بے ضمیرعہد کے باضمیر لوگ

ہم رسم ورواج کے قیدی ہیں‘ہم روایات کے پابند ہیں‘ہم ہر چیزکی ہر خوشی کی‘ہرعالمی دن کی پابندی کرتے ہیں‘موم بتیاں جلا کر ہردن بہت اہتمام سے مناتے ہیں۔کرکٹ کے دیوانے، دھرنوں کے شیدانی ‘عرض ہم سب کچھ بن سکتے ہیں بس اپنے ضمیر کے قیدی نہیں بن سکتے۔ضمیر ہمارے اردگرد حصار کھینچتا ہے‘آنکھیں کبھی روشنی بھی پاتی ہیں مگر ہم ایسے سیہل پسند اور غفلت کیش ہیں کہ قدم اُٹھاتے ہیں پھر وہی رہ جاتے ہیں۔

ہر روزکے اخبارات ‘ہر گھنٹہ کے نیوز بُلیٹن جو انہونیوں اور ہلاکتوں سے بھرے رہتے ہیں‘ دیکھو آج صبح کسی کا بھائی مر گیا‘کسی کی گود اُجڑی‘کسی کی مانگ سوہنی۔ہم چینل بدل دیتے ہیں‘یہ تو روزکا کام ہے‘پارٹ آف دی گیم۔ہم تو روشن خیال اور لبرل ہیں جواب ( (Hallowan بھی مناتے ہیں ‘قدرت نے جو سیاہی اس قوم کے مقدر میں ابھی نہیں لکھی تھی اُسے خود پر تھوپ کے بھیانک بن کر دکھانے والی قوم۔۔۔یہ ہمارے تہوار کہاں سے اور کب سے ہوگئے؟ لیکن کیا فرق پڑتا ہے روشن خیال تو کہلائیں گے ناں؟

حکومتی دعوے سُن کر دل کو بہت خوشی سی تو ہوتی ہے کہ سرکار کا حزانہ بھرا ہوا ہے لیکن غریب کی جیب نجانے کیوں خالی ہی رہتی ہے؟

ہماری حالت اس جھیل کے پانی کی سی ہے جس پر ان روشن خیالیوں اور جشن ومیلوں کی کائی جمی ہے‘یہ سب تہوار ہماری قوم کیلئے مسکن دواؤں کا کام کررہے ہیں لیکن اسی پاکستان میں چند ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ان روشن خیالیوں کے پیچھے تاریک اور دھندلے سائے نظر آتے رہتے ہیں۔جن کے نزدیک مومن کے ایمان کی کسوٹی کچھ اور ہے‘جن کا اب بھی یہ خیال ہے کہ ہم انِ خرابوں کی کشتی پر سوار ہو کے تو ڈوب جائیں گے ‘جن کے دل خُدا کے سوا کسی سے خائف نہیں ‘جن کے سر کسی سُپر پاور کے سامنے نِگوں نہیں ہوتے‘جن کو ہمسایہ ملک سے دوستی کرتے وقت کسی بھولی بہری بیٹی کی چیخ سُنائی دیتی ہے۔

اُن کو ایسی دوستیاں بناتے وقت مقابل کے ہاتھ اپنے اجداد کے خون سے رنگین نظر آتے ہیں۔انہیں رام رام ستائی دینے کے بعد بغل میں چھری بھی نظر آتی ہے۔انہیں ان خودرو تہواروں میں برما کے مسلمانوں کا خون نظر آتا ہے۔پٹاخوں کی آواز میں بموں کی بازگشت قہقہوں کے اندر چیخیں سُنائی دیتی ہیں۔وہ تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ‘اس قلعے میں ہر بیٹی، ہر بیٹے کو پناہ ملنی چاہئے ‘انہیں کیا معلوم کہ اس قلعے کی چھت میں ان فرسودہ رواجوں اور نت نئے تہواروں نے کیسے شگاف ڈال رکھے ہیں۔

وہ مٹی بھر لوگ جو اپنا قلم اُٹھاتے ہیں اُن کو ہماری زندگی کیساتھ رویہ مذاق نظر آتا ہے ‘یہ مذاق ہی تو ہے کہ ہم Hallowan کے نام پر منہ پر کالک لگا کر خوشی سے ناچیں۔دنیا کے مسلمان کٹ کٹ مررہے ہیں اور نیوز چینل چیخ چیخ کر محترمہ شرمین عبید چنائے صاحبہ کے نئے Piblicity stunt کو کامیاب کررہے ہیں۔اس بے ضمیر عہد کے چند باضمیر لوگ یہ جانتے ہیں کہ فطرت اپنے ساتھ مذاق کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔یہ محق سالی، یہ سیلاب یہ نئے نئے ناموں والے طوفان یہ سب اشارے ہیں کہ
ابھی تو ختم ہوئی ہے فلک کی بات فقط
ابھی زمین نے بھی ہم سے کلام کرنا ہے

وہ بے ضمیر عہد کے با ضمیر لوگ کیا جانیں کہ ہم سب سے پہلے اتحادی ، پھر رواجوں اور ثقافتوں کے دوست پھر پاکستانی اور سب سے آخر میں مسلمان ہیں۔وہ اپنا دینا مدد کرنا تو درکنار کسی گرتی ہوئی دیوار کی اینٹ بھی نہیں بن سکتے کیونکہ اس قوم کی آنکھوں کے آگے موبائل فون کے اندھیرے ہیں‘پیروں میں زنجیریں ہیں۔ابھی تو اس قوم کو نت نئے رواجوں کی دھوپ میں سلامتی کی دعا دی ہے۔
بے ضمیر عہد کے باضمیر لوگو! ابھی انتظار کرو ‘ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔

جیسے کہ ایک وقت تھا کہ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں صرف فیچرز پڑھتے تھے‘کچھ سالوں سے مارننگ شوز(یہ ایک الگ اور نازک موضوع ہے)کی مہربانی سے ویلنٹائن ایک ہفتہ پہلے شروع ہوجاتا ہے اور وہ قوم کی بے ضمیرپلاسٹک بیٹیاں ویلنٹائن کی یاد میں لال ولال ہوئی پھرتی ہیں۔اب دیکھے گا اگلے چند سالوں میں Hallowan بھی ملی جوش وجذبے منایا جائے گا کہ دیکھو یہ ملک جس نام پر بنایا گیا تھا۔یہ اپنے خوبصورت چہرے بدنما کرکے ہم اس ملک کا نام کیسا روشن کررہے ہیں۔ارے جس ملک میں شرمین صاحبہ جیسے لوگ محض ایک ٹوئٹ کر کے گھنٹوں ٹی وی سکرین کی زینت بنی رہتی ہے‘ وہ باشعور کہلانے والے نت نئے ناموں سے پروگرام کرنے والے پڑھے لکھے نوجوان اپنی تمام تر صلاحتیں اُس ایک فیس بُک کے اسٹیٹس پر چلاتے ہوئے گھنٹہ بھر ضائع کرسکتے ہیں‘اُس قوم کا کیا کہنا۔۔۔

بے ضمیرعہد کے باضمیر لوگو! خون رنگ آنکھیں جو کہ ان تماشوں کو دیکھ کر پھترائی جاتی ہیں ‘کھول کے رکھو ‘ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے، یہ دن وہ دن‘یہ رات وہ رات‘نئے نئے نام نت نئے تماشے۔۔۔۔۔حوصلہ رکھو ابھی اس ملک میں بہت خون ہے جو ان لبرلوں کو چوسنا ہے۔پس اے بے ضمیرعہد کے باضمیر لوگو! ابھی تو دھرنے اور ان دھرنوں میں ہماری نئی ثقافتوں کے رنگ‘سیاست کے نام پر ان دھرنوں میں ہونا کھیلواڑ۔۔۔غیرت کا بے کراں رقص اور بہت کچھ دیکھنا ہے ۔

بے ضمیرعہد کے باضمیر لوگو!تم کیوں ابھی سے تھک گئے‘کیوں آنکھیں پتھرائی سی ہیں؟کیوں سوچتے ہو کہ برق آخر مسلمانوں ہی پر کیوں گرتی ہے؟اگر اس عہد میں یہ ہے مسلمان تو برق تو گرے گی۔۔۔بس تم دیکھتے رہنا کیونکہ ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔۔

Ayesha Zakir
About the Author: Ayesha Zakir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.