پاکستان: اے ٹی ایم فراڈ سے کیسے بچا جائے؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں نجی حبیب بینک لمیٹڈ کی اے ٹی ایم مشینوں سے صارفین کی معلومات چوری ہونے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حبیب بینک کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر صارفین کی رقوم لوٹانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق گذشتہ ماہ نجی بینک حبیب بینک لمیٹڈ کے بینک اکاؤنٹس کو اے ٹی ایم (آٹومیٹڈ ٹیلر مشین) کارڈز کے ذریعے ہیک کر لیا گیا اور اب تک ان واقعات میں بینک کے 296 صارف متاثر ہوئے ہیں۔ ان صارفین کے اکاؤنٹس سے کل ایک کروڑ دو لاکھ روپے چوری کیے گئے ہیں۔

تاہم ابھی تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو اس بارے میں بینک کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
 

image


بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ایف آئی اے میں سائبر کرائمز کے ڈائریکٹر کیپٹن ریٹائرڈ محمد شعیب نے کہا ہے کہ اس بارے میں ابھی صرف سوشل میڈیا یا مقامی خبر رساں اداروں سے ہی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

'بینک ہمیں باضابطہ شکایت درج کرائے گا اس کے بعد ہی تحقیقات کا آغاز ہو سکے گا‘۔

دوسری جانب بینک دولت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق متاثرہ بینک نے ان تمام اے ٹی ایم کارڈز کو بند کر دیا ہے جنھیں ہیک کرنے کے بعد استعمال کیا گیا، جبکہ متاثرہ صارفین کو یہ رقم واپس کرنے کے عمل کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

اے ٹی ایم سکِیمنگ یا فراڈ میں ہوتا کیا ہے؟
واضح رہے کہ اے ٹی ایم سکِیمنگ یا فراڈ ایک ایسا عمل ہے جس میں اے ٹی ایم کارڈ کی مقناطیسی پٹی پر موجود تمام اہم ڈیٹا چوری کر لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مشین میں کارڈ پاکٹ میں سکینر نصب کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اے ٹی ایم مشین کے 'کی پیڈ' پر ایک اور کی پیڈ نصب کیا جاتا ہے جو وہ خفیہ پِن کوڈ محفوظ کر لیتا ہے جو کارڈ استعمال کرنے کے لیے صارف مشین میں داخل کرتا ہے۔

اس کے علاوہ خفیہ کیمرہ بھی نصب کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ معلومات کسی بھی دوسرے کارڈ پر باآسانی منتقل کی جا سکتی ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے میں بینک اکاؤنٹ سے پیسے چوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

احتیاطی تدابیر
آئی ٹی اور سیکیورٹی سے متعلق اشاعت و تشہیر سے وابستہ آئی ٹی ماہر عبداللہ سعد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اب ڈیبِٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں خاصا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان ایسے ہیکرز کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔

عبداللہ سعد کے مطابق کسی بھی صارف کے لیے یہ خاصا مشکل ہے کہ وہ یہ جانچ سکیں کہ ان کے زیر استعمال اے ٹی ایم مشین پر ڈیٹا چوری کرنے کے لیے کوئی آلہ نصب کیا گیا ہے تاہم وہ صارفین کو چند احتیاطی تدابیر ضرور دیتے ہیں:

1. ایسی اے ٹی ایم مشینیں جہاں عام طور پر رش رہتا ہے، وہاں سکیمنگ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

2. اگر آپ کسی اے ٹی ایم مشین کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں تو مشین پر موجود کسی بھی تبدیلی کو نظرانداز نہ کریں، ایسی مشین پر کارڈ ہرگز استعمال نہ کریں، اور متعلقہ بینک کو اطلاع دیں۔

3. بینک کے ساتھ یا بینک کے اندر موجود اے ٹی ایم مشینیں نسبتاً محفوظ ہوتی ہیں۔

5. صارف دو اکاؤنٹس رکھیں، جن میں سے ایک اکاؤنٹ کا اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ جاری کروائیں اور اس اکاؤنٹ میں صرف ضرورت کے مطابق رقم رکھیں۔ تاکہ ہیکنگ ہونے کی صورت میں بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

عبداللہ سعد یہ بھی کہتے ہیں کہ صارف کے پاس کارڈ سے رقم نکلوانے کی حد مقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت بینکوں نے چوبیس گھنٹوں میں اے ٹی ایم مشین سے پچاس ہزار روپے نکلوانے کی حد مقرر کی ہے، جو کہ عبداللہ سعد کے مطابق زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صارف کے پاس اپنا اے ٹی ایم کارڈز ’آف ‘کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے جیسا کہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ اس نظام میں بھی صارف صرف اس وقت کارڈ ’آن‘ کرتا ہے جب وہ اے ٹی ایم مشین استعمال کر رہا ہوتا ہے۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Hundreds of citizens in Pakistan have lost millions of rupees over a couple of weeks after they fell prey to an Automated Teller Machine (ATM) skimming fraud. The schemers withdrew money in China, while the transactions were made in Karachi and Islamabad through the fraudulent scheme.