مشکلات ترقی کا زینہ ہیں !

دور حاضر میں بڑھتے ہوئے وسائل کے ساتھ ساتھ روز نت نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں ۔آج کے دور میں مسائل ہی نہیں بلکہ مشکلات بھی نئے نئے بدنما چہرے لئے ابھررہی ہے ۔گذشتہ دنوں کی بنسبت آج لوگ زیادہ رنج و الم کا شکار ہیں ۔اسی وجہ سے زندگی سے مایوس ہوکر اپنی جان گنوانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے ۔خصوصامغربی ممالک (Western countries)میں حادثاتی موت بہت زیادہ دیکھنے کو آتی ہے جوکہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک شمار کئے جاتے ہیں ۔اب اسے ترقی کہیں یا تنزلی !؟

دنیا میں اکثر افراد ایسے پائے جاتے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح کی مشکلات اور ناامیدی کاسامناضرور کیاہے ۔اور بہت سے ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے زندگی کے نشیب وفراز میں الجھ کراپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا ۔فقر و فاقہ کی شش وپنج میں الجھ کر اپنے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اور کبھی تو ایسا بھی ہواہے محبت کے دیپ جلانے کی خاطر خود کی زندگی کاچراغ گل کردی ۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے اسباب ہیں جن کے چلتے بنی نوع انسان اپنی حیات کو لمحوں میں گنوا دیتا ہے ۔

مشکلات اورناامیدی بظاہر نقصانات میں شمار کی جاتی ہیں۔لیکن جس طرح سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح اس کے بھی دو پہلوہوتے ہیں ۔ایک مثبت اور ایک منفی ۔عام طور سے لوگ اس کے نقصانات کی طرف توجہ کرتے ہیں حالانکہ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں ۔مثلاًایران پر تمام تر پابندیوں کو عا ئد کرنا بظاہر مایو س کن بات ہے ۔لیکن یہی منفی فکر اس کے لئے مثبت ثابت ہوئی ۔

موجودہ کائنات اس ڈھنگ سے خلق کی گئی ہے کہ اس میں مشکلات وناامیدی اور بہترین مواقع دونوں مثبت اورمنفی اشیاء موجود ہیں ۔اکثر ایسا مشاہدہ میں آیاہے کہ انسان مشکلات سے لڑ کر انہیں راستہ سے ہٹاناچاہتاہے تاکہ وہ اپنی راہ کومزید ہموار کر سکے ۔لیکن نکتہ سنج افراد وہی ہوتے ہیں جومشکلات کے بجائے صحیح وقت کا استعمال کرتے ہیں۔اور انگلش زبان کا مقولہ بھی ہے کہIgnore the problems ,avail the opportunities.
مشکلات کو نظر اندازکرو اور مواقع کو استعمال کرو ۔

مایوسی ہمیشہ وقتی نقصان کی بناء پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات دائمی ہوتے ہیں۔زیادہ تر حضرات چند ساعتوں اور کچھ ایام کے ہم وغم کی تاب نہ لاکر ابدی رنج و الم کاسوداکرلیتے ہیں ۔ایسی بدترین تجارت وہی لوگ کرتے ہیں جن کے جذبات واحساسات ان کے علم وعقل پر غالب ہوتے ہیں ۔اورپھر وہ اپنی سنہری سی حیات کوضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔پس اگر ہمیں اگر ہمیں مایوسی کے دائمی اثرات سے محفوظ رہناہے تو کائی کی طرح چھٹ جانے والے وقی نقصان پر صبر وتحمل سے کام لیں۔

عصر رواں میں زیادہ تر لوگ حسرت و یاس میں اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں ۔جبکہ اگر وہ ماضی کو بھلاکر فکر فردا کریں تو غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے ۔اس لئے کہ زندگی کی شیرینی کا ذائقہ چکھنے کے لئے ماضی کی روداد غم پر گہرے پردے ڈالنے ہوں گے ۔

بہر کیف ،مشکلات سے کامیابی ایسے چسپاں ہوتی ہے جیسے گلاب سے خار!اب انسان کی عقل پر موقوف ہے کہ وہ کانٹوں سے نباہ کرگلاب حاصل کرلے یا اپنے ہاتھوں کوزخمی کرلے ۔

تاریخ میں بعض ایسی نامور شخصیتیں گزری ہیں جنہوں نے تنگی میں وسعت ،ناکامی کے سمندر سے نایاب گہر اور مایوسی کی گھٹاٹو پ وادیوں سے امیدوں کے چراغ جلائے ہیں۔گویا کہ
کام ہمت سے جواں مر د اگر لیتاہے
سانپ کو مار کر گنجینہ زر لیتا ہے