چیف جسٹس صاحب. تسی بھی چنگے ہو . پشاور آیا کرو ..

وزیراعلی کے ڈائس میں موجودگی کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا اور وہ جواب نہ دے سکے تو کورٹ میں موجود افراد کی ہنسی نکل گئی . پینے کے صاف پانی کے حوالے سے بھی چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا- اپنے دو روزہ دورے کے دوران چیف جسٹس نے پرائیویٹ کالجز کے فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت بھی کی جبکہ میڈیکل کالج کا دورہ بھی کیا اور غلط بیانی پر اسی ہسپتال کا ریکارڈ بھی سیل کردیا . سب سے عجیب صورتحال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سنتے تو بہت تھے لیکن یہاں تک کوئی کام نہیں ہوا پانچ سال کوئی کم وقت نہیں ہوتا..

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے..

خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے تبدیلی لانے کے دعوے کرنے والوں کی کارکردگی کا پول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے دو روزہ دورے کے دورا ن کھل گیا- یہ الگ بات کہ ان کا دورہ شیڈولڈ تھا اور مختلف محکموں اورہسپتالوں کی انتظامیہ نے اپنی صفائیوں پر زور دینا شروع کردیا تھا لیکن ان کی صفائی کی صفائی اس وقت ہوگئی جب چیف جسٹس آف پاکستان نے پشاور کے سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میں کیسوں کی سماعت شروع کی.

ہسپتالوں سے نکلنے والے متاثرہ فضلے کے حوالے سے معلومات ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ ابتدائی سماعت میں نہیں دے سکے جس میں چیف جسٹس نے صوبہ بھر کے مختلف ہسپتالوں سے نکلنے والے فضلے اور انسنی ریٹر سے ختم کرنے سے متعلق تفصیلات طلب کی تاہم انہیں بعد میں وقت دیا گیا کہ وہ رپورٹ دیں- سکولوں اور ہسپتالوں سے متعلق رپورٹ میں چیف جسٹس نے جب چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سے ہسپتالوں اور سکولوں سے متعلق رپورٹ پیش کی جب انہیں بتایا گیا کہ نیا کوئی ہسپتال اور سکول قائم نہیں کیا گیا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار حیران رہ گئے اسی کیس میں وزیراعلی خیبر پختونخوا کو بھی طلب کیا گیا تھا اور وہ پشاور کی آبادی کے حوالے سے بھی جواب نہیں دے سکے جس پرچیف جسٹس آف پاکستان نے ساٹھ لاکھ کی آبادی کابتایا اور وزیراعلی سے پوچھا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے جس کا جواب بھی نفی میں ملا.. چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے شہر سے نکلنے والے گندگی کے ڈھیروں کو نالوں اور دریاؤں میں پھینکنے کا اعتراف کیا ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ابھی تک اس معاملے کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ڈمپنگ گراؤنڈ کیلئے جگہ کے انتخاب کیلئے سیکشن فور لگایا گیا ہے.

وزیراعلی کے ڈائس میں موجودگی کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا اور وہ جواب نہ دے سکے تو کورٹ میں موجود افراد کی ہنسی نکل گئی . پینے کے صاف پانی کے حوالے سے بھی چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا- اپنے دو روزہ دورے کے دوران چیف جسٹس نے پرائیویٹ کالجز کے فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت بھی کی جبکہ میڈیکل کالج کا دورہ بھی کیا اور غلط بیانی پر اسی ہسپتال کا ریکارڈ بھی سیل کردیا . سب سے عجیب صورتحال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سنتے تو بہت تھے لیکن یہاں تک کوئی کام نہیں ہوا پانچ سال کوئی کم وقت نہیں ہوتا..

دو روزہ دورے میں چیف جسٹس نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا دورہ بھی کیا جہاں پر شہریوں نے اپنے مسائل ، علاج کے نہ ہونے سے متعلق سوالات اٹھائے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان بھی حیران ہوئے انہوں نے کیس کی سماعت کے دوران یہ سوال اٹھایا کہ مسٹر سی ایم آپ نے کیا کیا تو پرویز خٹک نے اپنے دائیں اور بائیں کھڑے چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل کو ڈائس دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ڈیٹا ہے جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر سب کچھ ان لوگوں نے کرنا ہے تو انہیں حکومت کرنے دیں یہ لوگ آپ کے آنکھ اور بازو بنے ہوتے ہیں..وزیراعلی نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ جب ان کی حکومت آئی تھی تو سب کچھ تباہ تھا اور انفراسٹرکچر کی بحالی کیساتھ انہوں نے تبدیلی کا عمل شروع کیا جو تاحال جاری ہے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہاکہ ابھی میں جو دیکھ کر آیا ہوں اس پر میں مطمئن نہیں پانی اور دودھ کے ڈبوں سے متعلق رپورٹ بھی طلب کی گئی-

چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں سے متعلق کیس بھی پیش کیا گیا جس میں پشاور کے وکیل نے یہ کہا کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے اور پرائیویٹ سکولز اس پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے ان کا موقف ہے کہ جب تک سپریم کورٹ کا ٹھپہ نہیں لگے گا ہم حکم نہیں مانتے جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے ٹھپے کی بات تو نہیں کرسکتے البتہ انصاف دینگے اے پی ایس کے والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کیلئے والدین نے عدالت میں دہائی دی جس پر چیف جسٹس نے ان سے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی اور کہاکہ وہ دیکھیں گے اور پھر اس معاملے کو دیکھیں گے..

پہلے روز شام گئے تک ان کی سماعت جاری رہی جس کی سماعت کے دوران کوریج کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ رجسٹری برانچ کے ڈپٹی رجسٹرار نے موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد کی تھی جس کے باعث صحافیوں کو کوریج میں مشکلات کا سامنا رہا .کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پشاور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق رپورٹ طلب کی تو پیسکو چیف نے بتایا کہ روزانہ دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جس پر چیف جسٹس نے قاضی انور ایڈووکیٹ سے لوڈشیڈنگ سے متعلق سوال کیا تو انہیں بتایا گیا کہ دو کی جگہ چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہیں جس پر چیف ایگزیکٹو پیسکو نے پھر وضاحتیں دینی شروع کردی- رات گئے تک جاری پہلی روز کیسز کی سماعت کے دوران خواتین اپنے مسائل ، جائیداد ، صوبائی حکومت کی جانب سے سینئر افسران کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں سے متعلق شکایات کی گئی جس پر چیف جسٹس نے ان میں کچھ کیسز میں احکامات بھی جاری کئے.

پہلے روز کیس کی سماعت کے دوران صورتحال اس وقت عجیب ہوگئی جب لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے یونین کے ایک اہلکار ڈائس پر جذباتی انداز میں باتیں کرنے لگے اور تقریر شروع کردی جس پر چیف جسٹس نے انہیں عدالت سے باہر نکالنے اور پانی دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ یہ یونین کا جلسہ نہیں .. اس موقع پر ڈاکٹر وں کی جانب سے یہ بیان بھی دیا گیا کہ ایم ٹی آئی میں من پسند افراد لئے گئے اور مریضوں کو پرائیویٹ پریکٹس سروس کے نام پر ہزار روپے وصول کئے جارہے اس موقع پر عمران خان کے کزن بھی عدالت میں پیش ہوئے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں جس پر چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ آیا آپ نے دہری شہریت ظاہر کی ہے جس پر عمران خان کے کزن برکی جو پہلی مرتبہ عدالت اور میڈیا کے سامنے پیش ہوئے تھے انہوں نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ وہ سرکاری ملازم نہیں اور صرف بورڈ آف گورنر کے چیئرمین ہیں تاہم ان کے تعاون کیلئے ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ جو کہ سیکرٹری ایجوکیشن بھی ہیں موجود تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ برکی صاحب رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں..غیر مستحق افراد کو سیکورٹی دینے سے متعلق کیس میں آئی جی خیبر پختونخوا پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ نو سو اہلکار واپس لئے گئے ہیں جبکہ بقایا واپس بلائے جائینگے جس پر چیف جسٹس نے جمعہ کی رات تک تمام اہلکارغیر مستحق افراد سے واپس لینے کے احکامات جاری کئے-

چیف جسٹس نے ہائیکورٹ میں صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ و تحصیل بار کے صدور اور پشاور ہائیکورٹ کے ججز سے بھی ملاقات کی-چیف جسٹس کے ہمراہ جسٹس عطاء بندیال اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس یحی آفریدی بھی موجود تھے-اس موقع پر انہوں نے خطاب میں پشاور ہائیکورٹ بار کی جانب سے ایک قرارداد پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ غلط فہمی کی وجہ سے یہ ہوا اور سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد کی ریٹائرمنٹ پر انہوں نے تحفے کا بندوبست کیا اور خان صاحب نے خود ہی ذاتی بنیادوں پر ریفرنس لینے سے معذرت کی انہوں نے بنچ اور بار کے تعاون کو انصاف کی فراہمی کیلئے ضروری قرار دیا ساتھ میں پشاور ہائیکورٹ کے ججز پر زور بھی دیا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں. انہوں نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ خدا کیلئے ہمیں شرمند ہ نہ کریں چیف جسٹس نے انصاف کی فراہمی میں بار کے کردار کو بھی ضروری قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس جہاد میں بار کو بھی اٹھنا ہوگا بعد ازاں انہوں نے جویشل اکیڈمی خیبر پختونخوا کا دورہ بھی کیا.

دورے کے دوسرے روزچیف جسٹس نے عطائیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی اس موقع پر ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے عطائیوں کے خلاف کارروائیوں سے متعلق رپورٹ طلب کی تاہم وہ عدالت کے تین رکنی بنچ کو مطمئن نہ کرسکے ان سے جب سوال کیا گیا کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے تو بتایا گیا کہ پانچ لاکھ روپے ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین لے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے ان کے تنخواہ کے بارے میں سوال کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ایک لاکھ اسی ہزار روپے لے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چنگے آدمی ہو تسی ..انہوں نے عطائیوں کے خلاف کارروائی میں چیئرمین ہیلتھ کیئر کمیشن کو فوری اقدامات اٹھانے کیلئے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ کاروئیاں کریں اوررپورٹ دیں ورنہ استعفی دیدیں..

اس موقع پر انہوں نے متعدد کیسز کی سماعت کی ایک خاتون کی جانب سے سپریم کورٹ میں ان کے حق میں فیصلہ آنے کے باوجودان کے رشتہ داروں کیجانب سے زمین پر قبضے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور احکامات جاری کئے کہ سیشن جج اور ممبر ایس ایم بی آر خود جا کر قبضہ ختم کروائیں .چیف جسٹس نے آئی جی خیبر پختونخوا پولیس کی بھی تعریف کی جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ سترہ سو سے زائد غیرمستحق اقراد کو دئیے گئے سیکورٹی واپس لی گئی ..چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سینئر وکلاء سے بھی ملے بعد ازاں صحافیوں سے بھی غیر رسمی بات چیت کی جہاں پر صحافیوں نے اخبارات کے صحافیوں کو کم تنخواہ اور آئی ٹی این ای کی جانب سے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق شکایات کی- .جس کے بعد چیف جسٹس نے چارسدہ کے جوڈیشل کمپلیکس کا دورہ کیا بعد ازاں چارسدہ ہسپتال بھی گئے جہاں پر شہریوں نے اپنی شکایات لگائیں..

مجموعی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کا دورہ پشاور کامیاب ہی رہا کیونکہ ان کی آمد کے موقع پر جس طرح مختلف شعبوں سے وابستہ افراد نے سپریم کورٹ کے رجسٹری برانچ کا رخ کیا اور اپنے کیسوں کے حوالے سے شکایات کی اور چیف جسٹس آف پاکستان نے بعض کیسز میں احکامات بھی جاری کئے جس سے شہریوں کو انصاف کی فراہمی سے امید بھی پیدا ہوگئی وہیں پر بیورو کریسی اور صوبے کے حکمرانوں کو بھی احساس ہوگیا کہ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ورنہ تو حال یہ ہے کہ بیورو کریسی اپنے آپ کو"سپر پاؤر"سمجھتی ہیں اور عوام کو غلام یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ ٹاپ بیورو کریسی کو ہاتھوں میں فائل اٹھائے صبح نو بجے عدالتوں میں آتے ہوئے دیکھا ورنہ بیورو کریسی تو دفاتر میں دس بجے سے پہلے آتے نہیں اور آ بھی جائے تو پھر " صاحب میٹنگ میں ہیں" کا ڈرامہ چلتا ہے-

جس طرح کے احکامات چیف جسٹس نے جاری کئے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور جس طرح کی صورتحال کا چیف جسٹس آف پاکستان کوعدالت میں سامنا کرنا پڑاخود ہی انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہاں تو اب آنا ہی پڑے گا بعد ازاں چیف جسٹس نے یہ بات کہہ بھی دی کہ اگلے مہینے آئینگے اور دیگر ججز آتے رہیں گے جس پر وکلاء ، صحافی سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے عام افراد بھی خوش ہیں کیونکہ انہیں احساس ہورہا ہے کہ انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے ہاں اگر اس میں انصاف فراہم کرنے والے خود ہی دلچسپی لیں-دورے کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی گاڑی بھی بارش کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی جس پر دوسری گاڑی انہیں دیدی گئی کاش چیف جسٹس آف پاکستان بی آر ٹی کی وجہ سے "پھولوں کے شہر"کے نام سے جانے جانیوالے پشاور جو کہ اب "کھڈوں کا شہر" بن گیا ہے پر صوبائی حکومت سے ان کے وعدے کے مطابق چھ ماہ میں مکمل کرنے سے سوال بھی اٹھاتے .. لیکن خیر ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب. تسی بھی چنگے ہو . پشاور آیا کرو .. لوگوں کے مسائل آپ کی ڈر کی وجہ سے حل ہونگے..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 419845 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More