شارٹ کٹ

شام ہونے کو تھی گھر جانے کی جلدی تھی دوستوں نے کہا کیوں نہ ہم شارٹ کٹ رستہ اختیار کریں تاکہ اندھیرا ہونے سے پہلے اپنی منزل کو پا سکیں۔ ایک نے کہا! یار جس گلی کا پتہ نہں اس گلی کو جانا کیوں۔ سیدھا سیدھا رستہ جس کا بخوبی اندازہ بھی ہے وہی رستہ اختیار کرو تاکہ کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔ تاہم اسی کشمکش میں بیچ کا رستہ اختیار کیا۔ کافی دور جانے کے بعد معلوم ہوا جو رستہ اختیار کیا ہے یہ تو بلکل مختلف ہے نا منزل ملی اور رات بھی کافی ہو گئی. یہ تھا ہمارا " شارٹ کٹ" !

اس واقعہ سے ایک سبق ملا کبھی بھی اس راہ پے آنکھیں بند کرکے نا چلیں جس کا پتہ نا ہو۔ جس کے نتیجے کا پتہ ہی نہ ہو، کہیں ایسی دلدل میں نہ پھنس جائیں جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ ہو۔ ہمشیہ وہ کام کیا جائے جس کو آپ بخوبی کر سکتے ہوں اور اس کام کو سنبھال بھی سکتے ہوں۔

ہمارے ہاں دیکھا جائے تو ہر ایک فیلڈ میں شارٹ کٹ ڈھونڈا جاتا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا بیچ کا رستہ تلاش کیا جاتا ہے. ٹھیک ہے! شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنا چاہیۓ لیکن اس کا استعمال ہر جگہ پر نہیں ہوتا اور نا ہی ہر جگہ کامیاب ہوتا ہے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ ایک بندہ ایک نیا کام شروع کرتا ہے۔ اب وہ سیدھے راستے پے رہ کر بھی اس کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ لیکن وہ یک دم کامیابی اور پیسے کی حوس کے لیے بیچ کے راستے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بعض اوقات شارٹ کٹ راستہ آپ کو غلط ٹریک پر بہت دور لے جاتا ہے جہاں سے واپسی کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوتی. جہاں پر آپ اسی راستے کو اختیار کرنے اور اسی پر قا‏‏‏ئم رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اور آخرکار اس کا نتیجہ پستی اور زوال ہے وہ زوال اور پستی کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے ۔

ایک ادارے کے لیے سب سے بڑا نقصان جہاں نااہل انسانوں کو بنا کسی ‌قابلیت پر بھرتی کر کے اس ادارے کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ ایسے اداروں اور بندوں کا ہمارے ہاں ڈھیر لگا ہوا ہے جو کہ اپنی تعلیم خواہ جیسے تیسے بھی ہو پوری کرکے ایک چھوٹا سا حل ڈھونڈ کر شارت کٹ رستہ اختیار کر کے بنا کسی قابلیت اور اس جاب کی اہلیت دیکھے بغیر سفارش کے ذریعے ادارے میں گھستے ہیں۔ اور پھر اس ادارے کا دل کھول کے نست مارتے ہیں۔ اور جو لوگ اس شارٹ کٹ کے ذریعے نوکریاں حاصل کرتے ہیں وہ فخر سے کرسی پر آکر بیٹھے ہیں۔ پتہ نہیں کتنے قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کا حق مار کران کو کچل کر اس کرسی کو حاصل کرتے ہیں؟

آج کل ہماری موجودہ حکومت بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ پوری ملکی سیاست کا بھی یہی حال ہے. نا اہل اور بنا قابلیت کے بندوں سے بھرا پڑا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے سو ویسا کر رہے ہیں۔ فائدہ یا نقصان کی بات تو بعد میں ہے کوئی نیو انٹری نہیں وہی امیر کبیر، کرپٹ اور نااہل شخصیات کا بار بار منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ باپ پھر بیٹا اور پھر بیٹوں کا بیٹا، یہ لڑی پتہ نہیں کب سے چل رہی ہے اور پتہ نہیں کب تک چلتی رہنی ہے۔ انہی کرپٹ لوگوں کی وجہ سے ملک کا نظام اور ادارے درہم برہم ہو رہے ہیں۔

میں ہر شخص پر تنقید نہیں کر رہا، بلکہ ہمارے ملک میں اسمبلی، اداروں، سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں بڑے بڑے اچھے اور قابل شخصیات بھی ہیں جن کے بلبوتے یہ ملک چل رہا ہے یہ وہ اشخاص ہیں جو آندھی اور طوفان بلکہ ہر صورتحال میں اپنی ڈیوٹی دیانتداری سے سرانجام دے رہے ہیں۔

یہ ملک ایک عزم کے لیۓ حاصل کیا گیا۔ ایک سوچ تھی جس کی تکمیل ہوئی۔ ملک کو حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کرنی پڑی۔ ناکہ یہ ملک ان کرپٹ اور نااہل لوگوں کے لیۓ حاصل کیا گیا۔

لیکن یہ ملک کیوں ان شارٹ کٹ، نا اہل اور کرپٹ لوگوں کی کٹ پتلی بنا ہوا ہے؟ آخر کب تک ہمیں ان لوگوں کا منہ دیھکنا پڑے گا۔ کب تک ملکی ادارے آزاد اور خود مختار نہیں ہو پائیں گے؟ کب قابل اور اہل شخص اپنی کرسی سنھبالے گا؟ اور اس نظام سے چھٹکارا مل سکے گا۔

Jamshaid Yousaf
About the Author: Jamshaid Yousaf Read More Articles by Jamshaid Yousaf: 3 Articles with 8604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.