گلہ کسے کریں؟

جیسی قومیں ویسے حکمران یہ بات تو آپنے سنی ہوگی ، یہ حکمران کون ہوتے ہیں، یہ کوئی فرشتے تو نہیں ہوتے یہ بھی ہم آپ میں سے ہوتے ہیں ، یہ بھی انسان ہیں ، یہ بھی پاکستانی ہیں ۔کیا کبھی آپنے سوچا جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں اس کام کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں،جن لوگوں کے ساتھ آپکا واسطہ پڑتا ہے انکو پورا پورا ایمانداری کے ساتھ حق ادا کرتے ہیں ۔ کیا آپنے کبھی سوچا آپکے والد ،والدہ ، بھائی ،بہن،رشتے داراور دوست وغیرہ جہاں کام کرتے وہ اپنے ادارے ، اپنے کام، جن لوگوں کا کام پڑتا ان سے وہ ایمانداری سے پیش آتے ہیں ۔کبھی آپ نے سوچا پولیس والے کون ہوتے ہیں ، واپڈا والے کون ہوتے ہیں، واٹر بورڈ میں جو لوگ کام کرتے وہ کس مخلوق کا نام ہے،دکاندار، پھل فروش، بس ڈرائیور، رکشہ والاہر وہ چیز اٹھاکے دیکھیں جو آپ استعمال کرتے ہیں اسکو ہم آپ میں سے کوئی نا کوئی چلا رہا ہوتا ہے۔ پھر ہم کسے گلہ کرتے ہیں ، پولیس والے رشوت لیتے ، بجلی کا بل ذیادہ دے دیاہے، پانی نہیں آتا ،دکاندار تول میں چوری کرتا ہے ملاوٹ کرتا ہے، پھل بہت مہنگے دیتا ، بس والے کرایہ زیادہ لیتے ، رکشے والے من مانے کرایے ماگتے، بھائی اگر میں سبزی والا ہوں مہنگا دام بیچتا ہوں ، تو لینے والا کوئی پولیس والا، کوئی واپڈا والا، کوئی رکشہ والا وغیرہ ہی ہے نا پھر گلہ کیسا؟یہاں تو ہر بندہ دوسرے کو چور کہتا ہے یہ نہیں دیکھتا جو وہ خود کام کرتا اس میں وہ کتنا ایمانداری سے کرتا ہے۔

میں جب آج صبح آفس کے لئے نکلا روڈ پے آیا ہر کسی کو جلدی تھی کوئی wrong way جارہا تو کوئی سگنل توڑ کر جارہا ، کوئی کسی کی پرواہ کئے بنا آگے نکل جانے کی کوشش کرتے دیکھا چاہے گاڑی کوٹکر لگ جائے پیچھے والا مرتا تو مرجائے بس مجھے آگے نکلنا۔یہ سب دیکھتے دیکھتے میری نظر ایک موٹر سائیکل والے پے پڑی جس کے پیچھے ایک رکشہ والا تھا ، ماشااﷲ لوگ ایسے بٹھائے تھے بس چلتا تو چھت پے بھی ۲ ۔۴ لوگوں کو بٹھادیتا ، جناب کی اسپیڈ ایسے تھی کہ جیسے جہاز چلا رہا ہو، موٹر سائیکل والے سے آگے جانے کی کوشش میں ہلکا سا ٹچ ہوا ، موٹر سائیکل والے کا کہنا تھا اوئے اندھا ہے کیا، بس جہاز نما رکشہ موٹرسائیکل کے آگے رکا اور ڈرائیور اترتے ہے مارنا شروع ہوگیا بیچ روڈ کا بھی خیال نا کیا صبح کا ٹائیم تھا بے پناہ رش تھا اور وہ اسکو مارتا رہا، افسوس اس ٹائیم ہوا جب 3-4 لوگ رکشہ سے اترے اور وہ بھی اس موٹرسائیکل والے کو مارنے لگ گئے اور اتنا مارا کہ وہ رونے لگ گیا۔ اچھا کھاسا پڑھا لکھا نوجوان تھا اکیلا اور کمزور ہونے کہ ناتے مار کھاتا رہا ۔مجھ سمیت کوئی چھڑانے نہیں آیا۔وہ لوگ مار کر رکشے میں بیٹھے اور اپنی منزل کی طرف چل پڑے،ٹریفک کی روانی بھی بھال ہوگئی ۔

میں پورا راستا روتا آیا اس پے نہیں کہ اس نے مار کھائی یہ روز کی کہانی ہے، بلکہ اس پے کہ اﷲ تعالٗی اس قوم کو کب برداشت دیگا، کب دل میں رحم دیگا ، کب عقل دیگا ، کب ہدایت دیگا، کب شعور دیگا، اتنی بے ہس قوم کیوں ہیں ہم ، ہمارے اندر ذر ابرداشت کیوں نہیں ۔

یا اﷲ ہدایت دے، برداشت دے، انسانیت دے ، انسانیت کی خدمت کا جذبہ دے، اچھے اور برے میں فرق کرنے کا علم دے۔
آمین۔

 

Rashid Ali Khawaja
About the Author: Rashid Ali Khawaja Read More Articles by Rashid Ali Khawaja: 2 Articles with 1337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.