جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن

افغانستان،بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ، نیپال ،پاکستان اور سری لنکاساؤتھ ایشیائی ممالک ہیں ۔یہ آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک ’ساؤتھ ایشین اسوسی ایشن فار ریجنل کارپوریشن (SAARC)‘ کے مستقل ممبر کہلاتے ہیں جوکہ سارک کی پالیسیوں پر ممکنہ طور پر اثر انداز ہونے والی قوموں پر نظر رکھتے ہوئے کارپوریشن کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں ۔جبکہ آسٹریلیا، چائینہ، یورپی یونین، ایران، جاپان ، ریپبلک آف کوریا، موریشس، میانمار اور یو ایس اے کی حیثیت ’’آبزرور ممبران‘‘کی ہے جو کہ خطے میں اپنے مفاد کے عین مطابق خارجہ پالیسی کوترتیب دینے کے لیے سارک کارپوریشن پر نظر رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے پس منظر میں سارک ممالک کی اپنی جغرافیائی محل وقوع کیا ہے؟ جنوبی ایشاء تعاون تنظیم میں شامل کن ممالک کے عالمی لابیز سے بے جا تعلقات ہیں ؟ جنوبی ایشیائی ممالک کی پالیسیاں کون بناتا ہے اور کیا پالیسیاں بنتی بھی ہیں یا کبھی عشروں پہلے بنی تھیں ؟ جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی مختلف فورمز پر نمائندگی کتنی ہے اور کتنی موثر ہے؟زراعت اور رورل ڈیویلپمنٹ، ٹیلی کمیونیکیشن، سائنس، ٹیکنالوجی، میٹرولوجی، ہیلتھ اور پاپولیشن ایکٹیویٹیز،ٹرانسپورٹ اور ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ پر کارپوریشن کچھ کام کرتی ہے یا گفتن نشستن برخاستن والا عمومی رویہ اپنا یا جاتا ہے!!یہ سب سوالات تو تب موضوع سے مماثلت یا مطابقت رکھیں گے جب سارک ممالک کی ایک دوسرے سے زبردست کوارڈی نیشن ہو،سارک اجلاس باقاعدگی سے ہوں اور ان ممالک کی اپنی مشترکہ مفادات کے لیے فالو اپ کے ساتھ ساتھ کچھ پیش رفت بھی ہو۔3.4فیصد زمینی ٹکڑے پر جنوبی ایشیاء وقو ع پذیر ہے جو کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تقریباََ 24فیصد بنتا ہے۔اگر اس فورم کو صحیح انداز میں باقاعدگی کیساتھ میں چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ رکن ممالک کے درمیان موجود تناؤ بھی ختم ہو اور انٹرنیشنل پلیئر ز کا کھیل بھی بند ہو جائے۔
 
صدر مملکت ممنون حسین نے چند دن پہلے کراچی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے زیر اہتمام ــ’’جنوبی ایشیاء میں امن ــ‘‘کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ امریکہ اس خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں بھارت کو فوجی اور معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے میں کوشاں ہے ۔ امریکہ افغانستان میں بھی بھارت کا کردار بڑھا رہا ہے جس سے خطے کا امن خطرے میں پڑھ سکتا ہے ۔بھارت اپنے طور پر بھی خطے کے تمام ممالک کو دباؤ میں لانے کی روش پر گامزن ہے اور گردو نواح کے سارے چھوٹے ممالک بھارت کی اس ہٹ دھرمی سے نالاں اور شکوہ کناں ہیں جن میں نیپال ، مالدیپ ،بھوٹان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ علاقائی امن کے لئے ضروری ہے کہ تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے ۔ کیونکہ متعدد حل طلب سیاسی و جغرافیائی مسائل کی وجہ سے خطے کا امن داؤ پر لگ چکا ہے۔افغانستان، جموں وکشمیر ، سرکریک اور سیاہ چن جیسے مسائل جنوبی ایشیاء میں استحکا م کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں ۔

حالات کا بغور جائزہ لیا تو امریکہ خوداور اس کی آشیرباد کے حصول پر مرمٹنے والے بیرونی اور کچھ اندرونی عناصر نے بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کو ہمیشہ سے دہشت گردی کے نشانے پر رکھاہے۔ محل وقوع اور معدنی وسائل کے اعتبارسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک عرصے سے جاری بد امنی کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ برسرعام جن وجوہات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں سے بلوچستان کا وفاق سے مختلف معاملات پر تضاد ہے جو زیادہ تر غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہیں جہاں تک بلوچوں کی محرومیوں کا تعلق ہے اس سے مفر ممکن نہیں۔ این ایف سی ایوارڈ سے لے کر بلوچستان کے مسائل اور اسے قومی دھارے میں لانے کی مخلصانہ سعی تک سب کچھ بے نتیجہ نکلا ۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 25سے زائد اعلیٰ پولیس کا قتل عام افسران اور تربت میں نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالنا اس امر کا غماض ہے کہ بلوچستا ن میں قیام کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ضروت اس امرکا ہے کہ قومی سلامتی کونسل، مشترکہ مفاد کونسل ، سیکورٹی کونسل ، ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان ،اور سول و عسکری اداروں کا ایک ہنگامی اجلاس بلا کر صوبوں کے ترقیاتی فنڈز، صوبائی اداروں کی مضبوط کوارڈی نیشن، بینڈ اداروں کاخاتمہ جیسے مسائل کا حل نکالا جائے اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث افراد کو بغیر ٹرائل پھانسی سے دے کر نظام عدل کوہر سو عام کیا جائے ۔اور ملک دشمن عناصر کو یہ پیغام دیا جائے کہ اب ملک و قوم ایک جہت اور سمت پر اکٹھے ہیں جس میں اﷲ کے قانون کے بعد بڑی طاقت پارلیمنٹ ہے جو کہ سپریم کورٹ کا ہر دوست فیصلہ ماننے کی مجاز ہے اور بشمول فوج ہر ادارہ اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور حدودوقیود کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم ’’چیف ایگزیکٹو ‘‘ کے ماتحت ہے۔ عام اعلان کیا جائے کہ اب وطن عزیز میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث کوئی تنظیم، طالبان، القاعدہ ، داعش یا کوئی دوسرا تخریب کار گروپ موجود نہیں ہے ۔ یاد رکھیئے! جب ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمار ے ہاں دہشت گردوں کی فیکٹریا ں ہیں تو پھر عالمی دباؤ پر ڈالرز کے عوض یہ بھری بھی جاتی ہیں اور خدانخواستہ یہ نرسیاں حالات کی سنگینی میں اضافہ بھی کرتی ہیں۔

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.