بے قراری سی بے قراری ہے (قسط نمبر ١٢)

بے قراری سی بے قراری ایک سماجی رومانوی و روحانی ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ عبیر جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور اسلامی فیشن میں کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ تیمور درانی جو ایک ملحد ہے جس کے خیال میں محبت اور زندگی بے معنی ہے۔

اس رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ویرانے میں بیٹھی ہوں اور دور دور تک کوئی چیز نہیں ہے۔ آسمان پر کالے بادل ہیں، اور ہوا بالکل ہی بند ہے۔ بادل کسی بھی لمحے برسنے والے تھے۔ میرے پاس بارش سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں تھی۔ میں اس تاحد نگاہ پھیلے ویرانے میں اکیلی تھی۔ میں پریشانی میں مدد کے لیے آوازیں دیتی ہوں لیکن کوئی نہیں آتا۔ تبھی دور ایک ٹیلے کے اوپر ایک بھیڑیا نظر آتا ہے۔ میرا سانس خشک ہو گیا۔
میں یہاں سے کیسے بھاگوں گی۔ وہ بھیڑیا حملہ کرنے کے بجائے، مجھے اداسی سے دیکھنے لگا۔ اسی کے ساتھ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ ہا اللہ یہ مجھے کیسے خواب آ رہے ہیں۔ وہ سب اچھے خواب کہاں گئے؟
کیا باہر کی دنیا سے خوشیاں چلی جائیں تو خوابوں سے بھی خوشیاں چلی جاتی ہیں؟
اگلے تین ہفتے تک میں وہاں جاتی رہی۔ کام مکمل ہو گیا اور کتابیں بھی لگادی گئیں۔ میں نے تو سارا وقت انھی تینوں کو کام کرتے دیکھا۔ ان لوگوں نے بہت محنت کی۔ ہر چیز پرفیکٹ۔ میری انپٹ صرف اتنی تھی کہ اس کمرے سے اداسی، تنہائی اور موت کے بجائے خوشی اور زندگی کا تاثر آئے۔
ایک جیسی چیزوں سے دونوں باتیں کی جا سکتی ہیں۔ میری فنشنگ ٹچ کے بعد جب تیمور درانی نے لائبریری کو دیکھا تو میں نے پہلی بار اس کے چہرے پر ہلکی سی اطمینانیت نظر آئی۔ اگرچہ میں نے اس کی انسٹرکشنز کے برعکس اداسی کے بجائے خوشی کو ایلیمنٹ ڈالا۔
اس شام کافی پر پھر ہماری بات ہوئی۔ یہاں کافی بھی ہر بار مختلف فلیور کی ملتی۔ میں اس کی باتوں سے زیادہ کافی میں دلچسپی لیتی۔ لائبریری کا نرم صوفہ، ہلکی سی لائٹنگ، ساتھ میں کافی، بہت مزہ دیتی۔ مجھے خیالوں سے تیمور درانی کی آواز نے نکالا۔
مس عبیر آپ ہر چیز میں خوشی کا رنگ کیوں بھرنا چاہتی ہیں جبکہ زندگی میں خوشی بہت ناپائیدار سی چیز ہے۔
لاکھ تم جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
کیا یہ میری تعریف کر رہا ہے یا طنز؟
اسے معلوم تھا کہ میں نے لائبریری کی سیٹنگ میں خوشی کا رنگ بھرا ہے۔ پر اس نے اعتراض نہیں کیا۔ اب یہ مجھ سے اس کی وجہ کیوں پوچھ رہا ہے۔
کیا بتاؤں اسے؟
سر میرے خیال سے زندگی اتنی مختصر اور خوبصورت ہے کہ اسے رونے دھونے اور اداسی میں گزارنا ٹھیک نہیں۔ مجھے زیادہ فلسفیانہ باتیں تو نہیں آتیں لیکن میں ایک بات مانتی ہوں۔ کچھ لوگ بہت پرامید ہوتے ہیں۔ وہ ہر بات میں خوبصورتی اور خوشی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ یاسیت پسند ہوتے ہیں جو ہر چیز میں نا امیدی اور اداسی تلاش کرتے ہیں۔ میں نے کس کتاب میں ایک کہانی پڑھی جو مجھے بہت اچھی لگی۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو سنا دیتی ہوں۔
خوشی سے سنائیے۔ میں اتنی جلدی ناراض ہونے والوں میں سے نہیں ہوں۔
امید پرست اور یاسیت پسند
ایک باپ کے دو بیٹے تھے، بڑا بیٹا بہت یاسیت پسند تھا اور چھوٹا بہت پرامید۔ باپ کو بڑے بیٹے سے زیادہ محبت تھی اسی لیے وہ آئے دن اسے تحفے دیتا رہتا۔ ایک دن باپ نے دونوں بیٹوں کو مختلف تحفے دیے۔ اس نے بڑے بیٹے کو ایک بہت مہنگی گھڑی اور سوٹ بھیجا۔ جبکہ چھوٹے بیٹے کے کمرے کو اس نے گھوڑے کی لد سے بھروادیا۔
شام کو جب باپ گھر آیا تو بڑے بیٹے کو بہت ہی اداس اور مایوس دیکھا۔ گھڑی اور سوٹ اس کے سامنے پڑے تھے۔ باپ نے مایوسی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، مجھے ہمیشہ سے ایسے تحفے ملتے ہیں جو مجھے پسند نہیں ہوتے۔ اب نہ تو سوٹ کا کلر مجھے پسند ہے اور گھڑی میرے ہاتھ میں چبھتی ہے۔ میری قسمت ہی پھوٹی ہے جو میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ یہ کہہ کروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ باپ نے اسے تسلی دی کہ وہ اگلی بار اس کی پسند کے تحفے بھیجے گا۔
وہاں سے اٹھ کر وہ چھوٹے بیٹے کے پاس گیا۔ وہ کدال لے کر لد کے اندر گھسا ایکسائیٹمنٹ کے ساتھ کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باپ نے اس کی خوشی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ گھو ڑے کی اتنی ساری لد ہے تو اس میں کہیں کوئی گھوڑے بھی تو ہونا چاہیے۔
میں کہانی ختم کر کے خود ہی کھلا کھلا کر ہنس پڑی۔ میں جب بھی یہ کہانی سناتی ہوں میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا ہے۔ تیمور درانی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی جیسے وہ بھی اس کہانی کو سن کر محظوظ ہوا ہو۔ اس نے اس کہانی کے جواب میں کوئی بات نہ کی۔
میں تیمور درانی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ اس کی پروفیشنل لائف سے باہر کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ آخر اس کی کہانی کیا ہے۔ اس نے شادی کی کہ نہیں؟اس کے بچے کتنے ہیں؟ اس کی فیملی میں اور کون کون ہے؟ اتنی چھوٹی عمر میں اس نے سارا کچھ کیسے بنا لیا۔
تیمور صاحب آپ کے بیوی بچے کہاں ہوتے ہیں؟ میں نے بھی ڈائریکٹ سوال داغ دیا۔
اس نے ہلکہ سا چونک کر مجھے دیکھا، میں نے شادی نہیں کی؟
میرے اندر اتنی ہمت نہ ہوئی کہ پوچھتی کیوں نہیں کی۔ وہ خود بھی بول پڑا۔
شادی ایک ایگریمنٹ اور سماجی ضرورت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شادی صرف سماجی اور معاشی طور پر مجبور لوگ ہی کرتے ہیں۔
اللہ کتنی فضول باتیں کرتا ہے۔ اس جیسے بندے کے ساتھ کوئی لڑکی کیسے رہے گی؟ محبت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پیار، محبت اور عشق سب قدرت کا بنایا کھیل ہے جس سے وہ لوگوں کو بیوقوف بناتی ہے۔ ان لفظوں کے پیچھے کچھ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت بھی یہی ہے کہ شادی کے بعد یہ بھاپ کی طرح اڑ جاتی ہے۔
عجیب خیالات ہیں اس کے۔ یقیناً کوئی ذہنی مسئلہ ہو گا۔ جسے محبت ہوئی نہ ہو وہ کیا جانے محبت کیا ہوتی ہے۔
مسٹر تیمور آپ یہ بات اس لیے تو نہیں کر رہے کہ آپ کو کبھی محبت نہیں ہوئی؟
اس نے چونک کر میری طرف دیکھا جیسے اسے ہلکہ سا نشتر چبھا ہو۔
اچھا تو یہ بھی ناکام محبت کا ڈسا ہوا ہے۔
نہیں مجھے کبھی محبت نہیں ہوئی اور نہ ہی میں کبھی محبت کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بار اس کے لہجے میں ہلکا سا غصہ نظر آیا۔
میں ڈر کے مارے خاموش ہو گئی اور مزید سوال کرنے سے گریز کیا۔
اسی لمحے لائبریری کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ وہ بڑی ادا سے چلتی ہوئی آ کر تیمور درانی کے صوفے کے بازو پر بیٹھ گئی۔ اس کا انداز میں ایسی بے تکلفی تھی جسے میں کوئی نام نہیں دے پائی۔ میرے صوفے کی بیک دروازے کی جانب ہونے کی وجہ سے باہر سے آنے والا پہلی نظر میں یہ نہیں جان پاتا کہ صوفے پر کوئی بیٹھا ہے۔ اس لڑکی نے جب مجھے دیکھا تو اس کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اٹھ کر جانے لگی۔ تیمور درانی نے اسے روک دیا اور سامنے صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔ وہ خوبصورت لڑکی شرمندگی سے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بہت شرمندگی سے کہا۔ ۔ وہ آپ نے پانچ بجے کا ٹائم دیا تھا تو۔۔ میں سمجھی آپ ہمیشہ کی طرح اکیلے ہوں گے۔ آئی ایم سوری۔ ۔
اس لڑکی کا حسن اور ڈریسنگ دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی۔ لیکن اس کے انداز میں کچھ عجیب سی بات تھی۔
جیسے وہ عام لڑکی نہ ہو، کوئی چیز ٹھیک نہیں تھی۔
یہ میری دوست فائقہ ہے۔
میں صرف ہیلو کہہ کر خاموش ہو گئی۔ پہلی بار تیمور درانی کی کسی دوست کا پتہ چلا تو مجھے دلچسپی ہوئی۔ مگر اس لڑکی کے انداز میں دوستی والی کوئی بات محسوس نہیں ہوئی۔
میں جلدی جلدی رخصت لے کر واپس گھر آ گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلے ہفتے میرا تیمور درانی سے کوئی ٹاکرا نہ ہوا۔ میں نے سکون کا سانس لیا کہ اب کوئی ایکسٹرا فیور نہیں ہو گی۔
میں اب گھر آ کر بالکل بور ہوتی۔ نہ ہی عمارہ سے بات ہوتی اور کاشف بھی بس تین چار دن کے بعد ٹائم دیتا۔ کہتا روز 18 گھنٹے کام کرتا ہوں اسی لیے سوائے سونے کے اسے کوئی ٹائم نہیں ملتا۔
اماں کی عدت ختم ہو گئی، پھر بھی غم ان کی آنکھوں سے ٹپکتا رہتا۔ میں خود کو کتابیں پڑھنے اور کھانا بنانے میں مصروف رکھتی۔ کھانا میں بہت اچھا بناتی ہوں اور یہ اماں سے ہی سیکھا تھا۔ ان کے ہاتھ میں ایک ٹیسٹ ہے جو صرف خلوص اور محبت سے آ سکتا ہے۔ انھیں لوگوں کو کھانا کھلانے کا شوق تھا۔ ابا کے سارے دوست بھی بہانے بہانے سے ہمارے گھر کھانا کھانے آتے تھے
اماں کی کچھ تو خاندانی ڈشیں ہیں جو انھوں نے مجھے سکھائیں۔ بریانی بنانے کی خاص ریسیپی انھوں نے مجھے کافی عرصہ بعد سکھائی۔
میں کھانوں کے ساتھ ایکسپیریمنٹ کرتی رہتی تھی۔ میرا کنسرن صرف ٹیسٹ سے ہوتا۔ جہاں سے اور جیسے بھی ملے۔ میں زیادہ تو نہیں کھاتی پر مختلف طرح کے چیزیں ٹرائی کرتی رہتی۔ شگفتہ اور عمارہ دونوں ہی ڈائیٹ کانشیس تھیں اسی لیے بہت ہی کم کھاتیں۔ پھر بھی ان پر ویٹ چڑھ جاتا۔ وہ مجھے حسد سے دیکھتی کہ اتنا کھانے کے باوجود مجھ پر ویٹ کیوں نہیں چڑھتا۔ شاید میرا میٹابولزم کافی تیز تھا۔
خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ مجھے تیمور درانی کے کے ساتھ اس دن والی ڈسکشن یاد آنے لگی۔
عجیب آدمی ہے محبت کو فراڈ سمجھتا ہے اور شادی کو ایکمجبوری۔ اوپر سے خد اکو نہیں مانتا۔
لوگ کہتے ہیں خدا کو نہ ماننے والے کو دنیا میں چھوٹ ملتی ہے۔ لیکن تیمور درانی کو دیکھ کر لگتا ہے اسے اس دنیا میں ہی تنہائی اور اداسی کی سزا مل گئی تھی۔
میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں؟۔ میرے لیے اس کی کیا حیثیت ہے؟ میں اسے ابھی تک سمجھ نہیں سکی۔ اس کی یہ مسٹری مجھے چبھتی تھی۔ میرے اندر ایک فضول سی خواہش اٹھتی کہ جانوں تو سہی سنجیدگی، تنہائی اور اداسی کے خول کے نیچے کیا کہانی ہے۔
اس کی اندر کے جانور والی بات کے پیچھے کیا ہے؟ کیا واقعی میرے اندر کوئی خاص بات ہے۔
وہ لڑکی فائقہ کون ہے؟ کیا وہ تیمور درانی کی گرل فرینڈ ہے یا ہونے والی بیوی؟ وہ لڑکی تو کسی ملاذمہ کی طرح بے ہیو کر رہی تھی۔ گرل فرینڈ تو ایسی نہیں ہوتیں۔ میں اپنے ہی سٹوپڈ سی سوچوں میں ڈوبتی نہ جانے کس وقت سو گئی۔
اگلے دن میں اور شفگتہ شاپنگ کے لیے چلے گئے جو کئی دنوں سے ملتوی ہوتی جا رہی تھی۔ شاپنگ پر تو ہم لڑکیاں یوں نکلتی ہیں جیسے شیرنیاں شکار کے لیے۔ کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ خریدنے سے زیادہ ونڈو شاپنگ پر زور ہوتا ہے۔ ایک سوٹ لینے کے لیے دس برینڈز کی شاپس پر جاتی ہیں۔ شگفتہ کو تو ہر چیز پرفیکٹ چاہیے، فیشن ڈیزائنر میں تھی۔ پر خریدنے میں جتنی باریکی وہ دکھاتی توبہ ہے۔ شاپنگ کے دوران اپنے بالوں کی سیٹنگ اور ڈائی کروا نے کے لیے ہم پارلر بھی چلے گئے۔ میں اپنی باری کے بعد شگفتہ کا ویٹ کرنے لگی۔ اسی دوران ایک لڑکی ایک لڑکے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے وہاں آئی۔ صاف دکھ رہا تھا کہ دونوں بہت قریبی ہیں۔ لڑکا اس لڑکی کو پارلر کے باہر چھوڑ کر چلا گیا۔
میں چونک گئی، وہ فائقہ تھی۔
مجھے بہت حیرانی ہوئی، کل یہ تیمور درانی کے ساتھ ایسے بے تکلف تھی آج کسی اور کے ساتھ؟ وہ بے دھیانی سے میرے ساتھ آ کر بیٹھی۔
ہائے فائقہ ہاؤ آر یو۔
وہ فوراً ہی مجھے پہچان گئی۔
اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ میں اسے دوسرے لڑکے کے ساتھ دیکھ چکی ہوں۔
او ہائے، آئی ایم فائن۔ سوری فور یسٹرڈئز مس انڈرسٹینڈنگ۔
ڈونٹ وری میں نے بالکل بھی مائنڈ نہیں کیا۔ میں بھی بس جانے ہی والی تھی۔ در اصل وہ لائبریری کی انٹیرئر ڈیزائننگ میں نے ہی کی ہے۔
میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں تیمور درانی کے آفس میں جاب کرتی ہوں۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر میں نے اس سے وہ بات پوچھ لی جو میرے دل میں چبھ رہی تھی۔
آپ تیمور صاحب کو کب سے جانتی ہیں؟ اس سے میری مراد یہی تھی کہ وہ کب سے تیمور درانی کی گرل فرینڈ ہے۔
وہ تھوڑی گھبرائی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
میں نے اسے تسلی دی، دیکھیں میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کیوں کہ جتنا میرا ان سے رابطہ ہوا ہے وہ مجھے بہت ہی تنہا اور اداس شخص لگتے ہیں۔ آپ ان کی دوست ہیں تو آپ بتائیں ایسے کیوں ہیں۔
وہ میرے سوال پر بہت ان کمفرٹیبل محسوس کرنے لگی، جیسے میں نے کوئی عجیب سی بات پوچھی ہو۔
دیکھیں آپ وعدہ کریں آپ تیمور درانی کو یہ نہیں بتائیں گی کہ آپ نے مجھے فرحان کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس کے لہجے میں شدید پریشانی تھی۔
میں نے اسے تسلی دی، آپ بے فکر رہیں آپ کی اور تیمور صاحب کی ذاتی زندگی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔
در اصل میں ان کی دوست نہیں ہوں، اس نے ہلکی سی شرمندگی سے کہا۔
کیا!!! میں چونک گئی۔
لیکن۔ تیمور صاحب نے تو یہی کہا کہ آپ ان کی گرل فرینڈ۔۔ سوری آئی مین۔ ان کی فرینڈ ہیں۔
نہیں۔۔ ایسی بات نہیں ہے۔۔ در اصل۔۔ میں وہاں کسی اور کام سے جاتی ہوں۔ یہ کہہ کرا س نے شرم سے سر جھکا لیا۔
مجھے جب بات سمجھ آئی میں فوراً سمٹ گئی۔۔
اچھا!!! اب سمجھ آئی کہ یہ خوبصورت لڑکی کون ہے اور وہاں کیا کرنے جاتی ہے۔ یعنی تیمور درانی اتنا غلیظ شخص ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے ردعمل کو دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں میں تھوڑی سی اداسی آئی۔ دیکھیے وعدہ کریں کہ آپ کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کریں گی کہ آپ نے مجھے اس گھر میں دیکھا ہے یا میں وہاں کیا کرنے جاتی ہوں۔ فائقہ نے منت کرتے ہوئے کہا۔
میں نے اسے تسلی دی کہ میں ایسا نہیں کروں گی۔ تبھی اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔
فائقہ کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا، اس کے فادر ایک بینکر تھے اور مدر ہاؤس وائف۔ فائقہ کی ایجوکیشن ساری اچھے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ہوئی۔ وہ دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ باقی سب بہن بھائی اس سے چھوٹے تھے۔ فائقہ کے والد بینک میں ایک اچھے سکیل پر تھے جس کی وجہ سے ان کا لائف سٹائل بھی کافی اچھا تھا۔ فائقہ نے اکونومکس میں ماسٹر کیا اور پرائیویٹ اینویسٹمنٹ کپمنی کو جوائن کر لیا۔ اسی دوران اس کے فادر پر کرپشن کا الزام لگا اور ساری جائداد اور اثاثے ضبط ہو گئے۔ گھر کیوں کہ والدہ کے نام تھا اسی لیے بچ گیا۔ گھر کی آمدن یکدم صفر پر آ گئی۔ سب بہن بھائیوں کی عادتیں بگڑ چکی تھیں۔ خود فائقہ کی تنخواہ تو اس کے سوٹوں اور پارٹیز میں ہی نکل جاتی۔ وہ تو اپنی تنخواہ سے زیادہ پیسے اپنے فادر سے لیتی تھی۔
اسی دوران فادر کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسے۔ بھائی، ماں پر زور ڈالنے لگے کہ مکان بیچ کر انھیں پیسے دیے جائیں تاکہ وہ بزنس کر سکیں۔ ماں نے بیٹوں کی ضد کے سامنے ہار مان لی۔ بیٹوں کو اپنے بارے میں شدید قسم کی خوش فہمی تھی کہ ایک بار ان کے ہاتھ میں پیسے آئے تو وہ بہت کامیاب بزنس مین بن جائیں گے۔ کچھ ہی مہینوں میں بعد بزنس میں نقصان کے بعد سارے پیسے ہوا میں اڑ گئے۔ پوراخاندان سڑک پر آ گیا۔ ماں نے ناکامی کا ذمہ دار بچوں کو ٹھہرایا۔ بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ کرائے کا مکان روزانہ میدان جنگ بنا ہوتا۔ کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھا۔
فائقہ اس صورتحال میں گھر چھوڑ کر اپنی ایک سہیلی کے ہاں رہنے چلی گئی۔ دونوں کو ہائی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کی عادت پڑ چکی تھی۔ یہ ایسی لت ہے کہ چھڑائے نہیں چھٹتی۔ اسے ہائی برینڈ کے کپڑے، جوتے، پرس، موبائل، پارلر، جم، اور ہوٹلنگ کرنا ہوتی۔ اس کی تنخواہ میں کچھ بھی نہ ہوپاتا۔ تب اس کی سہیلی نے اسے وہ راستہ دکھایا جس پر وہ خود چل رہی تھی۔ ہائی سوسائٹی میں ایسی کئی لڑکیوں کی ڈیمانڈ ہے جو پڑھی لکھی اور ویل مینرڈ ہوں۔ جو اچھے گھروں سے ہوں، ایک اچھی کمپنی دینے والی ہوں۔ آہستہ آہستہ ایسی لڑکیوں کے بارے میں شوقین مزاج لوگوں کو پتا چل جاتا ہے۔ انھیں بلانے والے انھیں جسم فروش نہیں سمجھتے بلکہ ایک اچھی کمپنی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کا وہ مقام نہیں ہوتا جو عام جسم فروشوں کا ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک پارٹی میں اس کی ملاقات تیمور درانی سے ہوئی۔ اس کا رویہ باقی لوگوں سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں اس نے ایک دن اسے اپنے گھر بلایا۔
وہ دیر تک اس سے گپ شپ کرتا رہا جیسے جاننے کی کوشش کر رہا ہو کہ وہ کیسی لڑکی ہے۔ اس نے فائقہ سے کہا کہ اسے اس کی اندر ایک خاص بات نظر آئی ہے۔ اس نے آفر کی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ جایا کرے۔ اسے جتنے پیسے کماتی ہے وہ اس سے لے لیا کرے۔ فائقہ نے یہ آفر قبول کر لی۔ اب وہ صرف اس کے پاس ہی جاتی تھی۔
تیمور بہت ہی مختلف قسم کہ انسان ہیں۔ میں نے ایسے لوگ بہت کم دیکھے ہیں۔ انھیں سمجھنا نا ممکن ہے۔ انھیں لڑکیوں میں وہ انٹرسٹ نہیں ہے جو باقی لوگوں کو ہوتا ہے۔ انھیں کسی اور ہی چیز کی تلاش ہے۔ مجھے کہتے ہیں کہ تمھارے اندر ایک مورنی ہے۔ بھلا بتاؤ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ پھر بھی جتنے پیسے وہ مجھے دے دیتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی۔ ایسے۔ جیسے ان کے نزدیک پیسے کی ویلیو ہی نہ ہو۔
جو کام وہ کروا تے ہیں وہ بھی عجیب ہیں۔ کبھی کبھی مجھے سامنے بٹھا کر بس دیکھتے رہتے ہیں۔ میرے چہرے میں شاید کسی کا چہرہ تلاش کرتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتی تھی کہ شاید صرف میں ہی واحد لڑکی ہوں۔ پھر پتا چلا کہ ماضی میں میری جیسی کئی تھیں، اب نہ جانے مجھے کب چھوڑ دیں۔ اسی لیے میں جلد از جلد شادی کر کے سیٹل ہونا چاہتی ہوں۔ مجھے بھی تیمور درانی سے محبت ہوتی جا رہی ہے۔ پر میں جانتی ہوں یہ ممکن نہیں۔
تیمور نے مجھے وارن کیا کہ میں اس کے علاوہ کسی سے نہیں ملوں گی۔ پر میں لالچ میں آ گئی۔ اگر تیمور کو پتا چلا تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔ پلیز آپ تیمور سے کچھ ذکر نہ کریں۔۔
فائقہ آپ بے فکر رہیں، آپ کا راز میرے سینے میں دفن ہے۔
اس کے چہرے پر ہلکا سا اطمینان آیا، مگر شک کے بادل بھی چھائے رہے۔
کیا آپ بھی تیمور صاحب کے ساتھ۔ ۔ ۔۔
مجھ پر یکدم ایک بجلی گری۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ اللہ نہ کرے۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہو، میں تو صرف انٹیرئر ڈیزائنز ہوں میرا تیمور صاحب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مجھے بہت ہی شرم آئی۔ ایک ایسی لڑکی میرے بارے میں ایسا سوچ رہی تھی۔ مجھے اب تیمور درانی کے گھر جانے سے ڈر لگنے لگا۔ یا اللہ وہ مجھے آئندہ نہ بلائے۔
پر وہ لڑکیوں سے ایسے کیا کام کروا تا ہے جو باقی لوگ نہیں کروا تے۔ کہیں اسے باندھ کر مارتا تو نہیں ہے۔ ہائے اللہ۔
ایسے لوگ سیڈیسٹ ہوتے ہیں جنھیں لوگوں کو اذیت دینے میں مزہ آتا ہے۔ اس نے تو کہا تھا کہ کچھ عرصہ بعد کسی چیز میں مزہ نہیں رہتا۔
یہ شخص بھی عجیب ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمارے حالات بہتر ہونے لگے۔ امی کو اب میری شادی کی فکر بھی رہتی۔ انھوں نے شمائلہ کے ہاں کئی بار چکر لگائے۔ ہر بار واپسی پر ان کے چہرے پر ایک پریشانی ہوتی جس کا وہ ذکر نہ کرتیں۔ مجھے نہیں معلوم امی کیا چھپا رہی ہیں۔
ویک اینڈ پر کاشف کی کال آتی تو میں جیسے زندہ ہو جاتی۔ کبھی کبھی تو رو بھی پڑ تی۔ مجھ پر اتنی ساری مشکلیں آئیں اور وہ مجھ سے دور تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتا کہ مجھے تسلی دے سکے۔ اس کی زیادہ تر باتیں اپنی ٹریننگ کے متعلق ہوتیں۔ اب وہ امریکہ میں نیا بزنس کرنے کی باتیں کرنے لگا۔
عبیر پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، یہاں نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی مواقع۔ کامیابی کے لیے الٹے حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ امریکہ میں مسلم کمیونٹی بھی بہت اچھی ہے۔ یہ لوگ پاکستانیوں سے زیادہ پکے مسلمان ہیں۔ میں تمھیں بھی اپنے ساتھ امریکہ لے جاؤں گا۔
میں پہلے تو خوش ہوئی، پھر گھر والوں کی فکر ہوئی، ان کا کیا بنے گا؟
شگفتہ کو ان دنوں ڈرائیونگ سیکھنے کا شوق پڑ گیا، میں نے اسے کہا کہ کسی ڈرائیونگ سکول میں جائے اورمیری طرح لائسینس لے۔ ابا نے مجھے بھی گاڑی اسی وقت چلانے دی جب میں نے لائسنس لے لیا۔ مگر شگفتہ کو جلدی پڑی تھی، کہتی، میں بھی کچھ دن یونیورسٹی میں گاڑی چلا کر جانا چاہتی ہوں۔ اس نئی نسل کے شوق بھی عجیب ہیں۔ اب گاڑی چلا کر جانے میں کونسی بڑائی ہے۔ میں بھی تو روز جاتی ہوں ایک عذاب ہی لگتا ہے۔ گھنٹا پورا ٹریفک میں پھنسے رہو۔
اس کی ضد کے سامنے ہار مانتے ہوئے میں اور وہ ہر دوسرے دن گاڑی سیکھنے جاتے۔ اس کا شوق اتنا زیادہ تھا کہ دو ہفتوں میں ہی سڑک پر گاڑی چلانا شروع کر دی۔ اس کی گرپ ابھی اتنی اچھی نہیں تھی۔ اوپر سے اسے تیز گاڑی چلاناپسند تھا۔ میں اسے کہتی ہوں کہ ذرا احتیاط کیا کرے۔ پر وہ باز نہیں آتی۔ بہر حال میں نے اس سے کہا ہے کہ جب تک وہ ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنواتی میں اسے یونیورسٹی گاڑی لے کر جانے نہیں دوں گی۔ خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہو گیا تو مصیبت ہی پڑ جائے گی۔
آفس میں میری ٹریننگ ختم ہوتے ہی مجھے انڈیپینڈنٹ کام اسائن کر دیا گیا۔ اگلے ایک سال میں ہم نے ڈیزائنز فائنل کر کے مارکیٹ میں لانچ کرنے تھے۔ یہ کام بھی بس کہنے سننے میں ہی آسان تھا۔ میں جیسے جیسے اس کے اندر گھستی گئی مجھے احساس ہوا ہمارا اسلامی فیشن کا بزنس کھولنے کا پلان واقعی بہت بچکانہ تھا۔ جس لیول کی مہار ت، ٹیم ورک اور پیسہ چاہیے وہ ہم سے کبھی بھی مینج نہ ہوپاتا۔ میں نے اپنے پرانے ڈیزائنز کو امپرو کرنا شروع کیا۔۔ میری ساری انرجی اسی کام میں لگنے لگی۔
میں بھی ایک آرٹسٹ کی طرح کمرے میں گھسی بیٹھی ہوتی۔
ایک ایک پیٹرن کی چالیس چالیس موڈیفیکیشنز بنانا پڑتیں۔ اب تو سافٹ وئیر بھی بہت آ گئے ہیں۔ مگرسافٹ وئیر بھی اسی بندے کو ہیلپ کرتا ہے جسے پہلے سے کچھ کرنا آتا ہو۔
یہ بات نہیں ہے کہ میں تیمور درانی یا اس کی کمپنی کے لیے یہ کر رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے آپ کو ایکسپریس کرنےک آزادی ملی تھی، جسے میں کھونا نہیں چاہتی تھی۔ پیسہ بہت ضروری ہے، پر مجھے پیسے سے زیادہ خوبصورتی سے دلچسپی تھی۔ ایلف میرے کام میں بہت دلچسپی لیتیں۔ اگرچہ میرا کام ابھی بہت ہی رف تھا۔ اس میں کافی امپرومنٹ کی ضرورت تھی۔ پھر بھی مجھے ریکیگنیشن مل رہی تھی۔
ایلف نے اپنے کمرے کو اپنی بیٹی کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ ان کی بیٹی میری ہم عمر ہو گی۔ کہتی ہیں میں اس وقت صرف بائیس سال کی تھی جب میری بیٹی پیدا ہوئی۔ ان دنوں میں اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ چکی تھی۔ میرا بوائے فرینڈ بھی مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ شادی کے بجائے بیٹی کا تحفہ دے گیا۔ بے روزگاری اور جذباتی صدموں کی وجہ سے میری صحت بھی کافی خراب ہو گئی۔ ایک موقع پر میں نے خود کشی کا بھی سوچا۔
جس دن میری بیٹی پیدا ہوئی مجھے محسوس ہوا کہ ساری دنیا کی خوشیاں مجھے مل گئیں ہیں۔ اس کو سینے سے لگاتے ہی میری ساری بے چینی دور ہو گئی۔ مجھے اپنی صحت، بے روزگاری اور بوائے فرینڈ کی بے وفائی کا غم بھی بھول گیا۔ میں نے اپنی بیٹی کے لیے خود کو زندہ رکھا۔ ان کی بیٹی کا نام آسیہ تھا۔ ان کے شوہر نے بھی ان کی بیٹی کو قبول کر لیا۔ ان دنوں وہ آرٹیکٹ کی ڈگری لینے کے بعد اپنے باپ کے ساتھ کام کر رہی تھی۔
مجھے تیمور درانی کے خیال سے ہی وحشت ہوتی۔ اس شخص کو کسی قسم کی اخلاقیات کا پاس نہیں۔ اس شخص سے کچھ بعید نہیں جو شادی جیسے پاکیزہ رشتے کو مجبوری اور محبت جیسے انمول جذبے کو ڈرامہ سمجھتا ہو۔ اوپر سے عورتوں کو کھلونوں کی طرح استعمال بھی کرتا ہو۔
لڑکیوں کے اندر مورنیاں، ہرنیاں، اور شیرنیاں ڈھونڈتا ہو۔ اسے چاہیے کہ کسی سائیکالوجسٹ سے اپنا علاج کروا ئے۔ اللہ کرے وہ کبھی مجھے دوبارہ اپنے گھر کسی کام سے نہ بلوائے۔۔
کچھ دن بعد تیمور درانی غیر متوقع طور پر آفس آ گیا۔ مجھے اس بات کا پتہ اس وقت چلا، جب اس نے مجھے آفس میں بلایا۔ میں ہمیشہ کی طرح ڈری ڈری اس کے آفس میں گئی۔ یقیناً اب کوئی نیا حکم ملنے والا ہے۔
مس عبیر ہم تھوڑی دیر میں ایک اہم میٹنگ میں جا رہے ہیں۔
میں نے اس سے تفصیل پوچھنا چاہی جو اس نے سرسری سی بتائی۔
مجھے توقع تھی کہ ایلف یا کوئی اور سینئر ساتھ ہو گا۔ مگر میرے اور تیمور درانی کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ وہ مجھے اپنی پراڈو گاڑی میں بٹھا کر چل پڑا۔ میٹنگ کسی فارن انویسٹر کے ساتھ ہوئی۔ وہ ہمارے پروجیکٹ میں کچھ انویسٹ کرنا چاہ رہا تھا۔ زیادہ تر باتیں ان دونوں کے درمیاں فائنانس کے ایشوز پر ہوئیں۔ میں نے کچھ ٹیکنیکل باتیں کہیں۔ میں یہی سوچتی رہی کہ تیمور درانی مجھے اس میٹنگ میں کیوں لایا ہے۔ وہ خود یا کوئی سینئر یہ کام زیادہ بہتر انداز سے کرتا۔
میں پوری میٹنگ میں تیمور درانی کو نوٹ کرتی رہی، وہ جو بھی بات کرتا اتنے اعتماد سے کرتا کہ اگلے بندے کو یقین ہو جاتا۔ اس نے کسی موقع پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ اسے اس انویسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس نے اگلے بندے کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ورنہ عموماًہمارے ہاں لوگ فارنرز کو دیکھ کر بچھے چلے جاتے ہیں۔ میٹنگ ختم ہونے تک اس فارنر کے چہرے سے لگا، وہ مطمئن ہے۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی میں ریلیکس ہو گئی کہ میری طرف سے کوئی بلنڈر نہیں ہوا۔۔
میں نے میٹنگ کے دوران سرو کی گئی کافی اور سنیکس کو خوب انجوائے کیا۔ میٹنگ دو تین گھنٹے سے زیادہ چلی۔ میٹنگ ختم ہونے تک میں سیدھا بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی تیمور درانی نے وہیں کھانا کھانے کا ارادہ کیا اور میں رسماً منع کرتی رہ گئی۔
اب مجھے تو فائیو سٹار میں آرڈر کا کوئی ایکسپیرنس نہیں ہے، تیمور درانی نے اپنے لیے روسٹ بطخ منگوائی تو میں نے سوچا میں بھی چکھوں، کیسی ہوتی ہے۔
مجھے آرڈر کرتے ہوئے ایمبیرسمنٹ ہوئی۔ جانے وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا کہ اس کے آرڈر کی کاپی کر رہی ہوں۔ اسی لیے میں نے چکن سٹیک منگوالیا۔ ہیں تو ہم بھی مڈل کلاسیے، کوئی سہیلی ساتھ ہوتی تو ہم دونوں چیزیں ہی ٹیسٹ کر لیتیں۔ اب میں تیمور درانی کو تو یہ نہیں کہہ سکتی: سر تھوڑی بطخ ٹیسٹ کرنے دیں۔
میں نے سٹیک پہلے بھی کھایا تھا لیکن یہاں کے سٹیک کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ اب مجھے لوگوں کے سامنے برقع میں کھانا کھانے کی پریکٹس بھی کافی ہو گئی تھی۔ اسی لیے مجھے کچھ آکورڈ نہیں لگا۔ باقیوں کو لگتا ہے تو لگتا رہے۔
ایک ایک لقمے پر میری منہ میں ٹیسٹ بھرنے لگا۔ میں للچائی ہوئی نظروں سے روسٹڈ بطخ کو بھی دیکھ لیتی۔ کرسپی کرسپی اور خوشبو ایسی کہ چھین کے کھالو۔ میں نے بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کیا۔ میری کیفیت کو تیمور درانی بھانپ گیا۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا: مس عبیر یہ بطخ ٹرائی کریں بہت ٹیسٹی ہے۔
میں شرم سے لال ہو گئی۔ ۔
ہماری بڑی مائیاں ٹھیک کہتی تھیں: عورتوں کو مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھانا چاہیے۔
وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔ خیر اس کے بے حد اصرار پر میں نے تھوڑی سی چکھ لی۔
واؤ کیا ٹیسٹ تھا۔ میں کاشف کے ساتھ یہاں ضرور آؤں گی۔
کھانے پر انسان ویسے ہی تھوڑا ریلیکس ہوتا ہے اسی لیے میں نے بہانے بہانے سے تیمور درانی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
وہ بھی بہت چالاک نکلا اس نے اپنی تعلیم اور خاندان کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ جنرل سی باتیں کرتا رہا جو کتابوں میں بھی مل جائیں گی۔ وہ کسی طرح بھی اپنے بارے میں کوئی کلیو نہیں دے رہا تھا۔ مجھے تو انٹرسٹ ہے کہ اس کا بچپن کہاں گزرا، اس کو کیسے تجربے ہوئے جس کے نتیجے میں ایسا بن گیا۔ کافی کوششوں کے بعد میں نے ہار مان لی تو اس نے اپنے مخصوص انداز سے کہا کہ مس عبیر آپ میری شخصیت اور میرے ماضی کے بارے میں کیوں جاننا چاہتی ہیں؟
میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا، یعنی میں
آدیکھ لے شخص میرے اندر بھی کچھ نہیں
میں گڑبڑا گئی، وہ بیوقوف نہیں تھا۔
مجھے سے کوئی اچھا جواب نہ بن پایا۔ میں تو یہی سمجھی کہ کھانے کی میز پر لوگ ریلیکس ہو کر اپنے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے انداز میں کوئی ناراضگی نظر نہ آئی۔
مس عبیر کچھ چیزوں کا نہ جاننا ہی بہتر ہوتا ہے۔
سوری سر! اگر آپ کو برا لگا۔ میں تو بس آپ کی انوکھی شخصیت اور انوکھے خیالات کو سمجھنا چاہتی تھی۔ شاید آپ کی اتنی کامیابی کی سمجھ آ سکے۔
اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ چلیں فرض کریں میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں، بدلے میں آپ مجھے کیا دے سکتی ہیں؟؟
میں گڑبڑاگئی۔ میں اسے کیا دے سکتی ہوں؟
کیا آپ بدلے میں اپنا چہرہ دکھا سکتی ہیں؟ اس نے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
اپنا چہرہ !۔ میں۔۔ میں کیسے دکھا سکتی ہوں۔
بات تو ایک ہی ہے مس عبیر آپ مجھ سے میری شخصیت اور ماضی پر اسے نقاب اٹھانے کا کہہ رہی ہیں۔ یعنی آپ بھی میرا اصل چہرہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ اگر یہی چیز میں آپ سے ایکسپیکٹ کروں تو۔ ۔ حیرانگی کیسی؟
مجھ سے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔ میری مشکل کو اس نے خود آسان کیا۔
ٹھیک ہے مس عبیر میں آپ کو آپ کے چہرے کا نقاب اٹھانے کا نہیں کہتا کیوں کہ آپ نے اپنی دادی سے وعدہ لیا ہے۔ پر آپ کی نیچر کو ضرور ڈسکور کرنا چاہوں گا۔
میں چونکی، کیا مطلب میری نیچر؟
جیسے میری شخصیت اور ماضی کے بارے میں جاننا آپ کی دلچسپی ہے اسی طرح آپ کے اندر کے جانور یا نیچر کے بارے میں جاننا میری دلچسپی ہے۔
اوہ میرے خدا یہ پھر میرے اندر شیرنی، ہرنی یا مورنی تو نہیں ڈھونڈنے کا سوچ رہا۔ اس شخص کو واقعی کو سیریس مسئلہ ہے۔ ایسے لوگ سائیکوپاتھ ہوتے ہیں، کیا پتہ کسی دن میری بھی بوری بند لاش کہیں سے ملے۔
مس عبیر میں کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ آغاز آپ نے کیا تھا اسی لیے میں نے کہہ دیا۔
تواس کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا؟ میں نے ہلکی سی پریشانی سے کہا
کچھ خاص نہیں، بس کچھ وقت ساتھ بتانا پڑے گا جس میں آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
شکوک کے سانپ سر اٹھانے لگے۔ کیا کروں؟ اس کی بات مانوں یا نہ مانوں؟
مجھے ایسی کسی مشکوک حرکت میں نہیں پڑنا چاہیے۔
مجھے نہیں جاننا تیمور درانی کے بارے میں۔

گوہر شہوار
About the Author: گوہر شہوار Read More Articles by گوہر شہوار: 23 Articles with 29088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.