استاد کا مقام ومرتبہ

دنیا میں اس وقت مختلف تاریخوں میں مختلف دن منائے جاتے ہیں، صرف اسی ایک تاریخ میں اس دن سے منسوب شخصیت کے احترام و عقیدتمیں پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، اور اظہار ِ مسرت کیا جاتا ہے۔ چناں چہ ہمارے ملک میں پانچ اکتوبر کو یوم ِ اساتذہ کے نام سے منایا جاتا ہے استاد بلاشبہ عظیم ہستی اور انسانیت کی محسن ذات ہے، استادکی بڑی شان اورعظمت ہے، دنیا نے چاہے استاد کی حقیقی قدر ومنزلت کا احساس کیا ہو یا نہ ہولیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی عظمت کو اجاگر کر دیا تھا، اس کے بلند مقام سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود رہبرشریعت محسنِ آدمیت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے طبقہ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا کہ انما بعثت معلمامجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ،اک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ نے فرمایا کہ اﷲ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا،اک دوسرے مقام پر فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اﷲ ،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں،فاتح خیبر دامادِ رسول سیدنا علی المرتضی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے،حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں،زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو عبداﷲ بن عباس نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اﷲ !آپ ہٹ جائیں اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا ،امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوتے تھے ،فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ ائمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں ،امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اﷲ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو،ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے اس پر ان کے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت !اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقینا وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جاتا رہے مجھے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ،خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعی ؒکے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا ،ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹااستاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے خلیفہ نے امام صاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں ،آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پرپانی ڈالے اوردوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کودھوئے،جب تک معاشرے میں ایسے لائق معزز والدین تھے اساتذہ کی قدروقیمت تھی بچے ذہین وفطین اور باادب ہوا کرتے تھے قلم کتاب کا تقدس اپنے عروج پر تھا سرکاری اداروں کی ذبوں حالی ،بدانتظامی اورناقص کارکردگی نے نجی اداروں کی راہ ہموار کی ،نجی اداروں نے تعلیم کو بطور پیشہ اختیار کیا مار نہیں پیار کا کلچر متعارف کروایا ،ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ نجی اداروں کے مالکان پرنسپل حضرات بچے کی شکایت پر والدین کے سامنے استادکو پیش کرتے ہیں والدین بچوں کے سامنے استاد کوڈانٹتے ہیں ،ہم فیس ادا کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو پڑھایا جائے ڈانٹنے کا ہم نے آپ کو اختیار نہیں دیا ،والدین چاہتے ہیں بچہ جیسا چاہے رویہ اختیار کرے استاد بچے کا احترام کرے ، ماضی کاشاگر استاد کے احترام میں کھڑا ہوتا تھا اب جامعات کے دروازوں پر اساتذہ کھڑے ہوتے ہیں خوش آمدید کہنے کے لیے ،والدین اساتذہ کو اپنا غلام سمجھ تے ہیں گستاخی سے پیش آتے ہیں،نجی اداروں نے انگریزی تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹ کر علم اورمعلم کی عظمت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے حیف صد حیف کہ ہمارے معاشرے نے استاد سے اُس کا اصل مقام چھین لیا ہے استاد کی قدر و منزلت اور جاہ و عزت وہ نہیں رہی جو قدیم زمانے میں تھی آج ہمارے معاشرے کے تباہی کے گڑھے کے دہانے پر پہنچ جانے کی اصل وجہ استاد کی ناقدری ہے معلوم نہیں یہ بے راہ روی کیا کرشمہ دکھائے گی ،امام غزالی فرماتے ہیں حقیقی باپ نفس کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے مگر روحانی باپ تحت الثرٰی سے سدرۃُالمنتہٰی پر لے جاتا ہے،افسوس ہمارا معاشرہ اسلامی اصولوں کو بھلابیٹھا اہل مغرب نے اسلامی روایات کو اپنے تہذیب میں ضم کر لیا اہلِ مغرب کا ہم سے آگے نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتاہے،آئیے ہم بھی مل کر اساتذہ کی قدرومنزلت کو پہچانے ریاست اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے ،استاد ہی قوم کا حقیقی معمار ہوتا ہے ہمیں اس معمار کا ادب اورعزت کرنی چاہیے نہیں تو مثل مشہور ہے: بااداب بامراد بے ادب بے مراد ۔

Rashid Sudais
About the Author: Rashid Sudais Read More Articles by Rashid Sudais: 56 Articles with 65377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.