڈاکٹر نائلہ اور بیچارے کشمیری !

ریاست جموں و کشمیرکی اولین سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے پہلے صدر اور کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کے بعد بننے والے پہلے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ مرحوم کی نواسی ڈاکٹر نائلہ علی خان امریکہ میں مقیم ہیں اور اوکلا ہوما یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔وہ انگریزی میں مضامین بھی لکھتی ہیں جن میں اکثر کا موضوع کشمیر ہوتا ہے۔پاکستان کی ایک ممتاز نیوز ویب سائٹ پہ گزشتہ کچھ عرصے سے ا ن کے اردو مضامین شائع ہو رہے ہیںجن کا ترجمہ ڈاکٹر لبنی مرزا کرتی ہیں ۔ ان میں کشمیر کے حوالے سے کئی سیاسی مضامین بھی شامل ہیں جس میں ڈاکٹر نائلہ علی خان نے خاص طور پر اپنے نانا شیخ محمد عبداللہ مرحوم کو موضوع بنایا ہے۔ نئے مضمون بعنوان '' میں نے شیخ محمد عبداللہ کے کشمیر کے بارے میں خیالات پر کیوں لکھا؟ '' میں ڈاکٹر نائلہ علی خان کہتی ہیں کہ
''اپنے نظریات کو سمجھنا ایک ورک ان پروگریس یعنی کہ ترقی پذیر کام ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ میرے لیے وہ امریکہ میں ہوا جو کہ وہ ملک ہے جو اپنی ملٹری انڈسٹریل طاقت پر فخر کرتا ہے۔ یہاں پر میں نے اپنے اندر یہ لگن پائی کہ جنوبی ایشیا کی سیاست اور تہذیب کے امتزاج اور خاص طور پر کشمیر کے تنازعے کا مطالعہ کروں۔ تعلیم اور تدریس سے میرا لگا غیر متزلزل رہا ہے اور مجھے تعلیم کے زریعے حاصل ہونے والی تنقیدی سوچ پر ملکمل اعتماد ہے۔ چاہے لوگ میرے خیالات سے اتفاق کریں یا اختلاف، کسی کے لئیے اس بات سے انکار کرنا ناممکن ہوگا کہ میرے سیاسی نظریات پختہ ہیں۔ میں نے اپنا بہت وقت اور توانائی کشمیر کی تاریخ اور سیاست کو سمجھنے پر خرچ کی ہے۔ مجھے خود کو اپنے وطن کشمیر کی ثقافت، تہذیب اور سیاست میں ڈبونے کا موقع ملا جس کے بغیر وادی کشمیر کے پیچیدہ سیاسی اور سماجی تانے بانے کو سمجھنا ناممکن ہوتا۔ایک عام پڑھنے والے کو کشمیر کے پیچیدہ سیاسی مسئلے کو سمجھانے کے لئیے مختصر حالات بیان کروں گی۔ اس وقت ریاست کا ایک بڑا حصہ انڈیا کے زیر نگرانی ہے اور ایک چھوٹا حصہ پاکستان کے زیر نگرانی ہے۔ 1962 میں چین نے زمین کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا تھا جس پر اس نے روڈ بنائی جو تبت کو زیاجیانگ سے ملاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے اس سے قبل اپنی کتاب کشمیر، اسلام، خواتین اور کشمیر میں تشدد میں لکھا ہے، انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے اور چین اور افغانستان کے ساتھ بارڈر ملنے کی وجہ سے کشمیر جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔کشمیر کے تنازعے کو قوم پرستی اور مذہبیت سے ہوا دی جاتی ہے جس میں ہر فریق اپنے دکھ درد کے لئیے دوسرے کو الزام دیتا دکھائی دیتا ہے۔ عدم اعتماد، شبہے، اور دماغی توازن کے بگڑے ہونے کی فضا نے جموں و کشمیر اور انڈین یونین کے افراد کے درمیان تعلقات پر منفی اثر ڈالتے ہوئے اس تنازعے کو ہوا دی ہے۔ 1990 سے لے کر ریاست میں گوریلا جنگ کئی ادوار سے گذری لیکن سیاسی اور فوجی طاقتیں ایک ظالمانہ حقیقت رہی ہیں جن کو سطحی جمہوری خیالات اور امیدوں کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر میں خود مختاری اور سیاسی مخالفت کی منظم تباہ کاری نے اختلاف رائے کو غیر قانونی بنا کر ریاستی اداروں اور تنظیموں کی مخالفت کو ہوا دی ہے۔

ہمارا امن اور خوشحالی کا خواب انڈیا اور پاکستان کے لاکھوں عوام سے جڑا ہوا ہے۔ ہم سب ایک ہی خطے کے شہری ہیں۔ ہماری امیدیں، خواہشات، خوف اور خطرات ایک ہی ہیں۔ ہم مسئلہ کشمیر کا عوامی رضامندی سے مستقل حل چاہتے ہیں۔ اسی میں تمام لوگوں کی عزت، بھلائی اور ترقی ہے۔ ریاست کشمیر میں خود مختاریت کا بحال ایک نئے دن کا آغاز کرے گا جس میں قانون کی بالادستی ہو۔ دنیا کی دیگر قومی ریاستوں پر اپنے مفاد کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ملکر کشمیری عوام کی فلاح و بہبود خاص کر نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر کام کرنا ہے جن کی زندگیاں ابھی شروع تک نہیں ہوئی ہیں۔ چلیے خود کوان لوگوں کی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں جنہوں نے وہ صدمات برداشت کیے جن کے زخم وقت کبھی نہیں بھر پائے گا۔ اس سیاسی بحران سے نکلنے کے لئیے ہمیں مقامی افراد کی سیاست میں شرکت کی ضرورت ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھنے کی اور پالیسیوں اور طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ان کو وقت کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔شیخ محمد عبداللہ وہ واحد کشمیری لیڈر تھے جن کو اتنی زیادہ مقامی سپورٹ حاصل تھی۔ ان کی تقاریر پر غور کرتے ہوئے میں اس قابل ہو سکی ہوں کہ یہ سمجھ سکوں کہ ہمیں نفرت اور مخالفت کو ہوا دینے کے بجائے مختلف گروہوں کے مابین تعاون سے تعمیری سیاست کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔ اگر مقامی عوامی دھارے کو سیاست کا حصہ نہ بنایا جائے تو وہ اس صحت مند راستے کے بجائے شدت پسند راہ کی بھینٹ چڑھ کر تباہی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔پچھلے کئی برس میں میں نے شیخ محمد عبداللہ کی جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں، جو بھی مضامین لکھے ہیں، ریڈیو انٹرویو کیے ہیں یا فیس بک پوسٹس یا ٹوئیٹس لکھی ہیں، ان سب میں کشمیری عوام کے حقوق کے لئیے آواز اٹھائی ہے۔ ان کتابوں پر کام کرنے سے مجھے سیاسی، سماجی اور سیاسی معاملات پر تنقیدی نظر ڈالنے کا موقع ملا۔ میرے لیے ابتدائی سوال یہ ہے کون بات کررہا ہے اور کس کو خاموش کیا جارہا ہے؟ جس سے مجھے یہ پہچاننے میں مدد ملتی ہے کہ مقامی نقطہ نظر سے کون سی معلومات قابل بھروسہ ہیں۔ سیاست ایک طرف لیکن کشمیری عوام پر میرا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ ہر سانس کے ساتھ میری یہ دعا ہے کہ کشمیری نوجوان اپنے غصے کے لئیے ایک تعمیری راستہ ڈھونڈیں اور کسی کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے خود سیاسی راہ سے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے نے ہمارے سماج کو غیر سیاسی بنایا جس سے تشدد کو ہوا ملی۔ ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے''۔

ڈاکٹر نائلہ خان امریکہ کی ایک یونیورسٹی کی پروفیسر کے طور پر امریکہ کے علمی توازن کے تقاجوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہیں اور ان کی تحریر میں عقیدت کا پہلو غالب نظرآتا ہے۔ڈاکٹر نائلہ خان اپنے نانا شیخ عبداللہ کی سیاست کو سمجھنے کا دعوی تو کر رہی ہیں لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے ان کے دائرہ کار میں آنے والی کتابیں ،دستاویزات محدود پیمانے اور مخصوص مکتبہ فکر کی ہیں۔شیخ صاحب کی سیاست کا ایک اہم انداز یہ بھی تھا کہ وہ کشمیریوں کو بھارت کے حق میں ورغلانے پر مبنی تقریر کرتے ہوئے اچانک درمیان میں کہتے کہ '' کشمیریوں تم کو کیا پتہ کہ میں کیا ہوں '' ،اور ساتھ ہی جیب سے نمک کی ڈلی نکال کر اسے چوسنے لگتے تھے۔یہ منظر دیکھتے ہی کشمیری جذباتی ہو جاتے اور شیخ صاحب کی بات پر یقین کر لیتے تھے۔اس وقت نمک کشمیر میں پاکستان کی علامت تھاْ ۔کشمیری سمجھتے کہ شیخ صاحب نے انہیں خفیہ اشارہ دیا ہے کہ میں بھی اندر سے وہی چاہتاہوں جو تم چاہتے ہو۔شاید یہ بھی ایک وجہ ہو جس وجہ سے ہندوستان نے شیخ عبداللہ پر بھی بھروسہ نہیں کیا۔اپنے آخری ایام میں شیخ عبداللہ نے ممتاز و معروف کشمیری رہنما پیر ضیاء الدین اندرابی مرحوم کے بیٹے سید بشیر اندرابی سے سرینگر میں ملاقات کرتے ہوئے کہا '' کہ وہ (ہندوستان) مجھے مانتے نہیں ہیں لیکن میں بھی انہیں نہیں مانتا''۔

1990ء میں آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہونے سے پہلے مرحوم شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ نے وزیر اعلی کے طور پر دہلی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ '' میرے والد شیخ عبداللہ نے کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ کرایا،میں نے اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے بھر پور کوشش کی،میں اچھا سیکولر شہری ہوں اس لئے مسجد،چرچ اور مندر بھی جاتا ہوں،میں نے ایک سیکولر شہری کے طور پر اپنے بچوں(بیٹے اور بیٹی) کی شادیاں دوسرے فرقوں(مذاہب)میں کیں لیکن کیونکہ میرا نام مسلمانوں والا فاروق عبداللہ ہے اس لئے ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتی''۔محترمہ ڈاکٹر نائلہ علی خان کی کشمیری نوجوانوں کو نصیحت بجا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر فتح کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی ،مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بارے میں ہندوستان کی انتہا پسندانہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں۔اگر ہندوستانی حکومتیں نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے مشورے مانتے ہوئے پاکستان اور حریت پسند کشمیریوں سے مزاکرات کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ پرامن اور منصفانہ طور پر حل کرنے کی راہ اپناتیں تو اس دیرینہ مسئلے کو حل کے جانب لیجایا جا سکتا تھا لیکن جب فیصلے بندوق کی نوک پر ہونے لگیں تو انسانی تذلیل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ڈاکٹر نائلہ خان کی طرف سے کشمیریوںکو مشورے پر مبنی حاصل مضمون کا یہ جملہ کہ '' اس سیاسی بحران سے نکلنے کے لئیے ہمیں مقامی افراد کی سیاست میں شرکت کی ضرورت ہے'' غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ڈاکٹر نائلہ علی خان اپنے نانا کی ہندوستان کے لئے استعمال ہونے کی سیاست کے بجائے ان عام کشمیریوں کو سمجھنے کی کوشش کرتیں جو ان کے نانا کی نسل سے بھی پہلے سے اب تک نسل در نسل بدترین مظالم کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔کشمیریوں کی آزادی کے لئے سات عشروں پر محیط جدوجہد اورقربانیوں کو بھلا کر ہندوستان کے سامنے جھک جانے کے اس مشورے سے یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی ڈاکٹر نائلہ علی خان شیخ عبداللہ کی ہی نواسی ہیں۔

محکمہ تعمیرات عامہ آزاد کشمیر کے' ایس ڈی او' ظفر محمود وانی نے نیوز ویب سائٹ''ہم سب'' پہ شائع ڈاکٹر نائلہ علی خان کے مضمون پر دلچسپ اور معلوماتی تبصرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے کشمیر کے موضوع پر اپنے مضمون کا کثیر حصہ اس موضوع پر اپنی اہلیت ثابت کرنے کی کوشش میں صرف کیا ہے ۔حال کی جڑیں ہمیشہ ماضی میں ہی پیوست ہوتی ہیں ۔محترمہ اگر شیخ محمد عبداللہ کی سونح''آتشِ چنار ''کا ہی بغور مطالعہ فرما لیتیں تو شاید ان کے لئے یہ تصویر زیادہ واضح ہوتی ۔۔کشمیر میں پرتشدد تحریک اسی وجہ سے شروع ہوئی کہ بھارت کی طرف سے ہمیشہ 'کشمیری عوم سے کیے گئے حق خود ارادیت کے وعدے سے انکار کی بھارت کی وعدہ خلافی کے خلاف کشمیری عوام کی طرف سے کیئے گئے ہر پرامن اہتجاج کو یا تو کوئی اہمیت ہی نہ د ی گئی یا ان پرامن اور نہتے عوام پر جبر و تشدد سے جواب دیا گیا ۔اس تحریک کی شدت سے اب یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ کشمیری کسی قیمت پر اپنے عالمی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔ شیخ صاحب کا تقسیم کے وقت کردار ہی کشمیریوں کی ابتلا کی بنیادی وجہ ہے ۔ کشمیریوں کی اکثریت ان سے اس کردار کی وجہ سے نفرت کرتی ہے ۔۔ تقسیم کے بعد جموں میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلم خواتین کے اغوا کے واقعات کے بعد شیخ صاحب وہاں تشریف لے گئے اور ہندووں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے اس قتل عام کا زکر تک نہیں کیا بلکہ اسی جلسے میں ایک اغوا شدہ مسلم خاتون کسی طرح اپنے اغوا کاروں سے چھپ کر پہنچی اور جب شیخ صاحب اینی تقریر میں کشمیر میں ہندووں کی حفاظت یقینی بنانے کا زکر کر رہے تھے تو وہ مظلوم عورت ان کے سامنے آ گئی اور شیخ صاحب سے مدد کی درخوست کی تو شیخ عبداللہ نے ہندووں کی چاپلوسی کرتے ہوے اس کو کہا کہ "" دفع ہو جاو تم جیسی کتیاں بہت پھرتی رہتی ہیں " ۔کیا مصنفہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس شیخ عبداللہ سے کشمیری عوام محبت کریں گے ۔ مضمون نگار کو بھارت کو یہ مشورہ دینا چاہئے کہ وہ پنڈت نہرو کے کشمیری عوام سے کئے گئے حق خودارادیت کے وعدے کو پورا کرے تاکہ نا صرف کشمیریوں کو بلکہ بھارت اور پاکستان کا امن اور خوشہالی یقینی بن سکے''۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 766 Articles with 604316 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More