اسلام اور انسانیت ایک٬ گانے والی اور بوڑھا ذمی

مکہ میں ایک گانے والی ہوا کرتی تھی، جب تک لوگ اس کے گانے سنتے تھے تو اس کے بڑے عیش و آرام تھے، جب سننے والے نہ رہے تو فقر و فاقہ کی نوبت آگئی۔ یہ گانے والی مدینہ میں رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتی ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پوچھتے ہیں : تم تو گانا گاتی تھیں اب یہ فقر و فاقہ کیسے؟ جواب آتا ہے: بدر میں سرداروں کے مارے جانے کے بعد اب کوئی نوازتا ہی نہیں۔ حضور علیہ السلام اپنے رشتہ داروں کو حکم صادر فرماتے ہیں کہ اس کی مدد کرو۔ اور پھر حسب استطاعت اس کی مدد کردی جاتی ہے۔ گانے والی، کافرہ، دشمنوں کی سرزمین سے آئی ہوئی تھی لیکن کوئی بات بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور رحمت میں آڑے نہ آئی۔ رحمۃ للعالمین تھے، صرف رحمۃ للمسلمین تھوڑی تھے۔ فرمایا: ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کو قتل کیئے جانے کے مترادف ہے۔ سورہ مائدہ آیۃ 32

جی ہاں وہاں بھی انسان (نفس) کا ذکر ہے مسلمان یا عیسائی وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ وہ رب العالمین ہے، صرف رب المسلمین تھوڑی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بوڑھے ذمی سے خراج وصول کرنے جاتے ہیں تو وہ رو کر بتاتا ہے کہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، خراج دینا تو دور کی بات! عمر فاروق رو پڑتے ہیں اور اس کا خراج معاف کرکے بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کرتے ہیں۔

وہ بوڑھا مسلمان نہ تھا لیکن انسان تو تھا نا! جو لوگ اسلام اور انسانیت کو الگ الگ ذکر کرتے ہیں وہ نادان ہیں۔ اصل میں مذہبِ اسلام ہی انسانیت ہے۔ اگر دین اسلام اور اس کے نظام پر کما حقہ عمل کیا جائے تو یہی نظام انسانیت کی فلاح کا باعث ہے اور انسانیت کی بہبود کیلیئے اس سے بہتر نظام کوئی اور نہیں۔ مکہ والوں سے شدید تکلیفیں برداشت کرنے اور ہجرت پر مجبور کیئے جانے کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر انسانیت کے ناتے سب کو عام معافی دے دینا۔ اس سے بڑا کوئی سبق انسانیت کا ہوگا؟

اسی رویے نے سب پر یہ بات آشکارا کی کہ اسلام ہی انسانیت کا اصل مسیحا ہے اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہوئے۔ ایک ایک انسان کے پاس صرف اس نیت سے جانا کہ وہ جنت میں چلا جائے اور دوزخ کی تکلیفوں سے بچ جائے۔ یہ بھی انسان دوستی ہی کی مثال ہے۔ اسلام اور انسانیت دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔

YOU MAY ALSO LIKE: