افغان لڑکیوں کی بھارت میں فوجی تربیت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

افغانستان اور بھارت کے درمیان کوئی جغرافیائی اشتراک نہیں ہے۔افغانستان اور بھارت کے درمیان کوئی مذہبی یکسانیت بھی نہیں ہے۔افغانستان اور بھارت کی معاشرتی،لسانی ،سماجی اور سیاسی روایات میں بھی بعد الشرقین ہے۔تاریخی طورپرتوبھارت اور افغانستان کے درمیان ہمیشہ شدیدقسم کی کشمکش رہی ہے اور افغانستان سے آنے والے فاتحین نے ہندوستان کے باسیوں پر صدیوں حکومت کی ہے۔ذرامزید گہرائی میں دیکھاجائے توبت پرست ہندو مذہب کوافغانستان سے بت شکن فاتحین ہی تاراج کرتے رہے ہیں۔ماضی قریب سے ماضی بعید تک افغانستان اور ہندوستان کے درمیان کبھی ثمرآور سفارتی تعلقات بھی نہیں رہے اورافغان تہذیب اور ہندوستانی تمدن کے درمیان قدرت نے پہاڑوں کے ایسے بلندوبالا سلسلہ ہائے کوہ و دمن حائل کررکھے ہیں کہ ایک ہی خطے میں ہونے کے باوجود کبھی ان کے درمیان اشتراک حب نہیں رہا۔اس کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان جغرافیہ،تاریخ،تہذیب و تمدن،زبان،سماج اور مذہب سمیت نامعلوم کتنے مضبوط ترین رشتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔لیکن حیرت ہے کہ نیٹوکی چھتری کے نیچے تاریخ میں پہلی باربھارت اور افغانستان کی حکومتوں میں گاڑھی چھننے لگی ہے۔اس قرب کی حقیقت سمجھنے میں کوئی بہت زیادہ غوروفکرکرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔اسلام دشمن افواج نے جب سے افغانستان میں پڑاؤ ڈالا ہے تب سے اسلام دشمنی کی قدر مشترک نے ہندوستانی اور افغان حکومت کو مصنوعی طورپر باہم جمع کررکھاہے۔افغانستان میں غیرملکی افواج سے خطے میں جو عدم استحکام آیاسو آیالیکن اس کے دوسرے اثرات بدجو مرتب ہوئے ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کاکھل کر سامنے آجانا بھی شامل ہے۔بھارتی عسکری اداروں نے پاکستان کامحاصرہ تنگ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو کھل کر استعمال کرنا شروع کررکھاہے جس کی تازہ مثال افغانستان میں خواتین فوجی افسرات کودفاعی تربیت کی فراہمی ہے۔

افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہاہے بھارتی فوجی افسران کے ذریعے افغان فوج کی خواتین افسرات کو تربیت دلائی جارہی ہے۔ان خواتین فوجی افسرات کو بھارتی ریاست تامل ناڈوکے مرکزی شہر ’’چینائی‘‘جس کاپرانانام ’’مدراس‘‘ہے وہاں پرایک فوجی تربیتی ادارے (Officers Training Academy Chennai)میں تربیت دی جائے گی۔ افغانستان کے تمام علاقوں سے ان فوجی افسرات کاچناؤ عمل میں لایا گیاہے جس کے باعث پورے ملک کی نمائندگی ان میں موجود ہے۔ان بیس افغان فوج کی افسرات میں سے ،تین خواتین افغان فضائیہ میں سے لی گئی ہیں،کچھ خصوصی دفاعی دستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں اورباقی خواتین افسرات کاتعلق افغان خفیہ اداروں،نیم عسکری شعبوں اور فوج کے اندر کام کرنے والے تعلیمی،طبی،قانونی اورمالیات کے صیغوں سے ہے۔ان خواتین کو جسمانی تربیت ،دفاعی داؤپیچ،مواصلاتی نظام اورقائدانہ صلاحیتوں کی تعلیم کے لیے افغانستان سے بھارت بھیجاگیاہے۔کابل میں بھارتی سفیرنے ان خواتین فوجی افسرات کودسمبر2017کے پہلے عشرے میں بھارت کے لیے روانہ کیا۔بھارت میں اب تک کم و بیش چارہزار فوجی و پولیس افسران تربیت حاصل کر چکے ہیں لیکن خواتین افسرات کی تربیت کایہ پہلاموقع ہے۔اکتوبر2017ء میں افغان صدراشرف غنی نے جب بھارت کادورہ کیاتھا تواس دوران طے ہونے والے دفاعی تعلقات کے تحت خواتین فوجی افسرات کی اس تربیت کاانتظام کیاگیاہے۔اس سے قبل طالبان کے سقوط کابل کے بعد سے دوبلین امریکی ڈالر کی خطیر رقم افغان حکومت کو دے چکاہے جس سے جنگ سے تباہ حال ڈھانچے کی تعمیر نواور دیگرترقیات کی جانی مقصودتھیں۔بھارت نے چارعدد MI-25فوجی ہیلی کاپٹربھی افغان فوج کو دیے ہیں۔

سب سے پہلا سوال تو یہ پیداہوتاہے کہ کیاافغانستان کی مقامی روایات اس کی اجازت دیتی ہیں کہ ان کی خواتین بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عسکری تربیت حاصل کریں؟؟؟افغانستان کی معاشرتی زندگی مکمل طورپر قبائلی نظام سے تعلق رکھتی ہے اور اس قبائلی معاشرتی نظام کا پس منظر صریحاََمذہبی بنیادوں پر قائم ہے۔کیا بھارتی فوجی افسران ان افغان خواتین فوجی افسرات کوصرف عسکری تربیت ہی فراہم کریں گے؟؟؟کیااس تعلق میں اخلاقیات کاجنازہ نہیں نکالا جائے گا؟؟؟ اس مقام پر ملکی و قومی و ملی شرم و حیاوغیرت ا وردینی حمیت کہاں چلی جائے گی۔کیاکوئی قیادت اس حد تک بھی گرسکتی ہے کہ چند سکوں کے مفادات کی خاطر اپنی قدیم روایات کو ہی پائمال کردے؟؟؟افغان حکمرانوں کو ممکن ہے اپنے ملک میں بھی اس طرح کے دباؤ سامناہو لیکن چونکہ یہ سب کچھ نیٹوکے محافظت میں ہورہاہے اس لیے کسی بہت بڑے ردعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس طرح کے کسی بھی رویے کودہشت گردی کانام دے کر کچل دیاجانا معمولی بات ہوگی۔اورافغانستان جیسے ملک سے آنے والی خبروں کو دنیاکا کوئی خبررساں ادارہ اپنی تحقیق و جستجو کی نوک پر نہیں لیتاکہ یہاں سب کچھ امریکہ بہادر کی نگرانی میں ہوتاہے ۔یہ تو جب تاریخ کاورق الٹاجائے گااور دبی ہوئی کہانیاں برسرعام آئیں گی تب معلوم ہوگا کہ پس پردہ کیاعزائم تھے جن کے حصول کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر خواہرفروشی کاکھیل کھیلاگیا۔

افغانستان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی روابط میں کس ملک کی دشمنی پوشیدہ ہے۔افغانستان کی سرحدیں ایران،ترکمانستان ،تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ان ممالک میں سے صرف پاکستان واحد ملک ہے جس کے بارے میں افغانستان کے موجودہ حکمران شکوک و شبہات کاشکاررہتے ہیں۔دوسری جانب بھارت کے جوار میں سوائے چین کے تمام ممالک اس کے ہم نواہیں صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو بھارت کو ناکوں چنے چبواتاہے۔اس پس منظر میں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بھارت اپنی پاکستان دشمنی میں افغانستان کوشریک بنارہاہے۔پہلے مرد فوجی افسران کی تربیت اور اب خواتین افسرات کی تربیت بھارت میں کرانے سے یہی مقصد ہی کشید کیاجاسکتاہے کہ پاکستان کے خلاف زہر اگل کر ان افغانوں کو پاکستان کادشمن بنایاجاسکے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ان افسران و افسرات کو صرف فنی تربیت ہی نہیں دی جائے گی بلکہ بھارتی فوج پاکستان کے خلاف نفرت کاٖغبار بھی ان زیرتربیت افسرات میں انڈیلے گی۔اس طرح ان افغان خواتین کو پاکستان کے خلاف ذہنی طورپر تیارکیاجائے گا۔دنیاکاکوئی اخلاق اور قانون بھارت اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ اس طرح اپنے بغض،کینے اور حسد کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔اور کسی طرح کا بین الاقوامی قانون بھی بھارت اور افغانستان کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ باہمی دوستی کے نام پر پاکستان کے ساتھ دشمنی کی پینگیں بڑھاتے رہیں۔اگر محض عسکری تربیت ہی دینا مقصود تھی تو پاکستان کا حق شفعہ تھا کہ یہاں سے تربیت حاصل کی جاتی۔پاکستان کی فوج یقینی طورپر نہ صرف بھارتی فوج سے بلکہ دنیاکی کسی بھی فوج سے زیادہ بہتر انداز سے پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرسکتی ہے۔بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات افغانستان کواسلامی دنیامیں تنہاکرنے کاباعث بن سکتے ہیں،اس کے مقابلے میں پاکستان سے اچھے تعلقات کے باعث افغانستان کومسلمانوں کی عالمی اسلامی برادری میں ایک باوقار مقام میسر آسکتاہے جس کے معاشی و معاشرتی فوائد سمیٹے نہیں سمٹ پائیں گے۔

بھارت اور افغانستان کے یہ تعلقات ریت کی دیوار ثابت ہوں گے کیونکہ یہ تعلقات صرف حکمرانوں کی حد تک محدودہیں اور صرف نیٹوکی حد قیام تک ہی یہ تعلقات رہ سکیں گے۔پاکستان،افغانستان اور ہندوستان کے مسلمان عوام کے درمیان اسلامی برادرانہ تعلقات پیار اور محبت کے استعاروں کے ساتھ ہمیشہ سے موجودرہے ہیں ،موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ان تینوں ممالک کی سرزمین سے تاج برطانیہ رسواہوکر نکلا اور جس طرح USSRیہاں آگر دنیاکی نقشوں میں گم ہوگیااور تاریخ کی کتب میں دفن ہوچکااسی طرح نیٹو سمیت امریکہ بہادربھی یہاں سے د ف ع ہوجانے والے ہیں۔پاکستان،افغانستان اور ہندوستان نے یہیں رہناہے۔اس لیے تینوں ملکوں کے لیے بہتر ہے کہ غیروں کے اشاروں پر لڑنے کی بجائے آپس میں پیارومحبت کو پروان چڑھائیں۔دنیاکی قومیں دو بڑی بڑی عالمی جنگیں لڑچکنے کے بعد بھی اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر آج پھر شیروشکر ہیں۔یہ تینوں ممالک تو اپنے شاندار ماضی کی بدولت ایک دوسرے کی الفتوں کی مقروض ریاستیں ہیں۔بھارت اپنے وجود میں جتنابڑاہے اپنے ظرف میں اس سے بھی کہیں چھوٹاثابت ہوا ہے۔مسلمانوں نے یہاں ایک ہزاربرس کامیاب حکومت کی ہے ،مسلمانوں کی حکومت کے گن آج بھی ہندو کے لب پر جاری ہیں۔پاکستان اسی مسلمان دور اقتدارکی وارث مملکت ہے۔افغانستان اور بھارت کو چاہیے کہ پاکستان کی بالادستی کو قبول کرلیں اور یہ پاکستان کا حق ماضی کے ساتھ ساتھ حق جغرافیہ بھی ہے کہ پاکستان ان دونوں ملکوں کے عین درمیان میں واقع ہے۔آج اگر یہ دونوں ممالک بخوشی پاکستان کے حق حکمرانی کو قبول نہیں کریں گے تو بعد میں بامر مجبوری انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔اس لیے کہ پاکستان دنیاکی واحد نظریاتی مملکت ہے جو عالمی نظریہ حیات کے جواز کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔اسرائیل بھی اگرچہ نظریاتی مملکت ہے لیکن اس کے نظریے میں اس کاعلاقہ بھی شامل ہے۔پاکستان کا نظریہ عالمی و آفاقی نظریہ ہے اور پاکستان کو کل انسانوں کی عالمی قیادت کا فریضہ سرانجام دیناہے اور تاریخ کاطالب عالم اگراپنی بصیرت سے دیکھے توقدرت پاکستان کو بڑی تیزی سے اس بین الانسانی مقام قیادت و سیادت کی طرف لارہی ہے،انشااﷲ تعالی۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 516274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.