پاکستان کا پہلا سولر نائٹ سلم سکول جہاں’غریب بچوں کی زندگی روشن ہو رہی ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے علاقے سعید کالونی کے غریب بچے شام کے وقت ایک جھونپڑی کے ارد گرد اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

یہ بچے پہلے بڑے سلیقے سے شمسی لائٹس اور ان سے ملحق بیٹریاں لا کر رکھتے ہیں اور پھر انھیں جوڑ کر ہر سو روشنی پھیلا دیتے ہیں۔
 

image


یہ ہے پاکستان کا پہلا سولر نائٹ سلم سکول جو صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں قائم کیا گیا ہے۔

22 سال کے نوجوان طالب علم، روحیل ورنڈ کے سلم سکول میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 65 بچے زیر تعلیم ہیں۔

روحیل کا ماننا ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والے اس نائٹ سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی زندگی روشن ہو رہی ہے۔

’پاکستان میں توانائی اور بجلی کا بحران ہے اسی لیے ہمارا سکول شمسی توانائی پر چلتا ہے تاکہ ان بچوں کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ پہلے یہ بچے آوارہ پھرتے تھے، بھیک مانگتے تھے، مختلف بیماریوں کا شکار تھے اور ان کو اتنی بھی تمیز نہیں تھی کہ کھاتے کیسے ہیں؟، باتھ روم کیسے جانا ہے؟ اب ایک سال سے یہ بچے سکول آ رہے ہیں، ہم نے صرف ان کو دنیاوی یا دینی تعلیم نہیں دی بلکہ روزمرہ کی زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ آج وہی بچے بہت تمیزدار ہو گئے ہیں۔
 

image


سنہ 2016 میں قائم ہونے والے اس سلم سکول کے اوقات شام کے وقت اس لیے رکھے گئے ہیں تاکہ جو بچے گھروں میں کام کرتے یا مارکیٹ میں محنت مزدوری کرتے ہیں، وہ شام کو فارغ ہوکر یہاں پڑھنے آ سکیں۔

روحیل کا کہنا ہے کہ سنہ 2017 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا پاتے جس کی بنیادی وجہ ہے غربت ہے۔

بی بی سی نے اس سکول میں پڑھنے والے چند طلبہ سے بات کی اور پوچھا کہ کھلے آسمان تلے پڑھنا ان کو کیسا لگتا ہے۔

ننھی بشریٰ کے والد اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہیں لیکن ان کو پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ خود تو روز سکول آتی ہیں، ساتھ اپنے چار بہن بھائیوں کو بھی لاتی ہیں۔ ’ہم سب بہن بھائی روز یہاں آتے ہیں، خوب پڑھتے ہیں اور خوب کھیلتے بھی ہیں۔ میں تو سارا دن سکول آنے کا ہی انتظار کرتی رہتی ہوں۔‘
 

image


دوسری جانب درزی کا کام کرنے والے 16 سالہ ہارون احمد کے لیے سکول کا وقت نکالنا اتنا آسان نہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا `میں صبح نو بجے دکان پر جاتا ہوں، سارا دن کپڑے سیتا ہوں۔ پانچ بجے سکول آتا ہوں، استاد کے ساتھ مل کر شمسی لائٹیں لگاتا ہوں، رات کو سات بجے کے بعد تمام چیزیں سمیٹ کر واپس دکان پر جاتا ہوں۔ پھر رات نو بجے تک باقی کپڑے سیتا ہوں۔ بہت تھکن ہو جاتی ہے لیکن میں خوش ہوں کہ اب کم سے کم مجھے لکھنا پڑھنا تو آ گیا ہے۔`

گھروں میں صفائی کرنے والی مریم کا کہنا ہے کہ اس سکول نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔ `ہمیں نہ صرف یہاں تمیز اور سلیقہ سکھایا جاتا ہے بلکہ ہمیں سیلف ڈیفینس کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ ہم ہفتے میں دو دن ٹائیکو وانڈو سیکھتے ہیں اور اب میں اپنا تحفظ خود کر سکتی ہوں۔‘

آنکھوں میں ان گنت خواب لیے یہ بچے سخت سردی اور تپتی ہوئی دھوپ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کھلے آسمان تلے بیٹھ جاتے ہیں۔

جہاں بہت سے افراد نے روحیل کو اس سکول کو چلانے میں مدد کی وہیں چند علاقہ مکین کو یہ سکول اور بچے قابل قبول نہیں۔
 

image

’موسمی سختیوں کو تو ہم برداشت کر لیتے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی چھوٹی ذہنیت کا کیا کریں۔ میں نے یہاں قریب ہی ایک گھر کرائے پر لینے کی کوشش کی تاکہ ان بچوں کو سکول کے نام پر ایک چھت بھی مل جائے لیکن چند لوگ بیچ میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ان غریب بچوں کے ساتھ کھیلیں یا کوئی بھی تعلق رکھیں کیونکہ ان بچوں اور ہمارے بچوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے ہمیں وہ جگہ کرائے پر نہیں ملی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ غریب بچوں کے مقابلے میں ایسے افراد کو علم اور شعور کی زیادہ ضرورت ہے۔`

اس سکول کے خالق روحیل ورنڈ نے کم عمری میں ہی سماجی کام کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔

انھوں نے سنہ 2014 میں ورلڈ سمٹ یوتھ ایوارڈ جیتا اور کامن ویلتھ ینگ ایچیورز لسٹ سنہ 2015 میں بھی ان کا نام شامل ہے۔

روحیل اس سکول کے ذریعے نہ صرف ان بچوں کو مفت تعلیم، کتابیں، سٹیشنری اور کپڑے بھی فراہم کرتے ہیں۔

روحیل کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی فیصل آباد کے ہر سلم سکول کو اسی طرز میں ڈھالیں گے اور شمسی لائٹس اور انتظامات کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

`میرا خواب تو یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں ایسے سکول ہوں لیکن یہ اکیلے میرے بس کا کام نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ اپنے سماجی فرائض کو سمجھیں اور آگے بڑھ کر اس کاوش کو سپورٹ کریں تاکہ ہم پورے ملک میں اسی طرز کے سکول قائم کر کے ان غریب بچوں کو مفت تعلیم دیں اور انھیں معاشرے کا مثبت حصہ بنا سکیں۔`


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

Most of us have seen children roaming around the roads and in streets, some of them begging and some playing without any tensed expressions on their faces because they are at such a young phase of their life that they cannot even realise that they are deprived of even the basic necessities of life. These are the children who are bound to skip their studies and sometimes also have to be the victims of child labour because of the irrecoverable poverty they and their family have been facing.