ترکی ڈیمو کریسی سے موازنہ

ترکی اک خوشحال ترین ملک ہے-
اس کی آبادی 8 کروڑ کے لگ بھگ ہے-
فی کس آمدن تقریبا 12000 ڈالر ہے
جبکہ پاکستان کی 20 کروڑ عوام کی فی کس آمدن تقریبا 1500 ڈالر ہے -
اکثریتی طبقہ کی آمدن اس سے بھی کم ہے -
ترکی کا حکمران 100 امیر ترین افراد کی عالمی فہرست میں شامل نہیں -
جبکہ ہمارے سابقہ و موجودہ حکمران سیاست میں آنے سے پہلے تو ان سو افراد کی فہرست میں شامل نا تھے،
لیکن اب ان 100 افراد میں اہم مقام رکھتے ہیں اور 5 امیر پاکستانیوں میں بھی میاں صاحب اور زرداری صاحب شامل ہیں -
اردگان نے اپنی قوم اور حکومت کو امیر سے امیر بنانے کی پالیسی پر کام کیا جس میں 100% کامیابی حاصل کی اور اپنی حکومت و عوام کو امیر اور خوشحال کردیا-
اردگان نے حکومت میں آ کر اپنے کاروبار یا ذاتی کارخانے نہیں بنائے-
ہمارے حکمرانوں نے ذاتی کاروبار کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا جبکہ عوام روز بروز غریب سے غریب تر ہوتی گئی -
اور پاکستانی عوام مزید قرض تلے دب گئی-
ترک کے قومی اثاثوں اور کارخانوں میں اس قدر ترقی ہوئی کہ وہ 120 ارب روپے سالانہ پر پہنچ گئے-
ہماری حکومت قومی اداروں میں خسارے کو نا روک سکی اور پی آئی اے، سٹیل ملز وغیرہ کی تباہی کے بعد نجکاری کرنا پڑی-
ترک حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام قرض اتار دیئے جبکہ الناتر کو ڈونر قرضے دینے والا ملک بنا دیا-
ہماری حکومتوں نے قرضہ بڑھ چڑھ کر لیا -
میاں صاحب اپنی انتخابی مہم کے دوران قرض جیسی لعنت کی مذمت کرتے تھے -
فرمایا کرتے تھے کہ
''اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
کہ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ''
مگر گذشتہ حکومتوں کی طرح میاں صاحب بھی قرض لینے میں سب سے آگے نظر آئے اور گذشتہ حکومتوں کے بھی ریکارڈ توڑ دیے -
پاکستان کو آئی ایم ایف میں گروی رکھوا چھوڑا ہے -
ہر پیدا ہونے والا بچہ تقریبا سوا لاکھ روپیہ قرض سر پر لیے پیدا ہو رہا ہے -
ترک حاکم اردگان کا کوئی بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی گورنر ایم این اے یا وزیر مشیر نہیں ہیں -
ہمارے حکمرانوں کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، بھتیجے سب اہم عہدوں پر فائز کردیے جاتے ہیں اور اربوں کے فنڈز کے انچارج بنا دیے جاتے ہیں -
ترک میں سڑکیں فلائی اوورز بھی بنائے گئے لیکن عالمی معیار کے مطابق پولیس سکول اور ہسپتال بھی بنائے -
ہماری حکومت نے سڑکوں اور فلائی اوورز کو ہی سب کچھ بنایا ہوا ہے جبکہ وہ بھی ملک بھر میں پورے نہیں -
اردگان کے مکمل اثاثے اس کے ملک میں ہیں اور عوام کے علم میں ہیں وہ اس پر پورا ٹیکس دیتا ہے -
ترک صدر ملک کی کسی بھی چھوٹی سی دوکان سے اپنی حیثیت کے مطابق جوتے خرید لیتے ہیں -
جبکہ ہمارے حکمران جوتے خریدنے کے لیے بھی فلائٹ پکڑتے ہیں اور کسی اچھے سے ملک کا رخ کرتے ہیں -
ہمارے حکمرانوں کے اثاثے بیرون ممالک میں ہیں، رقم سوئس بینکوں میں ہے
کسی ملک می فلیٹ تو کسی ملک میں محل خرید رہے ہیں -
ترکی میں چار دفعہ فوجی مارشل لاء لگا ماضی میں کبھی بھی عوام سڑکوں پر نہیں آئی -
مگر اردگان نے اپنی قوم کو اس قدر خوش حال اور ترقی کی راہ پر گامزن کردیا کہ وہ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اردگان کی حکومت بچاتے نظر آئے -
قوم کے کئی افراد نے اپنی جان سے ہاتھ دھو لیے مگر طیب اردگان کی حکومت نا ختم ہونے دی -
موجودہ حکومت نے بھی لاہور میں ترک ڈیموکریسی کی یاد دلانے کے لیے کئی بینرز لگوائے ہیں کہ ہماری عوام کے اندر بھی جمہوریت کو بچانے کا جذبہ پیدا ہو -
مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ یہ لاہور وہی شہر ہے جہاں مشرف کے مارشل لاء کے بعد دوکانوں سے مٹھائی نہیں ملتی تھی -
ہمارے حکمران آج بھی عوام دوست پالیسیاں مرتب کریں ذاتی فائدہ کو پس پشت ڈال کر قوم کے مفاد میں فیصلے کریں تو یہ عوام بھی ترک عوام سے کم جذبہ نہیں رکھتی -
اگر آپ انہی کو لوٹ کر ان ہی سے قربانی کی امید رکھتے ہیں تو یہ آپ کی بیوقوفی ہے -
ہمارے سیاست دان خود ہی جمہوریت کے دشمن ہیں کہ جو جمہوریت کی آڑ میں اس قدر لوٹ مار کرتے ہیں کہ عوام جمہوریت کے نام سے خوف کھانے لگتے ہیں -
یہ جمہوریت واقعی بہت مزے کی چیز ہے اسی لیے تو ہمارے حکمران اس کا رونے روتے ہیں -
مگر ہماری عوام ابھی اس کے ذائقے سے نا آشنا ہے -
ایک دفعہ اس جمہوریت سے عوام کو مضبوط کیجیے پھر عوام کی جمہوریت دوستی دیکھیئیگا-
ایک دفعہ انہیں بھی جمہوریت کا حقیقی مزہ چکھا دو تو یہ عوام بھی جمہوریت کو بچانے میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی -
 

M Raheel Moavia
About the Author: M Raheel Moavia Read More Articles by M Raheel Moavia: 8 Articles with 7055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.